خاندانی تعلقات ۔۔۔قسط 9

 












نمی کی طرف سے بالکل چپ چھائی ہوئی تھی۔ کوئی جواب نہیں آ رہا تھا اور میرا دل تو مانو دھڑکنا ہی بھول گیا تھا، یہ سوچ سوچ کر ہی کہ کہیں نمی ناراض ہی نہ ہو جائے۔ کیونکہ اگر نمی ناراض ہو جاتی تو پھر بنی بنائی بات ہی ہاتھ سے نکل جاتی اور پتہ بھی نہ چل پاتا کہ میری بیٹی کب، کہاں اور کس کے لن سے چدوا چکی ہے۔


اسی وجہ سے میں نمی کو بار بار میسج کیے جا رہا تھا، لیکن دوسری طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔ اس سب میں کوئی پانچ منٹ گزر گئے تھے کہ تبھی جا کر نمی کی طرف سے جواب آیا:


پری: یہ آپ نے اچھا نہیں کیا

میں: یار اسے بھی میرے جیسا ہی سمجھو، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارے جیسا ہی پکا حرامی ٹائپ ہے

پری: یہ سب کہنے کی بات ہے

میں: دیکھو سویٹی ، میں منور شاہ ہوں، اپنا واٹس ایپ نمبر بھی سینڈ کر دیتا ہوں، پلیز آزما کر دیکھو، دھوکا نہیں دوں گا

پری: (کچھ لمحوں کے بعد) کوئی زبردستی ہے؟

میں: نہ جان جی، نہ کوئی زبردستی نہیں۔ آپ کی اپنی مرضی، اگر چاہو تو بات کرو، نہیں تو نہیں

پری: اوکے، ابھی کے لیے بائے، بعد میں دیکھوں گی۔ اگر من کیا تو بات ہو گی

میں: ایز یو وش

نمی سے ہوئی اتنی بات نے مجھے اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ نمی ایک بار ضرور بات کرے گی۔ شاید یہ بات جاننے کو کہ میں اس پر یا بیٹیوں میں سے کس پر نظر جمائے ہوئے ہوں۔ اور وہی موقع ہوتا میرے پاس کہ میں نمی کو آہستہ آہستہ ہی سہی، اپنی طرف اور اپنے قریب کر سکوں، جس سے مجھے اپنی بیٹی کو پانے کا موقع مل سکتا تھا۔ اس لیے اب ویٹ اینڈ واچ والی بات آ گئی تھی۔


دوپہر کے کوئی تین بجے کے قریب میں مکان سے نکلا اور گھر چلا گیا، کیونکہ ذرا ہلکی پھلکی سی ہی سہی، لیکن بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ گھر پہنچا تو پتہ چلا کہ نمی سو رہی تھی، تو میں نے نادیہ کو کھانا دینے کا کہا۔ کھانا کھا کر میں پھر سے مکان میں چلا آیا، کیونکہ بچے سو رہے تھے اور گھر میں بور ہی ہوتا۔ ابھی مکان پر پہنچا ہی تھا کہ دوست آ گئے، جس کے بعد کافی بہانہ بازی بھی کرنی پڑی صبح کو لے کر، جو دروازہ اوپن نہیں کیا تھا میں نے۔ اس کے بعد رات کے 9 بجے تک وہاں بیٹھے گیم میں لگے رہے۔ پھر سب لوگوں کے جانے کے بعد میں نے رشی سے کھانا وہیں منگوا لیا۔ کھانا کھا کر میں آرام کرنے لیٹ گیا، کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ نمی ابھی گھر کے کاموں میں مصروف ہو گی، فری ہو کر ہی بات کرے گی۔ اور ہوا بھی ایسا ہی۔ دس بجے نثار والے واٹس ایپ پر نمی کا میسج آ گیا:


پری: کہاں ہو؟

میں: گھر

پری: کیا ہو رہا ہے؟

میں: مصیبت کا سامنا

پری: مطلب؟

میں: بیوی پاس میں ہو تو مصیبت کا سامنا کرنا ہی ہوتا ہے نا

پری: ہی ہی ہی، ویری فنی

میں: قسم سے یار، مصیبت ہی ہے

پری: اچھا اچھا، سمجھ گئی کہ وقت نہیں ہے آج بات کے لیے۔ یہ بتاؤ، جگہ کا ہوا کچھ؟

میں: یار ہو جائے گا، امید ہے

پری: اوکے، جب ہو جائے بتانا

میں: اوکے


نمی سے اتنی چیٹ کے بعد اب میں دھڑکتے دل سے انتظار کرنے لگا کہ کب نمی میرے ساتھ بات کرتی ہے، کرتی بھی ہے یا نہیں۔ مانو اس انتظار میں میرے ماتھے پر ہلکا پسینہ تک آ گیا تھا۔ نمی بھی شاید میرا پورا طرح حوصلہ آزمانا چاہ رہی تھی، جو ابھی تک بات نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ میں مایوس سا ہو گیا کہ شاید اب نمی بات نہیں کرے گی، کیونکہ 11 بج چکے تھے، کہ تبھی نمی نے واٹس ایپ کیا:


پری: ہیلو

میں: اوہہہہہ آپ؟

پری: جی، کیوں؟ کسی اور کا ویٹ تھا آپ کو؟

میں: نہیں، آپ کا ہی، لیکن سچی بولو تو امید کم ہی تھی

پری: اچھا جی، وہ کیوں بھلا؟

میں: وہ اس لیے کہ آپ جیسی خوبصورت عورت بھلا ہم جیسے بوڑھوں کو زیادہ گھاس نہیں ڈالتی نا

پری: گھوڑا تگڑا ہو تو گھاس بھی ڈالی جاتی ہے اور خدمت بھی کی جاتی ہے

میں: وااوووو، مطلب امید رکھوں؟

پری: یہ تو نہیں کہا میں نے

میں: تو پھر کیا کہا آپ نے؟ ذرا بتائیے تو

پری: بتاؤں گی لیکن بعد میں۔ ابھی کچھ پوچھنا تھا آپ سے

میں: یار یہ آپ جناب، ضروری ہے کیا؟

پری: ہاں، جب تک دوست نہیں بن جاتے

میں: چلیے، آپ کی مرضی ہے۔ جب یار راضی ہو، ہم نے تو آپ کو اپنا مان لیا، اب دیکھتے ہیں آپ کب اپنا سمجھتی ہو

پری: باتیں بڑی گھماتے ہیں آپ۔ ویسے میں کچھ پوچھنا تھا

میں: ہاں جی، پوچھو جو پوچھنا ہے

پری: سچ بتاؤ گے؟

میں: ہاں

پری: نثار نے بتایا تھا کہ آپ اپنی بیٹی پر گرم ہو؟ کیا یہ سچ ہے؟

میں: ہاں، سچ ہے

پری: کس پر؟

میں: یہ نہیں بتا سکتا

پری: کیوں؟

میں: سمجھا کرو نا یار

پری: اوکے، لیکن اسے بھی شک ہے کہ آپ اس پر گرم ہو

میں: میرے خیال میں ہاں

پری: آپ کو شرم نہیں آتی؟ بیٹی ہے آپ کی

میں: کیوں جی؟ جب بیٹی باہر یار بنا لے تو پھر گھر والوں کو کیا کرنا چاہیے؟

پری: کم سے کم یہ تو نہیں ہوتا جو آپ کرنا چاہ رہے ہو

میں: ہاں، پتہ ہے، ایسا بھی نہیں ہوتا، لیکن میں وہ کام نہیں کر سکتا جو کہ ہر جگہ ہوتا ہے

پری: کیا ہوتا ہے ہر جگہ؟

میں: قتل

پری: ہاں، یہ تو صحیح کہا آپ نے، لیکن یہ بھی تو غلط ہے نا

میں: ہاں، غلط ہے، لیکن اگر پیار سے ہو تو میرے حساب سے برائی نہیں ہے

پری: اگر وہ پیار سے نہ مانی تو؟

میں: مجھے امید ہے وہ مانے گی 

پری: کیوں بھلا؟

میں: میرا خیال ہے، اسے تبھی شک ہو گیا تھا کہ میں اس کے افئیر کے بارے میں جان گیا ہوں، جب وہ کسی یار سے گپ لگا رہی تھی۔ لیکن میں نے اسے کچھ نہیں کہا، ہاں جاسوسی ضرور کی تھی۔ لیکن اب میں اسے خود مزا دینا چاہتا ہوں

پری: ہو سکتا ہے کہ آپ غلط ہو اور وہ ابھی تک کنواری ہو

میں: یہ میں مان ہی نہیں سکتا

پری: پھر کیا پلان بنا رکھا ہے؟

میں: سوچ رہا ہوں کہ اسے خود سے فری کروں۔ کبھی سر میں آئل یا ٹانگوں کو بھی دبوا لیا کروں

پری: اس سے کیا ہو گا؟

میں: اس سے موقع پا کر میں اپنے جوان کے درشن کروا دوں گا اسے۔ اور ایک بار اس نے دیکھ لیا نا میرا لن (ذرا کھلتے ہوئے) تو وہ لن پر چڑھے بغیر رہ ہی نہیں سکتی

پری: اتنا بھروسہ اچھا نہیں ہوتا

میں: دیکھو گی

پری: کیا؟

میں: میرا لن

پری: نہیں نہیں

میں: کیوں؟ نثار کا دیکھ لیتی ہو، میرا کیوں نہیں؟

پری: ابھی نہیں، بعد میں دکھا دینا

میں: جیسا تم چاہو

پری: اوکے، اب سو جاؤ، مجھے صبح اٹھنا بھی ہے

میں: اچھا، ایک بات تو بتاؤ

پری: کیا؟

میں: کوئی آئیڈیا تو دو، کس طرح میں اپنی بیٹی کو لن کے درشن کرواؤں؟

پری: وہی طریقہ بہترین ہے جو آپ نے سوچا ہے

میں: اچھا، اگر تم کو موقع مل جائے اپنے باپ کے ساتھ سیکس کا، مطلب تمہیں پتہ چلے کہ تمہارے باپ تم سے سیکس کرنا چاہتے ہیں، تو؟

پری: میرے باپ ایسے نہیں ہیں

میں: یار، ویسے ہی پوچھ رہا ہوں، اگر ایسا ہو تو؟

پری: تو شاید میں بھی باپ کا ساتھ دوں، لیکن خود سے آگے نہیں بڑھوں گی

میں: اوہہہہہ گڈ

پری: اب بائے

میں: اوکے

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی