اب مجھے لگ رہا تھا کہ یہ سب جو ابھی تک ہوا تھا، اس کا اختتام قریب آ چکا ہے اور میں بھی شاید جلدی ہی اپنی بیٹی کی قاتل جوانی کا مزا چکھ لوں گا۔ یہ خیال ہی میرے لیے لذت انگیز تھا کہ مانو میں نے اتنی دنوں میں اس رات پہلی بار اپنی بیٹی کا سوچ کر مٹھ مار لی۔
مٹھ لگانے کے بعد اتنی سکون کی نیند آئی کہ آہ کیا بتاؤں، مانو بے ہوش ہو کر سو گیا۔ اور اگلی صبح جب جاگا تو دس بج چکے تھے۔ میں نہا کر فریش ہوا اور رشی کو کال کر کے ناشتہ وہیں منگوا لیا، کیونکہ سب بچوں کے بیچ جانا مجھے اچھا نہیں لگا۔ کیونکہ اس وقت تو سب ہی جاگ چکے ہوتے تھے اور باہر ہال میں ہی ٹی وی دیکھتے، لوڈو کھیلتے، اچھل کود مچاتے رہتے تھے۔
رشی میرے لیے دس منٹ میں ہی ناشتہ لے آیا اور ناشتہ رکھ کر چلا گیا۔ تو تبھی میرے نمبر پر واٹس ایپ آیا۔ نمی کا دیکھا تو لکھا تھا:
پری: ہاں جی، کیا سوچا؟ پھر آج کے لیے ہم بنا لیں کوئی پروگرام؟ یا ارادہ بدل گیا ہے؟
میں : نہ نہ، میری جان! مزا کرو، مزا کرو گی تو مزا دلواو گی نا
پری اوکے، تو کتنے بجے تک کا پلان ہے؟
میں : یہ تم لوگ جانو، میری طرف سے مکان 9 بجے خالی مل جائے گا
پری: ٹھیک ہے
میں لیکن تم اور مسکان گھر سے کیسے نکلو گی؟
پری ہی ہی ہی ہی ! نیند کی دوا سب بیماریوں کا علاج ہے
میں بڑی حرامی ہو یار تم !
پری تم سے کم ہوں! میں تو خود چدؤاں گی، لیکن تم تو آج اپنی بیٹی کو چو دو گے۔ جان تو بتاؤ، بھلا بڑا حرامی کون ہوا؟
میں: ظاہر ہے، اس حساب سے تو میں ہی بڑا حرامی ہوا، لیکن تو بھی کم کتیا نہیں ہے
پری: ایک بات کی اجازت مانگوں گی، آج اگر دے سکو تو
میں مانگ جو چاہیے مانگ لے گشتی
پری: کیا گالی بک سکتی ہوں؟ کھلی اور ننگی
میں : پہلے کوئی کم ما ں چدواتی ہو حرام زادی؟ جو اب اجازت مانگ رہی ہو
پری: سالے بھڑ وے ! کتیا کے بچے ! ابھی تک تو میرا اصل روپ نہیں دیکھا ہے نا، تبھی بھونک
رہا ہے۔ ذرا صبر رکھ، ابھی تو تجھے تیری بیٹی سے گالیاں نکلواؤں گی میں
میں آہ ! پتہ نہیں وہ دن کب آئے گا
پری: صبر رکھ! آج کی رات اپنی بیٹی کو چدوا لینے دے، پھر سب ہو جائے گا حرامی
میں: چل دیکھتے ہیں کیا ماں چدواو گی
پری اوکے، پھر رات کو بات ہو گی
میں : اوکے
نمی سے بات کر کے میں نے ناشتہ فنش کیا، جو کہ اب ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ اس کے بعد چھت پر گیا اور وہاں کونے میں ایک ٹوٹا ہوا میز پھنسا کر سیٹ کر دیا، کیونکہ میں پکا ارادہ باندھ چکا تھا کہ رات والا پروگرام لائیو ہی دیکھوں گا۔ کیونکہ دونوں گھروں کی چھت ملی ہوئی تھی، لیکن دیوار ذرا اونچی تھی اور کوئی ادھر سے اُدھر یا اُدھر سے ادھر آسانی سے نہیں آ سکتا تھا۔ اسی لیے میں نے میز جمائی تھی وہاں، اور نمی بھی یہ بات جانتی تھی کہ میں دیوار نہیں کراس کر سکتا آسانی سے۔
اپنے گھر والی طرف میں نے اس لیے جگاڑ نہیں بنایا تھا کہ نمی کو یقین ہو جاتا کہ میں رات مکان میں ضرور آؤں گا، اور یہی میں نہیں چاہتا تھا کہ ایسا کچھ ہو۔ یہ سب کر کے میں نیچے چلا گیا اور باقی کا دن دوستوں کے ساتھ وقت بتایا، کیونکہ ناشتہ دیر سے کیا تھا تو دوپہر کا کھانا گل کر دیا۔
8 بجے سب لوگ گھروں کو نکل لیے تو میں نے بھی مکان کو لاک کیا اور گھر آ گیا، جہاں بچوں سے ذرا گپ لگا کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ تو خیال آیا کہ نمی کہیں مجھے بھی نیند کی گولی نہ کھلا دے۔ یہ خیال آتے ہی میں سوچنے لگ گیا کہ کیا کروں؟ آخر کس چیز میں گولی کھلا سکتی ہے نمی؟ تو ایک دم دماغ میں جھماکا ہوا کہ ہو نہ ہو چائے کا کپ لمبی نیند کو دعوت دے گا۔
میں نے پکا من بنا لیا تھا کہ آج چائے نہیں پینی، لیکن منع بھی نہیں کرنا۔ چائے واش روم میں گرا دوں گا، کھانے کا۔ وقت ہوا تو کھانا نادیہ لائی۔ کھانے کے بعد چائے نمی نے دی، لیکن سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر جلدی سے کھسک گئی۔ تو میں سمجھ گیا کہ اب یہاں پر ہونا ہے کام۔
کیونکہ میں کھانا کھا چکا تھا، اس لیے میں جلدی سے چائے کا کپ واش روم میں گرا کر پانی بہا آیا، کہ کوئی ثبوت باقی نہ رہے، اور ہلکی سی چائے کپ میں ہی رہنے دی، جیسے کہ میں چھوڑ دیتا کرتا تھا۔ اور کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر لیٹ گیا اور آنکھوں کو بند کر لیا۔
ایسے ہی مجھے کوئی ایک گھنٹے تک لیٹنا پڑا، جس دوران میرے موبائل پر واٹس ایپ رنگ اور کالز بھی آئیں، جو کہ نمی کا ہی دوسرا نمبر تھا، جس پر پری والا آئی ڈی بنا ہوا تھا، لیکن میں نے کوئی جواب نہیں دیا، کیونکہ میں سمجھ رہا تھا کہ یہ کنفرم کیا جا رہا ہے کہ میں سچی میں ٹن ہو چکا ہوں یا کوئی ڈراما کر رہا ہوں۔
اس سب کے کوئی پانچ منٹ بعد ہی مجھے اپنے کمرے کا دروازہ کھلتا دکھا، جو کہ آنکھوں میں ملکی سی جگہ بنا رکھی تھی، میں نے وہیں سے دیکھ رہا تھا۔ دروازہ کھلا ہوا تو نمی کمرے میں آگئی اور میرے پاس کھڑی ہو کر مجھے آواز دینے لگی، لیکن میں نے کوئی رسپانس نہیں دیا۔ تو نمی نے لائٹ آف کر دی اور باہر جانے لگی۔
نمی نے کمرے میں کیونکہ ٹی وی اور لائٹ آف کر دی تھی، اس لیے کافی اندھیرا ہو گیا تھا، بس تھوڑے سے کھلے دروازے سے ہی ہلکی سی لائٹ آ رہی تھی۔ کہ نمی اچانک باہر جاتی جاتی مڑی اور میرے پاس بیڈ کے قریب نیچے بیٹھ گئی، اور ایک بار مجھے ہلا کر تسلی کی کہ میں سو رہا ہوں۔ اور پھر بولی:
نمی: کیا ہوا پاپا؟ سو کیوں گئے؟ اٹھو نا، دیکھو میں جا رہی ہوں
میں : کوئی جواب نہیں
نمی: اچانک سے میرا لنڈ پکڑ کر سہلاتی ہوئی بولی: سسی ! کیا تگڑا لنڈ ہے پاپا آپ کا ! من کر رہا ہے ابھی اسے اندر لے لوں، لیکن ابھی نہیں۔ آپ خود میری چوت میں گھساؤ گے، ہاں؟ آپ خود میری چودائی کرو گے، سمجھے؟
میں : اگر آنکھ میں تھوڑی جھری نہ رکھی ہوتی اور نمی کا ہاتھ اپنے لنڈ کی طرف بڑھتا نہ دیکھا ہوتا، تو خود پر قابو نہ رکھ پاتا اور ہل جاتا، جس سے سارا بھانڈا پھوٹ جاتا۔ لیکن میں نے خود کو بڑی مشکل سے قابو رکھا، لیکن لنڈ جو کہ پہلے ہی ہاف بارڈ تھا، فل ہارڈ ہو گیا، اسے میں نہیں روک پایا۔
نمی: دیکھو پاپا، آپ کا لنڈ کیسا کھمبا بن رہا ہے ! سیی ! کیا کروں میں؟ حرامی! کتنا پھولا ہوا لنڈ ہے تیرا ! اوف ! پاپا جانی! کی آواز کرتی ہوئی جھکی اور میرے لنڈ کو ننگا کیے بنا ہی چوم لیا۔
میں خود کو بڑی مشکل سے قابو رکھ پایا، کیونکہ نمی کا یہ حملہ میری برداشت سے باہر تھا۔ نمی: اٹھا نا حرامی بھڑوے! دیکھ، تیری بیٹی آج چدوانے جا رہی ہے پاپا! میں لیکن اب بھی کچھ نہیں بولا۔
نمی اٹھ گئی، میرا لنڈ چھوڑ کر، اور کمرے سے باہر نکل گئی، لیکن جاتے جاتے میرے سگریٹ پیکٹ میں سے کچھ سگریٹ نکال کر لے گئی اور دروازہ بند کر دیا۔ تو میری رکھی ہوئی سانس بحال ہوئی۔
اس وقت مانو میں پسینہ پسینہ ہو رہا تھا، اور اگر نمی نے لائٹ آف نہ کی ہوتی تو بھانڈا پھوٹ جاتا۔ خیر، مشکل وقت نکل گیا تھا، لیکن میں پھر بھی نہیں اٹھا اور لیٹا رہا، کیونکہ مجھے لگ رہا تھا کہ ابھی نمی نہیں نکلی ہو گی، ابھی ہر طرف سے باقی سب کو چیک کر کے ہی نکلے گی۔
اسی لیے میں نے کوئی تیس منٹ تک کا ویٹ کیا، لیکن جب نمی دوبارہ نہ آئی تو میں اٹھا اور آہستہ آہستہ کمرے سے نکلا۔ اور سب سے پہلے باہر کا دروازہ چیک کیا، تو پتہ چلا کہ وہ اب اندر سے نہیں، باہر سے لاک ہو چکا ہے۔ تو مجھے یقین ہو گیا کہ نمی جا چکی ہے۔
لیکن پھر بھی میں نے ہر طرف سے چیک کیا اور چھت پر چلا گیا، اور ایک چار پائی آہستہ سے دیوار کے ساتھ ٹکا، اس کے اوپر چڑھا، اور ہر طرف کا جائزہ لے کر آہستہ سے دیوار پر چڑھ کر دوسری طرف رکھے میز پر پھیلتا ہوا اتر گیا۔ اب میں اس مکان میں پہنچ چکا تھا، جہاں آج میری اپنی بیٹی ایک خسری شی میل) سے چد وانے آئی تھی، اور میں نے خود ہی اسے یہ موقع دیا تھا کہ وہ آج کی رات اپنی چوت میں لگی آگ کو کچھ حد تک ٹھنڈا کر سکے۔
لیکن میں یہ بھی جانتا تھا کہ نمی میری بیٹی کی چوت میں لگی آگ اب اس خسری مسکان کے لن سے شانت ہونے والی نہیں ہے، کیونکہ اسے اب بڑا اور تگڑا لن چاہیے ہی چاہیے تھا، جو کہ اسے میری صورت میں نظر آ چکا تھا۔ اور اس کے لیے وہ اب ہر حد سے گزرنے کو تیار ہو چکی تھی۔
میں آہستہ قدموں سے سیڑھیاں اترتا ہوا نیچے کے فلور تک پہنچا، لیکن وہاں کے سب کمرے ایک تو خالی تھے، کیونکہ وہاں کوئی بھی سامان نہیں تھا، اس لیے نمی اور مسکان وہاں نہیں ہو سکتی تھیں۔ اس کے لیے مجھے سب سے نیچے گراؤنڈ فلور) پر جانا تھا۔
آہستہ آہستہ، بنا آواز کیے، میں جب نیچے پہنچا، تو مجھے سامنے کے کمرے میں، جہاں ہم سب بیٹھ کر کھیلا کرتے تھے، اسی کمرے میں اپنی بیٹی نمی بیٹھی ہوئی سگریٹ پھونکتی دکھائی دے گئی۔
اب میں، کیونکہ پوری طرح اندھیرے میں کھڑا تھا اور نمی سامنے کمرے میں تھی اور لائٹ آن تھی، جس وجہ سے مجھے سب کچھ صاف دکھ رہا تھا، لیکن مسکان دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ کہ تبھی مسکان واش روم کی طرف سے نکلی اور نمی کے پاس جا کر بولی:
مسکان: ہاں تو جان، اور کتنا تڑپاؤ گی؟
نمی: سالی! پتہ ہے کتنا رسک لیا ہے آج کی رات مزا کرنے کے لیے؟ تو اس رات کو ایسے ضائع تو نہیں کروں گی نا؟
مسکان: چل نا پھر، اتار اپنے کپڑے سالی! کہ تیرے باپ کو بلا کے لاؤں مجھے ننگی کروانے کو؟ نمی: کنجری! اگر میرے باپ کو پتہ چل گیا نا کہ تو لڑکی نہیں، خسری ہے، تو پکا میرے باپ سے گانڈ کھلوا لے گی !
مسکان: اگر تیری چوت ملتی رہے گی، تو تیرے باپ کو بھی خوش کر دوں گی سالی! اب چل نا، کیوں وقت خراب کر رہی ہے؟
مسکان کی بات سن کر نمی نے سگریٹ پھینک دی اور انگڑائی لیتے ہوئے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اور مسکان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنا جسم ہلانے لگی، جیسے ڈانس کر رہی ہو۔ اور آہستہ آہستہ اپنے کپڑے اتارتی گئی اور پھینکتی گئی۔
اپنی بڑی بیٹی کا یہ روپ دیکھ کر میرا لن تو مانو مچل ہی اٹھا، کیونکہ مجھے امید نہیں تھی کہ نمی اتنی گرم لڑکی نکلے گی۔ نمی اپنی ایک ایک حرکت سے مانو جیسے مسکان کو ٹیز کر رہی تھی۔ اور پھر نمی سارے کپڑے اتار کر بس ایک پینٹی میں رہ گئی۔ تو نمی کی پیٹھ چونکہ میری طرف تھی، اس لیے اس کی پینٹی میں قید سیکسی گانڈ دیکھ کر میں آہستہ سے اپنا لن مسل بیٹھا۔
نمی کو اس سیکسی حالت میں دیکھ کر میرا من مچلنے لگا کہ جو پلان نمی نے میرے لیے کل کا بنایا تھا، اس پر آج ہی عمل کر ڈالوں۔ لیکن میں نے ایسا نہیں کیا اور بس لن کو مسل کر رہ گیا، کیونکہ اس طرح مسکان کو بھی پتہ چل جاتا ہم باپ بیٹی کے افئیر کا، جو کہ میں ابھی نہیں چاہتا تھا کہ ایسا ہو۔ کہ تبھی مسکان نے کہا:
مسکان: آہہہہہہہ سالی! کیا مست فیگر ہے تیرا!
نمی: کاش حرام خور! تیرا لن تھوڑا اور بڑا ہوتا تو کتنا مزا آتا!
مسکان: تو کتنی بار کہا ہے تجھے کہ رشی کو پکڑ لے۔ جوان لونڈا ہے، تو ہی نہیں مانتی!
نمی: سالی! رہنے دے، اسے بچہ ہے ابھی۔
مسکان: تیری مرضی۔ ویسے ایک موقع دے کر دیکھ اپنے بھائی کو۔ تیرے پیٹ میں سے بچہ نہ نکال دے تو بولنا۔