کئی امیر زادیاں ایسی جگہوں پر مل جاتی تھیں آزا د ماحول کی شہزادیاں ۔ جن کی چوت میں خارش ہوتی رہتی تھی،کسی کا رستہ کھل چکا تھا اور کسی کا کھلنے والا تھا۔ کاؤنٹرپر شغل مغل کرتے ہوئے میری نظریں اپنے مطلب کی لڑکی تلاشنے لگی۔کئی لڑکیاں اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ ڈانس کر رہی تھیں،کلب میں داخل ہوجائیں تو لگتا ہی نہیں کہ یہ پاکستان ہے۔لیکن اپر کلاس کا ماحول ہے ہی ویسٹرن ۔امریکہ سے شاپنگ کرنی اور میامی بیج پر گرمیوں کی چھٹیاں گزارنی۔آکسفورڈ میں پڑھنا،سوٹزرلینڈ کے بینکوں میں اکاونٹ کھلوانے،فرانسیسی فیشن کے ساتھ چلنا۔ لہذا پاکستان میں اپر کلاس نے اپنا مِنی یورپ بنایا ہوا تھا۔ایک میز پر مجھے ڈیول بیٹھا نظر آگیا،تو میرا منہ کا ذائقہ خراب ہوگیا۔ہمیشہ کی طرح وہ کرّوفر میں بیٹھا تھا بلکہ اس وقت تو کچھ زیادہ ہی تھا کیونکہ اس کے ساتھ شہر کی مہنگی ترین ماڈل بیٹھی ہوئی تھی۔ اس ماڈل نے ٹی وی پر بھی قدم رکھ دیا تھا اور اس کی ایک کمرشل ٹی وی پر بھی آچکی تھی۔شہر کے بڑۓ ےفیشن شوز اس ماڈل کے بغیر ادھورے تھے۔انتہائی خوبصورت اور سیکسی جسم کی ماڈل تھی،اسے دیکھ کرخوامخوہ بندہ جنسی ہیجان میں مبتلا ہوجاتا تھا۔ ماڈلز اور ایکٹرس کا سائیڈ بزنس راتوں کوچلتا ہے ۔اور اسی بزنس کیلے ساری محنت ہوتی ہے،شو بز تو اس بزنس کو بڑھانے کیلیے ہوتا ہے جس کا جتنا اونچا نام ہوتا ہے اتنی اونچی ا س کی بولی لگتی ہے ۔ جتنا شوز اور فلموں سے کماتی ہیں،اس سے کئی گنا راتوں کو کماتی ہیں،ہماری ایک ٹاپ کی ایکٹرس کے ننگے مجروں کی بازگشت ابھی تک سنائی دیتی ہے۔جب وہ مجرہ کر رہی تھی تو ایک عرب نے کہا کہ تم برا اتار کے مجرہ کرو تمھیں دو لاکھ دوں گا،ا س نے کہا پندرہ لاکھ دو تو سارے کپڑے اتار کر مجرہ کردوں گی،یوں پیسے والوں میں اس کے مجرے شروع ہوئے۔اب تو ایسی باتیں فلمی دنیا سے باہر نکل چکی ہیں،اور ہر کوئی کاسٹنگ کاؤچ سے واقف ہوچکا ہے،کاسٹنگ کاؤچ ایک فلمی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے فلم میں کام کرنے کیلیے جسمانی روابط قائم کرنا،نئی فلمی ایکٹرس کو پروڈیوسر ،ڈائریکٹر اور ہوسکے تو سینئر ایکٹر چودنا اپنا حق سمجھتے ہیں،اور ایکٹرس بھی آگے جانے کیلیے اس بات کی اہمیت کو سمجھتی ہے۔ ہر کامیاب ایکٹرس ا س مر حلے سے گزر چکی ہے میرے تجربے کے مطابق تو یہ سب اونچے درجے کی کال گرل ہوتی ہیں چاہے ہالی ووڈ ہو یا انڈین سینما یا پاکستانی انڈسٹری ،مگر سب ہی اسے فن کی خدمت کہتے ہیں۔ اور ان کے چاہنے والے ان کو محبوبیت کے درجے تک چاہتے ہیں،(اِن سے معذرت)اسی وجہ میرا ایک دوست مجھ سے ناراض ہوگیا تھا کیونکہ میں پرینتی چوپڑا کو کال گرل کہہ دیا تھا۔لو جی کہانی شروع ہوئی نہیں اور بات کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی۔ تو میں بتارہا تھا کہ ڈیول کو دیکھ میرا منہ کا ذائقہ خراب ہوگیا۔مجھ سے بڑی خار کھاتا تھا ۔لیکن آج تک مجھ سے بھڑنے کی ہمت نہیں کی تھی۔اوّل درجے کابلیک میلر تھا۔ لڑکیوں کو چٹکیوں میں پھنسا لیتا تھا ،پتہ نہیں کتنی محبتیں کر چکا تھا ، جو لڑکی اسے پسند آجائے اسے ضرور چودتا تھا چاہے اس کی مرضی ہو یا نہ ہو، پھر سیکس کی ویڈیو بنا کر ان کو بلیک میل کرتا تھا،بڑے صنعت کار،سیاست دان اس سے تازہ لڑکیوں کیلیے رابطہ رکھتے تھے۔پولیس اس کی جیب میں پڑی تھی،اور چوٹی کے چند سیاست دان اس کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ تھے۔لڑکیوں کے علاوہ بھی پتہ نہیں کس کس کوبلیک میل کر کے ماہانہ لگایا ہوا تھا،غنڈوں کی فوج پالی ہوئی تھی،ہیرا منڈی میں اس کی بڑی جان پہچان تھی شہر کی ایک خوبصورت لڑکی کو جو کہ اچھے شریف اور کاروباری گھرانے کی تھی،اسے کوٹھے پر زبردستی بٹھایا ہواتھا۔کیونکہ اس نے ڈیول کو اپنا جسم نہیں دیا تھا، اس کے ماں پاگل ہوگئی باپ لا پتہ ہے اور بھائی ایک جیل میں سڑ رہا ہے کسی کہ چہرے پر تیزاب پھینک دیا ،کسی کو جیل میں سڑوا دیا،کسی کو غائب کروا دیا۔کسی کو مروا دیا،بڑی دہشت تھی اس ڈیول کی،ظاہر ہے ایسے کام تھے تو نا م ڈیول پڑنا ہی تھا،ویسے اس کانام باسل تھا۔باپ اس کا پٹا ہو ا سیاست دان تھا لیکن جوڑ توڑ کا ماہر تھا۔ڈیول کو مجھے سے جانے کیا پرخاش تھی، میرا ،ا ندازہ تھا کہ مجھ سے جلتا ہے،ایک دو بار منہ ماری ہوگئی تھی، لیکن بیچ بچاؤ ہو گیا اور میں طرح دے گیا۔اتنی تمھید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ مجھے لگتا تھا کہ یہ مجھ سے بِھڑے بغیر نہیں رہے گا۔
اتنے میں ایک لڑکی میر ی آنکھوں کو بھا گئی،اس کو دیکھ کر دو لفظ ہی ذہن میں آتے تھے بہت پیاری (کیوٹ) اور نہایت معصوم ۔ اسے پہلے بھی یہاں دیکھ چکا تھا ۔ غنیمت یہ تھا کہ وہ اپنی دوستوں کے ساتھ تھی،میں اس کی طرف دیکھتا رہا۔اسے بھی میری نگاہوں کی تپش کا احساس ہوگیا تھا،تینوں دوست میری طرف دیکھ کر کھسر پھسر کرنے لگی اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔میں تو خیر تھا ہی بدنام۔لیکن ایسا بدنام جس کی بدنامی شہرت بن گئی تھی ۔پرانا محاورہ ہے ہنسی تو پھنسی،اسلیے میں بھی ان کی ٹیبل پر جا پہنچا ،ہیلو سویٹ گرلز کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں،میں نے بیٹھتے ہو ئے پوچھا۔آپ یہاں بیٹھ چکے ہیں۔ ایک لڑکی نے شوخی سے کہا۔معافی چاہتا ہوں آپ کی ٹیبل پر ایک نہایت حسین لڑکی بیٹھی ہے،اسلیے مجھے ہوش ہی نہیں رہا۔میں نے اس لڑکی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا جس کی خاطر میں یہاں آیا تھا۔ایسے کہیں جہاں کوئی حسین لڑکی دیکھتا ہوں پھسل پڑتا ہوں، ۔اُسی لڑکی نےکہا ،اس کی آنکھوں میں شرارت تھی۔لگتا ہے مجھ سے پہلے میری بدنامی آپ کے پاس پہنچ گئی ہے۔ بدنامی نہ کہیے شہرت کہیے مسٹرپرنس،اسی لڑکی نے پھر چھیڑا۔مجھے یہ نہیں پتہ تھا کہ میرے کچھ فین بھی ہیں۔ کیوں نہ تعارف ہو جائے،اسی لڑکی نے پھر بات بڑھائی،میرا نام صبا ہے اور یہ سدرہ اور اس کا نام ہانیہ ہے،اچھا تو اس معصومیت کا نام ہانیہ ہے آپ کے بارے میں بہت سے قصے مشہور ہیں اورآج آپ کی باتوں سے سچ ثابت ہو رہے ہیں ۔صبا نے پھر فقرہ چست کیا۔آیاتو میں اس کی دوست کے پاس تھا لیکن لائن وہ دے رہی تھی۔وہ شکل وصورت کی اچھی تھی،اسے میں نے بعد کیلیے رکھ لیا اور اس کی دوست کے طرف متوجہ ہوا جس کیلیے میں آیا تھا ۔اگر آپ دوستوں کو اعتراض نہ ہو تو میں ہانیہ کیساتھ ڈانس کرنا چاہوں گا،میں نے اس لڑکی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔جسے میں پسند کرچکا تھا۔اس لڑکی کی آنکھوں میں مجھے اپنے لیے پسندیدگی نظر آگئی تھی۔ میں نے پورے اعتماد سے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ا س نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیا۔اور میں اسے لیکر ڈانس فلور پر آرہا تھا ادھر سے وہ ماڈل اٹھی اورمیری طرف آئی میں نے اس کی طرف دھیان نہیں دیا،شاید وہ واش روم جا رہی ہو یاوہ واپس جا رہی ہو۔لیکن میرے پاس گزرتے ہوئے ماڈل بڑ ی صفائی میری ساتھی لڑکی سے ٹکرائی ۔اپنی ساتھی لڑکی کو میں نہ سنبھالتا تو اس نے بری طرح گرنا تھا۔الٹا ماڈل اسے ہی انگلش میں لتاڑنے لگی۔اور اسے تھپڑ دے مارا۔میں سمجھ رہا تھا یہ جان بوجھ کر مجھ سے پنگا لیا گیا۔لڑکی معصوم تھی اسے ماڈل جیسی چالاکیاں نہیں آتی تھیں۔وہ گم سم کھڑی تھی اس کی آنکھو ں میں آنسو آگئے تھے۔ میرا ہاتھ حرکت میں آیا ،ماڈل کو تب پتہ چلا جب اس کے گال پر زناٹے دار تھپڑ پڑ چکا تھا۔ ماڈل اپنی ترنگ میں تھی ،اسے اس بات کی توقع نہیں تھی۔ اس نے غصے میں اپنے لمبے ناخنوں سے میرا منہ نوچنا چاہا ،لیکن اس کی حسرت دل میں ہی رہ گئی اور میں نے آگے سے اس کا ہاتھ پکڑ کرمخصوص انداز میں الٹا کلائی کی طرف پیچھے کیا تو ماڈل چیخنے لگی۔اور درد کی وجہ سے نیچے بیٹھتی گئی۔ میں شعلہ بار نظروں سے ڈیول کی طرف دیکھ رہا تھا،میری آنکھیں اسے چیلنچ دے رہی تھیں،یہ تو طےتھا کہ اسی نے ماڈل کو بھیجا تھاماڈل بھی اپنے طنطعنے میں آگئی تھی کہ اسے کیا کوئی کچھ کہے گا،اتنے میں منیجر بھاگتا ہوا آیا ،اس کے ساتھ کلب کے گارڈ زتھے۔پلیز پرنس۔پلیز چھوڑ دیں اسے۔پلیز پرنس۔ منیجر التجائیہ انداز میں مجھے ماڈل کو چھوڑنے کو کہہ رہا تھا۔ماڈل کی کافی تذلیل ہوچکی تھی اور کئی لوگ اس کی حالت سے محفوظ ہو رہے تھے۔جبکہ اکثریت مجھے نفرت سے دیکھ رہے تھے ۔کیونکہ میرے مقابلے میں ایک لڑکی تھی اور لڑکی بھی شہر کی مشہور ماڈل۔لیکن کسی کوآگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو گارڈ اب تک اس پر ٹوٹ پڑنے تھے۔ ایک منٹ میں ماڈل اونچی اونچی چیخنے لگی ،ڈیول نے تیلی لگائی تھی لیکن اب اسے اس آگ میں خود کودنا پڑگیا۔جیسے ہی وہ میری طرف لپکا،اس کے چار گرگے بھی کہیں سے آگئے،میں نے ماڈل کو جھٹکا دیا وہ پیچھے جا گری،میں فضا میں اچھلا اور میری نیچے درجے کی راؤنڈ ہاؤس کک ڈیول کے دو گرگوں پر پڑی ،ایک کے جبڑے کی ہڈی ٹوٹ گئی اور دوسرا زمین پر گرا۔تیسرے کو میری بیک کک پڑی اور چوتھا کو زور دار مکا پڑا تو اسے دن میں تارے نظر آگئے ہوں گے،ڈیول تھوڑا رک گیا تھا ،اس نے پسٹل نکال لیا،لیکن چلانے کی حسرت ہی رہی ۔میری کک نےاس کے پسٹل اڑا دیا ۔اور زور دار مکا اس کے پیٹ میں پڑا وہ وہیں زمیں پر دہرا ہوگیا۔۔اتنے میں گارڈز حرکت میں آگئے اور ڈیول کے گرگوں کو پکڑ لیا،ڈیول بے ہوش ہو گیا تھا۔منیجر اور گارڈز نے جلدی سے ڈیول اور اس کے گرگوں کو اٹھایا اور انہیں باہر لے گئے ۔میرا اندازہ تھا وہ ڈیول کو ہوش میں لانا چاہیں گے یا ہسپتال بھیجیں گے اور گارڈز کو باہر کا رستہ دکھائیں گے،میں نے ادھر ادھر دیکھا وہ لڑکی اپنی دوست سمیت غائب ہوگئی تھی۔اس نے اس لفڑے سے نکل جانا مناسب سمجھا تھا۔ ماڈل بھی اٹھ چکی تھی اور ڈیول کی درگت بنتے دیکھ چکی تھی ۔وہ بھی پھنپھناتی ہوئی باہر نکل گئی۔(اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی) لوگ پھر اپنے شغل مغل میں مصروف ہوگئے۔میں نے حفظِ ماتقدم کے طور اپنے ایک ایس ایس پی دوست کو صورتحال بتائی،بے غم ہوجاؤ پرنس،میری جان،وہ کسی قسم کی قانونی کاروائی کرنے کی کوشش کریں گےتو خود ہی پھنسیں گے،ایس ایس پی نے میری کال کا مقصد سمجھتے ہوئے کہا۔اوکے بائے۔میں نے کال بند کر دی۔،میرا مزاج کِر کِرہ ہوگیا تھا۔بہرحال میں کاؤنٹر پر گیا،اور چوتھا حصہ وہسکی پیا۔پاکستانی عادت کے مطابق میں نے کبھی گلاس پر گلاس چڑھا کر ٹُن ہونے کی کوشش نہیں کی۔کبھی کبھار بس اتنا سا سرُور لے لیتا تھا۔طبیعت میں ترنگ آگئی تھی۔مجھے چوت کی سخت طلب ہو رہی تھی۔میں جوئے والے حصے میں چلا گیا ، بیگمات سے تو میں ویسے بھی بھاگتا تھا ،کچھ امیر زادیاں بھی نظر آ رہی تھیں جو مزہ دے سکتی تھیں ،لیکن اسوقت میرا موڈ کچھ اور تھا ۔میں کسی کوڈھونڈنے لگا ۔وہ ایک ٹیبل پر مل گئی کچھ بیگمات کیساتھ وہ بھی امیر گھرانے کی فردoo نظر آرہی تھی ،مگر میں جانتا تھا یہ اس کا بہروپ ہے،ٹیبل پر وہسکی کے گلاس اور جوئے کی چپس پڑی تھیں جن پر یقناً چھوٹے موٹے داؤ لگا کہ بیگمات اپنی نمائش کر رہی تھیں۔مجھے پتہ تھا کہ گیم میں کچھ ہار جیت کرآخر سب اس کے پرس میں ہی جائے گا،اس نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا ،اس نے آنکھوں سے مجھے ویلکم کہا ، میں اپنی کار میں جا کہ بیٹھ گیا،مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا،
بس یہی بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی ۔
وہ جہاں بھی گیا ،لوٹا تو میرے پاس آیا
،
اس نے دروازہ کھول کہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے شعر پڑھا،میں نے مسکراتے ہوئے کار اسٹارٹ کی اور فلیٹ کی طرف چل پڑا،مجھے بہت بھوک لگی ہے اس نے جیسے اعلان کیا،کونسی والی ؟ میں نے اسے چھیڑا، پہلے پیٹ والی اور پھر چوت والی ،اس نے بے باکی سے کہا ،رستے میں میکڈونلڈ سے ایک ہیمبرگر اور 2ٹین پیک کوک لے کر دیا،تو وہ بےصبری سے کھانے لگی،آرام سے کھاؤ ،کھانا کہیں بھاگا تو نہیں جا رہا ،میں نے اسے ٹوکا مگر اس پر میری بات کا کوئی اثر نہیں ہوا،،بے صبری سے کھاؤ تو کھانا زیادہ مزہ دیتا ہے، اس نے فلسفہ بگھارا،ویسے یار یہ پیٹ کی بھوک میں اور چوت کی بھوک میں بہت سے باتیں ملتی جلتی نہیں ہیں ؟وہ ایک بڑا سا نوالہ کھاتے ہوئے بمشکل بولی ،مثلاً کون کونسی ؟ مجھے اس کی بات دلچسپ لگی،دیکھو نہ یار دونوں کی بھوک نیچرلی ہے ،دونوں کے بغیر زندگی ادھوری ہے بلکہ پیٹ کی بھوک نہ پوری ہو تو جسمانی موت ،اور سیکس کی بھوک پوری نہ ہو تو نفسیاتی ،جذباتی اور پتہ نہیں کون کونسے مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا چوت کی بھوک میں بھی کھانے کی بھوک کی طرح طرح کے ذائقوں کو دل کرتا ہے ۔کچھ ندیدوں کی طرح نگلتے ہیں ۔ کچھ ہروقت بھوکے رہتے ہیں۔ دنیا کی ہر حرکت کہ پیچھے یا تو پیٹ کی بھوک ہے یا سیکس کی بھوک ہے، وہ باتونی تھی اوپر سے فلسفے میں ماسٹر کیا ہوا تھا اور سننے والا پرنس تھا ،اور اسے کیا چاہیئے تھا، ایک تیسری بھی ہے اسے انا کہتے ہیں بلکہ ایک چوتھی بھی ہے لیکن اس سے ہم جیسوں کا کیا واسطہ،تو میں کہہ رہی تھی کہ دونوں طرح کی بھوک میں کچھ لوگ جینے کیلیے کھاتے ہیں اور کچھ لوگ کھانے کیلیے جیتے ہیں کیا خیال ہے وہ داد طلب نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی ،واہ میں نے اسے داد دی ،ہم تو کھانے کیلیے جیتے ہیں ، میں نے معنی خیز انداز میں کہا، تو وہ ہنسنے لگی ۔۔ ،وہ باتونی تھی ،چلبلی تھی،شوخ وچنچل تھی،بے باک تھی ،بھرے بھرےجسم پر گندمی رنگ بہت کھلتا تھا صورت سے ہزاروں میں ایک تھی لیکن جسم سے لاکھوں میں ایک تھی کپڑے اتارنےکے بعد جتنی حسیِن لگتی تھی، وہ کسی کو بھی پاگل کرنے کے لیئے کافی تھا ،اس کا جسم کمال تھا،عمر کوئی 27 سال تھی،کوئی اسے دیکھ کہ اندازہ بھی نہیں کر سکتا تھاکہ یہ مڈل کلاس کی لڑکی ہے،مکاری میں لوگوں کے کان کترتی تھی،جیب کترنا،نوسر بازی اور تاش کے پتوں سے امیر لوگوں کو بےوقوف بنانا اس کا پیشہ تھا ، ،ہم فلیٹ پر پہنچ چکے تھے ،سیدھے بیڈروم میں پہنچ کے میں کپڑے اتار بیڈ کے کنارے ٹانگیں لٹکا کر انسانی کرسی بن کر بیٹھ گیااس لیے کہ نادیہ کو یہ پسند تھا۔۔صرف تمھارے لیے پرنس ۔نادیہ ایک ایک کرکے اپنے کپڑےاتارنے لگی نہ تم سے پہلے کوئی تھا اور نہ تمھارے بعد کوئی ہو گا،نادیہ اپنے ننگے جسم کو ایک تحفے کی طرح میرے پاس لے آئی ،نادیہ نے اپنی گانڈ میری طرف کی اور آہستگی سے میری گود میں بیٹھ گئی اسکی کمر میرے سینے سے لگی اور اسکی ٹانگیں بھی بیڈ سے نیچے تھی،اور میری ٹانگوں کے اندر تھیں ۔ اسے محبت کی کرسی یا ہاٹ سیٹ کہا جاتا ہے۔میں نے اپنی بانہوں سے نادیہ کو گھیر لیا اور اس کے مموں کو مسلتے ہوئے اسکے کندھے پر چومنے لگا،پیچھے سے اس کی گردن کو چومنے لگا۔نادیہ کو میری گود میں بیٹھنا اچھا لگتا تھا،شاید یہ اسکے جذبات کو تسکین پہنچاتا ہے۔
میں نادیہ کے کندھے چومنے لگا اور ہاتھوں سے اس کے ممے مسلنے لگا،انہیں دبانے لگا۔نپلز کو سہلانے لگا۔نادیہ میری چھیڑ چھاڑ سے گرم ہونے لگی۔میرے ایک ہاتھ اس کے جسم پر آوارگی کرنے لگا ۔اس کے پیٹ اور رانوں کو سہلانے لگا۔جیسے جیسےاس کے جسم پر میری دخل اندازی بڑھتی گئی ویسےویسے نادیہ کیلیے میری گود۔ گرم سیٹ۔ بنتی گئی۔۔میرے ہاتھ نے اسکی چوت کے لبوں کوچھیڑتے ہوئے کناروں کو مشتعل کیااور اسکےبظر(چوت کا دانہ) کو چھیڑنے لگا۔نادیہ کی سسکیاں بلند ہونے لگی۔اور اس کے جسم میں ہلچل ہونے لگی۔اب اس کی گرمی آگ بن کر جلنے لگی۔اس کا جسم تپنے لگا ۔اب نادیہ کے اندر ڈال دینا چاہیے تھا۔میں نے تو بس ابتداء کرنی تھی۔اور پھر نادیہ ہی نے کرنا تھا جوکچھ کرنا تھا۔میں نے ایک ہاتھ سے اس کی ران اوپر کی۔اور دوسرے ہاتھ سے عضو کو اس کی چوت پر نشانہ لگایا،نادیہ تھوڑا سا اوپر ہوچکی تھی،میں نے تھوڑا سا اندر ڈالا اور نادیہ بیٹھ گئی،عضو پھسلتاہوا چوت میں چلا گیا۔تھوڑا تھوڑا میں وہیں کمر کے سہارے ہلنے لگا۔میں تو بس کچھ ہی دیر اندر باہر کیا۔ ہائے پرنس تیری جھولی وچ کنّاں مزہ آندہ اے،دل کردا تینوں نال لے جاواں۔اور دوسرے لمحے اس کی بے چین طبیعت بول پڑی ۔پرنس کی کری جانا اے ہولی ہولی نہ کر گڈی چلا ۔تقریباً پانچ منٹ لگ گئے ہوں گے۔نادیہ کا جذباتی اور جنسی گرمی ہیجان میں بدلنے لگی ۔میں سمجھ گیا اب نادیہ اوپر آئی کے آئی۔اوہ پرنس تیز کرو نہ۔ میں نے کیاکرناتھا۔اس انداز میں اتنی ہی رفتار ہونی تھی۔یار کیا ہوگیا ہے تمھیں تم پرنس ہو۔گاڑی چوتھے گیئر میں ڈالو نہ،نادیہ کی زبان اسٹارٹ ہوگئی تھی ۔اب اسکی چوت بھی اسٹارٹ ہونے والی تھی۔اوئے پرنس جانی یہ کیا ہے۔نادیہ غصے میں آگئی۔لیکن یہ سب دکھاوا تھا۔میرے اندازے کے مطابق نادیہ جوش میں آگئی تھی ۔وہ اٹھی تو میں تھوڑا پیچھے ہو کر لیٹ گیا، نرم سرہانے سر کے نیچے کیے۔نادیہ ملکہ ی طرح میرے اوپر آئی اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔عضو کو پکڑا چوت پر ٹھیک کیا اور آہستہ سے اوپر بیٹھی ۔اس کے جسمانی وزن نے عضو اندر جانے میں بڑی مدد کی اور جب عضو پورا اندر چلا گیا تو نادیہ نے جنسی ہیجان میں چودائی شروع کردی،نادیہ میرے احساسات سمجھتی تھی ۔اسے پتہ تھا کہ مجھے اس اسٹائل میں بڑا مزہ آتاہے۔
اسلیے وہ کمر کے سہارے اچھا مزہ دے رہی تھی۔کیوے لگ رہیا اے میری جان نُوں ۔دس نہ مزہ آیا کہ نئیں ۔نادیہ نے جان بوجھ کر پوچھا۔مزہ ارہیا اے کہ نیئں ۔میں مسکراتے ہوئے نادیہ کی طرف دیکھتا رہا ،دس وی کیویں لگدا پیا اے میری جان نوں ۔چنگا لگدا پیا اے نہ۔نادیہ کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ تھی۔اچھا نہیں بولتے تو میں بھی نہیں کرتی ۔نادیہ نے روٹھے انداز میں کہا لیکن وہ رکی نہ۔میں مسکرا کے اس کی چلبلی عادتیں دیکھتا رہا اور مزہ لیتا رہا۔ہائے مرجاواں تیرے پیار دا گڑ کھا کہ۔نادیہ کی باتیں جاری تھیں،اوئے پرنس تینوں کڑی دا کوئی خیال نئی اے،ایڈی سوہنی کڑی تیرے لن تے بیٹھی سواری کر رئی اے تے نواب صاحب نوں بولنا وی گوارا نئی۔ مجھے پتہ تھا نادیہ کی نہ چودائی رکے گی اور نہ زبان ۔نادیہ میرے سینے پر سر رکھ کے لیٹ گئی اور کچھ آگے پیچھے جسم کوحرکت دیتے ہوئے چودائی جاری رکھی۔پرنس مجھے اپنے پاس ہی رکھ لو نہ صبح شام تیرے لوڑے دی خدمت کراں گی ۔تینوں مِٹھی چوریاں کھواواں گی۔میں نادیہ کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ہائے ظالم تیرے لمس وچ کی جادو اے ۔جدوں ہولی جیا لانا اے تو ننگے پنڈے تے ہتھ ۔تے میری جان نکل جاندی اے،کسے دن ایویں ای تیرے سینےپر چودائی کردی مر جاواں گی۔نادیہ کی آواز میں جذبات کی لوچ بڑھتی جاتی تھی۔آئی پرنس میں آئی۔نادیہ کچھ تیز ہوئی اور پھر مجھ سے لپٹ گئی،اس کا جنسی جسم میرے ساتھ جذباتی انداز میں لپٹا ہوا تھا۔اس کا پانی نکل رہا تھا ۔کچھ دیر اسی حالت میں پڑے رہنے کے بعد میں نے نادیہ کو ایک طرف کیااور اسے نیچے لٹا کر اندر ڈالا اور چودائی شروع کردی۔اس سے پہلے نادیہ اپنی چوت صاف کرنا نہیں بھولی تھی۔آجا شہزادے ہُن تیری واری اے۔اپنا پانی کڈھ لے ۔اور میں دھکا دھک اندر باہر کرنے لگا۔مجھے زیادہ وقت نہیں چاہیے تھا۔نادیہ نے پوری محنت سے عضو کی خدمت کی تھی ۔اور اسے اس خدمت کا صلہ ملنے والا تھا۔میرا شہزادہ۔نادیہ نے جذباتی انداز میں کہا۔وہ میرے سینے پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔نادیہ کا جذباتی انداز مجھے لبھاتا تھا اور اس کی باتیں مزہ دیتی تھیں،اس کی ادائیں رجھاتی تھیں،نادیہ سر سے پاؤں تک میری تھی،اور صرف میری تھی۔آہ میں سسکا۔اور نادیہ نے مجھے ایسے لپٹا لیا جیسے مجھے اپنے اندر جذب کر لے گی۔میں خود تو اسکے اندر جذب نہیں ہوا ۔لیکن میرا پانی اس کے جسم میں جذب ہوگیا۔شہزادے مجھےتیرا بچہ چاہیے،ہمیشہ کی طرح نادیہ جذباتی ہو گئی،بکواس مت کرو۔دنیا تمھیں سنگسارکر دے گی میں نے پیار سے نادیہ کو ڈانٹا۔او میں نئی ڈرتی ورتی کسی سے ،بس تو راضی ہو جا،میں راضی نہیں ہوں،اوئے میں کونسا نکاح کا راضی نامہ مانگ رہی ہوں ۔ظالم بچے کی اجازت دے دو۔نادیہ بچکانی باتیں چھوڑ دو ،نہیں تو آئندہ تمھیں بلاؤں گا بھی نہیں۔نادیہ نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔میرا گلا گھونٹ دینا لیکن آئندہ ایسی بات نہ کرنا۔سمجھے، نادیہ جذباتی انداز سے مجھ سے لپٹ گئی ۔کچھ دیر بعد میں نے نادیہ کو پھر چودا ۔ پھر ہم سونے کیلیے لیٹ گئے۔پرنس تمھاری کلب میں ڈیول سے لڑائی ہوئی تھی۔ ہاں تم بھی تو اسی کلب میں تھی تم نے دیکھا ہوگا۔ دیکھا بھی تھا اور دل بھی خوش ہوا تھا۔تمھیں چاہیے اس ز ہریلے سانپ کا پھن کچل دو۔نادیہ جذباتی آواز میں بولی۔اچھا اور خود میں پھانسی چڑھ جاؤں۔پرنس مجھے پتہ ہے تم دو تین زہرلیے سانپوں کا پھن کچل چکے ہو۔ پرنس میں تمھیں اچھی طرح سمجھ گئی ہوں۔مجھ سے کچھ نہ چھپاؤ۔تمھیں پتہ ہونا چاہیے ندیہ تمھاری دیوانی ہے اور دیوانوں کی اپنی آنکھیں ہوتی ہیں۔ نادیہ میں کوئی خدائی فوجدار نہیں ہوں۔ کہ لاشیں گراتا پھروں پھر یہاں تو آوے کا آوے ہی بگڑا ہوا ہے کس کس سے لڑوں۔نہ یہاں کوئی قانون ہے اور نہ کوئی انتظامیہ۔ کسی کے پھڈے میں ٹانگ اڑاؤ گی تو اپنی ہی ٹانگ ٹوٹے گی۔پرنس تم بہت گہرے ہو کسی کو اپنا بھید نہیں دیتے یہ جو تم نے بگڑےہوئےامیرا زادے(پلے بوائے )کا روپ دھارا ہوا ہے نہ میں اسے بس نقاب سمجھتی ہوں۔اس نقاب کے پیچھے ایک خوبصورت اور حساس دل دھڑکتا ہے جو انسانیت کیلیے دھڑکتا ہے۔اس لیے مجھے گولی دینے کی کوشش نہ کرو اور اس ڈیول کاکچھ کرو یہ حد سے بڑھ گیا ہے۔ارے ارے کیا ہوگیا ہے تمھیں بیٹ مین جیسی فلموں کودیکھ کر تمھاری سوچیں بھی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں۔یہ حقیقی دنیا ہے ڈیئر یہاں کوئی بیٹ مین نہیں ہے۔اچھا تو یہ بات ہے،نادیہ میرے پیٹ پر بیٹھ گئی میرے ہاتھ پکڑ لیے اور چہرے کے سامنے چہرہ کرلیا۔وہ جو چودھری پکڑا گیا تھا،وہ کیسے ہوگیا کیسے اس کے سب دھندےبند گئے اور کیسے وہ جیل میں پہنچ گیا۔کیا یہ سب خود بخود ہوگیا ۔نادیہ نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔نادیہ اس رات تمھارے ہوتے ہوئے ایک فون کیا آگیا۔تم نے کہاں کہاں کے اندازے لگا لیے۔ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی کے نادیہ کے آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔اوہ میری جھلی جان میں نے اسے سینے سے لگا لیا۔پرنس میرا اتنا اندازہ ضرور ہے تم مجھے سے کچھ چھپاتے ہو۔ نہیں تو چودھری جیسے سانپ اتنی اسانی سے جیل میں نہیں جاتے۔نادیہ پلیز یہ فضول بحث چھوڑو اب۔چھوڑ دوں گی اگر تم ڈیول کی بربادی کا وعدہ کرو۔ میری ایک بہت عزیز دوست اس کے ہاتھوں برباد ہوچکی ہے اس نے اسے زبردستی کوٹھے پر بٹھایا ہوا ہے ۔جب اس کا خیال آتا ہے تو دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے دل چاہتا ہے ڈیول کے سینے میں سارا میگزین خالی کردوں۔مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ جس لڑکی کو ڈیول نے عبرت کانشان بنانے کیلیے کوٹھے پر بٹھایا ہوا ہے وہ نادیہ کی دوست ہے ۔نادیہ اپنی ہی کہی جا رہی تھی۔ پتہ نہیں ایسی کتنی لڑکیاں برباد ہو چکی ہیں، پتہ نہیں کتنے گھر تباہ ہوچکے ہیں۔نادیہ روئے جا رہی تھی،عورت کا سب سے مضبوط ہتھیار آنسو ،اور ان آنسوؤں نے مجھے بھی بے بس کر دیا اور میں نادیہ سے ڈیول کے خاتمے کا وعدہ کر بیٹھا۔تب جا کر وہ چپ ہوئی اور میرے ساتھ لپٹ گئی کچھ دیر میں ہم سو گئے۔نادیہ کو گھر بار کی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔نہ اسے معاشرے کی کوئی فکر تھی۔اگر کسی کی دنیا میں فکر تھی تو وہ پرنس تھا۔
اگلے دن میری آنکھ کھلی تو حسبِ معمول آدھا دن گزر چکا تھا۔نادیہ جاچکی تھی۔نہا دھو کر میں نے آسن جمایا اور دھیان لگا کر بیٹھ گیا ۔ایک گھنٹے بعد آنکھیں کھولی،ناشتہ کیا۔ اور باہر نکلنے کی تیاری کی۔میرا ارادہ ہوٹل جانے کے بعد فارم ہاؤس جانے کا تھا،میں نے موبائل اٹھایا تو اس پر کچھ کالز کئی میسجز اور ایک ایم ایم ایس آیا ہوا تھا،میں نے اسے دیکھا تو نمبر انجان تھا،ایم ایم ایس میں ایک تصویر تھی،اس تصویر میں کوئی لڑکی تھی جس پر بہیمانہ تشدد کیا ہوا تھا،لڑکی کسی ہسپتال کے بیڈ پر لیٹی تھی،اورڈاکٹرز اس کے آس پاس تھے۔ مجھے لڑکی کچھ جانی پہچانی لگی۔غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ یہ تو رات والی لڑکی ہے جسے ماڈل نے تھپڑ مارا تھا اور میں ڈیول اور ماڈل کی درگت بنا رہا تھا۔تب وہ اپنی دوستوں سمیت غائب ہوگئی تھی۔اس کا نام ہانیہ ہے ۔ایم ایم ایس کے ساتھ ہسپتال کا ایڈریس بھی لکھا ہوا تھا۔میں سمجھ گیا یہ ڈیول کا طریقہ کار تھا۔یقیناً اس پیاری لڑکی کو جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہو گا اور اس کی ویڈیو بھی بنائی گئی ہو گی۔مجھے بہت افسوس ہونے لگا،ڈیول اور ماڈل نے گھٹیا پن کی انتہا کرد ی تھی۔میں جلدی سے فلیٹ لاک کرکے گاڑی میں بیٹھا ۔ میں نے گاڑی کا رُخ ہسپتال کی طرف کردیا۔ڈیول کی بربادی لازمی ہوگئی تھی ویسے بھی میں نادیہ سے وعدہ کرچکا تھا ۔ میں مختلف طریقے سوچنے لگا۔اسی ادھیڑ بُن میں میں ہسپتال والے روڈ پر مڑا ۔اس روڈ پر آکر میری ساتویں حس مجھے مسلسل انتباہ کر رہی تھی ۔ کہ مجھے اپنی طرف ایک لکیر سی آتی محسوس ہوئی