جی ہاں، وہ جگہ جہاں اُس لڑکی کی آدھی/نیم ننگی تصویریں تھیں جو کہ برازیئر، پینٹی یا قمیض اُٹھا کے برازیئر، شلوار میں اس قسم کی تھیں — غور کرنے پر مجھے یقین ہو گیا کہ یہ ہمارا اپنا ہی گھر ہے۔ مطلب گھر کی چھت، میرے کمرے میں بھی تصویریں بنائی ہوئی تھیں اور نمی کے کمرے کی بھی۔ یہ سب دیکھ کر میں کچھ دیر تو حیران و پریشان رہ گیا کہ یہ کیا ہے اور کیوں ہے۔میں جو کہ تب تک مطمئن ہو چکا تھا کہ میری بیٹی کوئی گڑبڑ نہیں کر رہی، اب سارا کچھ میرے سامنے آ چکا تھا اور مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ میں اب کروں تو کیا کروں۔ لیکن حیرت کی بات جو یہاں آپ کو بتاتا چلوں کہ پتا نہیں کیوں،لیکن سچی بات یہ ہے کہ مجھے ذرا بھی غصہ نہیں آ رہا تھا۔ ہاں، دکھ ضرور ہو رہا تھا کہ میری اپنی بیٹی بھی اس سب میں شامل ہو چکی ہے اور اُس کا جوان آدھا ننگا جسم میرے موبائل پر میرا امتحان لے رہا تھا۔ میں کوئی انتہائی شریف یا پاک صاف آدمی بھی نہیں تھا کہ میں نے کبھی کچھ نہ کیا ہو— جہاں انسان کے پاس تھوڑا پیسہ ہوتا ہے وہاں انسان اپنی اوقات بھی دکھاتا ہے۔ اور میں بھی اکثر یہ سب کیا کرتا رہا ہوں۔ مطلب کسی طوائف کے ساتھ میں نے کبھی نہیں کیا، لیکن اس کے علاوہ اگر کوئی پھنس گئی تو کبھی نہیں چھوڑا۔ زور زبردستی یا بلیک میل کرنا مجھے کبھی بھی پسند نہیں رہا۔
اب میرے سامنے دو آپشنز تھے: ایک یہ کہ گھر جاؤں اور نمی کو دو تماچے رسید کروں اور موبائل چھین لوں اور جلدی ہی اُس کی شادی کرا دوں۔لیکن ایسا کرتا تو سو طرح کے سوال جنم لیتے: کیا ہوا؟ اتنی جلدی کیوں؟ کچھ الٹا سیدھا تو نہیں کر بیٹھی — بن ماں کی بچی ہے، بگڑ گئی ہو گی وغیرہ۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ میں درخواست قبول کر لوں اور آہستہ آہستہ نمی کو سمجھاؤں کہ وہ جو کر رہی ہے غلط ہے،عزّت خراب ہو جائے گی وغیرہ۔ لیکن یہ تھی اصل میں میرے اندر کی آواز، اور کافی سوچ بچار کے بعد میں درخواست قبول ہی کر لی۔
ابھی میں نے درخواست قبول ہی کی تھی کہ تبھی میرے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی — دیکھا تو نمی کی کال ہی تھی، جسے میں نے قبول کر لیا۔ تو دوسری طرف سے نمی نے کہا: نمی:پاپا! کہاں رہ گئے ہو؟ آپ کھانا نہیں کھاؤ گے کیا؟ میں:بیٹا، آج میرے دوست آ رہے ہیں، تم ایسا کرو میرا کھانا یہی بھیجوا دو بھائی رشی کو دے کر۔ نمی:ٹھیک ہے، تو کیا آپ رات نہیں آئیں گے؟ میں:یہاں ہی سو جاؤں گا۔ نمی:جیسا آپ کی مرضی۔
نمی سے بات کر کے میں نے موبائل ایک طرف رکھا اور باتھ روم چلا گیا تازہ دم ہونے کے لیے۔ باتھ روم سے آیا تو تبھی رشی بھی کھانا لے کر آ گیا، تو میں نے اُسے کھانا رکھ کر جانے کو کہا اور ساتھ ہی یہ بھی بول دیا کہ دروازہ لاک کر لینا۔ تو رشی چلا گیا۔ رشی کے جانے کے بعد میں نے آرام سے کھانا کھایا،برتن ایک طرف رکھ کے اٹھا اور دروازہ لاک کر کے واپس آ کر لیٹ گیا۔ سگریٹ سلگا کر دھواں اڑاتے ہوئے اپنی بیٹی کی جعلی شناخت پر پہلا پیغام بھیجا جس میں لکھا تھا: "ہلو میری پیاری"۔ لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آ رہا تھا،تو میں سمجھ گیا کہ وہ ابھی گھر کے کاموں سے فارغ نہیں ہوئی ہوگی، تو میں جان بوجھ کر "ہلو کہاں رہ گئی؟ جواب تو دے دو" لکھتا رہا۔
نمی کی طرف سے پھر بھی کوئی جواب نہیں آ رہا تھا، لیکن وہ آن لائن ہی تھی ابھی تک۔ آخر کوئی نو بج کر تیس منٹ کے قریب نمی کی "پری جان" والی شناخت سے مجھے پہلا جواب ملا جو کچھ اس طرح تھا:
پری: (یہاں میں نمی کو "پری" ہی لکھتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے انجان رہی) ہلو میرے نئے بوڑھے دوست، کیوں اتنا بے چین ہو رہے ہو؟ میںتھوڑی حیرانی سے) تم کو کیسے لگا کہ میں بوڑھا ہوں یا جوان؟ پری:تاریخِ پیدائش لکھ رکھی ہے جناب نے۔ میں:بڑی پہنچی ہوئی چیز لگتی ہو پری جی۔ پری:تبھی تو آپ جیسے بوڑھوں سے بھی بات کرتی رہتی ہوں۔ میں:تمہیں ڈر نہیں لگتا کہ باپ یا بھائی کسی کو کبھی پتہ چل گیا یا شوہر کو تو پھر کیا ہوگا؟ پری:دیکھو میرے بوڑھے دوست، اگر تو نصیحت کرنی ہے تو کہیں اور جاؤ، سمجھے؟ بات شوہر کو تو ابھی ہے نہیں، باقی باپ یا بھائی تو کیا وہ لوگ باہر منہ نہیں مارے ہیں؟ میں:اوہ۔۔۔ اتنا غصّہ میری میٹھی بچی! پری:تو پھر کیا کروں؟ سارا موڈ ختم کر رہے ہو۔ اوپر سے ابھی کوئی اچھا دوست بھی آن لائن نہیں ہے۔ میں:میرے ساتھ بہترین دوستی کر لو، پھر ہر وقت حاضر رہوں گا۔ پری:مجھے تو لگتا ہے ہر وقت سمجھاتے رہنے میں لگے رہو گے۔ میں:بیٹی کی عمر کی ہو نا اسی لیے۔ پری:بس کرو یار، ابھی خود کی بیٹی نے ذرا بھی جھلک دکھلا دی نا تو ہاتھ سے پکڑ کے ہلاتے پھرو گے۔ میں:یار بڑا غصّہ میں ہوں۔ پری:تو پھر کیا کروں؟ پتہ ہے دس دن ہو گئے ہیں، ذرا بھی موقع نہیں مل رہا مزے کا، سب لوگ گھر پر ہوتے ہیں، ہر وقت باہر جا نہیں سکتی، لاک ڈاؤن ہے۔ میں:اوہ۔۔۔ یہ تو تھوڑے دنوں میں ختم ہو ہی جانا ہے، ہمیشہ تو نہیں رہے گا نا؟ پری:تب تک کیسے برداشت کرو گی؟ میں:تو تم نے ہی تو ایک بات کہی تھی، مجھے اُسی پر عمل کر ڈالوں۔ (پتا نہیں کیوں میں ایسی بات کر بیٹھا تھا) پری:کون سی؟ میں:وہی کہ اگر بیٹی نے ذرا بھی جھلک دکھلا دی تو ہلاتا پھروں گا۔ پری:مطلب سمجھا نہیں میں؟ میں:مطلب یہ کہ تم کیوں نہیں باپ کو یا بھائی کو جھلک دکھلا دیتی؟ پری:پتا ہے، پاپا کو ایک بار شک ہو گیا تھا — تین ماہ ہوگئے ہیں جاسوسی کرتے ہوئے — اگر ذرا بھی اُن کو پتہ چلا نہ میرے بارے میں تو شاید کچھ کر ہی بیٹھیں۔
(میں دُکھی اور چونک گیا یہ سن کر کہ نمی کو اس بارے میں بھی پتہ تھا کہ میں اُس کی جاسوسی کرتا رہا ہوں) میں:مطلب وہاں دال نہیں گلنے والی؟ پری:ہاں، یہی تو کہا ہے۔
میں: تو کسی بھائی کو پیٹ لو پری:اُس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے بوڑھے دوست، وہ تو سمجھو جب چاہوں ہاتھ میں کر لوں لیکن باقی دو بہنوں کا کیا کروں، ہر وقت چِمٹی رہتی ہیں۔ میں:اوہ۔۔۔ تم تو پاگل کر ڈالو گی۔ پری:ٹھیک ہے، اللہ حافظ! میرا دوست آ گیا، پھر بات ہوگی۔
نمی سے ہوئی یہ تھوڑی سی بات نے مجھے من ہی من بدل کر رکھ دیا تھا۔ کہاں تو میں اپنی بیٹی کو پیار محبت سے بہلا پھسلا کے اس سب سے بچا کے رکھنا چاہتا تھا، اور کہاں اُس سے گپ شپ کے بعد من ہی من اُس سے اور بھی کھلی گپ لگانے کو بے چین ہوتا جا رہا تھا۔ اسی لیے میں نے اُس کے اللہ حافظ کہنے کے باوجود بھی اسے پیغامات بھیجے لیکن اُس کی طرف سے جواب نہیں ملا۔ میں تھک کے موبائل کو ایک طرف رکھا اور سگریٹ پینے لگا اور سوچنے لگا کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے،میں ایسا کیوں کر رہا ہوں؟ آخر کو نمی میری بیٹی ہے، میرا حق تو یہ بنتا ہے کہ میں اُس کو دو لگا کے اس سب سے بچاؤں، لیکن اُلٹا میں ہی اپنی بیٹی کے ساتھ ننگی باتوں کا مزہ اُٹھانے میں لگ گیا تھا۔ ان سب سوچوں نے مجھے کافی دیر تک بے چین کیے رکھا،جس سے میرے سر میں درد ہونے لگا۔ تو میں اُٹھا اور چائے بنا کے لے آیا۔ اپنے لیے چائے سے سر درد تو کم ہوا لیکن سوچیں تھیں کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہی تھیں کہ تبھی کوئی گیارہ کے قریب نمی کی شناخت سے جواب آیا۔
پری: ہلو میں:ہو گئی بات دوست سے؟ پری:ہاں ہو گئی۔ میں:بڑی لمبی بات چلی، اُس سے کوئی خاص دوست ہے؟ پری:ابھی تک خاص والا معاملہ نہیں ہوا جی۔ میں:اوہ۔۔۔ تو خاص دوست بن سکتا ہے؟ پری:ہاں سوچ رہی ہوں۔ میں:دیکھ لینا، کوئی پنگا نہ کر دے۔ آج کل کے لڑکے تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ خود تک نہیں رہتے، سارے دوستوں کے ساتھ بانٹ دیتے ہیں۔ اگر یہ بھی ایسا ہی نکلا تو کیا کرو گی؟ پری:بس یہی ڈر لگتا ہے۔ میں:ابھی تک کسی کے ساتھ اصل مزہ کیا ہے؟ پری:کسی حد تک۔ میں:اوہ واہ۔۔۔ لیکن کسی حد تک کا کیا مطلب ہے؟ پری:مطلب یہ، میرے بوڑھے دوست، کہ لیا تو ہے لیکن صرف کھیل تماشے کا ہی۔ میں:کوئی بچہ قابو کر لیا ہے کیا؟ پری:ارے نہیں۔ میں:پھر؟ پری:رہنے دو، کیا فائدہ؟ آپ ویسے ہی پتا نہیں کیا سوچو گے۔ میں:یار، سوچنا کیا ہے؟ یہاں نہ میں تمہیں نام سے جانتا ہوں نہ تم مجھے۔ جو کبھی بدنامی کا ڈر رہے۔ پری:ہاں یہ بھی صحیح ہے۔ میں:تو بتاؤ پھر۔ پری:سنو، تم جیسے بوڑھے بھی نا بڑے چنچل ہوتے ہیں۔ میں:اب اتنا بوڑھا بھی نہیں ہوں۔ پری:اچھا جی۔ میں:ہاں جی، اب بتاؤ گی بھی یا ہوا میں اُڑانے کی ہو رہی ہے؟ پری:ارے نہیں، بس ایک لڑکی ہے، اُسی سے۔ میں:کیا؟ پری:اتنا حیران کیوں ہو رہے ہو؟ میں:یار، بات ہی ایسی کی تم نے۔ ہجڑے کے ساتھ کہاں مل گئی تمہیں؟ پری:ہمارے ساتھ ہی ایک فیملی رہتی ہے، ہمارے ہی مکان میں کرایے پر۔ اُن کی ہی چھوٹی بیٹی ہے مسکان، اُسی کے ساتھ۔ لیکن وہ لڑکی نہیں، ہجڑا ہے۔ اور یہ بات محلے میں کسی کو نہیں پتا ہے۔ میں:اوہ۔۔۔ اور تمہیں کیسے پتا چلا؟ پری:لگ ہی جاتا ہے، پتا بھی ہے۔ میں:اور اسی لیے اب اصل لڑکا ڈھونڈ رہی ہو؟ پری:جی ہاں۔ میں:یار، بڑی چالاک ہو تم تو۔ پری:اب ہم کیا بتائیں بھلا۔ میں:صحیح مزہ دیتی ہے کیا وہ ہجڑا؟ پری:سچ بولوں تو مزہ تو بہت ملتا ہے لیکن وہ بات نہیں ہے جو بڑے میں ہوتا ہے۔ میں:اچھا جی، بڑا چاہیے؟ پری:ہاں جی، لیکن آپ کا نہیں۔ میں:کیوں؟ پری:سب تو نچوڑ چکی ہوگی آپ کی بیوی، باقی کیا بچا ہوگا؟ میں:ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے۔ پری:دیکھنا بھی نہیں ہے، ہاہاہا۔ میں:اچھا، وہ ہجڑا وقت کتنا لگاتی ہے؟ پری:وقت کافی ہے اُس کا۔ میں:کتنا؟ پری:جتنی میں چاہوں وقت دیتی ہے۔ لیکن بس چھوٹا ہے اور پتلا بھی۔ اسی لیے وہ مزہ نہیں مل پا رہا جس کی مجھے چاہ ہے۔ میں:چلو کوئی بات نہیں، لیکن ایک مشورہ ہے۔ پری:کیا؟ میں:دیکھ بھال کر، کہیں پھنس نہ جانا۔ اگر پھنس گئی تو سب خلاف ہو جائیں گے، باپ بھی، بھائی بھی، دنیا بھی۔ سمجھی؟ پری:سمجھتی ہوں۔ خیر، وقت کافی ہو گیا ہے۔ ٹھیک ہے،بائے ۔ میں:ٹھیک ہے، بائے ۔