دکان مالک کی بیویاں Part 3,4

 







گئی ۔۔۔پجامے كے اُوپر سے

سونو کا وشال لنڈ دیکھتے ہیاس کے دِل كی دھڑکن بڑھ

 گئی ۔۔۔۔

اور بدن میں عجیب سیسنسناہٹ ہونےلگی ۔۔۔۔۔وہ دونوں ایک دم پاس پاس 

 ہی بیٹھے تھے ۔۔۔۔جب

سونو اپنے لنڈ کو ہاتھ سے

ہلاتا تھا اسی وقت اس کیکہنی دیپا كی بغل سے ہوتی

 ہوئی اس کے مموں کےپاس رگڑ کھانے لگتی ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے پورے بدن میں عجیبسے مستی كے لہریں دوڑے

 جارہی تھیں ۔۔۔۔

ادھر سونو اِس بات سے بالکلانجان تھا کہ دیپا اسے ہیدیکھ رہی ہے ۔۔۔ وہ سیمہ اورچاندیمال كے کارنامے کو 

دیکھتے ہوئے اپنے لنڈ کو تیزی سے ہلائے جا رہا تھا

 ۔۔۔۔۔

دیپا کو ایک اور جھٹکا اسوقت لگا جب اس نے سونو كینظروں کا پیچھا کیا اور

سونو كی نظروں کا پیچھاکرتے ہوئے اس کی نظریں

جس مقام پر پہنچیں اسے

دیکھ کر تو جیسے دیپا كے دِلكے دھڑکن رک ہی گئی ہو وہاپنی نظریں اپنے پتا اور نئیسوتیلی ماں سے ہٹا نہیں پا

 رہی تھی ۔۔۔۔۔

اچانک سے سونو کا ہاتھ ہلنابند ہو گیا ۔۔ جب اس کااحساس دیپا کو ہوا تو وہ اک

 دم سے چونک گئی۔۔۔اس نے دھیرے سے اپنے چہرےکو سونو كی طرف گھمایا ۔۔۔

جو اس کی طرف ہی دیکھ رہاتھا… . جیسے ہی دونوں كےنظریں آپس میں ٹکرائیں۔۔۔۔۔ دیپا اک دم سے شرمندہ

 سی ہوگئی۔۔۔۔اس نے اپنے سَر کو جھکا لیا

۔۔۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی اسکے ہونٹوں پر مسکان پھیل

گئی ۔۔۔۔پر نیچے سَر جھکائےہوئے ، دیپا كے سامنے دوسراالگ ہی نظارہتھا ۔۔۔۔

نیچے سونو کا لنڈ اسکے

پجامے كے اندر ابھرتے ہوئےجھٹکے کھا

رہا تھا جیسے ہی سونو کا لنڈجھٹکے کھاتا دیپا کا دلاچھل جاتا ۔۔۔۔۔ وہاں کا

ماحول اِس قدر گرم ہو چکا

تھا کہ سونو کو پتہ نہیں چلاکہ کب اسکا ہاتھ

پیچھے سے دیپا كی کمر پر آ

 گیا ۔۔۔۔

جیسے ہی دیپا كی کمر پر سونو کا

ہاتھ پہنچا ، دیپا کا پُورا بدن کانپنے لگا ۔۔۔ سامنے اس کے

پتا کا لنڈ اس کی نئی سوتیلیماں ہلا رہی تھی ۔۔۔اور نیچےسونو کا لنڈ جھٹکے کھا رہاتھا جیسے دیکھ کر جوان لڑکی کی چوت میں سرسراہٹ

 ہونے لگی ۔۔۔۔۔سونو کا ہاتھ دیپا كے کمر پررینگ رہا تھا اور دیپا کا پُورابدن مستی میں تھر تھر

 کانپ رہا تھایہ سب سونو كے لیے بھیبالکل نیا تھا۔

جس نے آج تک کسی لڑکی یاعورت کو چھونا

تو دور آج تک آنکھ اٹھا کر

بری نظر سے دیکھا تک نہیںتھا آج اپنے سامنے چل رہے

کامک(سیکس) کھیل کو دیکھکر وہ بھی بہک گیا تھا ۔

اس بات سے انجان كے وہ سیٹھ كی بیٹی كی کمر کوسہلا رہا ہے ۔۔۔ اگر دیپا اِسبات كی شکایت اپنے پتا

چاندیمال سے کر دیتی تو ،شاید سونو كی خیر نہیں

 ہوتی ۔۔۔۔پر دیپا کا حال بھی کچھ

سونو جیسا ہی تھا ۔۔۔۔ آج

زندگی میں پہلی بار وہ کسیمرد اور عورت كے سیکسبھرے کھیل کو اپنی آنکھوںسے اپنے سامنے دیکھ رہیتھی ،، اور دوسری طرف

سونو کا تنا ہوا لنڈ اس کے

پجامے میں اچھل رہا تھا دیپاکن انکھیوں سے نیچے سونوكے لنڈ كی طرف بھی دیکھ

 رہی تھی ۔۔۔وہ

بھی اپنا ہوش کھونے لگیتھی کیونکہ سونو كے ہاتھ کا استعمال اسے اندر تک ہلا چکاتھا ۔۔۔۔۔ اب وہ خود پر

کنٹرول نہیں کر پا رہی تھی

اور اب اس کا ہاتھ خود بخودسونو كی ٹانگ پر رینگنے لگا

۔۔۔۔

اس نے اپنے آپ کو روکنے كی بہت کوشش کی پر وہ اب 

اتنی گرم ہو چکی تھی کہ وہخود کو روک نہں پا رہی تھیاور اس کا اپنے آپ پر بس

نہیں چل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس کی

شلوار كے اندر سے اس کیچوت میں

سرسراہٹ بڑھنے لگی تھی 

جیسے ہی اس کے کانپتے ہوئےہاتھوں كی انگلیاں سونو كے

لنڈ سے ٹکرائی ، سونو كے منہسے مستی بھری آااااااہ نکلگئی جسے چاندیمال اور

 سیمہ تو نہیں سن پائےپر اس کی یہ مستی بھریآواز سن کر رجنی جو کہاونگھ رہی تھی ۔۔ اس کی

آنکھیں کھل گئیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور

جب اس کی نظر سونو اوردیپا

پر پڑی تو اسکی آنکھیں

کھلی كی کھلی رہ گئیں دیپاکا ہاتھ سونو كی ٹانگ پر تھا

. اور اس کی ہاتھوں كی انگلیاں کانپ رہی تھیں ۔۔۔اور دوسری طرف سونو كے لنڈپر رگڑ کھا رہی تھیں ۔۔۔۔۔وہ اک دم حیران رہ 

گئی ۔۔۔۔۔۔۔ اسے یقین نہیں ہورہا تھا کہ یوں دیپا اتنی بےشرم ہے کہ وہ کھلے عامٹرین میں ہی ایک نوکر كے لنڈ کو اپنے ہاتھ سے چھونےكی کوشش کر رہی

 ہے ۔۔۔۔۔۔۔

آخر اتنی جلدی اس نوکر نے

دیپا پر کیا جادو کر دیا تھا…جو دیپا اسے اتنا چپک کر

بیٹھی تھی… . جب رجنی نےدونوں كی نظروں کا پیچھاکیا تو ، اسے بھیایک اور جھٹکا لگا ۔۔۔۔۔چاندیمال سیمہ كے سامنے

کھڑا ہوا ، اپنے لنڈ کو اس سےرگڑا رہا تھا ۔۔۔۔۔ “ کمینہ”رجنی نے دِل ہی دِل میں

. …چاندیمال کو گالی دیاسے ذرا بھی شرم نہیں ہے “

۔۔۔۔ یہ بھی نہیں دیکھتا كہپاس میں جوان بیٹی

بیٹھی ہوئی ہے ” پر اگلے ہیپل رجنی كے ہونٹوں پر بھی. …مسکان پھیل گئیاسکا کارن یہ تھا کہ ، رجنیدیپا كی سوتیلی ماں ہی

تھی…اور جب سےچاندیمالنے تیسری شادی کرنے کا 

. فیصلہ کیا تھا

تب سے وہ چاندیمال كے

خلاف تھی… . پر اسے چُپ 

کروا دیا گیا تھا ۔۔۔۔ چاندیمالكے اگے کسی كو بولنے كیہمت نہیں ہوتی تھی…

چاندیمال کو وارث دینے میںناکامیاب ہو چکی رجنی كے

…لیے یہ سب سے بڑی ہار تھیاور رجنی جانتی تھی کہ 

چاندیمال اپنی بیٹی دیپا کوجی جان سے پیار کرتا ہے

۔۔۔۔۔۔

اسکی

ہر ضرورت کو پُورا کرتا ہے۔۔۔۔۔ اور رجنی یہ دیکھ کر

بہت خوش تھی کہ اس کیبیٹی اک

نوکر كے ساتھ اپنا منہ کالا

کروا رہی تھی…رجنی کو نا توسونو كی کوئی پرواہ

تھی ، اور نا ہی دیپا كی ۔۔۔۔۔۔ اسے تو اپنے ساتھ ہوئی 

زیادتی کا بدلہ لینا تھا ۔۔۔۔۔۔۔چاہے

وہ کیسے بھی ہو ۔۔۔۔۔۔

اُدھر دیپا کا چہرہ لال سرخ

ہوکر دمک رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اتنیسردی ہونے كے

باوجود بھی اسکے چہرے پرپسینہ آ رہا تھا ۔۔۔۔ایک سائڈبیٹھی رجنی دیپا كی حالت

کو بخوبی سمجھ رہی تھی…. سونو کا ہاتھ دیپا كی کمر

، سے تیرتا ہوا

اسکے چوتڑوں پر آ گیا ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔دیپا كے پورے بدن میںمستی كی لہر دوڑ پڑی۔۔۔۔۔۔؟

اسکی آنکھیں بھاری ہوکر بندہونے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔

جسے دیکھ کر رجنی كے

ہونٹوں كی مسکان بڑھتی جارہی تھی ۔۔۔ دیپا کا بدنتھرتھر کانپ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

سونو نے اپنے ہاتھ پھیلا کر

اسکے چوتر کو اپنی ہاتھوںمیں بھر کر زور سے دبا دیا

”ااااااااہ” دیپا كے منہ سےمستی بھری آہنکل گئی ۔۔۔۔۔

بھلے ہی دیپا یہ سب کچھ

کرنا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ پراس کی حالت ہی کچھ ایسیہو گئی تھی کہ وہ کچھ کر

نہیں پا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ وہ یہ

 بھی جانتی تھی کہاگر یہ بات اس کے پتاچاندیمال کو پتہ چلی ، تو اسکے پتا نے سونو کو رستے میںچلتی ٹرین

سے نیچے پھینک دینا ہے ۔۔۔۔۔یہ سوچ کر دیپا تھوڑا سہمگئی تھی…اور دوسرا کچھ

ماحول بھی گرم ہو چکا تھا

۔۔۔

سونو نے اپنے ہاتھ سے دھیرےدھیرے دیپا كے چوتڑوں کو مسلتے ہوئے ، اپنے ہاتھ كی

انگلیوں کو چوتڑوں كے نیچےلے جانا شروع کر دیا… .جیسے ہی سونو كے ہاتھوںكی

انگلیاں دیپا كے چوتڑوں اورصندوق كے بیچ گھُس رہیتھیں دیپا كے بدن میں 

ناچاہتے ہوئے بھی مستی كی 

لہر دوڑنے لگی پر دیپا کا پُورا وزن صندوق پر تھا . جس کےکارن سونو اپنے ہاتھ كےانگلیوں کو اس کے چوتڑوںكے نیچے نہیں لے جا پا رہا تھا۔۔۔۔۔ دوسری طرف بیٹھی ،رجنی یہ منظر دیکھ دیکھ کر

. …مسکرا رہی تھیرجنی نے اپنا پہلا داؤ کھیلا…اس نے دیپا کو آواز لگائی

۔۔۔۔۔۔ “دیپا وہ پانی كی

بوتل دینا” رجنی كے آواز سنکر دیپا ایک دم سے ہڑبڑا گئی

۔۔۔۔۔ اسکے چہرےکا رنگ اک دم سے اڑ گیا ۔۔۔۔

“جیی جی ابھی دیتی ہوں”اور یہ کہہ کر دیپا پانی

بوتل کو بیگ میں سے نکالنےكے لیے جیسے ہی جھکی ،اسکے چوتڑوں اور صندوق كےبیچ

 میں جگہ بن گئی ۔۔۔ جس کا فائدہ سونو نےبخوبی اٹھایا اور اپنیانگلیوں کودیپا كے چوتڑوں كے نیچے 

 سرکا دیا ۔۔۔۔۔

جیسے ہی پانی كے بوتل کواٹھا کر دیپا سیدھی ہوئی ،اسکی سانسیں اس کے گلےاٹک گئی ۔۔۔۔۔۔ اس کے

چوتڑوں كے ٹھیک نیچےسونو کا ہاتھ تھا ۔۔۔۔۔۔رجنی نے آگے بڑھ کر دیپا كےہاتھ سے پانی كے بوتل لی ،اور جان بوجھ کر دوسریطرف دیکھنے لگی ، تاکہ دیپا

اور سونو کو شک نا ہو کہ وہان دونوں كی رنگ رلیاں

 دیکھ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔دوسری طرف چاندیمال اور

سیمہ اپنے کام میں مصروفتھے ۔۔۔۔۔ انہیں تو جیسے

دنیاداری كی کوئی خبر ہینہیں تھی ۔۔۔۔۔۔ پر ادھر دیپاکا برا حال تھا ۔۔۔ سونو نے

اپنے ہاتھوں كی انگلیوں کو

دیپا كے چوتڑوں كی دراڑ میںمیں چلانا شروع کردیا ۔۔۔۔۔۔دیپا اک دم مست ہو چکیتھی ۔۔۔۔۔اسکی چوت كی

پھانکیں کانپنے لگیں ۔۔۔۔۔

سونو كی انگلیاں دیپا كی گانڈ كے چھید اور چوت كےکونے سے رگڑ کھا رہی تھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیپا كی آنکھیں مستی میں

بند ہوۓ جارہی تھیں اور وہاپنی آواز کو دبانے کیکوشش کر رہی تھی ۔۔رجنی

كے ہونٹوں پر جیت كی خوشیصاف جھلک رہی تھی ۔۔۔۔۔۔اُدھر 

دیپا كے چوت كے اندر آگ لگی……ہوئی تھیرجنی كے دِل میں آج سکون

تھا ، جب سے اسے چاندیمالكی تیسری شادی كی بات کاپتہ چلا تھا ، تب سے وہ اندرہی اندر سلگھ رہی تھی… .

اور آج اپنے گھر كی عزت یا یوں کہیں کہ چاندیمال كیعزت کو ایک نوکر كے ہاتھ کاکھلونا بنتا دیکھ کر رجنی کادل سکون سے بھرا ہوا تھا

۔۔۔۔۔

چاندیمال ایک دم مست ہوکر

اپنی نئی پتنی سے اپنے لنڈ كیمٹھ مروا رہا

تھا ۔۔۔۔۔۔ اور وہ فارغ ہونےکے بے حد قریب تھا ۔۔۔۔۔اسنے اپنا ایک ہاتھ نیچے لے جاکر سیمہ

كے ہاتھ کو کس كے پکڑ لیا ،اور اسکے ہاتھ کو تیزی سےہلاتے ہوئے اپنی مٹھ مروانےلگا ۔۔۔ چاندیمال كے آنکھوںكے سامنے شرابوں سا نشہتیرنے لگا ۔۔۔۔ اس کے

لنڈ نے منی كی بوچھاڑ کر دی

۔۔۔۔۔

چاندیمال کا پُورا بدن ہلکا ہو

 گیا تھا ۔۔

سیمہ کو جب احساس ہوا کہ ،اسکا پتی جھڑ گیا ہے . اس نےاپنا ہاتھ اسکے لنڈ سے ہٹا لیا

۔۔۔۔۔۔ دیپا نے جب دیکھا اسکا پتا پرسکون ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔


اس نے جلدی سے اوپر اٹھ کراپنی گانڈ سے سونو کا ہاتھ باہر نکالا اور دوسری طرف منہ کرکے فاصلے پر بیٹھ

گئی۔ سونو نے جب سیٹھ کیطرف دیکھا تو وہ بھی

دوسری طرف منہ کر کے بیٹھگیا ۔۔۔۔۔

باقی کا سفر آرام سے کٹ گیا ۔۔۔ شام كے 5 بجے

چاندیمال اپنے پریوار كےساتھ اپنے گاؤں میں پہنچ گیاتھا چاندیمال کا گھر پورےگاؤں میں سب سے بڑا تھا اور ہوتا بھی کیوں

نا آخر اسکی دکان آس پاسكے علاقوں میں سب سےمشہور تھی۔۔۔۔۔ اوپر سے

چاندیمال سود پر پیسے بھیدیتا تھا

7 چاندیمال كے گھر میں کل

کمرے تھے ۔۔۔۔ اک رسوئی گھراور نہانے دھونے كے لیے گھركے پیچھے میں بڑا سا باتھروم تھا ۔۔۔۔۔۔۔

گھر كے سبھی لوگ پیچھے بنےباتھ روم میں ہی جاتے تھے۔۔۔۔چاندیمال كے گھر میںایک کنواں بھی تھا ، جو گھرمیں ہونا شان كی بات ماناجاتا تھا اس

دور میں ۔۔۔۔ یوں تو چاندیمالكے گھر کا کام کرنے كے لیے اورصاف صفائی کرنے كے لیے

ایک نوکرانی اور تھی جس کانام بیلا تھا ۔۔۔۔۔ پر اگر گھروالوں کو بازار سے کچھ

سامان منگوانا ہوتا تو ، اُنہیںچاندیمال کو صبح ہی بتانا

 پڑتا

یا پِھر اگر چاندیمال کا دوپہرکو گھر میں چکر لگتا ۔۔۔۔۔۔چاندیمال كے گھر

میں ایک کمرہ چاندیمال اوراسکی دوسری پتنی استعمالکرتے تھے ۔۔۔۔ پر اب

چاندیمال نے تیسری شادی کرلی تھی ۔۔۔۔ اس وجہ سے

چاندیمال نے اپنے کمرے كےساتھ والے کمرے

میں رجنی کا سامان رکھوا

دیا تھا ۔۔۔۔۔ بس اس بات سےرجنی آگ میں جل

رہی تھی ۔۔۔۔۔ اسکی نئی سوتن كے آنے سے پہلے ہی اسسے اسکا کمرہ بھی چھن گیاتھا ۔۔۔۔ پچھلے 10 سال سے

رجنی کسی رانی كے طرح اسگھر پر راج کرتی آئی تھی

۔۔۔۔۔۔ پر اب اسے اپنی ستہختم ہوتے ہوئے محسوس ہورہی تھی رجنی کوجو

 کمرہ دیا گیا تھااس کے بغل والا کمرہ دیپا کا

تھا ۔۔۔ تینوں کمروں كے سامنےدوسری طرف 3 کمرے اور

تھے ۔۔۔۔۔ جس میں سے ایکاس کے ماتا پتا کا تھا ۔۔۔۔۔ 

جو اب چل بسے تھے سامنےكے تینوں کمرے خالی تھے…جیسے ہی چاندیمال کا پریوارگھر میں داخل ہوا ، تو کچھدنوں سے سنسان پڑے گھرمیں جیسے بہار آگئی ہو ۔۔۔چاروں طرف چہل پہل سی

ہوگئی تھی…بیلا بھی آ گئی

. …تھی

اور چاندیمال كے پریوار كے

لیے کھانا اور چائے بنانے میںلگ گئی تھی ۔۔۔۔ سب

اپنا اپنا سامان اپنے کمروں

میں رکھ کر باہر برآمدے میںاکٹھے ہوکر بیٹھ

گے ۔۔۔۔۔ سونو بھی باہر ہیکھڑا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اس بے چارے

پر تو کسی کا دھیان ہی نہیںتھا ۔۔۔۔ وہ اپنا بیگ ابھیبھی اٹھائے کھڑا تھا ۔۔۔۔ جب چاندیمال نے اُس کیطرف دیکھا تو بولا ۔۔۔۔۔۔چاندیمال : ارے بھائی تم یہاپنا جھولا اٹھائے ابھی تک

کھڑے ہو ۔۔۔ہم تو کب كے گھر پہنچ چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

سونو : بابُو جی آپ بتائیںمیں اسے کہاں رکھوں ۔۔۔سونو كی بات سن کر

چاندیمال کچھ دیر سوچنے

كے بَعْد بولا “بیلا او بیلا” اتنےمیں کچن سے بیلا باہر آئی

“جی سیٹھ جی”بیلا نے بڑے

. ادب و احترام سے کہاچاندیمال : ۔ بیلا اسے گھر كےپیچھے جو کمرا ہے دکھا دو

۔۔۔۔ یہ وہیں رہے گا ۔۔۔۔

اس سے پہلے كے کوئی کچھ

بولتا یا کہتا ۔۔۔۔۔ رجنی بیچمیں بول پڑی . “جی اس میںتو جگہ کہاں ہے وہ تو پرانے

سامان سے بھرا پڑا ہے ۔۔۔۔اورویسے بھی پیچھے

اتنی دور اسکو بلانے کونجائیگا ۔۔۔۔۔ آگے تِین کمرےخالی ہیں تو انھیں میں سے

 کوئی دے دو ۔۔۔۔رجنی كے بات سن کر

چاندیمال کچھ دیر كے لیےسوچ میں پڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔پر

چاندیمال جانتا تھا کہ ، سونونوکر ہے ، اور نوکر کا گھر كےبیچ میں رہنا

ٹھیک نہیں ہے اس لیے

چاندیمال نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ ، جس سامان كی

ضرورت نہیں ہے اسے پھینک 

دیا جائے گا اور وہ کمرہ سونوكو استعمال کے لیے دے دیاجائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔

چاندیمال كے بات سن کر

رجنی تھوڑا پریشان ضرور 

ہوئی پر سونو کو پیچھے والےروم میں رکھنے سے بھی

رجنی کو کچھ اعلی چال

سوجھ رہی تھی ۔۔۔ آخر کارگھر كی سبھی عورتیںپیچھے جا کر ہی تو نہاتیتھیں ۔۔۔۔۔ گھر میں سب سےپہلے

چاندیمال نہاتا تھا…اور

چاندیمال كے دکان پر جانے كےبَعْد دیپا اور رجنی

نہاتی تھی ۔۔۔۔۔ اور اب سیمہبھی شامل ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔

چاندیمال نے فیصلہ سنا دیاتھا۔۔۔۔۔۔۔

بیلا نے سونو کو اپنے ساتھچلنے كے لیے

کہا جیسے ہی بیلا سونو کولیکر گھر كے پیچھے كے طرف

گئی ۔۔۔ اس نے واپسی پرپیچھے مڑ

کر ایک بار سونو کو دیکھا 

اسکی آنکھوں میں عجیب سےچمک تھی جب سے اسنے

سونو کو دیکھا تھا…بیلا کاپتی سیٹھ چاندیمال كی دکانپر ہی کام کرتا تھا ۔۔۔۔۔وہ ایکنکما آدمی تھا ۔۔۔۔ کوئی کامکاج نہیں کرتا تھا ۔۔۔۔بس

سارا دن گاؤں كے آدمیوں كےساتھ ادھر اُدھر گھومتا رہتاتھا شراب پیتا اور گھر آکرسو جاتا ۔۔۔۔۔۔

اسی لیے چاندیمال سے کہہ کربیلا نے اپنے پتی کو دکان پرلگوا دیا تھا…اور چاندیمال

نے بھی بیلا كے پتی کو خوبپھٹکارا تھا ۔۔۔۔جس سے وہ

کافی حد تک سدھر گیا تھا وہدکان میں ہی رہتا تھا ۔ بس

دن میں اک بار گاؤں آتا 7-8تھا…چاندیمال اسکی تنخواہبھی بیلا کو ہی دیتا تھا اور

کچھ پیسے اسکے پتی کو بھیدیتا تھا ۔۔۔جب بیلا سونو کو پیچھے بنے کمرے کی طرف لےجا رہی تھی… . تو وہ بار بارپیچھے مڑ کر اسکی طرفدیکھ رہی تھی…بیلا كے عمر

30 سال تھی ۔۔۔۔ اور اک 

بیٹی كی ماں بھی تھی بیٹی بڑی تھی ۔۔۔۔

بیلا كے شادی چھوٹی عمرمیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔اور ایکسال بعد ہی اس نے بیٹی کوجنم دیا تھا ۔۔۔ جسکا نام

بندیا تھا ۔۔۔۔۔ بندیا دیپا سےعمر میں 1 سال چھوٹی تھی

۔۔۔۔۔ سونو کو بیلا کا یوں باربار مڑ کر دیکھنا اور دیکھ کر مسکرانا عجیب سا لگ رہا تھا۔۔۔کیونکہ بیلا سونو سے دگنیعمر كی تھی ۔۔۔۔ اور سونو انسب باتوں اور اشاروں کو

سمجھنے كے لیے میچور نہیںتھا ۔۔۔۔۔

روم كے طرف جاتے ہوئے ، بیلااپنے چوتڑوں کو کچھ زیادہ ہی مٹکا کر چل رہی تھی ۔۔۔۔بیلا اور اسکے پتی كے بیچ

سیکس ختم ہو چکا تھا . جبسے بیلا نے

چاندیمال سے اپنے پتی کی 

نوکری لگوائی تھی…تب سےاس نے بیلا سے سیکس کرنا

بند

کر دیا تھا…بیلا كی چدائی 

… ہوئے 3 سال گزر گئے تھےجب بیلا نے کمرے كے

سامنے جا کر دروازہ کھولا ،اور سونو كے طرف پلٹی “یہ

لو آج سے یہ تمہارا کمرا ہے ”بیلا نے اپنے ہونٹوں پر مسکانلاتے ہوئے کہا ۔۔۔

سونو سَر جھکائے ہوئے روم

میں گھُس گیا ،اور ادھر اُدھردیکھنے لگا . رومپُرانے سامان سے بھرا ہوا تھا .

اتنے میں پیچھے سے چاندیمالبھی آ گیا ، اور کمرے كے اندرجھانکتا ہوا بولا “ہوں سچمیں اس کے اندر تو پراناسامان بھرا ہوا ہے…ایسا کرواپنا جھولا یہیں رکھو کلیہاں سے بیکار سامان باہرنکلوا

دیتے ہیں . . اور آج رات کا

تمھارا سونے کا انتظام کہیںاور کروا دیتا

ہوں ۔۔۔ چاندیمال كی بات سنکر بیلا نے جھٹ سے کہا ۔۔۔۔۔

“سیٹھ جی اگر آپ بولیں تویہ آج ہمارے گھر پر ہی سو

جائے گا چاندیمال کو بیلا كیبات ٹھیک لگی ، اور

چاندیمال نے بیلا کو ہاں کہہدیا ۔۔۔رات ڈھل چکی تھی

۔۔۔۔۔ سب کھانا کھا چکےتھے

۔۔۔۔ اور اپنے کمروں میں جاکر سونے کی تیاری کر رہےتھے۔۔۔۔۔۔چاندیمال تو اِسگھڑی كے لیے پہلے سے ہی بہتاتاولا ہو رہا تھا ۔۔۔۔ بیلا اپناسارا کام نپٹا کر سونو كے

پاس گئی ۔۔۔۔جو کھانا کھا کرآنگن

میں چارپائی پر ہی لیتا ہواتھا ۔۔۔۔۔ “چلو اب چلتے ہیںسارا کام ختم ہو

گیا ہے” سونو نے اچانک سےبیلا كے طرف دیکھا ۔۔۔۔۔جواسکی طرف دیکھتے ہوئےقاتل مسکان اپنے ہونٹوں پر

 لائے ہوئے تھی ۔۔۔۔۔۔اور پِھر سونو اٹھ کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔ بیلا رجنی كے کمرےمیں گئی اور بولی ۔۔۔۔۔۔۔

دیدی سارا کام کر دیا ہے…“اب میں جا رہی ہوں باہر کا

دروازہ بند کر لو ”اسکے بعدبیلا سونو کو لیکرچاندیمال كے گھر سے نکل کراپنے گھر كے طرف جانے لگیرات ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔آپسب لوگ تو جانتے ہی ہوں گے۔۔۔۔اس سمئے میں لائٹ نہیں

 ہوتی تھی ۔۔۔۔ خاص طور پرگاؤں میں ۔۔۔۔۔۔ اس لیے

چاروں طرف اندھیرا چھایا

ہوا تھا ۔۔۔۔۔رستے میں کسی ایک یا دو گھر كےاندر سے لالٹین كے روشنی نظرآ جاتی گاؤں كی گلیوں میں

 سناٹا چھایا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔بیلا سونو كے ساتھ کچھ

گنگناتے ہوئے چل رہی تھیاندھیرے كی وجہ سے سونو

ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں پارہا تھا گاؤں كی گلیوں سے گزرتے ہوئے ،بیلا اور سونو

گاؤں سے باہر آ چکے تھے…اندھیرے اور انجان جگہ كےکارن سونو تھوڑا ڈر رہا تھا

۔۔۔۔

آخر کار اس نے بیلا 

سے پوچھ ہی لیا…” گاؤں توختم ہو گیا ہے ۔۔۔۔اپ کا گھرکہاں ہے ۔۔۔۔۔” بیلا نے پیچھےمڑ کر سونو كے طرف دیکھااور پیچھے كی طرف اشارہکرتے ہوئے کہا . “وہ اُدھر وہوالا گھر ہے” سونو نے اک بارپیچھے مڑ کر اس گھر كےطرف دیکھا…جہاں پر لالٹین

…جل رہی تھی

سونو : ۔ پر پِھر آپ یہاںکیوں آ گئی؟؟؟

بیلا : ۔ وہ دراصل مجھے بہتتیز پیشاب لگا تھا ۔ اس لیےیہاں پر آئی ہوں ۔۔۔ اور سنو

تم بھی یہیں موت لو گھر پر

پیشاب کرنے كے لیے جگہ نہیںہے ۔۔

یہ کہہ کر بیلا اپنی گانڈ 

مٹکاتے ہوئے تھوڑا آگے جا کررکی ، اور اک بار پیچھے مڑ کر6-7 فٹ دور کھڑے سونو كیطرف دیکھا ، اور اپنے لہنگےکو اُوپر

اٹھانے لگی ۔۔۔۔

یہ دیکھ کر پیچھے کھڑے 

سونو كے ہاتھ پاؤں کانپنے لگےاور

وہ نظر چراتے ہوئے ادھر اُدھردیکھنے لگا حالانکہ چاروںطرف اندھیرا تھا مگر آسمانپر آدھا چاند نکلا ہوا تھا جسکی کچھ روشنی تو چاروںطرف پھیلی ہوئی تھی۔۔۔

جیسے ہی بیلا نے اپنے لہنگےکو کمر تک اُوپر کیا ۔ مانوجیسے سونو کے حلق میںکچھ اٹک گیا ہو . اسکیآنکھیں بیلا كی ہلکی سانولےرنگ كی رانوں اور جاندارچوتڑوں پر جم گئیں… بیلاآگے كی طرف دیکھتے ہوئے

مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔ یہ سوچ

کر کہ ، پیچھے کھڑا سونو اسکی گانڈ دیکھ کر بہک رہا

ھوگا . اور سونو بہک بھی گیاتھا ۔۔۔۔

بیلا کی گانڈ کو دیکھتے ہی سونو کا لنڈ اس کے پجامےمیں ایکدم تن کر کھڑا ہو گیا

اس کے لن نے بھی ایک ہی دنمیں دو دو گانڈیں دیکھیتھیں ۔ بیلا نے اپنے ایک ہاتھسے اپنے لہنگے کو پکڑا ہوا 

تھا اور اس نے دوسرے ہاتھسے ایک بار اپنی چوت كیپھاڑیوں کو کھجایا ، اوردھیرے سے نیچے پاؤں کے بل

 

جاری ہے

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی