پلے بوائے (قسط 3)

 

 


ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے کے اندر میں بجلی کی تیزی سے چلتی گاڑی سے نکل گیا،گاڑی پر میزائل لگا اور گاڑی وہیں تباہ ہوگئی،چند لمحوں بعد دوسرا میزائل مجھے پھر اپنی طرف دکھائی دیا اور میرے جمپ نے میری جان بچائی۔سڑک پر سراسیمگی پھیل گئی تھی، کسی اونچی عمار ت پر راکٹ لانچر سے مجھے پر فائر کیا گیا تھا۔ میرے جسم میں بجلیاں بھری ہوئی تھی ،اور میں ایک دکان کی آڑ لے چکا تھا۔اگر میں کوان لی کا شاگرد نہ ہوتا تو آج میری کہانی مکمل ہو گئی تھی۔

ایک عمارت سے اسی لمحیں مجھ پر فائرنگ ہونے لگی۔فائرنگ کلاشنکوف سے کی جارہی تھی۔ راکٹ کا فائر بھی وہیں سے کیا گیا ہو گا ۔شاید اس کے پاس دو ہی میزائل تھے۔ ان کے خیال میں مجھے گاڑی ہی میں مارنے کیلیے تو ایک ہی بہت تھا۔میں آڑ میں تھا ۔ فائرنگ والے نے مجھے ہلنے نہ دیا ،وہ پوری تیاری سے آئے تھےکیونکہ تھوڑی دیر بعد وہیں ایک کار آکر رکی اس میں سے چار آدمی نکلے۔۔ ان کے ہاتھ میں بھی کلاشنکوف گنیں تھی،اوپر والا ان کو گائیڈ بھی کر رہا تھا ان کے پاس واکی ٹاکی تھیں،مجھے اوپر والے کی طرف سے فکر تھی۔میں یہیں دبکا رہتا تھا تو موت نے حملہ کر جانا تھا۔جیسے ہی کار سے نکلے آدمی دکان میں داخل ہوئے میں ان کی طرف اڑا ،اور چاروں کے سامنے جا پہنچا وہ اپنے زعم میں تھے۔نزدیک سے گنز اتنا کام نہیں دے سکتی تھیں ،مجھےاسی کا فائدہ اٹھانا تھا۔ ایک نے تو فوراً فائر کیا لیکن میں وہاں نہیں تھا،میرے مکے نے اس کے کندھے کا جوڑ توڑ دیا تھا،دوسرے کی ناف میں میرا گھٹنا لگا۔ وہ وہیں دوہرا ہوگیا۔تیسرے نے میرے چہرے پر فائر کیا لیکن میں پیچھے کی طرف گرا اور میری کک اسکےہاتھ پر پڑی ہڈی ٹوٹنے کی آواز آئی،اسی پل میں نے گرتے ہوئے اپنے ہاتھ زمین پر ٹکائے اور سویپ گھما دی،چوتھے کی ٹانگیں ہوا میں لہرائی اور وہ کمر کے بل گرا،میری ٹانگ اس کے سینے پر اوپر سے نیچے پڑی ،اس کی سینے کی ہڈیاں ٹوٹ گئی۔میں نے پھرتی سے ایک کلاشنکوف اٹھا لی، اور جس کے پیٹ میں گھٹنا مارا تھا اس کی ٹانگ پر دو گولیاں مارد ی۔مالک دکان کاونٹر کے نیچے دُبک گیا تھا،جبکہ دکان پتہ نہیں کب خالی ہوگئی تھی،صرف ایک عورت اور بچہ پیچھے سامان کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کر رہے تھے۔کلاشنکوف لیکر میں باہر نکلا ،میں چھت والے کی پوزیشن کا اندازہ کرچکا تھا۔اس کے خیال میں مجھے ابتک ختم ہو جانا چاہیے تھا۔میں نے آڑ سے اس پر فائر کیا۔اسے کندھے پر فائر لگے،ویسے بھی میں نے اسے مارنے کیلیے فائر نہیں کیا تھا۔وہ وہیں چھت پر گر گیا،میرا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوا تھا۔مجھے اب مزید حملے کی توقع نہیں تھی۔ یہ ڈیول کے علاوہ کسی کا کام نہیں تھا۔جیسے میں نے ماڈل کوپکڑ کر اسے بلایا تھا ویسے ہی اس نے اس لڑکی کی تصویر بھیج کر مجھے بلایا تھااور بھرپور مکمل حملہ کیا تھا۔میں گن لیے احتیاطً چند منٹ وہیں آڑ میں رکا رہا،اتنے میں دو جیپیں اڑتی ہوئی آئی اور میری تباہ شدہ کار کے نزدیک آ کر رکیں۔میں جیپیں دیکھ کر باہر نکل آیا۔اتنے میں اس سے کمانڈوز نکل چکے تھے۔ اور ادھر ادھر پوزیشن لے چکے تھے ۔

تنویر سب سے آگے تھا۔مجھے دیکھ کر تنویر نے اطمینان کا سانس لیا۔میں جیپ میں بیٹھ گیا تو سب جیپوں میں بیٹھ گئے،بڑی پھرتی دکھائی تم نے ۔میں نے تنویر سے کہا ،وہ جیپ اسٹارٹ کر چکا تھا۔سر آپ کو پتہ ہے ٹریکنگ سسٹم کے ذریعے آپ کی کار کو مسلسل نگرانی میں رکھا جاتا ہے ۔پھر آپ کا موبائل بھی ہمیں سگنل دیتا رہتا ہے ۔ جیسے ہی آپ کی گاڑی کوہٹ کیا گیا میں فوراً نکل پڑا۔ آپ کی کار کی لوکیشن کا اندازہ ہم کر چکے تھے۔لگتا ہے سر میزائل سے حملہ ہوا ہے،تنویر نے صحیح اندازہ لگایا ۔ہاں ڈیول جانتا تھا ہو گا میری کار بلٹ اور بم پروف ہے۔اوہ تو یہ ڈیول کا کام ہے۔تنویر بڑبڑایا ۔تنویر آئندہ مجھے میزائل پروف گاڑی چاہیے۔ہُومر ایچ 2 کو ذہن میں رکھنا،مجھے کار نہیں جیپ چاہیے۔سر ۔ ہُومر ایچ 3 ایلفا ماڈل آنے والا ہے۔ٹھیک ہے مجھے اسی طرز کی جیپ بنوا دو ۔اب ہم نےتھوڑی دیر کیلیے اس ہسپتال میں رکنا ہے ۔میں نے تنویر سے کہا،ہسپتال میں ہانیہ کا پوچھتے ہوئے میں اس کے کمرے کے سامنے پہنچ گیا۔میرے ساتھ تنویر اور اس کے ساتھی تھے،ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی منسٹر آ یاہو۔ میں نے تنویر کو اشارہ کیا تو اس نے سر ہلا دیا۔اس نے باہر ہی پوزیشن لے لی،اس کے باقی ساتھی ہسپتال میں پوزیشن لے چکے تھے،تنویر کے آنے سے مجھے کچھ بے فکری ہو گئی تھی،یہ ساری ٹیم میرے ذاتی محافظ تھے۔کبھی میں سیکورٹی کمپنیز سے گارڈ لے کر رکھتا تھا۔پھر میں نے ان سے اسپیشل آدمی کی مانگ کی تو انہوں نے مجھے تنویر سے ملایا۔تنویر ریٹائرڈ کمانڈو تھا۔اپنے کام میں ماہر تھا۔انسان دوست تھا ،میری اس سے خوب جمنے لگی۔تو میں نے اسے اپنے پاس مستقل کام کرنے کی آفر کی، تنویر نے حامی بھر لی ،میں نے اسے کھلی چھوٹ دے دی اور فارم ہاؤس اس کے حوالے کرد یا۔ تو اس نے اپنی طرح کے ریٹائرڈ کمانڈوز کی ایک ٹیم بنا لی،سب پروفیشنل تھے۔وسیع و عریض جائیداد ،بزنس،اور میرےلائف اسٹائل کی وجہ سے سو سجن سو دشمن تھے اور اور امیر طبقے میں دکھاوے کیلیے بھی مجھے ایسی ٹیم کی ضرورت تھی،تنویر نے میرے کاروبار ،جائیداد کا نظم و نسق اور میرے بہت سے کام سنبھالے ہوئے تھےاور میں بے فکری کی زندگی گزارتا تھا۔میں نےکمرے کا دروازہ ہلکا سا ناک کیا۔تو تھوڑی دیر بعد ایک لڑکی باہر آئی،یہ صبا تھی جو رات ہانیہ کے ساتھ تھی اور میرے ساتھ فری ہو رہی تھی،اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں،مجھے دیکھ کر چونکی ،پھر مجھے اندر لے گئی،اندر بیڈ پر وہی معصوم اور پیاری لڑکی لیٹی تھی ،ایک نظر اس کے مضروب جسم پر ڈالی اور دوسری اس کی روح پر ڈالی ،اس کے دل پر گہرے زخم لگےتھے،جسم والےتو بھرجانے تھے۔،اندر ایک آدمی اور عورت بھی تھے،وہ شاید اس کے والدین تھے۔ یہ ہانیہ کے فرینڈ ہیں۔صبا نے ہانیہ کے والدین سے میرا تعارف کروایا۔میں نے ان کوسلام کیا، وہ مجھے پہلی دفعہ دیکھ رہے تھے لیکن خاموش رہے۔ اس کے والدین غم سے نڈھال تھے۔ہانیہ ہوش میں آچکی تھی۔میں اس کے بیڈ کے پاس کھڑا ہو گیا،ہانیہ مجھے دیکھ کر روہانسی ہوگئی ،اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔ جس طرح وہ مجھے دیکھ رہی تھی اس سے میں سمجھ گیا کہ اس نے رات کے واقعہ سے اندازہ لگا لیا ہے کہ اس پر حملہ کرنے والے کون تھےیہ تو بعد میں پتہ چلا ان کی باتوں سے ہانیہ جان چکی تھی کہ وہ کیوں آئےتھے۔۔میرا دل کٹنے لگا۔اتنی پیاری لڑکی جسے دیکھ کر ہی پیار آجائے ایسی لڑکی کے ساتھ اتنا بے رحمانہ سلوک کوئی پتھر د ل ہی کرسکتا تھا،میں نے ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کر دبایا اور اسے تسلی دی۔میری کمر اس کے والدین کی طرف تھی۔صبا میرے ساتھ کھڑی تھی۔۔ہانیہ کے آنسو رک ہی نہیں رہے تھے ،میں اسے تسلی دیتا رہا۔میں باتوں باتوں میں اسے بتایا کہ مجرم کیفرِ کردار تک پہنچ جائیں گے ۔ ہانیہ کی آنکھوں میں آنسو تھے ہانیہ کا کرب مجھ سے دیکھا نہ گیا۔اس کے جسم پر کم اور روح پر زیادہ زخم لگےتھے۔مجھ سے وہاں رکا نہیں گیا،میں خدا حافظ کہہ کر باہر نکل آیا۔صبا میرے پیچھے ہی آگئی۔ کیا ہوا تھا صبا ؟ میں نے اس سے پوچھا،ہانیہ کے بنگلے میں رات ڈاکو آگئے تھے ۔ہانیہ کے والدین اور دونوں بھائیوں کو ایک کمرے میں بند کردیا اور پانچوں نے ہانیہ کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔صبا سسکنے لگی۔ہانیہ نے بتایا ہے کے اس کی ویڈیو بھی بناتے رہے،مگرویڈیو والی بات کا گھر میں کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے ۔سمجھ نہیں آرہی ایسی دشمنی کون کرسکتا ہے،صبا اپنی کہے جا رہی تھی،اس کامطلب تھا ہانیہ نے کسی کو نہیں بتایا کہ ڈاکو کون ہوسکتے ہیں۔ یا شاید وہ ڈر گئی تھی۔مجھے ہانیہ پر بہت پیار آنے لگا۔جو بھی تھے صبا بچ نہیں پائیں گے،میں خودانکوتلاش کروں گا۔ وہ تمھیں بہت چاہتی ہے پرنس،صبا نے بے اختیار کہا،کون ہانیہ ؟ میں حیران ہوا،،ہاں میں تمھیں اس کی ڈائری بھیجوں گی وہ پڑھ لینا، ہانیہ کے والدین معمو لی لوگ نہیں تھے ۔لیکن ان کو پتہ نہیں تھا کہ مقابلے پر کون ہے ۔میں صبا کو تسلی تشفی دے کر وہاں سے نکلا۔جیپ میں بیٹھ کر تنویر میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ فارم ہاؤس چلو ،میں نے اس کا مطلب سمجھتے ہوئے کہا۔ پہلے پہل میں نے فارم ہاؤس اپنی دولتمندی کے اظہار کیلیے اسوقت خریدا تھا جب جوسلین کوگئے زیادہ دن نہیں ہوئے تھے۔میرے مشاغل کیلیے اس کی ضرورت تھی۔۔ وہاں جا کرآؤٹنگ ہو جاتی تھی۔یا دوست احباب بھی استعمال کرلیتے تھے۔پھر مجھے تنویر مل گیا ۔ تو فارم ہاؤس اس کے حوالے کر دیا اور اسے اندر سے محل کی شکل دے دی ۔وہاں تنویر اور اس کے ساتھی رہنے لگے۔کبھی کبھار وہاں پارٹیز وغیرہ کرلیتا تھا۔پھر بعد میں ایک واقعہ کی وجہ تنویر کی صلاح پر اسے باہر سے قلعے کی شکل دے دی۔۔ ویسے وہ ابھی تک فارم ہاؤس ہی کہلاتا تھا۔ اور میں فلیٹ میں خوش تھا مجھے ملازموں کے لاؤ لشکر اور بڑے گھروں سے چڑ تھی،میں آزاد فضاؤں میں رہنے والا تھا،اور اپنے حال میں مست رہتا تھا،فارم ہاؤس پہنچے تو میں بڑے سے شاہانہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ گیا ،وہیں تنویر بھی آگیا۔

تنویر تمھارے لیے کچھ کام ہیں،یس سر مجھے یہ متوقع ہیں۔پہلا کام تو یہ کرنا ہے کہ ہیرا منڈی میں ایک لڑکی ڈیول نے زبردستی بٹھائی ہوئی ہے ،اسے اٹھا لاؤ ،جو رستے میں آئے اس سے نپٹ لینا،بس دھیان رہے کسی کی جان نہیں جان نہیں جانی چاہیے،اوکے سر،تنویر نے کہا،دوسرا یہ پتہ کرو ہانیہ کہ گھر رات کو پانچ ڈاکو کون آئے تھے،تیسرا اب سے ڈیول ہر پل تمھاری نگرانی میں ہونا چاہیے،مجھے اس کے کالے دھندوں کی خلاف ثبوت چاہیے۔خاص کر اس کے پاس جو ڈھیر سارا بلیک میلنگ مواد ہے جس کے ذریعے وہ حکومت کرتا ہے وہ مجھے چاہیے۔یاد رکھنا جب تک وہ مواد ہمارے ہاتھ نہیں لگتا ،ہم اس ڈیول پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ڈیول کی حکومت پیسے ،لڑکیوں ،بدمعاشوں اور بلیک میلنگ مواد پرکھڑی ہے پتہ نہیں صنعت کار، بیورو کیٹ ، اور سیاست دانوں میں سے کون کون مجبوراً ا سکا ساتھ دے رہا ہے۔اور ہم نے یہ بلیک میلنگ کا دھندہ ختم کرنا ہے۔باقی کچرے کو بعد میں دیکھ لیں گے۔ڈیول کا موبائل ہیک کرو،یا اس کے بنگلے میں کسی کوگھساؤ۔الیکڑانک نگرانی کرواؤ۔اس کے بندے خریدو،جو بھی ہوسکے میں نے اسے تباہ کرنا ہے اور جیل میں پہنچانا ہے ۔سمجھ گئے،یس سر نیا شکار ۔ہاں ہمارا نیا شکار۔اور وہ لوگ غنڈےموالی ٹائپ کے ہیں،تم جیسے پروفیشنل نہیں ہیں، ان پر وقت ضائع نہیں ہونا چاہیے ان کو گھیرو ۔سر شام تک ان کی ہر بات ریکارڈ ہونی شروع ہو جائے گی۔تنویر نے اعتماد سے کہا،اوکے ناؤ یو گو،میں نے تنویر کو کام پر لگ جانے کو کہا۔میں ایک کال ملانے لگا گیا۔کال ملتے ہی تصدق ہمدانی کی سپاٹ آواز میں ہیلو سنائی دی،یار اپنا ساؤنڈ سسٹم تو ٹھیک کرو الو۔اسی ساؤنڈ سسٹم سے جسٹس حضرات رعب میں آجاتے ہیں،ہمدانی کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔اچھاتو ہم ایسے ہی تمھاری بیرسٹری کے قائل ہیں،بیرسٹری کہاں چلنی بس سسٹم کے پرزے ٹھیک سے چلانے آتے ہوں ،یہی بیرسٹری ہے،حکم کرو پرنس۔ہمدانی مصروف لگتا تھا۔ایک آدمی ہے جیل میں بے گناہ سزا کاٹ رہا ہے،ڈیول نے اسے پھنسایا ہے،اسے جیل سے نکالنا ہے،،میں نےاسے اس لڑکے کا بتایا جس کی بہن ڈیول نے کوٹھے پر بٹھائی ہوئی تھی۔ پتہ نہیں ایسی کتنی لڑکیاں کوٹھوں میں اور کوٹھیوں میں ڈیول کا بزنس بنی ہوئی تھیں،انکار تو سب ہی کرتی ہیں نفرت بھی کرتے ہیں۔لیکن اس لڑکی کی طرح سسٹم میں بغاوت کوئی کوئی کرتا ہے۔تم کہہ رہے ہو تو بندہ بے گناہ ہی ہوگا۔رستے صاف کروا دینا بندہ آجائے گا۔ ہمدانی نے ہمیشہ کی طرح مجھے بھی گھسیٹ لیا۔رستے تمھیں صاف ہی ملیں گے میں نے کہا۔دوسرا فون شوبز کی ایک خاص شخصیت کو کیا۔پرنس میری ی جان ،مجھے پتہ تھا تمھارا فون آئے گا،تہمینہ نے چہکتے ہوئے کہا۔اچھا مجھے بھی پتہ چلے کہ تم نے یہ اندازہ کیسے لگایا، میں مصنوعی حیرانگی سے بولا ،کیونکہ میں اس کی بات سمجھ گیاتھا،رات تم نے ٹاپ کی ماڈل کا جو حال کیا ہےوہ بات مخصوص حلقوں میں پھیل چکی ہے۔تہمینہ تم صحیح سمجھی میں نے اسی کیلیے فون کیا۔آئندہ ماڈل کو کام نہیں ملنا چاہیے۔میں نے اپنا مدعا بیان کیا۔پورے شہر میں نہیں ملے گا،بےفکررہو۔

ایک بندہ ہے بس وہ اڑی کرے گا،تہمینہ نے سوچتے ہوئے کہا۔زیادہ ہچر مچر کرے تو اس تک میرا پیغام پہنچا دینا،میں پیغام کے ساتھ کل کاواقع بھی نمک مرچ لگااسے سمجھاؤں گی،امید ہے وہ سمجھ جائے گا،تہمینہ نے بین السطور میں بتایا کہ وہ اسے میری دھمکی پہنچائے گی۔نہ سمجھے تو مجھے بتادینا،میں ماڈل کو مارکیٹ سے آؤٹ دیکھنا چاہتا ہوں،ہو جائے گا جان،اب تم یہ بتاؤ کہ میری طرف چکر کب لگاؤ گے۔جلدی آؤں گا،نہ آئے تو تمھارا کام نہیں ہونا،تہمینہ نے چمکتے ہوئے کہا۔ٹھیک ہے جان پھر بات ہو گی بائے۔،۔بائے تہمینہ نے جذباتی انداز میں کہا،تہمینہ سے یادِ ماضی میں قارئین کی ملاقات ہوچکی ہے،یہ شہر میں شوبز کی مگرمچھ ہے۔میں کچھ اور رابطوں میں مصروف ہوگیا مجھے معلومات چاہیے تھی۔جبتک ڈیول کی حکومت ختم نہیں ہوجانی تھی ۔اسوقت تک میں نے فارم ہاؤس میں ہی رہنا تھا۔شام ہوگئی،تو مجھے تہمینہ کا فون آگیا،پرنس ماڈل کارستہ روک دیا ہے ،آج ہی ایک شو تھا اسے ذلیل ہو کرنکلنا پڑا،کچھ دیر بعد ہی مجھے دھمکی آمیز فون آنے لگے،اور میرے دفتر پر باہر فائرنگ بھی ہوئی ہے،تہمینہ پریشان تھی، تہمینہ تم پیچھے ہٹ جاؤ اب اس معاملے کو میں خود دیکھ لوں گا۔پرنس یہ کیسے ہوسکتا ہے،تہمینہ ہکلائی۔۔۔ میں نے کہا نہ پیچھے ہٹ جاؤ۔۔۔میں خود ہی دیکھ لوں گا۔میں نے تہمینہ کو تسلی تشفی دی اور ماڈل کوسبق سکھانے کا ارادہ کرلیا۔کچھ دیر بعد تنویر ملنے آیا،سر آپ ذرا آپریشن روم میں آئیں۔چلو۔آپریشن روم میں ایک مین فریم کمپیوٹر تھا،کمپیوٹر سیکشن سمیر نے سنبھالا ہوا تھا۔سمیر کمپیوٹر کا کیڑا تھا۔ اس کے سامنے 9 اسکرین اکٹھی لگی ہوئی تھیں،یہ علیحدی علیحدہ بھی کام کرتی تھیں،اور ایک اسکرین بھی بن جاتی تھی،تنویر ایک اسکرین پر دکھانے لگا۔اس میں ڈیول کا بنگلہ باہر سے نظر آرہا تھا،سر اس بنگلے کی نگرانی شروع کر دی ہے ۔اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے لگے ہیں،اس کے جرائم کی فائل بنانی شروع کردی ہے۔۔مخبروں نے کام شروع کر دیا ہے۔کچھ رپورٹ آنی شروع ہوگئی ہیں ۔یہ اس کی رائیٹ ہینڈ ہے، تنویر نے کمپیوٹر اسکرین ایک تصویر دکھائی ۔صائمہ اس کا نام ہے۔اس کے مالی معاملات کو کنٹرول کرتی ہے۔اور ڈیول کی داشتہ بھی ہے۔اور یہ اس کی غنڈہ فورس کو چلاتاہے۔ اشتہاری بند ہ ہے کئی مقدمات میں مطلوب ہے۔بڑی دہشت ہے اس کی ۔ مشہور ڈکیٹ ہے ۔ لیکن آزاد پھرتا ہے،سفاک اور خطرناک ہے۔اس کا نام مختار ہے لیکن ماکھو کے نام سے مشہور ہے۔تنویر کل رات یہ بندہ کہاں تھا،ہانیہ کے گھر یہی گیا ہو گا،سر اس نکتے پر کام شروع ہے،اس بات کی تصدیق ہوجائے گی۔اندر کا ایک ملازم خرید لیاہے۔آج کی رات کہ بعد ان کی ہر گاڑی ،ہر بندہ ، لینڈ لائن فون ، بنگلہے کی اہم جگہیں ہماری نگرانی میں ہو گی، ہم کوشش میں ہیں کہ ڈیول کا موبائل ہمارے کنٹرول میں آجائے،اس کیلیے اس کے موبائل میں ایک سوفٹ ویئر انسٹال کروانے کی کوشش کریں گے، ٹھیک ہے تنویر اچھا کام ہے،لیکن یاد رکھنا ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے،ایسے آدمی اوچھا وار کرنے میں اور بھاگنے میں ،دونوں میں بڑی جلدی کرتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں سر،تمھیں ایک لڑکی لانے کو کہا تھا،اسے لے آئیں ہیں سر،اسے ایک روم دے دیا ہے۔،گڈ ،ایسا کرو ماڈل کا علاج کرو اؤ۔اس کی طبیعت بہت خراب ہے،اسے ہسپتال کارستہ دکھا دو،ٹھیک ہانیہ کی طرح۔۔محل سے ہٹ کر تنویر اور اس کے ساتھیوں کیلیے رہائش اور آپریشن روم اور فائیٹ کیلیے پریکٹس ہال بنوا دی تھی، میں نے تنویر کا خلوص اور کام دیکھتے ہوئے سارے حصے کا نام تنویر ہاؤس رکھ دیا تھا،یہاں کافی کمرے تھے،یہیں ایک کمرے میں ہیرے منڈی سے لائی لڑکی رکھی ہوئی تھی۔میں اس سے ملا،تنویر میرے ساتھ ہی تھا۔سر اس کا نام نائلہ ہے، نائلہ مجھے دیکھ کر کھڑی ہوگئی،بیٹھو نائلہ ،ہم سب بیٹھ گئے،نائلہ جو ہو گیا وہ تو میں واپس نہیں لا سکتا ،لیکن جو بچ سکتاہے وہ ضرور تمھیں لا کر دوں گا،دو دن تک تمھارا بھائی بھی قانونی طریقے سے آزاد ہو کر آجائے گا۔تم پاکستان کے کسی شہر میں یا دنیا کہ کسی ملک میں سیٹل ہونا چاہو تمھیں کروا دوں گا۔فی الحال کچھ دن یہیں رہو اور ڈیول کا انجام دیکھتی جانا۔نائلہ نے کیا کہنا تھا ،بس رونے لگی،میں نے نادیہ سے کال ملائی ،میرے پرنس،حکم ۔۔۔۔۔۔نادیہ اسٹارٹ ہونےہی لگی تھی ۔۔۔ نادیہ کوئی تم سے بات کرنا چاہتا ہے،میں نے موبائل نائلہ کوپکڑا دیا،دونوں دوستوں کی کال بڑی رقت آمیز تھی میں تو باہرنکل آیا۔تنویر ایک تو میرا موبائل بھیج دینا اور دوسرا ماڈل کا علاج کرواؤ ۔اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسے ہسپتال بھیج دو۔اور اس سے پہلے ہانیہ کی حفاظت کا بندوبست کروا لینا،اوکے سر آپ بے فکر رہیں،یہ صائمہ کہاں مل سکتی ہے،میں نے تنویر کی طرف پُر خیال نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔سر ایمپیریل ہوٹل میں ملے گی ،تقریباً ہر رات وہاں جاتی ہے۔ٹھیک ہے اگر آج رات جائے تو میں اس سے ملنا چاہو گا۔اوکےسر جیسے ہی وہ بنگلے سے نکلے گی آپ کواطلاع کر دوں گا۔تقریباً 10 بجے تنویر نے بتایا کہ صائمہ ہوٹل پہنچ چکی ہے۔میں تو بیٹھا بیٹھا بڑا ہی بے زار ہوچکا تھا،فوراً باہر نکلا،تنویر باہر ایک گاڑی لے کر کھڑا تھا۔دوسری گاڑی میں اس کے کمانڈو تیار تھے،تنویر تم یہیں رہو،تمھارا یہاں رہنا ضروری ہے ۔اور دوسری گاڑی میں صرف دو آدمی بھیجنا ،وہ بھی مجھ سے دور رہیں،گاڑی تمھیں یہیں سے نظر آتی رہے گی،بس اتنا ہی کافی ہے،اوکے سر،تنویر ہمیشہ کی طرح مودب تھا۔سر یہ صائمہ کا بائیو ڈیٹا ہے ،میں نے اسے پڑھ کر وہ واپس تنویر کو دے دیا۔ تنویر نے مجھے ایک یو ایس بی پکڑا دی۔ میں اس کا مقصد سمجھ گیا۔امپیریل ہوٹل کے نیچے بہت بڑا تہہ خانہ تھا،اور یہی اصل جگہ تھی،اوپر تو دکھاوا تھا۔

میں بھی وہاں پہنچ گیا۔یہاں اونچی قسم کا جوا ہوتا تھا اور یہاں کال گرلز کا رش رہتا تھا۔ایک سے ایک مہنگی کال گرل یہاں ملتی تھی،لیکن کوئی پتہ نہیں چلتا تھا کہ کس کہ پا س بیماریاں ہیں اور کون صاف وشفاف ہے،ہو سکتا ہے جسے آپ خوبصورت جسم سمجھ کے مزے کیلیے ساتھ لائیں وہ آپ کو تحفے میں ایڈز ۔شوگر ۔ ہیپاٹائٹس دے جائے،کال گر ل کی چوت کی عمر پانچ سال سے دس سال تک ہوتی ہے ، کال گرل بھانت بھانت کہ لوگوں سے مل کر تھوڑے وقت میں اپنے جسم کو بہت زیادہ خرچ کرتی ہے ،اور پھر اس کی زندگی اس پر بوجھ بن جاتی ہے،ایک لطیفہ یاد آگیا ایک شوقین مزاج لڑکا ہیرا منڈی گیا اور ایک لڑکی سے اس کا ریٹ پوچھا اس نے 5000 کہا، ، وہ آگے چلا گیا ، ایک بڑھیا سے ازراہِ مزاق اس کا ریٹ پوچھا تو اس نے 10،000 کہا،لڑکا کہنے لگا بڑھیا ہوش میں تو ہے وہ جوان لڑکی دیکھ جو بالا خانے کی کھڑکی میں بیٹھی ہے وہ 5000 مانگ رہی ہے اور تم 10 بھنگ تو نہیں پی لی کہیں ؟بڑھیا اس لڑکے کو اندر لے گئی،اور شلوار اتار کے اس لڑکے سے کہااپنا ایک ہاتھ میری چوت میں ڈالو،لڑکے نے جوش میں پورا ہاتھ ڈال دیا،اب اس میں دوسرا ہاتھ بھی ڈالو ،بڑھیا نے مزید فرمائش کی ،لڑکے نے کوشش کی مگر دوسرا ہاتھ اندر نہ ڈال سکا ،آخر کہنے لگا دوسرا ہاتھ اندر نہیں جا رہا ،بڑھیا کہنے لگی لیکن اس لڑکی کی چوت میں دوسرا ہاتھ بھی جاتا ہے، کچھ سمجھے کہ نہیں ،صحیح مزہ لینے والےکال گرلز سے دور رہتے ہیں کیونکہ ان کا سیکس پرفیشنل ہوتا ہے اس میں کوئی جذباتیت نہیں ہوتی۔اور چودائی میں جذباتیت نہیں تو سمجھ لیں کہ موبائل میں بیٹری نہیں ہے ۔ کلب میں انگلش ماحول تھا اور کافی رش تھا،مجھے صائمہ وہاں نظر نہیں آئی، میں سوچنے لگا کہ صائمہ مجھے جانتی تو ہوگی پہلے نہیں تو اب ضرور جانتی ہو گی،اسلیے ا سے کسی عام طریقے سے ملنا اور اسے پھنسانا ممکن نہیں تھا۔پینے پلانے سے نکل کر میں جوئے والے حصے میں پہنچ گیا وہاں صائمہ رولیٹ پر داؤ لگا رہی تھی،دو تین بار ہار کر وہ دوسری جگہ چلی گئی،وہاں تاش کے پتے پر جوا کھلایا جا رہا تھا،کلب کا ملازم پتے بڑی فنکاری سے بانٹتا تھا، اس کے ارد گرد کچھ لوگ تھے صائمہ بھی وہاں جا کہ بیٹھ گئی تو میں اس کے سامنے جا کہ بیٹھ گیا اورکھیل میں شامل ہو گیا،میری آنکھیں پتے بانٹے والے ہاتھوں پر تھی، صائمہ مجھے دیکھ چکی تھی ،وہ چونک گئی تھی،میرے چہرے پر اس کیلیے نرمی اور محبت تھی،ہونٹوں پر دھیمی سی مسکراہٹ تھی،ادھر پتے بانٹے گئے تو میں نے اسے آنکھوں کے اشارے نہ کھیلنے کو کہا،لیکن وہ زیادہ پیسوں کی چپس لگا کہ ہار گئی،بھلا ایک تو مخالف کھلاڑی ہو اور ہو بھی پرنس تو وہ میری بات کیسے مان سکتی تھی پتے پھر بانٹے گئے ،ہر پتے پر میری نظر تھی،میں نے سر کے ہلکے سے اشارے سے اسے کھیلنے کو کہا،مگر اسنے داؤ نہ بڑھایا،اور وہ پھر بھی جیت گئی،میں کھیل میں صرف اسی کےلیے شامل ہوا تھا ،نہیں تو کسی اور طرح میں اسے پتوں بارے معلومات نہیں دے سکتا تھا،ادھر میں برائے نام پیسے لگا رہا تھا ،اسی طرح کچھ گیم چلیں لیکن صائمہ نے میرے مطابق صرف ایک گیم کھیلی لیکن اس میں کچھ خاص جیت نہیں ہوئی ۔دو آدمی اٹھ گئے کوئی نیا آدمی نہیں آیا تو آخری گیم کھیلی گئی ،اور پتے بانٹے گئے،میرے چہرے پر جوش کے آثار اسے نظر آنے چاہیئے تھے،کیونکہ اب کی بار ایسے پتے تقسیم ہوئے تھے کہ صائمہ دلیری سے کھیلے تو کافی رقم جیت سکتی تھی، اس کے سامنےمجھ سمیت چار آدمی بیٹھے تھے،کسی کو ٹیبل کے آس پاس کھڑے ہونے کی اجازت نہیں تھی،تھوڑے فاصلے پر کچھ آدمی جمع ہو گئے تھے کچھ گیم کے شوق میں اور کچھ صائمہ کو دیکھتے ہوئے ،کیونکہ اس نےبڑا تنگ لباس پہنا ہوا تھا ،میں براہِ راست صائمہ کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ،وہ اتنی بچی نہیں تھی کہ پہلے کھیلے ہوئے راؤنڈ سے میرا مطلب نہ سمجھی ہو،میں اسے جتوانا چاہتا تھا جو کہ اس کیلیے حیران کن تھا لیکن فی الحال وہ آم کھانے کے موڈ میں آگئی تھی ،پیڑ بعد میں بھی گنے جا سکتے تھے،میرے ساتھ بیٹھے ساتھی کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ میں ہارنے کیلیے بیٹھا ہوں،کھیل شروع ہوا تو باری باری سب پیسے لگانے لگے،مجھے اندازہ تھاکہ گیم پھنسے گی مگر جیت صائمہ کی ہے،اگلی بار ہر کوئی داؤ بڑھانے لگا پتے بانٹنے والے کے سامنے 2 اِکے اور حکم کے آٹھ ،چھ اور چار پڑے تھے اس وقت چیک کی آوز آ چکی تھی سارے چیک ۔گیم کھلانے والے نے کہا،ہر کوئی اسی گمان میں تھا کہ ا سکے پاس پتے اچھے ہیں ،اسلیے میں نے ساری چپس لگا دی جو کہ ساڑھے تین لاکھ تو بنتے تھے ، میں نے جان بوجھ کے کم چپس لیے تھے، اور پیٹ کی آواز دی،میرے ساتھ والے نے فوراً اپنے ساری چپس لگا دیئے کیونکہ میں نے اپنے پتے اناڑی پن سے دیکھے تھے اس پر شو کر دئے تھے ،میرے پاس بادشاہ اور بیگم تھی میں ایک ایسا امیر زادہ لگ رہا تھا جسے کھیل کا شوق ہے مگر نوسیکھیا ہے،ایک میرے سامنے بیٹھا تھا میرے دیکھنے کا انداز ایسا تھا جیسے میں شو مار رہا ہوں ،میرا انداز میرے سامنے والے کو تاؤ دلا رہا تھا اس کے ساتھ صائمہ بیٹھی تھی ،جب میرے سامنے والا پیسے لگانے لگا تو میں اس کی طرف طنزیہ انداز سے دیکھا ،وہ بھی پیسے والا تھا اس نے غصے میں اپنے پتے دیکھے ،لیکن دیکھے احتیاط سے میرے اندازے کے مطابق اس کے پاس ایک اکّا اور ایک چھ موجود تھااس نے بھی ساری چپس لگا دی،اس کے پاس زیادہ پیسے پڑے تھے،آخر میں صائمہ تھی میں نے اس کی طرف دیکھا ،اور اسے آنکھوں سے کہا ساری چپس لگا دو اور اس بار اس نے ساری چپس لگا دی،ٹیبل پر اسوقت بیس لاکھ روپےکے لگ بھگ کی چپس پڑی تھی ،شو کیجئے صاحبان ،گیم کھلانے والے کلب کے ملازم نے کہا،میں نے سب سے پہلے اپنے دونوں پتے شو کیے، کلب کے ملازم نے پتے ا ٹھا کر اپنے سامنے جوڑے ،فلش ،اِکّا ،بادشاہ ،بیگم گیم کھلانے والے نے آواز دی ،میرے ساتھ والے نے جس نے میرے پتے دیکھ لیئے تھے وہ ہنسا اور اپنے دونوں پتے شو کیے ،اس کے پاس دو آٹھ تھے ،اس دفعہ گیم کھلانے والے فل ہاؤس کی آوز دی حکم کے تین آٹھ اور دو اِکے ٹیبل پر موجود تھے ، میرے سامنے والے نے مغرور انداز میں اپنے دونوں پتے شو کیے ، اس کے پاس اِکّا اور چھ تھا ۔اس کا حق تھا کہ وہ اپنی جیت کا یقین کرے کیونکہ گیم کھلانے والے نے کہہ دیا تھا کہ یہ اس سے بھی بڑا فل ہاؤس ہے ،ٹیبل پر اسوقت تین اِکےّ اور دو چھ قطارمیں لگ چکے تھے ،آخر میں صائمہ تھی ،میڈم آپ شو کیجیے گیم کھلانے والے نے کہا،صائمہ نے اعتماد سے اپنے پتے شو کیے ،وہ میری ساری گیم سمجھ چکی تھی ،اس کے پاس حکم کا چھ اور ساتھ تھا،اسٹریٹ فلش،گیم کھلانےولے نے آواز دی،اس کے سامنے ٹیبل پرحکم کے چار،پانچ،چھ ،سات،آٹھ کی لائن بن چکی تھی،چھوٹے پتوں سے یہ ایک حیران کن جیت تھی،کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ آخر میں ٹیبل پر یہ پتے جمع ہو جائیں گے،لیکن اس کا اسے ہی پتہ ہو سکتا تھا جسے ہر کھلاڑی کے پتّوں کا اندازہ ہو،صائمہ سارے پیسے جیت چکی تھی ،میں اٹھ کے باہر چل پڑا پارکنگ میں جا کر میں اپنی کار کے پاس کھڑا ہو گیا ۔کچھ ہی دیر میں مجھے صائمہ آتی ہوئی نظر آئی ،یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ اب مجھ سے نہ ملے،میں اس مہربانی کا مطلب سمجھ رہی ہوں پرنس، صائمہ نے میرے پاس آکر کہا تو میں مسکرانے لگا اور کار میں بیٹھ کر اس کیلیے دوسری طرف کا دروازہ کھول دیا میں صائمہ کی طرف دیکھنے لگا،وہ کشمکش میں پڑ گئی،میرا دعوا ہے کہ تم ڈیول کو بھول جاؤ گی۔ ایسا مزا تمھیں پہلے نہیں ملا ہوگا ،جس مطلب کی دنیا میں وہ رہتی تھی وہاں کوئی وفاداری نہیں تھی، میرے دعوے سے صائمہ کشمکش میں پڑ گئی،تم ایسے کئی بیس لاکھ جیت سکتی ہو،میرے ساتھ عزت بھی ملے گی اور آزاد زندگی بھی،میں نے اس کے ماحول کے مطابق اسے لالچ دیا،مطلب پرست صائمہ کی اوقات سے یہ بہت زیادہ تھا ،کیونکہ میرا آئیڈیا تھا کہ باسل بس حکومت کرتا ہوگا اسے کسی کی عزت نفس اور جذبات کی پرواہ نہیں ہو گی ۔ارب پتی لوگوں کو کون انکار کرسکتا ہے،صائمہ نے پچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔

کسی پبلک جگہ پر نہیں جانا اور نہ ہی اپنے محل (فارم ہاؤس)یا اپنے فلیٹ پر جاناصائمہ نے تنبیہ کی تو میں سمجھ گیا کہ باسل کا ڈر اس کے دل میں بیٹھا ہوا ہے ،میرے اندازے ٹھیک لگ رہے تھے۔میں کسی ہوٹل میں بھی جاسکتا تھا۔لیکن مین روڈ پر آکر میں نے کارایک سنسان جگہ کی طرف کار موڑ دی، ایسی کچھ جگہیں میری نظر میں تھی،اور کبھی کبھار ہی استعمال کرتا تھا ،یہ ایک ویران ریسٹ ہاؤس تھا جو کہ اب مخدوش ہو چکا تھا ،اس کے آس پاس درختوں کا جھنڈ تھا ،اور یہ سب ایک ٹوٹی پھوٹی چاردیواری میں تھا۔رات کا وقت تھا،اسوقت تو ادھر آنے کا سوچنا بھی آس پاس کے لوگوں کیلیے ڈراؤنا تھا ۔میں نے کار اس درختوں کے جُھنڈ میں کھڑی کر دیاورڈیش بورڈ کے نیچے ایک بٹن دبایا تو ایک بٹنوں کا پینل نمودار ہو گیا،اس کا ایک بٹن دبا یا اور اپنی سیٹ کو پچھلی سیٹ کے ساتھ لگا دیا ،میں نے صائمہ کو اشارہ کیا تو وہ اس پر بیٹھ گئی ،میں دوسرا بٹن دبایا تو دسری سیٹ بھی پیچھے جا کر ساتھ لگ گئی اس طرح اگلی پچھلی سیٹیں ملنے سے ایک بیڈ سا بن گیا،ویسے تو اگلی سیٹیں پیچھے ہو ہی جاتی ہیں لیکن ان میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے انہیں بیڈ بنا کر دلچسپ کا م لیا گیا تھا ،میں بھی اس کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔وہ دلچسپی سے کار دیکھ رہی تھی،پرنس تمھارے بارے میں سنا تھا آج دیکھ بھی لیا ،جو باتیں تمھارے بارے میں گردش کر رہی ہیں تم اس سے زیادہ ہو ،تمھیں دیکھو تو پاس آنے کو دل کرتا ہے اور پاس آؤ تو لپٹنے کو دل کرتا ہے ،صائمہ نے مجھ سے لپٹتے ہو ئے کہا ،شہوت اس کے چہرے پر صاف دیکھی جا سکتی تھی،اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ خوبصورت تھی ،اور اس کا جسم سیکسی تھا،لیکن انداز عامیانہ تھا کبھی وہ خاص ہوتی ہوگی ،لیکن جیسےماحول میں وہ رہتی تھی اب اس سے اور کیا توقع کی جا سکتی تھی،میں نے اس کو اپنے بانہوں کے گھیرے میں لے لیا ،،فوراً اس کے چہرے پر شہوت کے آثار گہرے ہوگئے، میں نے آہستگی سے اس کے چہرے کے پاس جا کر اس کی آنکھیں چوم لیں ،باری باری دونوں آنکھیں چوم کر میں نے اس کے گال چومے میرے انداز میں نرماہٹ تھی پیار تھا،جیسے وہ کوئی محبوبہ ہو،میں نے اسے مہارت نہیں دکھانی تھی،کیونکہ میرا اندازہ تھا مہارت توڈیول کے پاس بھی ہوگی،میں نے اسے وہ دینا تھا جو ڈیول اسے کبھی بھی نہیں دے سکتا تھا،اور وہ تھی میری کشش،اس کشش کے ساتھ میں اسے پیار کر رہا تھا ،ڈیول اسے یہ کبھی بھی نہیں دے سکتا تھا،گالوں سے کان کی لویں اور وہاں سے چاٹتا ہوا ہونٹوں پر آگیا،دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں ہے ،صرف آپ کا انداز ہی اسے نیا پن دیتا ہے،اور صائمہ کیلیے یہ سب نیا تھا ، میرے انداز سے وہ متاثر ہونی شروع ہوگئی تھی ،اس کا سر میری گود میں تھا اور میں اس کے چہرے پر جھکا ہوا تھا ،اس کی آنکھیں اور گال ،گال اور ہونٹ،ہونٹ اور گالوں پر میں بے تحاشا پیار کر ہا تھا ،اسے چوم رہا تھا ،چوس رہا تھا ۔میرا ہاتھ اس کے ممے اور ممے سے نیچے چلے جاتے تھے ،میرا ایک ہاتھ اس کے سر کے پیچھے تھا ،شہوت میں تو وہ ہر وقت ڈوبی رہتی تھی،اب وہ تو کسی اور ہی دنیا میں جا رہی تھی،اس کے قمیض تنگ تھی ،میں نے تھوڑی اوپر کر کے اس کے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا،کچھ ہی دیر میں اس نے اپنی قمیض خود ہی اتار دی،اور برا بھی اتار دی،میں نے اس کی شلوار بھی نیچے کھینچ دی ، اس نے شلوار اتاری تو میں بھی اپنے کپڑے اتار چکا تھا ،میرا کام آسان ہوگیا،ہم لیٹ گئے ،میں نے اسے گلے سے لگا لیا ،اس کے جسم کو چومنے لگا،ممےاور اس کے جسم پر ہاتھ پھیرتا رہا،پھر چہرے پر کسنگ کرتا ہوا میں اس کے کندھے چومنے لگااس کے ممے سے اوپری جسم چومنے لگا مموں کو کسنگ کرتا ہوااس کے پیٹ پر آگیا،سنٹر آف ارتھ یعنی ناف کو چومتا ہوا اس کی پسلیوں سے گھومتا ہوا اس کی رانوں کی وادی سے گزرتا ہوا اس کی پنڈلیوں سے ہوتا ہوا میں نے واپسی کا سفر شروع کر دیا ،اسے الٹا دیا صائمہ کی کمر کو خراجِ تحسین دیتا ہوا۔میں اس کے اوپر لیٹ گیا میرا عضو اس کی گانڈ میں کھب گیا اور میرے ہاتھوں نے پیچھے سے اس کے ممے پکڑ لیئے ، میں اس کی پیٹھ چومنے لگا ،اسے اس طرح لذّ ت آ رہی تھی ،کچھ دیر اسے اسی طرح سیکس میں کے تالاب میں ڈبکیاں دیتا رہا ،میں نے صائمہ کو سیدھا کیا اس کے چہرے کی طرف د یکھا ،وہاں میری چھاپ لگ چکی تھی اس کے چہرے پر شہوت کے ساتھ دھنک کے کچھ رنگ بھی نظر آرہے تھے ۔

