خاندانی تعلقات قسط (7)

 








نمی سے ابھی ہوئی چیٹ نے ہم دونوں کو بہت آگے بڑھا دیا تھا اور صاف دکھنے لگا تھا مجھے کہ اگر میں نے کچھ نہیں کیا تو پھر کوئی نہ کوئی اس مسکان خسری کی طرح میری بیٹی کی عزت اتار دے گا، وہ بھی میری اپنی بڑی بیٹی کی مرضی کے ساتھ۔ اور اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ نمی خود یہ سب کروانے کے بعد خود ہی مجھے بتاتی کہ لو پاپا جانی میں نے چدوا لیا، اور میں یہ جان کر بھی انجان بنے رہنے کا ڈرامہ کرنے پر مجبور ہو جاتا۔ اور یہی میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اور میری بیٹی کی چودائی کر جائے اور میں لنڈ مسلتا ہی رہ جاؤں۔ میں خود اپنی بیٹی کی چوت اپنے سانڈ جیسے لنڈ سے کھولنا چاہتا تھا اور نمی بھی ریڈی تھی، لیکن وہ مجھے نثار سنار سمجھ رہی تھی کیونکہ اسے پتہ نہیں تھا کہ اس کا باپ ہی اس کا یار بنا اسے لنڈ کے درشن کروا رہا ہے اور اس کی جوانی دیکھ رہا ہے۔




اب میرے لیے یہ کافی بڑا پنگا بن گیا تھا، کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کروں تو کیا کروں، کیونکہ ایک تو میں اپنے دوست کا نام استعمال کر کے بیٹی کے قریب ہو چکا تھا اور نمی بھی میرے ساتھ ہر حد سے گزر جانے کو تیار تھی۔ لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا تھا کہ خود کی جگہ نثار سنار کے نیچے بیٹی کو لٹا دوں۔ اب بس ایک ہی صورت بچی تھی کہ جس طرح نمی مجھے اپنے انگ درشن کروا رہی تھی، میں بھی اسے لنڈ درشن دینا شروع کر دوں اور جتنا جلدی ہو سکے اسے پٹا لو ۔




انہی سوچوں میں کھویا نئے نئے پلان بناتا کب سویا پتہ ہی نہیں چلا۔ اگلی صبح کافی دن چڑھے اٹھا اور نہا کر ایک لوز نکر پہن لی، سوتی کا، جو کہ جسم گیلا ہونے سے تھوڑا سا چپک گیا اور لنڈ کی شکل صاف دکھنے لگی تو میں کمرے سے نکلا۔ کمرے سے جیسے ہی باہر نکلا تو مجھے نمی کے علاوہ کوئی بھی نہیں دکھا۔ ویسے بھی اس وقت مجھے ذرا گھبراہٹ سی ہو رہی تھی کہ سب بچے کیا سوچیں گے، لیکن کسی کو نہ دیکھ کر میں نے نمی سے باقی سب کا پوچھا، تو نمی جو کہ ابھی تک میرے نکر کی طرف ہی دیکھ رہی تھی، چونک کر بولی:




نمی: اوپر ہیں چھت پر


میں: اوہ اچھا ہے تو پھر کیا کھلا رہی ہے آج ہماری بیٹی؟


نمی: میرے لنڈ کی طرف ایک بار دیکھ کر بولی: آپ کمرے میں بیٹھیں، میں لاتی ہوں


میں: ہوں


میں کمرے میں واپس آ گیا، لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے عجیب سی بے چینی سی ہونے لگی تھی، کیونکہ نمی کی آنکھوں میں مجھے کچھ الگ ہی رنگ دکھے تھے، جیسے وہ کسی الجھن میں ہو۔ خیر، مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور نمی میرے لیے ناشتہ لے کے آ گئی، لیکن یہ کیا، نمی نے آج دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا اور خود کو میری نظر سے چھپا لیا تھا۔




مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ اچانک کیا ہوا ہے؟ نمی ایک دم سے کیوں اپنے آپ میں سکیڑ گئی ہے؟ لیکن سمجھ نہیں آ رہی تھی اور نمی بھی ناشتہ ٹیبل پر رکھ کے چلی گئی تو میں نے سر جھٹک کر ناشتہ شروع کیا۔




ناشتہ کر کے میں نے شرٹ پہنی اور ساتھ کے مکان میں چلا گیا اور سگریٹ سلگا کر نمی کے بدلے ہوئے رویے کے بارے میں سوچنے لگا کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے؟ اسی دوران مجھے واٹس ایپ آیا، دیکھا تو نمی ہی تھی:




نمی: کہاں ہو؟


میں: گھر


نمی: فری ہو؟


میں: ہاں


نمی: ایک بات پوچھوں، سچ بولو گے؟


میں: کیوں، تمہیں ایسا لگتا ہے کہ اب بھی جھوٹ بولوں گا اپنی جان سے؟


نمی: آپ کا نام نثار سنار ہی ہے نا؟


میں: (چونک اٹھا کہ یہ ایسا کیوں پوچھ رہی ہے؟ اور لکھا:) کیوں، تمہیں کیا لگتا ہے؟








نمی: مجھے لگتا ہے آپ کوئی اور ہو


میں: تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے؟


نمی: بس مجھے لگ رہا ہے


میں: یار صبح ہی صبح اتنی سیریس کیوں ہو رہی ہو؟ ہوا کیا ہے؟


نمی: بتاؤں گی لیکن پہلے بتاؤ آپ ہیں کون؟


میں: یار مزا نہیں آ رہا بات کرنے میں۔ نہ کوئی گالی دے رہی ہو، نہ کچھ اور۔ آخر ہوا کیا ہے؟


نمی: سب کروں گی لیکن پہلے سچ بتاؤ


میں: بتایا تو ہے، اب ثابت کیسے کروں کہ میرا نام نثار ہی ہے؟


نمی: اپنی پک بھیجو


میں: دیکھو پری ، میں بھی گھر بار والا ہوں، عزت دار ہوں۔ اس لیے یہ ممکن نہیں ہے جب تک مل نہ لیں


نمی: پھر کیسے ثابت کرو گے؟


میں: یار آخر شک کیا ہے تم کو؟


نمی: بعد میں بات کروں گی


میں: دیکھو جو بھی بات ہے، بات کرنے سے ہی مسئلہ حل ہونا ہے، ورنہ بات بگڑ جاتی ہے


نمی: دھمکی دے رہے ہو؟


میں: نہ میری جان، نہ ایسا نہیں سوچتے۔ کوئی دھمکی نہیں، بس ایک بات کہی ہے۔ باقی تم جو چاہو سمجھو۔ اب میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا


نمی: کیوں؟


میں: جہاں اعتبار نہ ہو، وہاں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے


نمی: ایسی کوئی بات نہیں، بس تھوڑا پریشان ہوں۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ سچ کیا ہے


میں: کچھ بتاؤ گی تو بات آگے بڑھے گی نا میری گشتی رانی؟


نمی: کچھ دیر بعد: کیا دو الگ لوگوں کا شیر ایک جیسا ہو سکتا ہے؟


میں: مطلب؟


نمی: مطلب یہ کہ سیم شیپ، سیم موٹائی اور بڑا بھی اتنا ہی


میں: یار یہ کون سی بڑی بات ہے؟ تمہیں بتایا تو تھا کہ میرا یار منور شاہ جو ہے، اس کا لنڈ بھی کافی بڑا ہے، میرے لنڈ جیسا ہی۔ بس سمجھو19-20 کا فرق ہے


نمی: اوہہہہہ سچ میں؟


میں: ہاں


نمی: کوئی پک ہے منور شاہ کے شیر کی؟


میں: (دھڑکتے دل کے ساتھ، کیونکہ میں سمجھ چکا تھا کہ آخر ہوا کیا ہے) یار یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟ بھلا میں اس کے... (ذرا کھل کے بات کرنے کے لیے لکھا) لنڈ کی پکس بناتا رہتا ہوں؟


نمی: میں کیا جانوں؟


میں: یار صبح ہی صبح گانڈ جلا کے رکھ دی ہے تم نے


نمی: پتہ ہے آج کیا ہوا؟


میں: مجھے کچھ بتاؤ گی تب ہی پتہ چلنا ہے نا؟


نمی: آج میں نے گلی میں منور شاہ کو گزرتے دیکھا


میں: اوہ ہو، پھر؟


نمی: وہ سوتی کی لوز سی نکر، شرٹ پہنے ہوئے تھا


میں: پھر؟


نمی: پھر یہ جان جی کے اس کی نکر کیونکہ گیلی ہو رہی تھی، تو اس کا شیر پوری شکل میں صاف دکھ رہا تھا اور مجھے لگا کہ تم منور شاہ ہو اور مجھے نثار بول رہے ہو


میں: ہاہاہاہاہا تو یہ بات تھی!


نمی: ہاں نا؟


میں: ویسے ایک بات بتاؤ، کسی کو بتانا مت (اچانک ایک نیا پلان دماغ میں آتے ہی لکھا)


نمی: کیا؟


میں: یہ جو حرامی منور شاہ ہے نا...


نمی: ہاں؟


میں: آج کل اپنی بیٹی پر کافی گرم ہو رہا ہے


نمی: ککیاااااا اپنی بیٹی پر؟


میں: ہاں


نمی: تمہیں کیسے پتہ؟


میں: ویسے ہی جیسے اسے تمہارا پتہ ہے کہ میری جان ہو


نمی: خود اس نے بتایا تم کو؟


میں: ہاں


نمی: کیا بتایا؟


میں: بول رہا تھا کہ اس کی بڑی بیٹی آج کل بڑی لفٹ دے رہی ہے۔ بوبز وغیرہ کا نظارہ دکھا رہی ہے


نمی: اور؟


میں: اور کیا؟ میں نے جھٹ مشورہ دے دیا اسے


نمی: کیا؟


میں: یہی کہ حرامی موقع دیکھ کے چوکا لگا ڈالو


نمی: پھر کیا بولا اس نے؟


میں: وہ تو مانو ہاتھ میں لیے پھر رہا ہے، پاگل ہو رہا ہے


نمی: کیوں جھوٹ بول رہے ہو؟ بھلا کوئی ایسا بھی کر سکتا ہے کہ اپنی بیٹی پر ہی گرم ہو اور دوست کو بھی بتا دے؟


میں: تم کو ابھی ہماری دوستی کا اندازہ نہیں ہے۔ ورنہ تم کیا جانو کہ ہم کیا کچھ کر چکے ہیں


نمی: بتاؤ گے تو پتہ چلے گا نا


میں: ابھی نہیں، بعد میں


نمی: کب؟


میں: جب سارے پردے اٹھ جائیں گے نا تب


نمی: اوکے پھر۔ کل آخر دن ہے۔ انتظام کر رکھو۔ پرسوں تک جگہ کا جگاڑ نہ ہوا تو اینڈ ہی سمجھنا


میں: یار یہ کیا بات ہوئی؟ بھلا...


نمی: جو بولا ہے وہی کروں گی، قسم سے۔ اور اب بائے، کوئی آ نہ جائے۔













ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی