میرا نام کامران ہے اور میرا تعلق راولپنڈی سے ہے۔
بارہویں کے امتحان دینے کے بعد میں فری تھا تو گھروالوں نے کہا کہ کوئی کام کرلو۔
میں نے سوچا کہ لاہور جا کر جاب کرتا ہوں۔ رزلٹ آنے کے بعد وہیں پنجاب یونیورسٹی میں ایڈمشن لے لوں گا۔ اس لیے لاہورچلاگیا۔
اور ایک ریسٹورنٹ میں جاب شروع کر دی۔
جہاں پہ میں نے رہائش رکھی وہ ایک بہترین سوسائٹی تھی۔ وہاں ایک گھر میں ہمیں رہائش مل گئی۔ نیچے والے پورشن میں وہ خود رہتے تھے۔ اوپر والا پورشن انہوں نے ہمیں دے دیا۔ میرے ساتھ ایک دوست تھا جو کہ وہاں ایک یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ میں نے ریسٹورنٹ جانا شروع کر دیا۔ ریسٹورنٹ جاتے ہوئے میں بڑا بن سنور کے جاتا تھا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اگر اس ریسٹورنٹ میں کام کرنا ہے تو اپنی پرسنیلیٹی کو بہتر کرنا ضروری تھا۔ اس لیے ایسا بن سنور کے جاتا تھا۔
ہماری رہائش کے ساتھ والےگھر میں ایک لڑکی رہتی تھی۔جس کا نام امبر تھا اور عمر پچیس سال تھی اور اس کی دو سال پہلے شادی ہوئی تھی اسکا شوہر کینیڈا چلا گیا۔ وہ لڑکی بہت پیاری تھی۔ اسے دیکھ کر رال ٹپکنے لگتی تھی۔ اوپر نیچے آتے جاتے ہم اسے دیکھا کرتے تھے۔ وہ زیادہ تر صحن میں ہی ہوتی تھی۔ اس کا جسم نہ تو زیادہ پتلا تھا اور نہ زیادہ موٹا۔ نارمل تھا۔ جسے ہم پر فیکٹ باڈی کہتے ہیں۔ تقریباً دو ہفتے گزر گئے تھے اور اسے میں روز دیکھتا تھا۔ ایک دن میں نہا کے نکلا توقمیض نہیں پہنی ہوئی تھی۔ اور کمرے کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا۔ جو کہ میرا دوست یونہی کھلا چھوڑ کے چلا گیا تھا۔ اور وہ لڑکی وہاں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ اچانک میری نظر دروازے والی سائیڈ پہ پڑی۔ تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ لڑکی مجھے دیکھ رہی تھی۔ لیکن جیسے ہی میری نظر اس پہ پڑی وہ شرما کر کمرے میں چلی گئیپڑوسن کی چدائی میں روز آتے جاتے اسے دیکھتا تھا۔ اسے بھی پتہ چل گیا تھا کہ میں اسے دیکھتا ہوں۔ ایک دن جب میں گھر سے نکلا تو وہ گلی میں اپنے گھر کی طرف آ رہی تھی۔ میں اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔ اس کے چہرے پر بھی پھیکی سے مسکراہٹ پھییل گئی۔ مجھے پتہ چل گیا کہ اب بات بن جائے گی۔
اب صرف مجھے اپنا نمبر پاس کرنا تھا اور وہ کیسے کرتا۔ دو ہفتے اسی سوچ بچارمیں گزر گئے۔ پھر ایک دن انکے گھر کا ایک بجلی کا بورڈ خراب ہو گیا۔ اور وہ دن اتوار تھا۔ اس دن زیادہ تر لوگ چھٹی کرتےہیں۔ انکو کوئی الیکٹریشن نہیں مل رہا تھا۔ اسکے سسر نے مجھ سے کہا کہ بیٹا کوئی الکٹریشن تو لا دو۔ ہمارا الیکٹریشن آج فون نہیں اٹھا رہا۔ میں نے کہا کہ کام کیاہے۔ اس نے کہا کہ ایک بورڈ خراب ہوگیا ہے۔ بس وہ دیکھنا ہے۔
میں نے کہا کہ اگرآپ برا نہ مانیں تو میں دیکھ لوں۔ انکل نے کہا کہ نیکی اور پوچھ پوچھ۔پڑوسن کی چدائی میں اندر چلا گیا اوربورڈ دیکھنے لگا۔ انکل مجھے بورڈ دکھا کر باہر چلے گئے ۔ ان کے کسی دوست کی کال آ گئی تھی۔
میں نے بورڈ ٹھیک کیا جو پانچ منٹ کا کام تھا بس ایک تار سوئچ میں سے نکل گئی تھی ۔ وہ دوبارہ لگا دی۔
جاتے ہوئے میں نے اپنا نمبر اس کو دیا اور کہا کہ اگر کوئی بھی کام ہو تو مجھے اس نمبرپہ کال کر لیجیے گا۔
اس نے نمبر اپنے موبائل میں سیو کرلیا اور میں چل دیا۔
ایک ہفتے بعد اس کا میسج آیا۔ میرے میسیج پڑھنے سے پہلے اس نے ڈیلیٹ کر دیا۔
میں نے ایک گھنٹے بعد اس کو کال کی۔ پہلے اس کا نمبر میرے پاس نہیں تھا۔ آ گے سے ایک بہت ہی سریلی آواز میرے کانوں میں گونجی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کا میسیج آیا تھا۔ اس نے کہا کہ غلطی سے چلا گیا تھا۔
میں نے کہا کہ جب آپکا دل چاہے آپ بلا جھجھک میسج یا کال کر سکتی ہیں۔پڑوسن کی چدائی اب ہم دونوں کے نمبرز ایک دوسرے کے پاس آگئے تھے۔
وہ جب بھی واٹس ایپ پہ سٹیٹس لگاتی تو وہ میری طرف بھی شو ہونے لگتا۔ میں لگاتا تو وہ بھی دیکھتی۔
ایک دن اس نے اپنی ایک تصویر لگائی تو میں نے اس پہ ہارٹ بھیج دیا۔
جب اس نے ہارٹ دیکھا تو آگے سے اس نے بھی ہارٹ سے ری ایکٹ کر دیا۔
وہیں سے ہماری بات شروع ہو گئی۔ پھر اس نے مجھے اپنی شادی کی سٹوری بھی سنائی۔
اسکا شوہر کب کینیڈا گیا وغیرہ وغیرہ۔
میں نے بھی تیر ہوا میں چلا دیا کہ پھر تو اس نے اپنی حسین و جمیل بیوی کی خواہشات کو پانی میں بہا دیا۔
اس پہ وہ ہنس پڑی۔
میں نے کہا کہ اگر میری تمہارے جیسی بیوی ہوتی۔ جس کے فگر ہونٹ جسم اور آنکھیں تمہاریے جیسی ہوتیں تو میں کمرے سے ہی نہ نکلتا۔ ہر وقت اسکی بانہوں میں رہتا۔
کہنے لگی کہ ہر لڑکی کی قسمت ایسی نہیں ہوتی۔
میں نے کہا کہ قسمت بنائی بھی جا سکتی ہے۔
پھر کہنے لگی کہ تمہاری باڈی بڑی کمال کی ہے۔ میں نے کہا کہ قریب سے دیکھو گی تو اور بھی کمال کی لگے گی۔
کہنے لگی کہ ایسی باتیں تو ہرکوئی کرتا ہے لیکن کچھ کر نہیں پاتے۔ میں نے کہا کہ ایک موقع دےکر تودیکھوثابت کر دوں گا۔ پھر ایک دن اس نے مجھے بجلی سیٹ کرنے کے بہانےبلا لیا۔ اس دن گھر پہ کوئی بھی نہیں تھا بس ہم اکیلے تھے۔پڑوسن کی چدائی
اس نے کہا کہ آج میری بجلی سیٹ کرو۔
آج خود کو ثابت کرو۔کتنے تیس مار خاں ہو دیکھ لوں گی۔
وہ میرے سامنے کھڑی مسلسل مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
میرا ہاتھ پکڑنے سے امبر فرش کو دیکھنے لگ گئی مگر امبر نے مجھ سے ہاتھ نہ چھڑوایا ۔ میں نے دوسرا ہاتھ آگے کیا اور ٹھوڑی سے پکڑ کہ امبر کا چہرہ اوپر کیا تو امبر نے مجھے دیکھتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں امبر کی پلکیں اور ہونٹ لرز رہے تھے اور وہ جو کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر لفظ امبر کا ساتھ نہیں دے رہے تھے میں نے امبر کا ہاتھ پکڑ کہ اپنی طرف کھینچا اور اپنے گلے سے لگا لیا۔ میں نے جیسے ہی امبر کو بازوں میں لیا تو میرا لن امبر کی ٹانگوں کے درمیان امبر کی پھدی پہ لگا اور امبر کے ممے میرے سینے سے ٹکرائے امبر کی آنکھیں بند تھیں اور ایک لمحے میں وہ ساری میرے جسم سے ٹکرا رہی تھی امبر کی نرم نرم رانیں مجھے اپنی رانوں پہ محسوس ہوئیں میں نے ایک نظر امبر کی بند آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں کو دیکھا اور جھک کر امبر کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر لیے ۔ مجھے یوں لگا جیسے نرم نرم سٹرابھری شہد میں بھگو کہ میرے ہونٹوں میں آئی ہے امبر کے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور وہ مجھ میں پیوست ہو گئیپڑوسن کی چدائی میں نے امبر کے ہونٹوں کو چوستے ہوئے کہا میری جان میں تجھے مس کر رہا تھا ۔ امبر نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے نرمی سے الگ کیے اور گہری سانس لیتے ہوئے جھکی پلکوں سے بولی بہت دنوں بعد کسی کو سینے سے لگایا ہے۔ اور پھر میں امبر کے گال چومنے لگ گیا اور کہا امبر جو ہو رہا ہے اسے بس ہونے دو اور یہ یاد رکھو تمہارے لیے میری جان بھی حاضر ہے سب سے پہلے تم ہو باقی سب بعد میں ہیں ۔ امبر نے میری طرف دیکھا اور شرما کہ بولی ہو۔ میں نے آگے ہو کہ امبر کے ہونٹوں کو پھر ہونٹوں میں بھر لیا اور وہ خاموش کھڑی ہو گئی میں امبر کے ہونٹ چوستے ہوئے دایاں ہاتھ اوپر کیا اور امبر کا ایک مما ہاتھ میں بھر لیا بلکہ بھرنے کی کوشش کی کیونکہ نرم و ملائم مما چھوتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا یہ میرے ہاتھ میں پورا نہیں ہو رہا۔ ممے پہ ہاتھ لگتے ہی وہ اچھل پڑی اور سسکی لے کر کہ مجھ سے الگ ہونے کی کوشش کی لیکن میں نے امبر کے ہونٹوں کواپنے ہونٹوں میں قید کر لیا اور دوسرے ہاتھ سے کمر اور گانڈ کو سہلانے لگا۔پڑوسن کی چدائی مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ گرم ہونا شروع ہو گئی ہے کیوں کے اس کے جسم کواس کے شوہر کےبعد پہلی بار کوئی ایسے چھو رہا تھا میں ہلکے ہلکے اس کے مموں کو رگڑتا رہا پھر آہستہ آہستہ پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا اس کی سانسیں تیز چل رہی تھی گولی کا اثر تھوڑا اور بڑھا تو میں نے اپنا کام شروع کر دیا وہ پورے نشے میں آگئی اور میں نے جھک کر اس کے گلابی ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دے اور آہستہ آہستہ چوسنے لگا وہ بہت رسیلے تھے مجھے یہ مزہ پہلے کبھی نہیں آیا تھا اس نے مجھے دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرلی میں نے ساتھ ساتھ اس کے مموں کو سہلانا شروع کر دیا ۔اب میں نے اپنی قمیض اتار دی اور اس سے لپٹ گیا اور اس کے مموں کو چوسنے لگا اور اس کی بھی آہ نکلنے لگی میں ایک ممے کو دبا کر دوسرے کو مزے سے چوس رہا تھا اس کا نپپل گلابی رنگ کا تھا اور بہت مزے کا تھا میرا لنڈ تو ایک دم کھڑا ہوگیا اسکے منہ سے آوازیں نکلنے لگی کے نہیں نہیں مگر میں روکا نہیں میں نے مما چوستے ہوئے ایک ہاتھ اس کی شلوار میں ڈال دیا وہ مزید گرم ہو گئی اور اس کی سانسیں بھی تیز ہو گیں میں سمجھ گیا کے اب اپنا کام پورا ہو جائے گا میں آہستہ آہستہ انگلی سے اس کی چوت کو چھیڑنے لگا اب اس کی چوت گیلی ہونے لگی میں نے اس کی شلوار کو آرام سے اتارکرپھر میں نے اپنی شلوار بھی اتار دیپڑوسن کی چدائی میں اس کی پھدی کو دیکھ کر دیوانہ ہوگیا تھا اور وہ مجھے مکھن جیسی لگ رہی تھی میں نے اس کی پھدی میں انگلیاں ڈالنا شروع کر دیں بس پھر اس کی آہیں تھیں اور میرے مزے تھے پھدی میں تھوڑی سی فنگرنگ کے بعد میں نے اپنا لنڈ اس کے ہاتھ میں پکڑایا اور اس نے جب میرا لنڈ دیکھا تو وہ بڑی خوش ہونے لگی۔ پھر میں نے لنڈ کو اس کے ہونٹوں سے لگا دیا اور چوسنے کو کہا وہ اپنے جسم کو میرے حوالے کر چکی تھی بس اس نے میرا لنڈ اپنے ہاتھ میں لیا اور آہستہ سے چوسنے لگی تھوڑی دیر میں اسے مزہ آنے لگا اور مجھے بھی مزے آنے لگے۔
میرا دل اب اس کو چودنے کا چاہ رہا تھا ابھی یہی سوچ رہا تھا کے اس نے کہا کے مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا میری تو اس نے دل کی بست کہہ دی۔ پھر میں نے اس کی ٹانگوں کو کھولا اور اپنا لنڈ اس کی پھدی پر رکھ کر مسلنے لگا اس کی تو جیسے جان نکلی ہوئی تھی مزے سے میرا ٹوپہ اس کے سوراخ کے اوپر فٹ ہو گیا اور میں نے آہستہ سے دھکّا لگا دیا اس کی ایک دم سے چیخ نکلی اور میرا لنڈ اندر گھس چکا تھا ۔ تھوڑا سا چودنے کے بعد اس کی پھدی گیلی ہونا شروع ہو گئی اور لنڈبھی گیلا ہو کر روانی پکڑ رہا تھا اور میں مزے لوٹ رہا تھا اس کے ہاتھ پکڑ کر میں اب پوری طرح اسے چود رہا تھا تھوڑی دیر میں اسے بھی مزہ آنے لگا اور پھر تو جیسے دونوں مل کر ایک دوسرے کو چود رہے تھے
میرا لنڈ تیز تیز چودنے لگا اور وہ بھی پورا مزہ لینے لگی تھوڑی ہی دیر میں وہ ڈسچارج ہوگئی اسکے ایک منٹ بعد میں بھی ڈسچارج ہوگیا۔ اس نے زور سے ایک سانس لیا اور مجھ سے لپٹ گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں دوبارہ ہم تیار ہو گئے اور اس دفع میں نے آرام سے اس سے اپنے لنڈ کو چسوایا اور اس کے بعد بہت مست والی چودائی ہوئی پھر ہم غسل خانے گئے اور نہا کر بیٹھ گئے اور ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوسنے لگے وہ کہنے لگی کے اس کی چوت میں بہت درد ہو رہا۔ پھرمجھے کہنے لگی کہ واقعی تم میں دم ہے آج زندگی کا وہ مزہ حاصل کیا ہے جو پہلے کبھی حاصل نہیں کیا۔ اس کے بعد تو وہ میری عادی ہو گئی اور پھر ہم نے کئی بار سیکس کیا۔ اب بھی کرتے ہیں۔
ختم شد..