پرنس میں تو اس پیار کو بھول ہی گئی تھی ،کبھی ڈیول یہ کرتا تھا ،لیکن شروع شروع میں ،اور اب جو تم کر ہے ہو اس سے لگتا ہے ڈیول کا سب کچھ نقلی ہے،،صائمہ وحشت کے ساتھ اپنی بھوک مٹانے میں اور اپنی ساتھی کے ساتھ اس کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے سیکس کرنے میں بہت فرق ہے،میں نے اس وقت یہ چوٹ لگانا مناسب سمجھا،آؤ تمھیں اس سے اگلی دنیا کی سیر کرواؤں، اس کی چوت پر عضو رگڑتے ہوئے ممے چومنے لگا ،ممے چومتے ہوئے ان کا رس پینے لگا۔انہیں چومتا ہوا اسے الٹا دیا اور اس کی پیٹھ چومتا ہوا کمر پر کسنگ کرتا ہوا ٹانگوں کوپیچھے سے چومتا ہوا ،اس کے سارے جسم پر اپنے ہونٹوں کی مہر لگاتا گیا۔پھر اس کے ہونٹوں کو کچھ دیر کسنگ کیاور پھر مموں کو چومتا ہوا ان کا رس پینے لگا،انہیں چوسنے لگا۔میرے اس پیار بھرے نشیلے انداز نے اس میں پیار کا نشہ بھر دیا،اب وہ میرے اسٹائل سے پوری طرح متاثر ہو چکی تھی۔میرے اندازے کے مطا بق ڈیول اپنی وحشت اپنی بھوک کی تسکین کرتا ہو گا،اور میرے کھیل کا دارومدار میرے اسی اندازے پر تھا،صائمہ کے ممے کا سائیز کچھ بڑا تھا ان سے کافی کھلواڑ ہوا تھا،اور جیسے صائمہ نے گانڈ کے ساتھ میرا عضو چھوتے ہوئے رد عمل دیا تھا اس سے پتہ چلتا تھا ،کہ اسے گانڈ مروانے کی بھی عادت پڑ چکی ہے،میں اس کے ممے چوستا رہا،اب ان مموں کے راستے ہی تو اسے چدائی کا نشہ چڑھانا تھا مگر نشہ میرا چڑھایا ہوا ہونا چاہیئے تھا،چوت پر عضو مسلنا اور مموں کو انگیجت کرنا جن سے نشہ تو ہو مگر ٹُن نہ ہو ،اور بھر پور لذت لے۔ پرنس تم لاجواب ہو،قسم سے لاجواب ہو،صائمہ جیسے جیسے چدائی کیلیے تڑپ رہی تھی ویسے ویسے میری گرفت میں آ رہی تھی،پرنس اب کیوں ترساتے ہو اپنی جان کو ،پلیز اندر ڈال دو نہ ،اس کے الفاظ تبدیل ہو رہے تھے،اس پر میرا رنگ چڑھ رہا تھا ۔میرا ابھی چدائی کا کوئی ارادہ نہیں تھا،میں صائمہ کو وہاں لے جانا چاہتا تھا جہاں اس میں انتہائی تڑپ پیدا ہو تا کہ اسے چدائی کا بھر پور مزہ ملے،ممے چوستا اور چوت پر عضو رگڑتے ہوئے میں نے اپنا کام جاری رکھا۔مموں کے پیچھے کمر سے اوپر ی حصے جسے پیٹھ کہتے ہیں اس میں عورت کا پانی ہوتا ہے،اکثر جو یہ کہتے ہیں کہ چدائی سے پہلے عورت کو گرم کرنا چاہیے اس کا م اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس کا پانی ابلنا شروع ہوجائے اور پیٹھ سے چوت تک کا سفر جلدی طے ہو جائے ،ایک تو مرد ہر وقت گرم ہوتا ہے،دوسرا اسکا پانی اسکی کمر میں ہوتا ہے،سو جیسے ہی وہ اندر ڈالتا ہے تین چار منٹ سے 10 منٹ تک وہ فارغ ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس عورت کے جذبات جلد بیدار نہیں ہوتے۔اور عورت وہیں ادھوری رہ جاتی ہے۔عورت کو مرد کی بنسبت 10 گنا وقت چاہیے۔اسلیے لڑکی کو پہلے گرم کریں یعنی اس سے فورپلے کھیلیں کیونکہ لڑکی کو مرد کے برابر فارغ ہونے کیلیے 30 منٹ چاہیے ۔جس میں 20 منٹ فورپلے کے ہیں۔ایک اور دلچسپ بات یاد آگئی کہ مرد کے خصیے باہر ہوتے ہیں ،اور عورت کے خصیے اس کے جسم کے اندر ہوتے ہیں ،وہ اسلیے کہ طبّی لحاظ سے مرد کا مزاج گرم ترین ہے اگر خصیے اندر ہوتے تو اس نے کبھی بھی فارغ نہیں ہونا تھا اور عورت کا مزاج سرد ہوتا ہے اسلیے اس کے خصیے اندر ہیں اگر باہر ہوتے تو اس نے کبھی بھی فارغ نہیں ہونا تھا۔میں چاہتاتھا صائمہ آرگیز م میں وہاں پہنچے جہاں وہ 2 یا 3 بار فارغ ہو جائے،صائمہ یہ سب یقناً بھول گئی ہو گی،کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ ڈیول اب اس کے ساتھ اتنا کچھ کرتا ہو گا۔

اب میرے اندازے کے مطابق صائمہ کے جسم میں آرگیزم کے اثرات آگئے تھے،سو میں نے صائمہ کو مخصوص پوزیشن میں لٹا کر اس کی ٹانگیں کھولی او ر ان میں بیٹھ کر اپنا عضو ہاتھ سے پکڑ اس کی چوت پر رکھا ،اور اسے دھکا لگایا،کیونکہ یہ گاڑی دھکااسٹارٹ ہے اس لیئے شروع شروع میں کچھ دھکے لگانے پڑتے ہیں،پھر خود بخود مشینی انداز میں دھکے لگتے رہتے ہیں ۔۔اوہ ۔۔صائمہ کی چوت تھی کہ کوئی جلتا ہوا تندور تھا،دوسرا اس کی چوت میں کیچڑ تھا اور تیسرا اس کی چوت تنگ نہیں تھی،یقناً صائمہ نے چوت سے کام بھی بہت لیا ہو گا،بہر حال اس کی چوت کام چلاؤ ضرور تھی،میں نے پہلے تو ٹشو پیپر سے اس کی چوت صاف کی اور گیلی کو خشک کیا،پھر اس کی چوت میں جی اسپاٹ کو انگلی سے مشتعل کیا اور اس پر ضرب لگائی تو وہاں سوجن ہو گئی ،اب میر اکام بن گیاتھا،اسلیے میں نے باہر نکالا ہوا تناسل پھر واپس چوت میں بھیج دیا،اب اس کی چوت نے مجھے گرم جوشی سے پکڑ لیا،اب دھکے لگانے میں مزہ آ رہا تھا ،،لیکن مجھے اس بات کا خیال رکھنا تھا کہ اب صائمہ کو پیشاب زور سے آنا تھا،کیونکہ جی اسپاٹ کو چھیڑنے سے پیشاب ضرور آتا تھا،فی الحال میں دھکے لگانے لگا،میں تھوڑا سا جھکا ہوا تھا کیونکہ کار میں پورا بیٹھ کر دھکے نہیں لگ سکتے تھے،میرے دھکوں سے کار ہل رہی تھی،ہلتی کاریں ،یورپ اور امریکہ کی پارکنگ سٹینڈ ز میں تو اکثر دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن پاکستان میں کبھی کبھار ہی نظر اتی ہیں ،وہ بھی مخصوص جگہوں پر،صائمہ بھر پور مزہ لے رہی تھی،اور اس کی سریلی چیخیں ماحول کو گرم کر رہی تھیں ،چودو مجھے پرنس ،جی بھر کے چودو مجھے،میں چودائی کی بہت پیاسی ہوں ،مجھے ہر وقت چودائی چاہیے،صائمہ ان لوگوں میں سے تھی،جن کو بھر پور کھانا ملتا ہے ،اور وہ ندیدوں کی طرح پیٹ میں ٹھونستے ہیں،لیکن ان کی نیت کبھی بھی نہیں بھرتی،میں اسے پہچان گیا تھا اورآج میں نےاسے ایسا چودنا تھا کہ اس کا جی بھر جائے،میں نے اس کی کمر میں دونوں ہاتھ ڈال کے اسے تھوڑا اوپر اٹھایا اور بھر پور دھکے لگانے لگا،صائمہ نے بھی اپنے دونوں ہاتھ ٹکا لیئے ،ایسا مزہ زندگی میں کبھی نہیں ملا،اُوہ ہ ہ ہ ،،،،بہت مزہ آرہا ہے،میں نے اپنی زندگی میں کسی مرد کے ساتھ اتنا مزہ نہیں لیا ،پرنس تم جادوگر ہو،لگتا ہے آج مزے سے ہی مر جاؤں گی،صائمہ اپنے آپے میں نہیں رہی تھی،کچھ دیر میں نےاس اسٹائل میں چودنے کے بعد صائمہ کو پھر لٹا دیا اور پھر اس کی ٹانگیں اٹھا کہ اسے چودنے لگا۔میں نے اس کے پاؤں پکڑے ہوئے تھے،اور پاؤں کے تلوں پر ایک مخصوص جگہ میرے دونوں طرف کے انگھوٹھے تھے ،یہ مخصوص پوائنٹ ہیں ،جن سے چودائی کی بھر پور تسکین ملتی ہے،کچھ ہی دیر میں اس اسٹائل میں چودنے سے صائمہ کا پانی نکل گیا،میں نے چودائی جاری رکھی ،کچھ ہی دیر میں جب اچھی طرح اس کا پانی نکل گیا تو میں رک گیا،اور ٹشو پیپر سے پھر اس کی چوت صاف کی اور پھر اندر ڈال کر چودنے لگا،،مگر صائمہ کچھ بے چین نظر آئی تو میں آنکھوں کے اشارے سے پوچھا ،کیا بات ہے تو اس نے پیچھے ہو کر چوت سے عضو نکالا اور جلدی سے کار کا دروازہ کھول کر باہر نکلی ،اور وہیں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگی،جی اسپاٹ کو چھیڑنے کے بعد یہ تو ہونا ہی تھا رات کے وقت تھا اور ہُو کا عالم تھا ،جہاں کسی کا آنا عام حالات میں بھی ممکن نہیں تھا،اب تو کافی رات ہو گئی تھی،میں بھی باہر نکل آیا ،ہم پورے ننگے تھے اور ماحول کو انجوائے کرنے کیلیے میں نے صائمہ کو الٹا کھڑا کیا تو صائمہ سمجھ گئی کہ میں کیا چاہتا ہوں ،اس نے کار کی چھت سے اپنے ہاتھ ٹکا لیے اور گانڈ تھوڑی باہر کو نکال لی،تب میں اس کے پیچھے آیا اور اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کہ اس کی چوت پر عضو رکھا اور اندر ڈال دیا۔

گانڈ سے میرے دھکے ٹکراتے اور عضو چوت میں گھستا تو صائمہ کی سسکیاں نکلتی ،یقیناً وہ بہت مزے میں تھی،آج میں اپنے اسٹائل سے ہٹ کرصائمہ کو چود رہا تھا ،جس کا صائمہ بھر پور لطف لے ری تھی،ایک بات تو ہے کہ ٹانگوں پر کھڑے ہو کر کمر کا زور پورا لگتا ہے اور طاقتور دھکے لگتے ہیں ،اور اس وقت میں طاقت سے ہی دھکے لگا رہا تھا ۔اور یہ دھکے صائمہ کو چاہیئے تھے،ضرور اسے ایسے دھکے پہلے ملیں ہو ں گے لیکن وہ پرنس کے دھکے نہیں ہو ں گے،صائمہ میری چدائی سے خوش تھی جس کا احساس اس کی آوازوں سے ہو رہا تھا،پرنس ایسا لگ رہا ہے جیسے کالج سے بھاگ کر یہاں آگئے ہیں اور چھپ کر موقع سے بھر پور فائدہ اٹھا کر چدائی کر رہے ہیں،صائمہ اس ماحول کو پوری طرح انجوائے کر رہی تھی،

اور میری چدائی سونے پر سہاگے کا کام کر رہی تھی،پرنس بڑے عرصے بعد ایسا مزہ آیا ہے،سچ میں تم کمال ہو،اور تیز چودو مجھے ،تیز سے تیز چودو ،میرے اندر گھس جاؤ میری جان ،میں نے پیچھے سے صائمہ کے ممے پکڑ لیے تھے اور دے دھنا دھن اس کی چدائی کر رہا تھا ،،میری چدائی ایسی تھی جیسے میں ادھر سے چوت پھاڑ کر دوسری طرف نکل جاؤں گا، دو تین بار صائمہ میرے دھکوں میں کارسے ٹکرا چکی تھی،لیکن اسے اس سے بھی لذّت ملی تھی،تو میں نے کار کے ساتھ اسے پریس کر کے دھکے مارے اور صائمہ میں جنوں پیدا ہو گیا اور وہ مزے سے چیخنے لگی۔میں اس کی جنونی کیفیت کے مطابق میں اس کی گانڈ پر تھپڑ مارنے لگا،میرے تھپڑ زور سے لگ رہے تھے لیکن صائمہ تکلیف کی بجائے مزہ لے رہی تھی،میں نے مار مار کے اس کی گانڈ لال کر دی اور ساتھ چود چود کے صائمہ کا بھرکس نکال دیا، ساتھ ساتھ میں اس کے کندھوں پر کاٹ بھی لیتا تھا،اور اس کے مموں کے نپل زور سے دبا دیتا تھا،صائمہ مزے کی انتہا پر پہنچ گئی اور تب جا کہ صائمہ اپنے آپے میں آئی جب اس کا پانی ایک بار پھر نکل گیا،ہم کار میں آ کر بیٹھ گئے کاراسٹارٹ تھی ،اور اے سی آن تھا،کچھ دیر میں ہمیں سکون آیا لیکن ابھی تک میرا پانی نہیں نکلا تھا ،کیونکہ میں نے ہوٹل سے نکلتے وقت گولی کھا لی تھی۔اس بات کا صائمہ کو بھی احساس ہو گیا تھا ،اور وہ میرے کھڑے عضو کو ہاتھوں کی گرفت میں لے کر مسلنے لگی اور پھر اس نے ٹشو سے صاف کر اسے اپنے منہ میں ڈال لیا،آہ ہ ہ ۔۔ صائمہ اس میں ایکسپرٹ تھی،اور مجھے اس کا شوق تھا لیکن میں نے کبھی ا س پر اصرار نہیں کیا تھا جو اپنی خوشی سے چوپا لگائے تو ٹھیک ہے کیونکہ میں نے آج تک جواباً چوت کو منہ نہیں لگایا تھا،میرے ہاتھ اورمیرا عضو ہی چوت کیلیے کافی تھے،صائمہ کا شوق سے چوسنا دیدنی تھا،اور مجھے مزہ بھی آرہا تھا،لیکن میں یہاں پانی نہیں نکلوانا چاہتا تھا ،میں نے صائمہ کو گود میں بٹھا لیا ہم دونوں کی ٹانگیں مخالف سمتوں میں کار کے عارضی بیڈ پر ٹکی تھیں ،صائمہ پرجوش تھی اور اس کی بھر پور تسلی کےباوجود اسکا دل نہیں بھرا تھا،اور اب میں نے یہی کام کرنا تھا،میں نے تھوڑا آگے ہو کر صائمہ کے اندر ڈالا ادھر سے صائمہ بھی کچھ آگے ہو گئی ،اورتناسل جھپاک سے چوت کے اندر چلا گیا،میں نےصائمہ کو کمر سے پکڑ کر کچھ آگے کیا اور اسے چودنے لگا،یہ اسٹائل پیارا تھا اسلیے صائمہ اس سےلطف اندوز ہو رہی تھی، میں صائمہ کی طبیعت سمجھ گیا تھا ،ہم شراب کے چوتھائی گلاس کی چسکی لے کر مزہ لینے والی قوم نہیں تھے ،ہم تو پی کر ٹُن ہونا چاہتے تھے ،اسی طرح صائمہ بھی چدوا چدوا کر مدہوش ہونا چاہتی تھی،میں نے ایک ہاتھ سے صائمہ کی پیٹھ پر مخصوص دائرے بنانے شروع کر دیئے،یہ ایک مخصوص تیکنیک تھی جس سے عورت مدہوش ہوجاتی تھی،اسی لیے میں نے اسے بٹھایا تھا کے اس کی پیٹھ تک میرا ہاتھ پہنچ سکے ۔اور یہ میری اپنی تیکنیک تھی،صرف میرا مطالعہ ہی مجھے یہاں تک لے کہ آیا تھا،میں آرام سے صائمہ کی چدوائی کرتا رہا اور محبت بھرے انداز میں آگے پیچھے ہو کر ،یا صائمہ کواوپر نیچے اور آگے پیچھے کر کے چودائی کر رہا تھا ،جان کیا کر رہے ہو،یہ مجھے کیا ہو رہا ہے،صائمہ نشیلی آواز میں بولی تو میں سمجھ گیا کہ تیر نشانے پر لگ چکا ہے،میں گھٹنوں پر آگیا اور اسے تھوڑا پیچھے کر دیا صائمہ نے خودبخود اپنے ہاتھ پیچھے ٹکا دیئے اور مجھے اس کی کمر کا مساج کرتے ہوئے چودائی میں کچھ مشکل پیش نہ آئی،پرنس آئی لو یو،آج سے صائمہ تمھاری ہے پرنس۔صائمہ مدہوشی میں بولی،میں نے اپناکام جاری رکھا۔اور صائمہ کی چودائی اسی نشیلے انداز میں کرتا رہا،مجھے اس طرح چدائی کرتے ہوئے اور صائمہ سے کرواتے ہوئے کچھ دیر گزری توصائمہ کا پانی نکل آیا،پیٹھ پر مساج کا بھی اس میں کافی حصہ تھا ،لیکن میں نے ا س بار اس کی چوت سے پانی صاف کرنے کی بجائے اسے چودتا رہا،یہاں صائمہ کو چھوڑنا ٹھیک نہیں تھا میرے پینتیس منٹ کی محنت ضائع ہو جانی تھی،اب میں نے صائمہ کے مما منہ میں لے لیا اور صائمہ کا مساج کرتے ہوئے چدائی کرنے لگا،صائمہ ہاتھ پیچھے ٹکائے مزے میں گم تھی،صائمہ مساج ،ممے ،اورچودائی میں کھب چکی تھی ،اس کی آنکھیں نشیلی ہو رہی تھیں ،میں بناء رکے چودئی کرتا رہا،میرا بھی وقت قریب تھا ،اور مجھے صائمہ کا پانی اپنے ساتھ ہی نکالنا تھا،سو میں نے مساج میں تھوڑی تبدیلی کی اور چودائی کرتا رہا،صائمہ اب جیسے نشہ پی کر جہاز بن گئی تھی اور ہواؤں کی سیر کر ہی تھی،مساج تو عام طریقے سے کریں تو جسم سست ہو جاتا ہے یہ تو خاص مساج تھا،پرنس کیا تم یہ سب کے ساتھ کرتے ہو،کیا اسی لیے لڑکیاں تم سے محبت کرتی ہیں،صائمہ لڑکھڑاتی آواز میں بولی،یہ صرف تمھارے لیے ہے میں نے ہولے سے سرگوشی کی۔

پہلے میں نے اس کے جسم کو تسکین دے کر مفتوح کیا تھا اور اب اس کے ذہن اور بھوک کو مفتوح کر چکا تھا میرے عضو میں حساسیت بڑھی تو مجھے احساس ہوا کے میرا پانی نکلنے والا ہے ،میں نے کام جاری رکھا بلکہ اضطراری انداز میں کچھ تیزی سے چودائی کی،اور میرا پانی نکل گیا،صائمہ اس پانی سے اپنی چوت کی پیاس بجھانے لگی،صائمہ لیٹ گئی اس کے بازو بھی تھک چکے ہوں گے،میں اندر ڈالے لیٹا رہا اور کچھ ہلتا بھی رہا،بس صائمہ کا پانی بھی آگیا،ہمارے پانی کا ریلا زور سے آیا تھا،سیلاب تو آنا ہی تھا،خوب پانی نکلا،کچھ دیر میں اندر ڈالے لیٹا رہا پھر اس کے ساتھ ہی لیٹ گیا،صائمہ نے مجھے گلے لگا لیا،ہم ایکدوسرے کی طرف منہ کر کے لیٹے ہوئے تھے،پرنس آج بہت عرصے بعد میرا چدائی سے دل بھرا ہے،نہیں تو ہر وقت اسی کی طلب رہتی تھی،آج سے صائمہ تمھاری ہے،چاہے ڈیول جو مرضی کر لے ،اب میں واپس نہیں جانا چاہتی ،مجھے اپنے ساتھ رکھ لو،فی الحال میں اسے بتا نہیں سکتا تھا کہ کتنی لڑکیاں میرے ساتھ رہنا چاہتی ہیں میں ایسے کرنے لگوں تو مجھے ہوسٹل ہی بناناپڑے گا،صائمہ مجھے بہت خوشی ہو گی کہ تم میرے پاس آجاؤ،لیکن ڈیول تمھارا پیچھا نہیں چھوڑے گا، وہ میرے فارم ہاؤس میں تو نہیں آسکے گا،لیکن آزاد زندگی گزارنے کیلیے تمھیں ڈیول کو تباہ و برباد کرنے میں میرا ساتھ دینا ہوگا۔اس نے تمھاری زندگی برباد کر دی تمھیں بے عزت ہو کر اپنے گھر سے نکلنا پڑا۔آج تمھارے اپنے تمھاری شکل دیکھنا پسند نہیں کرتے،تمھارا باپ باسل کی وجہ سے بستر پر پڑا ہے،کیونکہ اس نے تمھیں استعمال کرنا تھا اسلیے اس نے تمھیں کہیں اور کا نہیں چھوڑا اور اپنی ہوس مٹانے کیلیے تمھیں چودائی کی نہ مٹنے والی بھوک پر لگا دیا،تا کہ تم اپنی طلب کیلیے اس کے پیچھےدم ہلاتی پھرو،یہ بات مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ تم اس کے لیئے ایک مہرہ ہو ،افسروں ،تاجروں ،کو خوش کرنے کیلیے بھی تمھیں استعمال کرتا تھا،کہنے کو تم اس کی خاص الخاص ساتھی ہو لیکن وہ تمھیں کسی ملازمہ سے زیادہ حیثیت نہیں دیتا،اور اب تم اس کیلیے لڑکیاں گھیر رہی ہو،یعنی جیسے اس نے تمھیں برباد کر کے اپنے لیئے استعمال کیا ایسے ہی اب تمھارے ہاتھوں دوسری لڑکیوں کےلیے کر رہا ہے



ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی