خاندانی۔۔ تعلقات ۔۔۔۔قسط (1)

 














میں ایک آ پر مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرا نام منور شاہ ہے۔ میں پینتالیس سال کا صحت مند، سانڈ جیسا فِٹ انسان ہوں۔ لاہور والڈ سٹی کا رہنے والا ہوں۔ جو لوگ اندرون لاہور سے ہیں یا اُس کا ماحول، رہن سہن جانتے ہیں، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ وہاں کا ماحول کیسا ہے۔ مطلب گلیاں، گھر اور بول چال، رہنا سہنا کس طرح کا ہے۔




یہ کوئی بہت پرانی کہانی نہیں ہے، ابھی کچھ ماہ پہلے یعنی 2019 کے آخر دنوں کی بات ہے جب یہ سارا سلسلہ شروع ہوا۔ تو چلتے ہیں کہانی کے کرداروں کی طرف۔




میرا نام تو میں بتا ہی چکا ہوں، منور شاہ۔ میری عمر پینتالیس سال ہے۔ میری بیوی کی موت ہو چکی ہے، اس لیے اُس کا کوئی کردار بھی یہاں نہیں آئے گا اور نہ ہی تعارف کروایا جائے گا۔ میں کافی مضبوط ہوں، اب تک یوں سمجھ لیں کہ سوکھا دُبلا پتلا تو بالکل بھی نہیں ہوں۔ ہاں، تھوڑا سا ہیلتھی ہوں لیکن پیٹ بالکل بھی نہیں نکلا ہوا۔ آپ مجھے کسی حد تک ہینڈسم کہہ سکتے ہیں۔




نائمہ (نِمی)… میری بڑی بیٹی بائیس سال کی ہے۔ باپ کی حیثیت سے بولوں تو ایک خوبصورت، حیا دار لڑکی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ (جو مجھے پتا چلا اور سامنے آیا) ایک دم چالاک اور موقع پرست قسم کی لڑکی۔




(آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کیسا باپ ہے اپنی ہی بیٹی کے بارے میں کیا کچھ لکھ رہا ہے، تو بات ایسی ہے کہ یہاں میں اُس مقام سے لکھنا شروع کروں گا جہاں سے سچائی میرے علم میں آئی اور میں نے بچوں کو صحیح طرح جانا۔ تو اُسی حساب سے لکھوں گا بھی۔)




نادیہ… میری چھوٹی بیٹی جو اکیس کی ہونے والی ہے۔ اپنی بڑی بہن کی کاپی ہے لیکن عادت اور مزاج میں بالکل اُلٹ۔




ریحانہ (روہی)… عمر ہے ابھی انیس سال۔ مست مولا قسم کی، ہر وقت ہنسی مذاق میں مگن۔ دل کی بادشاہ قسم کی ہنس مُکھ، ایک پیاری سی لڑکی جو میرے ساتھ اپنے بہن بھائیوں کی جان ہے۔




راشد (رشی)… یار دوستوں اور اسکول میں مگن، میری ہی طرح تگڑی صحت کا مالک، سوہنا جوان۔




یہ تو تھا جی تعارف۔ اب چلتے ہیں کہانی کی طرف…




تو دوستو! بات کچھ یوں ہے کہمیں انہی گلیوں کا رہائشی ہوں کہ جس کے بارے میں جناب یوسفی نے لکھا تھا کہ لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر مرد و عورت آمنے سامنے آ جائیں تو نکاح کی گنجائش ہی بچتی ہے۔






میرے ابا نے شاید اپنی جوانی میں ہی بھانپ لیا تھا کہ یہاں پر رہنے کے ساتھ ساتھ گزارے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ شاید اسی لیے ابا مرحوم نے اپنے گھر کے ساتھ ملنے والے چھ مکان ایک ایک کر کے خرید لیے اور اُن کو کرایہ پر چڑھاتے گئے۔




یوں سمجھ لیجیے کہ اگر آج میں چاہوں تو ہمارے سب مکانوں کو ملا کر، کچھ دیواریں ہٹا کر ایک ہی گھر بنا سکتا ہوں۔ لیکن اس سے آمدنی ختم ہو جائے گی، جو کہ کسی کا دل نہیں چاہتا۔ اس کے علاوہ یہاں قریب ہی ایک بڑی مارکیٹ میں تین دکانیں بھی ہماری ہیں جن میں سے ایک پر میں کپڑوں کا کام کرتا ہوں۔




بس یوں سمجھ لیجیے کہ صبح نو بجے کا نکلا، رات دس گیارہ بجے کا وقت ہو جاتا ہے واپسی۔ میری بیوی کی زندگی میں تو میرے لیے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا، لیکن اُس کی موت کے بعد میں اکثر گھر کا چکر لگا لیا کرتا، بچوں کا حال احوال دیکھ لیا کرتا کیونکہ اب کوئی بڑا تو تھا نہیں گھر پر، تو مجھے ہی یہ سب دیکھنا پڑتا تھا۔




ایسے ہی نومبر 2019 کا ایک دن تھا۔ بارش بھی ہوئی تھی جس سے سردی کافی بڑھ چکی تھی کہ میں دکان سے گھر نکلا کہ چلو آج کھانا گھر پر ہی کھا لیتا ہوں۔ جب میں گھر پہنچا تو دروازہ کھلا ہوا تھا جو کہ نارمل بات تھی، کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا۔ آس پاس پڑوس کی طرف سے بڑی بوڑھیوں کا اور بچیوں کا آنا جانا ہو جاتا تھا تو دروازہ لاک نہیں کیا جاتا تھا کہ بار بار دروازہ کون کھولے۔




یہ تو یہاں سب گھروں کا ہی ماحول تھا اور اب بھی ہے۔ میں نے بائیک کو باہر ہی کھڑا کیا اور اندر چلا آیا تو مجھے کوئی بھی دکھائی نہیں دیا کیونکہ رشی، روہی اور نادیہ تو ابھی کالج سے آنے والے تھے۔ لیکن نِمی بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی کیونکہ یہ وقت اُس کا کچن دیکھنے کا ہوتا تھا۔ تو میں اُسے دیکھنے اُس کے کمرے کی طرف گیا۔




میں نے جیسے ہی نِمی کے کمرے کا دروازہ کھولا تو مجھے نِمی بیڈ پر اُلٹی لیٹی موبائل سے کسی سے بات کرتی دکھائی دی۔ لیکن تب تک نِمی بھی دروازہ کھلنے کی آواز سے بوکھلا گئی تھی اور کال کاٹتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی اور بولی:




نِمی: پاپا! آپ… آپ کب آئے؟




میں… اپنی بیٹی کی بوکھلاہٹ کو دیکھتے ہوئے اندر ہی اندر مر سا گیا، ڈوب سا گیا۔




(کیونکہ بھلے ہی میں اُس کا باپ تھا لیکن بازاروں میں اُٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا، میری ہر وقت انسانوں میں ہی زندگی گزری تھی۔ میرا کوئی دودھ پیتا بچہ تو تھا نہیں کہ کچھ سمجھ نہ سکتا۔)




نِمی… جو تب تک خود کو سنبھال چکی تھی، بولی: پاپا کہاں گم ہو گئے آپ؟




میں: کچھ نہیں بیٹا، بس ایسے ہی سوچا کہ کیوں نہ آج کھانا گھر ہی کھا لوں۔




نِمی: میں تو کب سے بولتی رہتی ہوں کہ آپ باہر کھانا نہیں کھایا کریں، گھر آ جایا کریں، پر آپ میری سنتے ہی نہیں۔ چلو اب بیٹھیں، آپ باہر، میں کھانا نکالتی ہوں آپ کے لیے۔




یہ کہہ کر نِمی کمرے سے کچن کی طرف چل دی اور میں سر جھکا کر رہ گیا کیونکہ میں اپنی ہی سگی بڑی بیٹی کی باتوں اور ہمت کو سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آخر اُس میں اتنی ہمت آئی کہاں سے یا پھر مجھے غلط فہمی ہو رہی ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔




اسی سوچ بچار میں میں باہر جا کر بیٹھ گیا تو کچھ ہی دیر میں نِمی میرے لیے کھانا لے کر آ گئی۔ تو میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی کھانا کھایا کہ کہیں نِمی کو شک نہ ہو کہ میں نے اُس پر شک کر لیا ہے۔




کھانا کھا کر میں گھر سے نکل آیا اور سیدھا دکان پر جا بیٹھا۔ لیکن میرے ذہن میں بس نِمی کی ہی سوچ چلتی رہی کہ کیا سچ میں میری بیٹی ہاتھ سے نکل رہی ہے یا مجھے غلط فہمی ہوئی ہے؟




میں نے اب سوچ لیا تھا کہ میں اس بات کی کھوج ضرور لگاؤں گا۔ لیکن سچ کہوں تو تین ماہ تک میں نے اپنی طرف سے ہر طرح سے جاسوسی کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی بھی نتیجہ نہیں نکلا۔ مطلب مجھے کچھ بھی نہیں ملا تو میرا شک ختم ہونے لگا اور خود پر غصہ آنے لگا کہ میں نے بلاوجہ ہی اپنی بیٹی پر شک کیا۔




میرا شک تقریباً ختم ہو چلا تھا کہ اُن دنوں لاک ڈاؤن کا شور شروع ہو گیا۔ اور میں اس سب کی ٹینشن میں ہی لگا ہوا تھا کہ میرا ایک مکان جو گھر کے بالکل ساتھ دائیں طرف تھا اور چھت بھی ملی ہوئی تھی، خالی ہو گیا کیونکہ وہ لوگ اپنے گاؤں جا رہے تھے۔ اور لاک ڈاؤن بھی ہونے والا تھا، کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ لاک ڈاؤن ہو گا یا نہیں۔ اس ہلچل میں مکان کرایہ پر نہیں چڑھ پایا۔




اور پھر اچانک سے لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تو ہر طرف بے چینی سی پھیل گئی کہ اب کیا ہو گا، کیسے ہو گا۔ اسی سب میں دو سے تین دن نکل گئے تو ہم سب دوستوں نے، جو اکثر چھٹی والے دن رات رات بھر گلی میں تھڑوں پر بیٹھ کر تاش (Playing Cards) کھیلا کرتے تھے، میرے خالی مکان کو ڈیرہ بنا لیا کیونکہ اب باہر تو بیٹھ نہیں سکتے تھے لاک ڈاؤن کی وجہ سے۔




اس سب میں لاک ڈاؤن کو ایک ہفتہ گزر گیا کہ ایک دن میرا ایک دوست اپنے موبائل پر کسی سے چیٹ کر رہا تھا اور بڑا خوش ہو رہا تھا۔ میں نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: کیوں حرامی! لاٹری لگ گئی ہے کیا تیری؟




دوست: ایسا ہی سمجھ یار۔




میں: کیا مطلب؟




دوست: یار، میرے محلے کی ایک عورت ہے، مجھے اچھی طرح پہچانتی بھی ہے لیکن کبھی گھاس نہیں ڈالتی تھی۔ تو میں نے پتا ہے کیا کیا؟




میں: بتائے گا تب پتا چلے گا نا۔




دوست: ایک نیا آئی ڈی بنا کے اُس کے ساتھ فیس بک پر دوستی کی اور اب آہستہ آہستہ وہ سیٹ ہو گئی ہے۔ لیکن ابھی تک یہ نہیں جانتی کہ وہ میرے ساتھ سیٹ ہے۔ اور ہاہاہا کر کے ہنسنے لگا۔




میں: سالے بڑا حرامی ہے تو۔




ہم لوگ کچھ دیر ایسے ہی گپ شپ کرتے کھیلتے رہے لیکن میرے دماغ میں شاید اُس کا آئیڈیا کہیں اٹک سا گیا تھا۔ شام کو سب لوگ چلے گئے تو میں بھی مکان کو لاک لگا کر گھر آ گیا۔ لیکن گھر میں آتے ہی سامنے بیٹھی نِمی پر نظر پڑی تو پتہ نہیں کیوں ایک شیطانی خیال سا دماغ میں آیا کہ کیوں نہ میں بھی اس آئیڈیا سے اپنی بیٹی کو چیک کروں۔




اس آئیڈیا سے مجھے خود پر گھن بھی آئی، لیکن جتنا میں خود کو لعن طعن کرتا، اتنا ہی وہ آئیڈیا آزمانے کے لیے دل مچلنے لگتا۔ اور وجہ یہ دماغ میں آتی کہ میں کون سا کچھ غلط ارادہ رکھتا ہوں، بس دیکھوں گا کہ بچے کیا کرتے ہیں۔




کھانا وغیرہ کھا کر میں کمرے میں گیا اور ایک نیا آئی ڈی بنا کر پہلے ایسے ہی یہاں وہاں کے لوگوں کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی جن کو میں جانتا تک نہیں تھا۔ اور پھر ایک ریکوئسٹ نِمی کو بھی بھیج دی اور لگا انتظار کرنے۔




نِمی نے بھی شاید میرے صبر کا امتحان ہی لینا تھا جو وہ ریکوئسٹ قبول نہیں کر رہی تھی۔ اور وہیں میں نئے آئی ڈی سے سیکس اسٹوریز، پورن پکچرز اور اسی طرح کے کافی پیجز کو بھی لائک کرتا رہا کہ اگر نِمی دیکھے گی تو اگر وہ بھی یہ سب پسند کرتی ہوگی تو ریکوئسٹ قبول کر لے گی۔




لیکن نِمی نے ریکوئسٹ قبول نہیں کرنی تھی، نہ ہی کی۔ ایسے ہی رات بھی گزر گئی اور اگلا دن بھی نکل گیا کہ شام کو مجھے "پری جان" کے نام سے ایک ریکوئسٹ ملی میرے فیک آئی ڈی پر۔ جسے میں نے چیک کیا تو وہاں ویسا ہی سب کچھ تھا جو کچھ میرے پیج پر تھا، مطلب سیکس، سیکس اور بس سیکس۔ لیکن ایک خاص بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ "لوکیشن: لاہور والڈ سٹی" لکھی تھی۔




اس کے علاوہ ایک اور خاص بات کہ اُس پیج پر کچھ تصویریں بھی اپلوڈ کی گئی تھیں جن میں ایک نوجوان لڑکی کی آدھی ننگی تصویریں تھیں۔ جن میں اُس لڑکی کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ لیکن میرے لیے چونکانے والی بات یہ تھی کہ یہ سارا منظر میرا جانا پہچانا تھا، مطلب جگہ۔






ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی