خاندانی تعلقات قسط 13

 















نمی بھی اب پوری طرح کھل کر مزے سے بات کر رہی تھی اور مجھے بھی مزہ دینے پر آمادہ ہو چکی تھی، لیکن اب ملاپ کے لیے کیا منصوبہ چلتا ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتاتا۔ لیکن ابھی تک جو ہوا تھا اور جس طرح سے ہوا تھا، وہ الگ ہی مزے کی داستان بن کر رہ گیا تھا۔

اِس لیے میں ہنستا ہوا سر جھٹک کر اٹھا اور دوستوں میں جا بیٹھا۔ شاید اُن لوگوں نے بھی میرے لن کی حالت محسوس کر لی تھی، تبھی وہ لوگ میرے ساتھ شرارتی قسم کا ہنسی مذاق بھی کرنے لگے، جسے میں بھی لطف اندوز ہوتا رہا۔

باقی کا دن میں بھی دوستوں کے ساتھ مصروف رہا، جس سے میرے ساتھ ساتھ میرے لن کو بھی آرام رہا۔ آٹھ بجے جب سب لوگ چلے گئے تو میں بھی اٹھا اور مکان کو تالا لگا کر گھر آ گیا اور سیدھا کمرے میں چلا گیا۔ میں نے نہا کر لباس تبدیل کیا، لیکن ویسا ہی ڈھیلا سا (کچھا) پہنا۔

باہر نکلا اور پلنگ پر جا لیٹا اور ٹی وی لگا کر خبریں دیکھنے لگا، جس میں تھوڑا وقت گزرا۔ نو بجے روہی میرے لیے کھانا لے کر آئی تو میں چونک سا گیا کہ آخر کیا بات ہوئی کہ نمی نہیں آئی تھی؟

خیر، میں سر جھٹک کر رہ گیا کہ چلو دیکھتے ہیں کہ کیا نکلتا ہے۔ کھانا کھا کر سگریٹ پینے لگا تو باہر سے مجھے نمی کی آواز سنائی دی، جو چھوٹے بھائی بہنوں کو ڈانٹ رہی تھی کہ:

نمی: یہ کیا تماشا لگا رکھا ہے؟ یہاں کمرے میں جا کر لُڈو نہیں کھیل سکتے تم لوگ؟

نمی کی آواز سے جھلکتا غصہ صاف بتا گیا مجھے کہ وہ کیوں نہیں تھی میرا کھانا لے کر، کیوں کہ جس طرح دوپٹے کے بغیر اور چولی (برا) کے بغیر کھلے گلے کے قمیض شلوار میں وہ میرا کھانا لاتی تھی، اُس حلیے میں بھائی بہنوں کے سامنے تو نہیں آ سکتی تھی۔

کیوں کہ اس طرح باقی بھائی بہنوں کو شک ہو جاتا کہ کیا معاملہ ہے کہ آپ ہی ابا کے پاس اِس طرح سے کیوں جاتی ہیں، جس طرح بیوی شوہر کے پاس جاتی ہے۔ اِس لیے مجھے نمی کے لہجے میں چھپا غصہ محسوس کر کے من ہی من خوشی ہوئی۔

باہر کچھ دیر تک کھٹ پٹ ہوتی رہی، جس سے مجھے اندازہ ہونے لگا کہ رشی، نادیہ، روہی چیخ پکار کرتے ہوئے آخر وہاں سے اٹھ ہی گئے تھے۔ جس کے بعد مجھے یقین ہونے لگا کہ نمی اب ضرور آئے گی۔

اور ہوا بھی ایسا ہی۔ میرا یقین غلط ثابت نہیں ہوا۔ کچھ ہی دیر میں نمی اپنے اُسی حلیے میں میرے لیے چائے لے کر آ گئی اور مجھے جھک کر چائے دینے لگی تو میں نے اُس کے...

...سینے (بُوبز) جو کہ کھلے گلے سے پورے کے پورے صاف صاف دکھائی دے رہے تھے، بغیر جھجک دیکھتے ہوئے چائے کا پیالہ پکڑ کر بولا:

میں: کیا بات ہے بیٹی، آپ کے پاس اچھی پوشاکیں (ڈریس) نہیں ہیں؟

(نمی کچھ لمحے ایسے ہی جھکی مجھے اپنے سینے کے دیدار کرواتی رہی اور پھر سیدھی ہو کر بولی):

نمی: کیوں ابا جی، اِن میں کیا برائی ہے؟

میں: کچھ نہیں بیٹی جان! یہ بھی صحیح ہیں لیکن آپ کی عمر کے مطابق اچھے نہیں لگتے۔ ذرا اچھی پوشاک پہنا کرو۔ ایسے تو عمر زیادہ دکھائی دینے لگے گی۔

نمی: (عجیب پیاسی نظروں سے میرے نیکر (شارٹس) پر لن کی جگہ نظر ڈال کر بولی) جی ابا۔

اتنا بول کر نمی چلی گئی تو میں چائے پینے لگا کہ تبھی نمی کا واٹس ایپ پیغام آیا تو میں نے جھٹ سے چائے کا پیالہ دوسرے ہاتھ میں پکڑا اور موبائل کو کھولتے ہوئے دیکھا تو لکھا تھا:

پری: کیا حال ہیں جی؟

میں: مست (مزے میں)।

پری: اچھا، آپ کہاں رہتے ہیں؟ رات کو گھر یا ساتھ کے مکان میں؟

میں: ساتھ کے مکان میں زیادہ تر۔

پری: اچھا، جاتے وقت 3 یا 4 سگریٹ چھوڑ جانا اپنے کمرے میں ہی۔

میں: کیوں، تم کو چاہییں کیا؟

پری: جی نہیں، مجھے دینے والے اور بھی مل جانے ہیں، لیکن ابھی آپ کی لاڈلی کو چاہییں ہیں۔

میں: اوہ! ٹھیک ہے، اور کچھ پتا چلا؟ کوئی بات بنی؟

پری: بعد میں، ابھی نہیں، ابھی باہر ہوں۔ کمرے میں جاؤں گی تب بات ہو گی۔

میں: ٹھیک ہے۔

ہر گزرتا لمحہ مجھے اپنی بیٹی کی طرف سے الگ ہی کچھ نہ کچھ نیا پتا چل رہا تھا۔ کہاں تو وہ مجھے منع کرتی تھی کہ میں سگریٹ نہ پیا کروں اور کہاں وہ خود مانگ رہی تھی۔

میں نے بھی چائے ختم کی اور 4 سگریٹ وہیں پلنگ پر رکھ دیے، کچھ ایسے انداز میں کہ گر گئے ہوں، اور کمرے سے نکلتا ہوا نمی کو بول گیا کہ:

میں: دروازہ بند کر لو، میں جا رہا ہوں۔

تو نمی نے "جی ابا" بول دیا۔

ساتھ کے مکان میں جا کر اب میرے پاس اِس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں بچا تھا کہ ٹی وی دیکھوں اور نمی سے بات ہونے کا انتظار کروں، جو کہ میرے لیے اب کافی بور کرنے والا کام ہوتا جا رہا تھا۔ خیر 10:15 پر نمی کا واٹس ایپ آیا، لیکن نثار والی شناخت (آئی ڈی) پر۔ تو میں نے دیکھا، لکھا تھا:

پری: کچھ ہوا؟

میں: یار، تم تو ہاتھ پر سرسوں جما رہی ہو (بہت جلدی کر رہی ہو)، ایک آدھ دن اور نکال لو، ہو جائے گا کچھ نہ کچھ۔

پری: ٹھیک ہے، جب کچھ ہو جائے تب بتانا۔

میں: یار، ناراض تو نہیں ہو نا اب؟

پری: جب جگہ کا ہو جائے تب بتانا۔ بات بھی تب ہی کرنا۔ تب تک خدا حافظ۔

میں بار بار جان بوجھ کر واٹس ایپ کیے جا رہا تھا نمی کو: "معذرت یار، مہربانی کر کے بات تو کرو، یار، ہو جائے گی جگہ،" ایسے ہی قسم کے، لیکن نمی نے جواب نہیں دیا تو میں بھی چپ ہو رہا۔ تو 5 منٹ بعد میرے اپنے نمبر پر نمی نے واٹس ایپ کیا:

پری: ہاں جی، کیا ہو رہا ہے؟

میں: انتظار۔

پری: کس کا؟

میں: تمہارا بھی اور سگریٹ والی کا بھی۔

پری: اوہ! سچ میں؟

میں: کیوں، کوئی شک ہے؟

پری: مجھے تو نہیں، لیکن آپ کی لاڈلی کو ہو سکتا ہے۔

میں: مطلب؟

پری: جانچا ہے میں نے آج، کافی وقت صرف کیا ہے اُس کے ساتھ، تب جا کر کچھ کھلی ہے۔

میں: کیا بولی؟

پری: پہلے تو اِسی بات کو لے کر غصہ ہو گئی تھی کہ میں نے آپ کا نام لے کر بات ہی کیسے کی، و غیرہ و غیرہ۔

میں: پھر؟

پری: پھر کیا، میں بھی ایک آخر ڈھیٹ ہوں، منا کر ہی چھوڑا اُسے!

میں: مطلب؟

پری: مطلب یہ کہ وہ بھی اچھی طرح جان چکی ہے کہ تم جیسا حرامی باپ خود ہی اپنی بیٹی کی ٹانگوں میں گھسنا چاہتا ہے۔

میں: اوہ! سچ میں؟

پری: ہاں، اور یہ بھی بتایا ہے اُس نے کہ تمھیں اپنے سینے (بُوبز) بھی دکھاتی ہے، جھک جھک کر۔

میں: اوہ! مطلب تم نے بات بنا لی؟

پری: اب اتنی بھی جلدی کچھ نہیں ہو سکتا میری جان!

میں: پھر؟

پری: تمھارے لیے تو سمجھو 2 دن میں اُسے میں منا لوں گی، بھلے جو بھی کرنا پڑا، جیسے بھی کرنا پڑا مجھے، لیکن کچھ حرامی پن آپ کو بھی دکھانا پڑے گا۔ دکھا سکو گے؟

میں: جو بولو گی کروں گا یار، بولو تو سہی!

پری: تم اگر مان جاؤ تو سمجھو میرا بھی بھلا ہو جانا ہے اور نمی، تمہاری بیٹی کا بھی۔

میں: مطلب؟

پری: کوئی موقع چاہیے ہم دونوں کو، وہ تم ہی دے سکتے ہو۔ دو گے کیا؟

میں: کیسا موقع؟

پری: (مسکراہٹ کے ساتھ)

میں: یار، میں مر گیا ہوں کیا؟

پری: یہ امتحان سمجھ لو۔ اب بولو۔ اس کے بعد سمجھو نمی تمہارے نیچے، یہ وعدہ رہا۔

میں: اب بھلا میں کیا موقع دوں اور کیسے؟ (غصہ بھی آ رہا تھا مجھے کہ بات کہاں سے کہاں کو چل پڑی ہے)

پری: اگر یہ موقع دیتے ہو تو 3 کام ہوں گے۔

میں: کون سے 3 کام؟ بیٹی کو چُدوانے کو بول رہی ہو؟ میں کوئی دلّال (بھڑوا) ہوں؟

پری: دیکھا، کر گئے نا غصہ؟

میں: بات ہی ایسی ہے۔

پری: یہ بھی تو سوچو کہ مسکان کوئی پہلی بار تھوڑا ہی نا چُدائی کرے گی جو مہر ٹوٹ جانے کی فکر ہے تم کو۔

میں: (خود کو قابو کرتے ہوئے، لمبی لمبی سانس لیتے ہوئے پر سکون ہوا اور لکھا) ہاں، یہ بھی صحیح ہے۔

پری: اور اِس کا فائدہ جو مل سکتا ہے، اُس کا سوچو اب۔

میں: بتاؤ گی تب پتا چلے گا نا؟

پری: کیوں کہ میں بھی وہیں ہوں گی تو ایک ویڈیو کلپ بنا لوں گی ہم تینوں کا اور تم کو بھیج دوں گی۔ آگے تم جانو اور تمہارا کام کہ پہلے بیٹی چود بنو گے یا کیا بنو گے؟

(میں، پری کی بات پڑھ کر اُس کے خیال (آئیڈیا) پر بہت خوش ہوا، کتنا آسانی سے اُس نے میرے نیچے آنے کے لیے خود مجھے راستہ دکھا دیا تھا۔ اِس لیے لکھا):

میں: اوہ! جان، آئی لَو یُو! چوما۔

پری: دیکھو ذرا اپنا حرامی پن! اب کہاں گیا تمہارا غصہ جو بیٹی کو چُدوانے کا سن کر بھڑک اٹھا تھا؟ اب نہیں بنو گے بیٹی چود دلّال؟

میں: یار، تو کمال ہے، کمال ہے۔ کیا خیال (آئیڈیا) نکالا ہے!

پری: کب دے رہے ہو موقع؟

میں: ابھی دے سکتا ہوں۔

پری: کیسے؟

میں: میں ابھی گھر چلا جاتا ہوں اور وہاں سو جاؤں گا۔ نمی، تم اور مسکان ساتھ کے مکان میں عیاشی (مستی) کر لو۔

پری: خیال (آئیڈیا) اچھا ہے لیکن آج نہیں ہو سکتا نا۔

میں: کیوں؟

پری: نمی نکل آئے گی شاید۔ میں بھی نکل آؤں کسی طرح، لیکن مسکان کا آنا مشکل ہے۔ کل کا بنا لو۔

میں: ٹھیک ہے، جیسا تم بولو۔

پری: دن میں نہیں ہو سکتا؟

میں: ہو تو سکتا ہے، لیکن دن میں وہاں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ رات کا ہی صحیح ہے۔

پری: ٹھیک ہے پھر۔ اب خدا حافظ۔ میں تمہاری بیٹی کو بھی منا لوں۔

میں: ٹھیک ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی