خاندانی تعلقات قسط 16

 











یہاں میں باہر بیٹھا اپنی بیٹی کو چدواتا دیکھ کے ڈسچارج ہو چکا تھا


اور وہاں اندر روم میں میری بیٹی بھی سیکنڈ ٹائم مسکان کے ساتھ ہی ڈسچارج ہو چکی تھی


میرے لیے یہ سب دیکھنا ایک الگ ہی لذت کا بائس بن گیا تھا۔


کہاں تو آج سے کوئی پندرہ سے بیس دن پہلے تک کا وقت تھا کہ میں اپنی بیٹی کا افیئر پتا کرنے اور پتا چلنے پہ اسے سمجھانے کے لیے پلان اور جاسوسی کرتا پھر رہا تھا


اور کہاں اس رات کے وہ لمحات کہ میری بیٹی میری آنکھوں کے سامنے پوری ننگی لیٹی ہوئی تھی


اور کچھ دیر پہلے میرے ہی سامنے چدوا بھی چکی تھی۔


اس سب کو دیکھ کے بھی مجھے ذرا برا نہیں لگا


الٹا لذت کی شدت اس انتہا تک پہنچ چکی تھی کہ میں خود کو موٹھ لگانے سے روک نہیں پایا تھا


اور آگے بڑھ کے نمی اور مسکان کو اس ننگی حالت میں نہ پکڑ سکا۔


کیوں کہ اس میں ریزن یہ تھا کہ میری بیٹی جب خود سے ریڈی ہو چکی تھی مجھ سے چدوانے کو


اور خود ہی آج رات کی چدائی کی ویڈیو کلپ مجھے بھیج کر خود کو مجھ سے بلیک میل کروا کے چدوانا چاہتی تھی


تو پھر مجھے آج کی رات جو کہ اس نے خود اجازت سے مانگی تھی اسے خراب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔


خیر، ایسے ہی کوئی دس منٹ تک مسکان اور نمی دونوں اپنی اپنی آنکھوں کو بند کیے لیٹی آرام کرتی رہیں اور میں بھی باہر۔


سیڑھیوں پہ بیٹھا خود کو سنبھال کے اپنی نکر صحیح کر چکا تھا کہ تبھی نمی کی آواز سنائی دی۔


نمی: یار مسکان جس لنڈ کی پکس میں نے تجھے دکھائی تھیں کیا سچ میں میں اسے جھیل لوں گی۔


مسکان: (میری بیٹی کی طرف کروٹ لے کے اپنا سر اٹھا کے میری بیٹی کو دیکھتے ہوئے بولی) ہائے میری گشتی کیوں مر رہی ہے پاگل


جتنا تگڑا اور بڑا ہو گا مزا بھی اتنا ہی ملے گا۔


نمی: دیکھ لے مروا نہ دینا کہیں چوت کا ستیاناش ہی نہ ہو جائے مزا لینے کے چکر میں۔


مسکان: دیکھ رانی جتنا درد تجھے میرے ساتھ ہوا تھا زیادہ سے زیادہ اتنا درد سہنے کو تیار رہ


اس سے زیادہ پھٹنے والا کوئی چکر نہیں، تیری چوت بڑی گرم ہے


اس سے بڑا لنڈ بھی تیری چوت میں گھستے ہی پگھل جائے گا۔


نمی: اگر کوئی مسئلہ بن گیا نا تو قسم سے تیری گانڈ میں ڈنڈا گھسا دوں گی یاد رکھنا۔


مسکان: جو چاہے کر لینا جان من، ویسے یہ تو بتا کہ یہ حرامی مشٹنڈا ہے کون۔


نمی: سالی تجھے کیا اس سے ماں چدوانی ہے۔


مسکان: ہاہاہا سالی کیوں جل بھن رہی ہے میں تو سوچ رہی تھی ک۔۔۔۔۔


نمی: ماں کی لوڑی یہ ک۔۔۔ سے آگے نہیں بھونکے گی کچھ بھی۔


مسکان: ہاہاہا سوچ رہی تھی کہ تجھے پہلی بار خود اپنے سامنے چدواؤں تجھے حوصلہ رہے گا۔


نمی: جس نے میری چوت کھولنی ہے وہ میرا خیال بھی رکھ لے گا تو رہن دے بڑی آئی۔


مسکان: ذرا خیال نہیں رکھتے یہ مرد ان کو بس اپنے لنڈ کا خیال ہوتا ہے


کہ پورا جب تک گھسنا چاہیے ذرا سا بھی باہر رہ گیا تو ان کی مردانگی کی توہین ہوتی ہے۔


نمی: بس یار یہ جو جام کے جھٹکے لگانے والا کام ہے نا اس میں مجھے زیادہ مزا نہیں آتا۔


مسکان: جب اس مشٹنڈے سے چدوا لے گی نا جس کے لنڈ کی پکس کو چومتی رہتی ہے


تب پوچھوں گی کہ کیسے مزا آتا ہے آرام سے یا تیز جھٹکوں سے۔


نمی: اچھا اچھا اب میری ماں نہ بن، چل ذرا واش روم جانے دے پھر ایک راؤنڈ اور مزا کرتے ہیں۔


مسکان: ہاں ہاں جیسے تیری مرضی ویسے بھی اب تیری چوت اتنی کھل جانی ہے کہ میرا لنڈ تجھے مزا بھی نہیں دے سکے گا۔


نمی: (ہنستی ہوئی) تو کیا ہوا کنجری خارش بھی نہیں کرے گا۔


نمی کی اس بات پہ باہر بیٹھے میں بھی مسکرا دیا


لیکن تبھی مجھے وہاں سے کھسکنا پڑا کیوں کہ نمی مسکان کو روم والے واش روم کی طرف بھیج کے خود باہر کو آنے لگی تھی۔


وہاں سے میں دبے پاؤں اوپر چلا گیا


اور پھر ان کو وہیں چھوڑ کے دیوار کود کے اپنے گھر آ گیا


اور چارپائی بھی وہاں سے ہٹا دی اور نیچے روم میں چلا گیا


کیوں کہ اگر وہیں رہتا تو پکا تھا کہ پھر موٹھ لگا بیٹھتا جو کہ میں نہیں چاہتا تھا۔


نیچے آ کے اپنے روم میں گیا اور خاموشی سے ڈور بند کرتا ہوا بیڈ پہ لیٹ گیا


لیکن ابھی جو کچھ دیکھ کے آیا تھا اس سے بھلا نیند بھی کہاں آنی تھی


اسی لیے کافی دیر تک کروٹ بدل بدل کے جب تھک گیا تو آنکھ لگی۔


اگلی صبح جب اٹھا تو دس سے اوپر کا وقت ہو رہا تھا


تو میں اٹھا اور نہا کے باہر نکلا اور اپنا موبائل اٹھا کے دیکھا


تو نمی نے پری والی آئی ڈی سے کافی میسج کیے ہوئے تھے لیکن ویڈیو نہیں بھیجی تھی ابھی تک۔


تو میں نے موبائل سائیڈ میں رکھا اور باہر نکلا تو نمی مجھے دیکھ کے بولی


نمی: پاپا آپ بیٹھو میں ناشتہ لاتی ہوں۔


میں نے اوکے میں سر ہلا دیا


لیکن ساتھ ہی ساتھ پوری طرح کھل کے اپنی بیٹی کے جوان جسم کو گھورتا ہوا وہیں بیٹھ گیا۔


نمی اپنی گانڈ مٹکاتی کچن میں جا گھسی تو میں نیوز لگا کے دیکھنے لگا۔


کوئی دس منٹ کے بعد ناشتہ میرے سامنے آ گیا


تو میں نے باقی بچوں کا پوچھا جس کے جواب میں نمی نے بتایا کہ وہ لوگ اوپر کے فلور پہ ہیں۔


تو میں خاموشی سے ناشتہ کر کے روم سے اپنا موبائل اٹھا کے ساتھ کے مکان میں چلا گیا


تو تبھی نمی کا واٹس ایپ آیا۔


پری: کہاں ہو صبح سے جواب نہیں دے رہے۔


میں: جواب کیا لوڑا دوں تم لوگوں نے دھوکا کیا ہے میرے ساتھ۔


پری: کیا ہوا شاہ جی اتنا غصہ۔


میں: تم نے بتایا نہیں کہ مجھے بھی نیند کی گولی دی جائے گی۔


پری: ہاہاہا اگر وہ ایسا نہ کرتی تو آپ نے رات کا سارا پلان خراب کر دینا تھا


اسی لیے چلو اب غصہ تھوک دو جو ہونا تھا ہو گیا۔


میں: ہوں جو ہونا تھا ہو گیا۔


پری: اچھا اب جلی کٹی سناتے رہو گے یا کام کی بات بھی کرو گے۔


میں: بولو پھر اب کہاں بے ہوش کروانا ہے مجھے۔


پری: نہ شاہ جی نہ اب بے ہوش ہونا نہیں۔


پری: کرنا ہے آپ نے۔


میں: کسے۔


پری: اپنی لاڈلی کو وہ بھی اپنے تگڑے لنڈ سے۔


میں: ویڈیو بھیجو گی تب ہی تو بات بنے گی نا۔


پری: ہائے شاہ جی کتنے حرامی ہو بیٹی کی چدائی دیکھ کے شرم نہیں آئے گی تجھے کتیا کے بچے۔


میں: سالی یہاں میرا لنڈ دیکھ لے نا تو ایک بار تب پتا چلے گا کہ میں چدائی دیکھنا چاہتا ہوں یا کرنا چاہتا ہوں۔


پری: کتے بیٹی ہے تیری شرم کر کیا بک رہا ہے۔


میں: (اچھی طرح سمجھ رہا تھا کہ نمی یہ سب کیوں کر رہی ہے اسی لیے بولا) جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم سمجھی، جلدی بھیج ویڈیو


اب کہیں یہ نہ ہو کہ اس مسکان خسری کے بعد کوئی اور ماں کا لوڑا میری بیٹی کو پورا کھول جائے۔


پری: اففففف شاہ جی سچی میں بیٹی چود ہو کتیا کے جنے۔


میں: بھیج بھی دے سالی گشتی کی بچی۔


پری: رکو مرو نہیں بھیجتی ہوں۔









ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی