نمی نے تو مجھے ایک الگ ہی مصیبت میں پھنسا دیا تھا، جس کی مجھے اب سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ ہو کیا رہا ہے۔ اور جو ہو رہا ہے، اسے میں ہینڈل کیسے کروں؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ اوپر سے نمی نے یہ الگ سے ڈراما شروع کر دیا تھا کہ وہ بس ایک دن اور ویٹ کرے گی، ورنہ پھر جہاں موقع ملا، منہ کالا کروا لے گی۔
میں انہی سوچوں میں کھویا کافی دیر تک گم رہا، لیکن کوئی پلان بن کہ ہی نہیں دے رہا تھا۔ ایسے ہی کافی وقت گزر گیا کہ باہر مکان کا دروازہ کھٹکھٹانے لگا، تو میں سمجھ گیا کہ یار دوست ہی ہوں گے، لیکن آج من نہیں ہو رہا تھا، اس لیے چپ چاپ پڑا رہا، دروازہ اوپن نہیں کیا۔
کافی دیر تک دروازہ پیٹنے اور میرے موبائل پر کالز کرنے کے بعد، جب میں نے کوئی ریسپانس نہیں دیا، تو وہ لوگ چلے گئے، جس کے کچھ دیر بعد ہی مجھے نمی کی کال آنے لگی، جسے میں نے پک کر لی اور بولا:
میں: جی بیٹا، بولو۔
نمی: پاپا، آپ ٹھیک ہیں؟
میں: کیوں بیٹا؟ جی، ہمیں کیا ہونا ہے؟ بھلا چنگا ہوں۔ صبح دیکھا نہیں تھا آپ نے؟
نمی: تو آپ کے دوست لوگ دروازہ کھٹکھٹاۓ جا رہے تھے، کب سے آپ نے دروازہ نہیں کھولا نا، اس لیے پوچھا تھا۔
میں: (اچانک سے خیال آنے پر بولا) بس بیٹا، من نہیں تھا۔ کافی زیادہ ہنگامہ رہتا ہے نا، اسی لیے۔
نمی: تو گھر آ جاؤ۔
میں: نہیں، وہ نثار آ رہا ہے، میرا دوست۔ اس کے ساتھ بیٹھوں گا ابھی۔
نمی: ایک دم سے اوکے پاپا، میں رکھتی ہوں پھر۔
نمی نے کال کٹ کی، تو میں سمجھ گیا کہ ابھی نمی میرے واٹس ایپ پر ضرور آئے گی اور پوچھے گی کہ ہم دوست کس لیے مل رہے ہیں، کیونکہ اسے نہیں پتا تھا کہ میں ہی نثار سنار بنا ہوا تھا۔ اور ویسا ہی ہوا، نمی کا واٹس ایپ آ گیا:
پری: کہاں ہو ابھی؟
میں: منور شاہ کی طرف جا رہا ہوں۔
پری: کوئی خاص کام ہے؟
میں: بس تمہارے لیے ہی بھاگا پھر رہا ہوں۔
پری: میں نے بولاتو تھا کہ منور شاہ کے مکان پر نہیں ملوں گی۔
میں: مت ملنا وہاں، لیکن کوئی اور جگاد تو بنانا پڑے گا نا؟
پری: لیکن منور شاہ کو نہیں بتاؤ گے، اوکے؟
میں: ایک بات بولوں، برا تو نہیں منو گی نا؟
پری: نہیں منتی، لیکن کچھ الٹا سیدھا مت بولنا۔
میں: منور شاہ سے چیٹ کرو گی ابھی؟
پری: پاگل تو نہیں ہو نا؟ میں اس سے کیوں بات کروں بھلا؟
میں: یار، جب تک میں یا تم نہیں بتائیں گے کہ تم کون ہو، اسے بھلا کیا پتہ چلنا ہے؟ وہ ویسے بھی تمہاری پکس دیکھ دیکھ کے پاگل ہوا پھر رہا ہے۔ پتہ ہے، میرے پاؤں تک پکڑ لیے تھے اس نے کہ تم سے چیٹ کروا دوں۔
(لیکن یہ سب جھوٹ تھا، جو کہ نمی کو اپنی طرف کھینچنے اور اس کے دل میں جگہ بنانے کے لیے ہی تھا۔)
پری: نہ بابا نہ، اگر اسے ذرا بھی بھانک پڑ گئی نا کہ میں کون ہوں، تو بڑا پنگا ہو جانا ہے۔
میں: کچھ نہیں ہو گا یار، تم ایویں ہی ٹینشن لے رہی ہو۔
پری: یار، کسی کا بھلا کیا پتہ ہوتا ہے؟
میں: اے گشتی کی بچی، تجھے بتایا تو تھا نا میں نے کہ وہ اپنی بیٹی پر لنڈ ہلاتا پھرتا ہے۔ تمہیں بھلا کیا بولے گا؟ ہاں، پھول کی طرح سنبھال سنبھال کے مزا دے گا۔
پری: ہوں، سوچوں گی۔
میں: اچھا، کوئی سیکسی سی پک دکھا دو نا، پلیز۔
پری: یار، بہت حرامی ہوتے جا رہے ہو۔
میں: تو حرامی بنا کون رہا ہے میری جان؟ جیسا بناؤ گی، بنتا جاؤں گا۔
پری: ہاں، بڑا آیا، جیسا بناؤں گی بن جاؤ گا۔
میں: تیری قسم یار، آزما تو صحیح۔
پری: اچھا اچھا، مکھن بازی نہیں کرتی، بھیجتی ہوں۔
میں: پلیز یار، پوری طرح گرم کرنے والی چیز دکھانا۔
پری: رک جا نا، بھیجتی ہوں۔ صبح ہی بنائی تھی۔
میں: اوہہہہہہ پری جی، مار ہی ڈالو گی۔
پری: اچھا، اب اپنے اس منور شاہ کو نہیں دکھا دینا۔
میں: یار، جھوٹ نہیں بولوں گا تم سے۔
پری: مطلب؟
میں: منور شاہ کے ساتھ ہی بیٹھا ہوں اس وقت۔ وہ دیکھ چکا ہے، بول رہا ہے کہ بات کرو۔
پری: (کوئی جواب نہیں)
میں: یار، میری خاطر پلیز، یہ تم کو کھا تو نہیں جائے گا نا؟
پری: (کوئی جواب نہیں)
میں سمجھ گیا کہ یہ سنتے ہی کہ اس کا باپ اس کی ننگی پک دیکھ رہا ہے اور ساری چیٹ بھی پڑھ رہا ہے، وہ گھبرا گئی ہو گی، اسی لیے ایک دم سے خاموشی چھا گئی تھی، لیکن ابھی آف لائن نہیں ہوئی تھی۔