خاندانی تعلقات قسط 10

 














نمی سے اس چیٹ نے تو مجھے اندر تک خوش کر دیا تھا اور اس خوشی کا اظہار میرے چہرے سے تو ہو ہی رہا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ میرا لن بھی بری طرح جھوم جھوم کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہا تھا۔ اس کی وجہ آپ لوگ سمجھ ہی چکے ہوں گے کہ یہ خوشی صرف اس وجہ سے تھی کہ آج پہلی بار میری اپنی سگی بڑی بیٹی یہ جانتے ہوئے بھی کہ جس آدمی سے وہ چیٹ کر رہی ہے وہ کوئی اور نہیں اس کا اپنا سگا باپ ہے۔ بس اتنا فرق ضرور تھا کہ اسے یہ نہیں پتا تھا کہ سامنے سے میں بھی یہ بات جانتا ہوں۔ اس کے خیال میں مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ میں اپنی ہی بیٹی سے سیکس چیٹ کر رہا ہوں۔ اسی لیے وہ آہستہ آہستہ کھلتی جا رہی تھی اور یہی میری کامیابی تھی۔

میں کافی دیر تک انہی خیالوں اور سوچوں میں گم رہا اور کب سویا پتا بھی نہیں چلا۔ اگلی صبح جاگا تو بغیر ہاتھ منہ دھوئے ہی گھر چلا گیا کیونکہ نو بج چکے تھے اور بھوک بھی زوروں کی لگ رہی تھی۔ جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا تو وہی کل والی نکر اور ٹی شرٹ میں تھا۔ سامنے کچن سے نکلتی نمی کی نظر سیدھی مجھ پر پڑی تو میں اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا اور بولا:

میں: ہیلو بیٹا، کیسی ہو؟

نمی: (ترچھی نظر میرے لن کی طرف دیکھ کر بولی) ٹھیک ہوں پاپا۔

میں: (کیونکہ ایک تو میں سو کر اٹھا تھا اور پیشاب بھی آیا ہوا تھا، اوپر سے نمی کو دیکھ کر میرا لن تھوڑا سا سخت ہو گیا تھا جسے نمی آنکھ بچا کر دیکھ رہی تھی) ناشتہ تیار ہے؟

نمی: ہاتھ منہ تو دھو لیں پاپا جی، آپ تو دن بہ دن کام چور ہوتے جا رہے ہیں۔ پتا نہیں یہ لاک ڈاؤن کب کھلے گا۔

میں: کیوں بیٹی، کیا تمہیں میرا سکون سے گھر رہنا اچھا نہیں لگ رہا؟

رشی: ہاہاہا، پاپا جانی، آپی کو عادت ہو گئی ہے نا ہم سب پر حکم چلانے کی، اور آپ پر تو ان کا حکم چلتا ہی نہیں۔

نمی: ہاں، تم لوگ تو جیسے سر جھکا کر کھڑے میرے حکم کا ہی انتظار کرتے رہتے ہو نا سارا دن۔

میں: اوکے اوکے، لڑنا نہیں ہے بابا۔ اور نمی بیٹی، میرا ناشتہ روم میں ہی لے آنا۔

نمی: جی پاپا۔

اس سے پہلے کہ بہن بھائی اپنی بوریت دور کرنے کے لیے میرے سامنے لڑائی ڈرامہ شروع کرتے، میں نے وہاں سے کھسک لینا ہی بہتر سمجھا اور روم میں جا کر نہایا۔ صرف گیلی نکر پہن کر باہر نکلا تو نمی کو اپنے روم میں ہی کھڑا دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا اور بولا:

میں: بڑی جلدی لے آئی ناشتہ بیٹی۔

نمی: (میرے گیلی نکر سے جھلکتے لن کو میٹھی نظروں سے دیکھ کر بولی) کیوں پاپا جی، آپ نے ہی تو جلدی کا کہا تھا۔

میں: چلو کوئی نہیں، لاؤ جلدی سے دے دو (ذرا سا ڈبل میننگ میں)۔

نمی: آپ بیڈ پر بیٹھ تو جائیں۔

میں: لو جی، بیٹھ گیا، اب تو دے دو۔

نمی: ایک تو نا پاپا، آپ جلدی بڑی مچاتے ہو۔

اتنا بول کر نمی سائیڈ ٹیبل سے ناشتہ اٹھا کر میرے سامنے جھک جھک کر رکھنے لگی اور میں آج جان بوجھ کر اپنا لنڈ مسلتے ہوئے اپنی بیٹی کے کھلے گلے سے جھانکتے بوبز کی طرف دیکھنے لگا۔ نمی سیدھی ہوتی ہوئی میری طرف دیکھنے لگی۔

نمی: (مجھے اپنے بوبز کی طرف دیکھتا دیکھ کر بولی) کیا ہوا پاپا، شروع کرو نا۔

میں: ہہہ… ہاں ہاں، کر رہا ہوں۔ تم تب تک چائے بنا لاؤ۔

نمی: لا رہی ہوں۔

پتا نہیں کیوں لیکن میں سچ میں ذرا سا بوکھلا گیا تھا جب نمی کے بوبز تکتے ہوئے اس نے میری طرف دیکھ کر مجھے شروع کرنے کو کہا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ کہہ رہی ہو کہ کیا ہوا پاپا، بس دیکھتے ہی رہو گے یا کچھ کرو گے بھی۔ نمی کے روم سے جانے کے بعد میں نے اپنا سر جھٹکا اور ناشتہ کرنے لگا۔اور ناشتہ کر کے میں نے برتن ایک طرف رکھتے ہوئے سگریٹ سلگا لی اور ابھی پہلا کش ہی مارا تھا کہ میرے واٹس ایپ کی ٹون بجی تو میں نے موبائل دیکھا، تو نمی ہی تھی جس نے میرے ریئل نمبر پر واٹس ایپ کیا تھا۔ دیکھا تو اس نے لکھا تھا:


پری: مارننگ جی

میں: ارے واہ! صبح ہی صبح کیا بات ہے

پری: سوچا پوچھ ہی لوں کہ ہمارے لیے وقت ہے کہ نہیں

میں: وقت ہی وقت ہے، بس ذرا انتظار کر لو۔ میری بیٹی چائے لانے والی ہے، پی کر مکان پر جاتا ہوں، تب بات ہو گی

پری: اوہہہہہہ بیٹی پر ٹھرک جھاڑ رہے ہو صبح ہی صبح

میں: آہہہہہہ کیا بتاؤں تمہیں پری جی، لگتا ہے بیٹی پاگل بنا دے گی

پری: ایسا کیوں جی؟

میں: یار صبح ہی صبح میرے منہ کے قریب اپنے آدھے ننگے بوبز کرے گی تو کیا ہو گا؟ اب تم ہی بتاؤ، کر سکتا نہیں کچھ کہ بیٹی ہے

پری: لگتا ہے اس کا بھی من ہے کہ آپ کچھ تو کرو

میں: کیسے کروں یار، سمجھ نہیں آ رہی۔ آخر بیٹی ہے، کہیں میں ہی غلط نہ سمجھ رہا ہوں

پری: دوپٹہ نہیں لیتی جو بوبز دکھ رہے ہیں کیا؟

میں: نہیں نا، یہی تو رونا ہے

پری: تو سمجھو لونڈیا تیار ہے، پکڑ لو۔ کچھ نہیں بولے گی

میں: آہہہہہہ کیا کروں؟ باپ ہوں، اتنی ہمت نہیں کر پا رہا نا

پری: تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ وہ خود آ کر بولے کہ پاپا آ جاؤ، مجھ سے صبر نہیں ہوتا، آگ ٹھنڈی کرو؟

میں: دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے

پری: میری مانو تو ٹھوک ڈالو

میں: اس کا تو میں کچھ کر ہی لوں گا اب، رہا میں سے بھی نہیں جا رہا ہے ابھی۔ اپنی بات کرو، کب چدواؤ گی؟

پری: ابھی تو نثار کو دیکھ رہی ہوں، اگر کوئی جگہ بنا لے تو ٹھیک

میں: وہاں سے مرا ہوا چوہا تو نکل سکتا ہے، جگہ کا جگاڑ نہیں ہو سکتا

پری: پھر کچھ اور سوچوں گی

میں: کیا؟

پری: ابھی بس کرو، آ رہی ہو گی تمہاری لونڈیا چائے لے کر۔ جب مکان پر جاؤ گے تب بات ہو گی۔ بائے

میں: اوکے جان، بائے

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی