خاندانی تعلقات قسط ۔۔۔11

 











نمی کے ساتھ اس گپ شپ نے موڈ ایک دم فریش کر دیا تھا اور لن تو آج کل ویسے ہی مانو نکر میں تمبو  بنا رہتا تھا۔ تو میں بھی جان بوجھ کر سیدھا لیٹ گیا اور ٹی وی دیکھنے لگا، کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ ابھی کچھ ہی دیر میں نمی چائے لے کے آتی ہی ہو گی۔


اور ہوا بھی ایسے ہی کہ میں ابھی سیدھا ہو کر لیٹا ہی تھا کہ نمی دروازہ کھولتی ہوئی کمرے میں آ گئی، چائے کے کپ پکڑے ہوئے۔ تو سیدھی اس کی نظر میری نکر میں تنے  ہوا لن کی طرف گئی، جسے اس نے اچھی طرح نظر بھر کے دیکھا، لیکن بولی کچھ نہیں اور آگے بڑھ کر چائے کا کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھتی ہوئی خالی برتن اٹھا کر کمرے سے نکل گئی۔


نمی برتن اٹھاتی ہوئی بھی بار بار ترچھی نظر سے میرے لن کی طرف ہی دیکھ رہی تھی، اور میں بھی جان کر انجان بنا اسے اپنی نکر میں تنا ہوا لن تسلی سے دکھا رہا تھا۔ اور سچ بتاؤں تو اس وقت میرے دل کی دھڑکن بھی کافی حد تک بڑھ چکی تھی، اس خیال سے ہی کہ میری اپنی بڑی بیٹی میرا لن بھوکی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔


نمی کے باہر نکلنے کے بعد میں نے اٹھتے ہوئے جھٹ پٹ چائے پی اور تیزی سے واش روم گیا اور پیشاب کیا، جس سے لن مہاراج ذرا ڈھیلے ہوئے تو کمرے سے نکلا اور نمی کو بتا کر ساتھ والے مکان میں چلا گیا۔ وہاں پہنچتے ہی میں نے نمی کو واٹس ایپ کیا:


میں: آ گیا ہوں جان، الگ مکان میں

پری: 5 منٹ رکو، ابھی

میں: اوکے


نمی کا جواب بتا رہا تھا کہ ابھی وہ کچن میں ہی تھی اور اب کوئی بہانہ بنا کر نادیہ یا روہی کو کچن میں لگا کر اپنے کمرے میں جا کر ہی بات کرے گی، جس میں وقت تو لگنا ہی تھا۔ اور ایسے ہی ہوا کہ کوئی 10 منٹ کے بعد نمی نے واٹس ایپ کیا:


پری: ہاں جی، اب بولو

میں: کس کے ساتھ پھنسی ہوئی تھی؟

پری: اپنے باپ کے ساتھ

میں: مطلب؟

پری: ارے بابا، سمجھا کرو نا۔ باپ بیٹھے تھے باہر، ان سے گپ ہو رہی تھی۔ اب بہانہ بنا کر آئی ہوں

میں: اوہہہہہ، میں سمجھا کہ باپ سے سیٹ ہو گئی ہو

پری: ہی ہی ہی ہی، ویری  فنی

میں: کیوں فنی؟ اس میں کیا ہے؟

پری: میرے باپ بڑے سویٹ ہیں، آپ جیسے نہیں ہیں

میں: تم نے منہ میں تھوڑا ہی لیا ہو گا ابھی تک اپنے باپ کا، جو سویٹ بول رہی ہو

پری: شاہ جی! بری بات ایسے نہیں بولتے۔ پتہ ہے اسے بدتمیزی بولتے ہیں

میں: تم بھی کر لو بدتمیزی

پری: نہیں جی، مجھے ایسی بری عادت نہیں ہے۔ برا نہیں بولتی میں ذرا بھی

میں: ہاں، پتہ ہے مجھے۔ میں نے چیٹ پڑھی ہے تمہاری جو نثار کے ساتھ کرتی رہی ہو

پری: ہاں، تو وہ میرا B.F ہے نا

میں: اور میں؟

پری: ابھی تک صرف دوست

میں: آہہہہہہ، پتہ نہیں B.F کب بنوں گا

پری: پتہ ہے، میرا B.F بننے کے لیے کتنا کچھ جھیلنا پڑے گا۔ آپ نہیں جھیل پاؤ گے

میں: کیوں جی؟ بنا آزمانے کے کیسے بول سکتی ہو

پری: اچھا تو سنو، گالیاں بکوں گی میں نثار سنار سے بھی زیادہ

میں: بس، میں تو سمجھا کہ...

پری: کیا سمجھے؟

میں: اسے چھوڑو، اور اتنا سن لو کہ مجھے ایسی ہی لڑکیاں اچھی لگتی ہیں جو اپنے B.F کے ساتھ کھل کے بات کرتی ہوں، ایک کے بدلے دس گالیاں بکتی ہوں

پری: سوچ لو شاہ جی، کہیں میرے باپ کو شکایت نہ کر دینا پھر

میں: ارے کامران کی چوڑ! اسے بھلا کون بتائے گا؟ (کیونکہ نمی کامران کی بیٹی بنی ہوئی تھی، جو کہ میرا دوست ہے)

پری: اچھا شاہ جی، ٹھیک ہے تو آج سے آپ میرے B.F

میں: تھینکس میری جان! اب پھر کیا کرو گی اپنے B.F کے لیے کہ مجھے مزا آ جائے؟

پری: تیری گانڈ پر لات ماروں گی حرامی!

میں: اوف! ظالم! بس  یہی چیز تو مجھے تیرے لیے پاگل کر رہی ہے

پری: اور تیری بیٹی کس کے لیے پاگل ہے؟

میں: ابھی پتہ نہیں ہے

پری: میں کوشش کروں کہ کچھ پتہ چلا سکوں

میں: گڈ آئیڈیا یار!

پری: اگر سچی میں کوئی یار نکل آیا تیری بیٹی کا تو؟

میں: تو کیا؟

پری: غصہ نہیں آئے گا تمہیں؟

میں: ارے چھوڑ! غصہ ووسہ، جو ہونا تھا ہو چکا۔ پیچھے دیکھنے سے کیا ہو گا؟ آگے دیکھنا چاہیے نا

پری:حرامی ہو، قسم سے! میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی باپ بھی بیٹی کے لیے پاگل ہو سکتا ہے۔ لیکن اب تم جیسا حرامی میرے سامنے ہے

میں: کب تک پتہ چلا لو گی؟

پری: 2 گھنٹے لگ ہی جانیں ہیں

میں: وہ کیسے؟

پری: کیا آپ ہی میرے باپ کے دوست ہو؟ میں نہیں ہو سکتی آپ کی بیٹی کی بیسٹ فرینڈ؟

میں: (اپنی بیٹی کے اس صاف جھوٹ سے ہلکا سا مسکرا دیا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ نمی اور میرے دوست کامران کی بیٹی میں پکی والی دشمنی ہے، لیکن میں نے ایسا نہیں بولا، کیونکہ نمی کو نہیں پتہ تھا کہ میں اس حد تک نظر رکھتا رہا ہوں بچوں پر) یہ تو پھر کمال ہو گیا

پری: تو تب تک بائے

میں: اوکے

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی