یہ عشق یہ جنون (قسط 2)

 

میں جلدی سے بس سے نیچے اترا اور اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔ وہ لڑکی روڈ کی سائیڈ پر کھڑی تھی اور میری طرف دیکھ رہی تھی اور اُس کا انداز ایسا تھا کہ جیسے ہو ہنس رہی ہو ۔ باقی 2 لڑکیاں بھی اچھی پرسنالٹی اور فِگر کی تھیں لیکن مجھے تو وہ ہی سب سے سیکسی لگ رہی تھی جس سے میں نے کچھ مزہ کیا تھا۔ وہ اب بھی میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ کمال کی سیکسی اٹریکشن تھی اس کی آنکھوں میں۔ میں کچھ دیر اسے گھورتا رہا۔ پھر اس کے ساتھ والی لڑکی نے شرارتی انداز میں اس کی گانڈ پر تھپڑ لگایا تو وہ سب ہنسنے لگیں۔

میں نے سوچا، عامر بیٹا موقع اچھا ہے، نمبر دے بچی کو۔ اب مجھے نمبر دینے کی ایک ترکیب یاد آئی جو کبھی میرے دوست نے بتائی تھی۔ میں نے 100 روپے کے نوٹ پر اپنا نمبر لکھا اور ان لڑکیوں کی طرف چل پڑا۔ ان کے پاس سے گزرتے ہوئے چپکے سے اس لڑکی کے سامنے وہ نوٹ پھینک دیا۔ وہ لڑکی میری حرکت نوٹ کر رہی تھی۔ میں نے آگے جا کر مڑ کر دیکھا تو وہ نوٹ اب وہاں نہیں تھا۔ اس کا مطلب لڑکی نے وہ نوٹ اٹھا لیا ہے۔ میں کھڑا ہو کر ان کو دیکھنے لگا۔ انہوں نے ایک رکشہ روکا اور بیٹھ کے چلی گئیں۔ میں انہیں دیکھتا رہا اور کالج کی طرف چل پڑا۔ مجھے عجیب سی خوشی ہو رہی تھی۔ بار بار میرے ذہن میں وہ منظر آ رہا تھا جب اچانک اس کے مَمے میرے ہاتھ میں آ گئے تھے۔ مجھے ابھی تک اپنے ہاتھ پر وہ سختی محسوس ہو رہی تھی، شاید برا کے اندر ہونے کی وجہ سے وہ سخت ٹائٹ تھے۔ میں نے بے خیالی میں پھر سے اپنے ہاتھ کو دبا دیا، جیسے میرے ہاتھ میں اس کا مَما ہو۔ مجھے اپنی اس حرکت پر ہنسی آ گئی۔

میں نے خود سے کہا، عامر میاں بڑی پہلوانی  کرتا تھا، اور لڑکیوں سے دور رہتا تھا، آج ایک ہی دن میں گھائل ہو گیا۔

میرا کالج میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ بار بار وہ لڑکی ذہن میں آ رہی تھی اور ابھی تک اس کی کال بھی نہیں آئی۔ شام کو میں گھر واپس آ گیا۔ میں نے اس کی کال کا انتظار کیا لیکن کال نہیں آئی۔ رات کو پھر وہی منظر ذہن میں آ گیا۔ میرا لن اس کے مَموں اور گانڈ کا سوچ کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے لن کو ٹراؤزر کے اوپر سے پکڑ کر رگڑا مگر وہ اور زیادہ بغاوت کرنے لگا۔ آج اسے ہاتھ کی نہیں بلکہ ایک لڑکی کی پھدی کی ضرورت تھی جو اسے بس میں بے حال کر گئی تھی، جس کی پھدی کے لمس نے اسے لوہا بنا دیا تھا۔ میں نے لن کو ٹراؤزر سے باہر نکال کر پکڑ لیا۔ آج وہ پہلے سے زیادہ بڑا لگ رہا تھا۔ اس کی رگیں تنی ہوئی تھیں۔ آج میرا لن مچل مچل کر اس لڑکی کی پھدی کی ڈیمانڈ کر رہا تھا۔ جس سے میرے  لن میں درد ہونے لگا۔ میں نے خیالوں میں اس لڑکی کو زور کی جھپی ڈال لی اور پھر خود کو بے خبر ہونے دیا۔ کچھ پتہ نہیں کب مجھے نیند نے آ لیا۔

صبح کافی لیٹ میری آنکھ کھلی۔ ٹائم دیکھا تو بس کے آنے میں تھوڑا ہی ٹائم رہتا تھا۔ میں جلدی سے نہایا اور تیار ہو کر ایک ہاتھ میں رجسٹر اور پنسل پکڑ کر بس سٹاپ کی طرف چل پڑا۔ مجھے پکا یقین تھا کہ آج پھر وہ لڑکی بس میں جائے گی کیونکہ جب چھٹیاں ہوتی تھیں تو زیادہ تر لڑکیاں لوکل بس سے ہی جاتی تھیں۔ بس آئی تو میں بس میں چڑھ گیا۔ آج بھی بس میں بہت رش تھا۔ میں دروازے سے کچھ آگے ہی سیٹوں کے درمیان کھڑا ہو گیا اور اگلے سٹاپ کا انتظار کرنے لگا۔ جیسے ہی اگلے سٹاپ پر بس رکی وہی 3 لڑکیاں بس میں سوار ہو گئیں۔ وہ بھی سیٹوں کے درمیان کھڑی ہو گئیں۔ میری جان، میری رانی پیچھے والی سائیڈ میں تھی۔ اس کے اور میرے درمیان کچھ سواریاں تھیں۔ میں آہستہ آہستہ کھسکتا ہوا سواریوں کو سائیڈ میں کر کے اس کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا، نظروں سے نظریں ٹکرائیں، مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ لیکن اس نے فوراً دوسری طرف نظر پھیر لی اور میری طرف بیک کر کے کھڑی ہو گئی۔

آج اس نے گاؤن تبدیل کیا ہوا تھا۔ یہ پہلے سے زیادہ سیکسی تھا۔ اس کی گول مٹول باہر کو نکلی ہوئی گانڈ صاف نظر آ رہی تھی۔ سر پر لیے ہوئے رومال میں سے کچھ بال نیچے لٹک رہے تھے اور گانڈ سے تھوڑا اوپر ختم ہو رہے تھے۔ ان سے بہت پیاری مہک آ رہی تھی۔ کمر بالکل پتلی اور لمبی نیچے بہت پیارے انداز میں گانڈ سے جڑ رہی تھی۔ اوپر اس نے بڑے قاتلانہ انداز میں مَموں کو اٹھا رکھا تھا۔ برا کی سٹرپ بغل کے نیچے سے گزرتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ بالوں کے نیچے گاؤن بالکل جسم سے چپکا ہوا تھا۔ میرے لیے یہ منظر ہیجان انگیز ثابت ہوا۔ گاڑی کی اچھل کود سے اس کی گانڈ اوپر نیچے ہل رہی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر میرا لن جھٹکے سے کھڑا ہو گیا اور سیدھا اس کی گانڈ کے درمیان میں لگنے لگا۔ اس کے جسم سے اٹھنے والی خوشبو مجھے پاگل کر رہی تھی۔

میرا لن جیسے لوہے کا ہو گیا ہو اور میں نے لن اس کی گانڈ میں دبایا۔ زور پڑنے پر وہ ذرا آگے کو ہو گئی لیکن اب مجھ سے کہاں برداشت ہو رہا تھا؟ میں نے دوبارہ لن کو گانڈ پر تھوڑا سا دبایا۔ اس بار وہ بغیر حرکت کیے کھڑی رہی۔ شاید اسے بھی مزہ آ رہا تھا۔ اگلے سٹاپ پر بڑھنے والے رش کی وجہ سے وہ اور پیچھے ہو گئی۔ اس کی کمر میری چھاتی سے ٹکرائی اور میرا لن اس کی گانڈ کی پھانکوں کو چیرتا ہوا گانڈ کے سوراخ پر جا ٹکا۔ میں سرور کے سمندر میں کھو گیا۔ اتنی نرم گانڈ جو میری رانوں سے ٹچ ہو رہی تھی مجھے انتہائی مزہ دے رہی تھی۔ بس میں لگنے والے ہر جمپ کے ساتھ اس کی گانڈ کھلتی پھر بند ہو کر میرے لن کو قابو کر لیتی۔ میں مزے کی بلندیوں پر تھا، نشے کی لہر میرے جسم میں دوڑ رہی تھی۔ میرے لن اور اس کی گانڈ کے درمیان اس کا ٹائٹ گاؤن رکاوٹ بن رہا تھا۔

اس حسن کی رانی کو بھی مزہ آنے لگا۔ اس نے زور سے اپنی گانڈ میرے ساتھ جوڑ دی اور اپنا سارا جسم میرے اوپر گرا دیا۔ شاید میرے جسم کا لمس اسے بھی پاگل بنا رہا تھا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ اس کی گانڈ پر رکھ دیے اور اس کی گانڈ کو دبانے لگا۔ اس کے منہ سے ہلکی سی سسکی نکل گئی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ آگ برابر لگی ہوئی ہے۔ یقیناً اس کی پھدی بھی ایک طاقتور لن کی ڈیمانڈ کر رہی ہو گی جو اس کی گانڈ کے سوراخ پر نعرے لگا رہا تھا۔ اس نے اپنی ٹانگیں کھول دیں جس سے میرا لن سلپ ہو گیا لیکن گاؤن نے اسے روک لیا۔ میں نے غیر محسوس انداز میں اس کے گاؤن کو اوپر سرکانا شروع کر دیا۔اور ارد گرد کا جائزہ بھی لیتا رہا۔ سب اپنے آپ میں گم تھے۔ لیکن مجھے اب لوگوں کی زیادہ پرواہ بھی نہیں تھی۔ میں نے گاؤن کو گانڈ سے اوپر تک کر دیا۔


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی