پلے بوائے (قسط 5)

 

 


ماکھو نے مجھے پہچان لیےتھا۔ اس نے عین میرے سامنے آکر گاڑی روک دی ۔وہ اور اس کے ساتھی پراڈو سے نکلے اور خطرناک انداز میں میری طرف بڑھے ۔وہ مجھ سے لڑنا چاہتے تھے وہ پانچوں مجھے دھول چٹانا چاہتے تھے،جیسے ہی وہ میرے پاس پہنچے میری لات سیدھی ماکھو کے سینے پر پڑی اور وہ پیچھے جا گرا، ابھی اسے اٹھنے میں کچھ لمحیں لگنے تھے،باقی چاروں نے مجھے گھیر لیا،ایک نے مجھ پر کک ماری لیکن میں ایک طرف ہوا اور اس کی ٹانگ واپس ہونے سے پہلے اس پر کھڑی ہتھیلی سے وار کیا،اس کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی،وہ گرا نہیں تھا کہ میرا مکا اس کے پیٹ میں بھی پڑ چکا تھا،جس سے اس کاگردہ پھٹ چکا تھا،پیچھے سے مجھے کسی نے کک ماری لیکن میں وہاں نہیں تھادوسرے نے میرے منہ پر مکے مارے میں نے منہ اِدھر اور پھر اُدھر کر کے خود کو بچایا ،اور تیزی سے اس کے چہرے پر مکا مارا،چہرہ لہو لہان ہو گیاتو میری گھٹنا اس کی پسلیوں میں پڑا اور ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز آئی،لیکن اس کے گرنے سے پہلے میں جھکا اور اس کی ٹانگ کیطرف میرا ہاتھ بڑھا،اور اس ک ٹانگ ٹوٹ چکی تھی۔،جس نے مجھے کک ماری تھی اس نے خنجر نکال لیا،اس کے ساتھ چوتھے نے تیزی سے اپنی گن میری طرف سیدھی کی۔میں اسی کی طرف بڑھا ۔اسے اب احساس ہوا تھا کہ انہیں گنز سے کام لینا چاہیےتھا۔اس کی انگلیاں ٹریگر پر دباؤ ڈالنے سے پہلے میری فلائنگ کک اسکے سینے پر پڑی سینے کی ہڈیاں ٹوٹ گئی،لیکن میں نے اسے گرنے نہیں دیا اور میری دوسری کک اسکی ران کی ہڈی چورا کر چکی تھی ،خنجر والے نے بھی گن سیدھی کی اور مجھ پر فائر کرنا چاہا۔لیکن بات تو رفتار کی ہے اور مجھ تک تو گولیاں نہیں پہنچتی تھیں۔میرا مکہ اسکے پیٹ پر پڑا وہ دوہرا ہو کر کچھ نیچے ہوا ،نیچے سے گھٹنا اس کے چہرے پر پڑا ،وہ اچھلا اور پیچھے کی طرف گرا ۔لیکن نیچے گرنے سے پہلے میر ی ٹھوکر سے اس کی کمرکے مہرے ٹوٹ چکےتھے، یہ سب بیکار ہوچکے تھے ۔اتنے میں ماکھو کھڑا ہو چکا تھا اور سینہ مسل رہا تھا،میں نے اتنی ضرب لگائی تھی جس سے وہ سانڈ چند لمحیں سانس لینا بھول جائے،اور میں نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے ساتھی گرا دیئے تھے،میں ماکھو کی طرف بڑھا،اس نے میرے اسٹائل میں لات میرے سینے پر ماری،لیکن میں پھرتی سے دوسری طرف ہوگیا،اور اس کے پیٹ میں میرا مکا پڑا،ماکھو دوہرا ہوا تو اس کی کمر پر میری کہنی پڑی وہ کچھ اور جھکا تو میرے گھٹنے نے اسے واپس اچھال دیا،ماکھو زمیں پر گرا،،میں نے اس کے کالر سے پکڑ کر اسے کھڑا کیا،لیکن نامور ڈکیٹ سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھااب تمھیں پتہ چلے گا کہ درد کسے کہتے ہیں،،میں نے ہتھیلی اکڑائی اور اس کے پیٹ میں انگلیاں دے ماری ،ان کو پیٹ پر وہیں رکھا اور انگلیاں کو گھمایا ،اور پھر مخصوص انداز میں پیٹ پر زور ڈالا۔ماکھو چیخنے لگا،جیسے کسی کو چھری سے کاٹا جا رہا ہو،میں نے پیٹ کے سولر سسٹم پر اپنی کاروائی پوری کی ،اب کی بار ماکھو کی چیخیں دل دہلانے والی تھی،ماکھو اسے کہتے درد،نر کا بچہ ہے تو اسے برادشت کر کے دکھا ،،ماکھو میرے ہاتھوں میں جھول گیا،ماکھو اگر یہ درد برداشت کر لو تو تمھیں چھوڑ دوں گا،لیکن ماکھو اس وقت کچھ سننے کے موڈ میں نہیں تھا،وہ ایسے چیخ رہا تھا جیسے اسے آرے سے کاٹا جا رہا ہو،میں نے اسے چھوڑ دیا ،ماکھو زمیں پر گرا،اس کی ٹانگیں اکٹھی ہو رہی تھیں،میں نے اس کی پنڈلیوں پر اپنا پاؤں مارا،اس کی پنڈلیاں چورا ہو گئی،اب کبھی وہ کھڑا نہیں ہوسکتا تھا،لیکن ماکھو کو پنڈیلیوں کا کچھ پتہ نہیں تھا وہ میرے دیے ہوئے بے انتہا درد سے چیخ جا رہا تھا۔کچھ لوگ سڑک پر جمع ہوگئے تھے ،ایک گاڑی بھی تیزی سے نکل گئی تھی،تنویر اپنے ساتھیوں سمیت گاڑی لیکر آگیا،وڈیو بنا لی،میں نے تنویر سے پوچھا ۔یس سر تنویر نے کہا،ہانیہ تک یہ ویڈیو پہنچا دو،

میں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا،جیپ ابھی چلی نہیں تھی ،میں نے ایس ایس پی سے کال ملائی،ایس ایس پی صاحب ،ہانیہ کیس والے پانچ ڈاکو اصل میں ماکھو گروپ تھا ،،ماکھو گروپ ایس ایس پی نے کہا،،لیکن وہ تو ڈیول کے ساتھ ہیں،ایس ایس پی کو ساری معلومات تھیں،اب ان کے ساتھ کوئی نہیں ہے ،لنگڑے گھوڑے ریس میں حصہ نہیں لیتے نہ ہی ان پر کوئی داؤ لگاتا ہے ،وہ اب ٹوٹے پھوٹے سڑک پر پڑے ہیں ،کچرا اٹھا لو۔میں نے اسے پتہ بتایا۔تو پھر ان پر ہی سارا کیس ڈال کر بات ختم کر دیتے ہیں،،ایس ایس پی نے فوراً رستہ نکال لیا، یہی مناسب رہے گا،ڈیول کو گھسیٹا تو وہ کام خراب کرے گا ،میں نے ایس ایس پی کی تائید کی،ماکھو گروپ کا ہاتھ آنا بذاتِ خود ایک کارنامہ ہے ،انعام بھی ملے گا اور ہمیشہ کی طرح کریڈٹ بھی میرا،ایس ایس پی نے ہنستے ہوئے کہا،اوکے گڈ لک ،بائے ۔چلو میں نے تنویر سے کہا،ہم فارم ہاؤس پہنچے ۔کھانا وغیرہ کھا کر میں نے کچھ فون کیے،مجھے چوت کی سخت طلب ہو رہی تھی،میں باہر نکلنے کاسوچ ہی رہا تھا،کہ نیلم آگئی، وہ پوری طرح تیار ہو کر آئی تھی،اس نے ساڑھی لگائی ہوئی تھی،اور غضب ڈھا رہی تھی،اس کےجوبن میں جوار بھاٹا اٹھ رہا تھا،ساڑھی میں سے اس کا دودھیا جسم کہیں کہیں سے چھلک رہا تھا،لانبی پلکیں،موٹی موٹی آنکھیں ۔گوری رنگت،ناک درمیانی،چہرہ نہ گول نہ لمبوترا،یاقوتی ہونٹ ،درمیانہ قد،اسمارٹ جسم ،مجموعی طور پر نیلم حسین ترین لڑکی تھی،خاص کراس کی موٹی موٹی آنکھیں دیکھنے والے پر سحر کر دیتی تھی۔پرنس کیا ہم پر مہربانی نہیں ہوگی،نیلم کیا تمھیں یقین ہے ہ تم اپنی مرضی سے کرنا چا ہتی ہو؟ جب آپ کی طرف سے میری بہن کو کچھ نہ کہنے کی گارنٹی ہے اور مجھے بھی جانے کی آزادی ہے تو ظاہر ہے میں اپنی مرضی سے رکی ہوئی ہوں۔پرنس میں بس آپ کو پسند کرتی ہوں،آؤ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ،اوراسے اپنےکمرے میں لے گیا،

کمرے پر دنیا کا مہنگا ترین بیڈا پڑا تھا اور چھت پر حریری اور مہین پردے لٹک کر بیڈ کے گرد پھیلے ہوئے تھے۔ایرانی قالین کی بہترین قسم فرش پر موجود تھی کمرے میں بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی ۔شاہانہ انداز کا بیڈروم دیکھ کر نیلم کے چہرے پرتحسین آمیز مسکراہٹ آگئی،میں نے دروازہ بند کیا اور نیلم کو بانہوں میں لے لیا۔ چودائی سب سے پہلے بغل گیری سے شروع ہوتی ہے۔اور جسم ایکدوسرے سے ٹکراتے ہیں۔یہ ایک جذباتی کیفیت ہے ۔جسم کا بغل گیر ہونا یا بانہوں میں ایکدوسرے کو لے کر جذبات کا اور چودائی کااظہار کیا جاتا ہے۔بانہوں میں لینے کی کئی قسمیں تھیں لیکن ان کی بنیاد بس تین پر ہے ۔۔جیسے ممے مرد کے جسم سے ٹکراتے ہوں، ۔یا جسم کوتلذّز کیلیے جسم سے جسم رگڑا جائے ۔آگے بڑھتے ہوئے ایسی جپھی ڈالی جائے جو درخت سے ڈالی لپٹنے کے انداز میں ہواور ممے مرد کے جسم میں کُھب سے جائیں۔بانہوں سے جکڑاہواور ہونٹوں کوہونٹوں سے جوڑ دیا جائے۔یہ بڑی سیکسی بغل گیری(گلے لگنا ) ہے ایک ٹانگ بھی مرد سے لپیٹ سکتے ہیں اگر مرد سنبھال سکے ۔اور اپنے بازو مرد کے بازوؤں کے نیچے سے مرد کوگھیراڈال کرکسے جائیں یا ایک بازو مرد کی گردن کے پیچھے ہو۔ ایکدوسرے کے قد اور جسمانی ساخت یعنی موٹاپا۔دبلا پن وغیرہ اسمیں مدِّ نظر رکھنا ضروری ہے نہیں تو جذبات میں گرمی کی بجائے مذاق بھی بن سکتا ہے۔گلے لگنے کے بعد ہاتھوں کو جسم پر پھیرنا جنسی اشتعال کا سبب بنتا ہے جو کہ گلے لگنے میں ضروری ہے۔نیلم ایک ایسے گھرانے سے تھی جنہوں نے فنکاری ی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے،اور کوٹھوں سے کو ٹھیوں میں شفٹ ہوگئی ہیں۔مرد کولبھانے ،رجھانے ،تڑپانے۔پھنسانے کی ان کو مکمل تربیت ہوتی ہے۔اپنے نازو انداز سے نخرے،جذبات کے اظہار اور جسمانی کشش سے یہ مرد پر ایسا جال بُنتی ہیں کہ جائیدادیں ختم ہوجاتی ہیں۔لیکن ان کی اداؤں کی قیمت ادا نہیں ہوتی۔ نیلم کو دیکھ کر دل میں کھد بُد تو کب سے ہو رہی تھی،وہ مجھ سے ایسی لپٹی ہوئی تھی جیسے کسی بیل کی شاخیں درخت کےگرد لپٹتی ہیں۔اس کے ممے میرے جسم میں پیوست تھے۔اس کے ایک بازو نے میرے جسم کو کسا ہوتھا اوردوسرا میری گردن کے پیچھے تھا۔ ہیجانی (ایسے جذبات جن میں جنسی طلب بڑی زیادہ ہو) انداز میں نیلم کا جسم میرے ساتھ رگڑ کھا رہا تھا،اس نے مجھے سینے سے لگایا ہوا تھا،جسم کو بھینچا ہوا تھااور پیار سے چمٹی ہوئی تھی۔ مجھ سے لپٹی ہوئی تھی۔اور اس کی جنسی آوازیں اور گرم سانسیں مجھے سمجھا رہی تھی کہ آج زبردست مزہ ملنے والا ہے۔جسموں سے گرمی ایکدوسرے میں منتقل کرنے کے بعد نیلم نے میرے لبوںپر اپنےیاقوتی لب رکھ دیئے۔میرے نچلا ہونٹ نیلم کے ہونٹوں میں تھااور اس کا اوپر والا ہونٹ میرے دونوں ہونٹوں میں تھا،ہمارے چہرے تھوڑے پھرے ہوئے اور ایکدوسے کی مخالف سمت میں تھے،دونوں چہرے آمنے سامنے ہوں تو کسنگ مشکل ہوجاتی ہوں،منہ میں منہ ڈالے ہم ایکدوسرے کوپیار کرہے تھے۔بوسہ بازی میں نرمی ہونی چاہیے ،یہ جذبات کے اظہار کانازک طریقہ ہے۔ہونٹوں کوپھولوں سے تشبیہ دی گئی ہے اور شبنمی لبوں کی خوشبو محسوس کی جاتی ہے بوسہ بازی ایسے کرنے چاہیے جیسے پھولوں کی نازک پتیاں چوم رہیں ہوں۔۔میں نے نیلم کا انداز دیکھا تو خود کواس کے سپرد کردیا۔پہلے تو نیلم میرے ہونٹوں کوچوستی رہی،پھر اسنے زبان کے ساتھ زبان لڑائی اور زبان کوہونٹوں کی گرفت میں لے کر چوسا۔ اور پھر میرے نچلے ہونٹ کو دوبارہ چوسنے لگی،اپنے دانتوں سے اسے آہستگی سے کاٹنے لگی،بڑی خطرناک تھی ۔کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ مرد کے نچلے ہونٹ اور عضو کا آپس میں بلا واسطہ (ان ڈائریکٹ ) تعلق ہے۔تھوڑا تھوڑا کاٹنے کے بعد وہ نچلا ہونٹ چبانے لگی، کبھی میرے لبوں پر اپنی زبان پھیرنے لگتی۔،میرے دونوں ہونٹ اور زبان کوچوسنا،نچلاہونٹ چبانا ۔ان پر زبان پھیرنا۔اسی عمل بار بار دہرانا،اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں گلابی ڈورے تیر رہے تھے۔یہ آنکھیں ہی کم نہیں تھیں کہ اس کے یاقوتی ہونٹ مجھے چوم رہے تھے،چوس رہے تھے چاٹ رہے تھے۔میں نے سوچاہونٹوں کے بعدگالوں کوچومے گی، اور نیلم میری گالوں پر آگئی،انہیں چاٹنے لگی،اپنی گرم سانسوں سے مہکانے لگی،کبھی کبھی کاٹ بھی لیتی تھی۔وہاں سے کان کی لوئیں چوسنے لگی،انہیں چبانے لگی۔پھر میری گردن کو چوسنے لگی چاٹنے لگی،گلے کے بالکل نیچے کالر بون تک گردن کاحصہ حساس ہوتا ہے ،نیلم یہاں زبان پھرنے لگی،مجھے پیار کے ساتھ مزہ دینے میں نیلم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔اور ابھی تو یہ شروعات تھی۔میں نے سوچا کچھ مجھے بھی حصہ ڈالنا چاہیے،سو میں نے اس کے یاقوتی ہونٹوں کوتو اپنےاحساس سے سیراب کر دیا تھا۔ا ب میں اسکے گورے گالوں کوچومنے لگا،ان پر زبان پھیرنے لگا۔انہیں کاٹنے لگا۔اس کی کانوں کی لوئیں چبائیں اور اس کی جنسی سسکیاں سنی،اسکی گردن کوپیارکیا پیچھے سے گردن کے نیچے کندھوں سے تھوڑا اوپر چاٹنے اور کاٹنے میں بڑا لطف آتا ہے۔،اور گلے سے میں نے چوما ، کہیں سے چاٹا ، اور اسے احساس ہوا کہ پیار کسے کہتے ہیں،جو سنا تھا وہ سچ ہوگیا،آپ تو احساس کو محسوس کرانے کے دیوتا ہیں،نیلم نے آہستگی سے کہا تو میں سمجھ گیا آگ بھڑکاتے بھڑکاتے وہ خود بھڑک گئی ہے۔اس سارے عمل کے دروان ہمارے ہاتھ اپنا کردار ادا کرتے رہےتھے۔نیلم میراکوٹ اتار کر میری شرٹ اتارنے لگی۔فورپلے ایک قدم آگے بڑھنے لگا تھا۔میرا اوپری جسم ننگا کرنے کے بعد نیلم میرے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگی،اسکی لمبی مخروطی انگلیاں جیسے وہاں مصوری کررہیں تھیں،دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرتے وہ میرے سینے کوچومنے لگی،وہاں اپنے گال رگڑنے لگی۔وہاں بھی جنسی احساس سے کاٹنے لگی،کوئی ایسی بات نہ تھی جو نیلم کونہ آتی تھی۔نیلم کی ساڑھی اسکی سانسوں کی طرح بے ترتیب ہورہی تھی۔ اور جسم دھیمی دھیمی آنچ پر پگھل رہا تھا۔ میں نے اس کی ساڑھی کا پلّو پکڑ کر آہستگی سے کھینچنا شروع کردیا۔نیلم میرا ارداہ سمجھ گئی اور اس کا جسم گھومنے لگا،اور ساڑھی اتر کر میرے ہاتھ آگئی۔ اسطرح ایک ایک کر کے میں نے نیلم کو ننگا کر دیا۔۔نیلم کا جسم ہلکی سی روشنی میں بھی چمک رہا تھا۔اسنے صرف برا پہنی ہوئی تھی،کپڑے اتارنا بھی ایک آرٹ ہے،اکثر یہ تب اتارے جاتے ہیں جب ہیجانی انداز میں اندر ڈالنے کودل کرتا ہے۔اور کپڑے اتارتے ہی اندر ٹھوک دیا جاتا ہے۔لیکن یہ تب اتارنے چاہیے جب فورپلے کھیلنا ہو۔اگر ایک دوسرے کے کپڑے اتاریں تو اس سے گرمی بھی ملتی ہے اور رومانیت کا احساس بھی ہوتا ہے،نیلم نے مجھے نرم مخروطی انگلیاں والے ہاتھوں سے مجھے تھاما اور مجھے حریری اور مہین پردے ہٹا کر بیڈ پر لے آئی۔میں لیٹا تو نیلم نے میرا نچلا حصہ بھی ننگا کر دیا۔میرے پیر بھی جرابوں تک سے آزاد کردیے۔اور نیلم میرے اوپر لیٹ گئی۔اس کا جسم انتہائی خوبصورت تھا،اور بڑی بڑی آنکھیں مجھے اپنے حصار میں لیے ہوئے تھیں۔اب میری باری تھی،کیونکہ وہ کنواری تھی،اور پہل تو مجھے ہی کرنی تھی۔میں نے بڑی نزاکت سے اسکی برا کا ہک کھولا اور اسے اتار دیا۔بخدا نیلم کا جسم نہایت حسین تھا،اور جوان تھا،میں اس کے یاقوتی ہونٹوں کواور چہرے کو تو چوم چکا تھا۔۔اسکے جسم پر ہاتھ پھیرتا ہوا اس کی جوانی کو محسوس کرنے لگا۔پھر اسکو نیچے لٹایا اور اس کے جسم سے اپنا حصہ وصول کرنا شروع کردیا۔،کنوارے جسم کو ایک بار ہونٹوں سے چومنا میری عادت ہے،اگر جسم خاص ہو۔اور نیلم کا تو بہت خاص تھا ۔میں اسے چومنے لگا،اس دوران میں اس کے حساس حصوں کوچھیڑ کر مشتعل کرنے لگا۔

عورت کے 6 مقام ایسے ہیں جو حساس ترین ہیں،ان میں بظر (المعروف چوت کا دانہ)،جی اسپاٹ۔(بظراور جی اسپاٹ کے بارے میں اپنی پہلی کہا نی میں بتا چکا ہوں )چوت ۔یہ ساری حساس نہیں ہوتی بلکہ اس کا منہ ایک تا ڈیڑھ انچ حساس ہوتا ہے،کچھ کے اندرونی کنارے دائیں بائیں سے حساس ہوتے ہیں،چوت کے لب،میں تو انہیں پھول کی پنکھڑیاں کہتا ہوں ،یہ بھی حساس ہوتے ہیں۔ممے۔یہ بہت ہی حساس ہوتے ہیں،جن کے ساتھ زیادہ کھلواڑ ہوا ہو اور وہ بڑے بڑے ہوں ان کی حساسیت کم ہوجاتی ہے،لیکن نرم و نازک چھوٹے سائیز کے ممے ہوں یا بالکل ہی تروتازہ ہوں تو ان کی حساسیت بہت زیادہ ہوتی ہے خاص کر ان کے نپل میں بڑی حساسیت ہوتی ہے۔ نپلز کا بلاواسطہ(ان ڈائریکٹ ) چوت سے تعلق ہوتا ہے ،اور دوسرا اس کالڑکی کے پانی سے تعلق ہوتا ہے۔جو کہ عین مموں کے پیچھے پیٹھ میں ہوتا ہے۔گانڈ ،یہ بھی حساس ہوتی ہے،اس پر ہاتھ پھیرنا ،یا اس پر اپنا عضو والا حصہ لگانا اور رگڑنا اس سے لڑکی جنسی طور جلدی مشتعل ہوجاتی ہے خاص کر گانڈ کا سوراخ اور چوت کے سوراخ کی ارد گرد والی جگہ کافی حساس ہوتی ہے۔اور کئی مرد توگانڈ دیکھ کر ہی مشتعل ہوجاتے ہیں۔ایک گانڈ اور ایک ممے یہ دونوں لڑکی نے کپڑے پہنے بھی ہوں تو جنسی اشتعال کا سبب بنتے ہیں۔

اب ان حساس حصوں کی بات ہوجائے جو کم حساس ہوتے ہیں،لیکن ان کے اثرات فورپلے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ کمر یہ گانڈ سے اوپر ہوتی ہے اور اس سے اوپر پیٹھ ہوتی ہے،رانوں کے اندرونی حصے،بازوؤں کے اندرونی حصے،گال ،ہونٹ ،منہ کا ندرونی حصہ،گردن ،گلا،اس کے اطراف ۔کان کی لوئیں اور ان کا پچھلا حصہ ۔اور ساری جلد،

یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اپنی ساتھی کہ جسم کو چھوئیں ،سہلائیں ،تھپتھپائیں ۔مساج کریں ،چومیں ،چاٹیں ۔اگر ساتھی کا مزاج اجازت دےتو اسے کاٹیں اور آہستگی سے ماریں،یا جیسے اسکی طبیعت ہو۔

میں نے نیلم کو الٹا کو اس کے کندھوں سے شروع کیا،اور وہاں سے چومنے لگا،کندھوں آہستگی سے کاٹنا مزے دار ہوتا ہے۔پھر یہیں پر چاٹا ۔میرے ہاتھ اس کے گرد اسکے مموں سے لپٹے ہوئے تھے ،اور اسکی گانڈ کو میرے عضو والا حصہ لپٹا ہوا تھا۔جو اسکی سرین (گانڈ ) کو سہلا رہی تھی،اور چوت اور گانڈ اور اسکی آس پاس کی جگہ کو بھرپور جنسی اشتعال دے رہا تھا۔کندھوں اور پیٹھ کو چومتے ہوئے میں نےاپنے ہاتھوں سے مموں کو پکڑے رکھا،نیلم اس سے بھی جنسی اشتعال لے رہی تھی۔ہاتھ زیادہ حرکت نہیں کر رہے تھے کیونکہ وہ الٹی لیٹی تھی اور اوپر میرا جسمانی وزن بھی تھا،لیکن اتنا نہیں تھا،کیونکہ چودائی کے دوران میرا زیادہ وزن میرے گھٹنے اٹھاتے ہیں،نرم و نازک لڑکی کو دورانِ چودائی یا فور پلے اپنا وزن مسلسل نہیں ڈالنا چاہیے۔اس کیلیے اپنے اور ساتھی کے جسمانی ساخت کو ضرور مدِّ نظر رکھا جائے۔اسی چوما ،چاٹی ،کاٹی میں نیلم کی آتشیں سسکیاں بلند ہورہی تھیں ،وہ میرے فور پلے کو بھرپور محسوس کر رہی تھی۔پرنس آپ کمال ہو، پرنس آپ لاجواب ہو۔پرنس آپ تو پرنس ہو۔گاہے بگاہے نیلم کوئی فقرہ بھی چست کردیتی ۔اب میں کچھ نیچے ہوا۔اور کمر اور پہلوؤں کو چومنے لگا،اسوقت میرے ہاتھ اسکے پیٹھ اور کندھوں کو سہلا رہے تھے۔پہلوؤں کو چاٹا اور کمر کوچوما ہلکا ۔۔۔سا۔۔انہیں کاٹا ۔۔۔نیچے ہوا،۔۔نیلم کی گانڈ پر کشش تھی۔گوری چکنی گانڈ ،وہاں اپنے ہاتھوں سے سہلایا پھر تھپتھپایا ۔ ہلکا ہلکا دبایا ۔اور وہیں سے اسکی رانوں کوچھوا ان کے اندرونی حصوں کو ہاتھوں سے سہلایا۔پنڈیلیوں کو مساج کیا۔ اور نیلم کوسیدھا کردیا۔اسکی آنکھوں میں گلابی ڈورے تیر رہے تھے،نشیلی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ فور پلے نے نیلم کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔بظاہر میں نیلم کو مزہ دے رہا تھا،لیکن حقیقت یہ تھی کہ میں قطرہ قطرہ نیلم کا شراب جسم پی رہا تھا۔دھیرے دھیرے ہر قطرے کا مزہ لے رہا تھا،اب پرنس ایسا سیکس کرے گا تو لڑکیاں تو پھر اس کی دیوانی ہوں گی ہی۔میں نے پھر نیلم کے تازہ ان چھوئے مموں کو ہاتھوں میں لے لیا۔اور انہیں دبانے لگا،انہیں سہلانے لگا۔اس کے نپلز کو سمجھانے لگا کہ پرنس آیا ہے۔اب تیار ہو جاؤ۔ پیٹ کو میں نے چومنا شروع کیا۔ کچھ دیر میں نے یہاں پر زبان بھی پھیری ۔اور اوپر مموں پر آگیا، میں نیلم کی ٹانگیں کھول کر ان میں بیٹھا ، لیٹا تھا۔نیچے میرے عضو والے حصے نے نیلم کی چوت اور گانڈ(مقعد ) اور اس کے آس پاس کے حصے کو مشتعل کرنا شرو ع کردیا تھا۔نیلم کے ان چھوئے نارمل 32 سائز کے ممے بڑے دلکش تھے ظالم دل کوکشش کرتے تھے۔ٍاکثر مموں کی سائیز کے بتلانے سے بڑا مزہ لیتے ہیں۔ ۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ 34،36،38، ایک ہی سائیز ہے ۔اس کے بعد سائیز میں تبدیلی 40 سے شروع ہوتی ہے۔میں نے اس کے مموں کو پہلےتو چوما ،پھر اان پر زبان پھیری،پھر اس کے نپل سے انہیں منہ میں لے لیا،اور نیلم نے سسکاری لی،آہ پرنس، میں تو اپنا جادو دکھانے آئی تھی،لیکن اب آپ کی فین ہوگئی ہوں۔دوسرے ممے کو ایک ہاتھ سے چھیڑنا اور مسلنا شروع کیا۔کبھی اِس ممے کو کبھی اُس ممے کو چوستا ،چھوتا ،سہلاتا ۔مزے لیتا رہا۔نیلم کی پہلی رات تھی۔اور وہ جلدی اس رات کو نہیں بھولے گی،بلکہ شاید ہی بھولے،آگےتو اسے نوچنے کھسوٹنے والے ہی ملنے تھے۔ اندر ڈالا اور دے دھنا دھن ۔ نیلم پر میں نے ایسی چھاپ لگا دی تھی کہ اب ساری عمر میرے پیچھے پیچھے پھرنے والی تھی۔جسموں کی رگڑ سے بڑی گرمی چڑھ گئی تھی۔ نیلم کی بس ہوگئی۔لیکن ابھی اسکی بس تو ہونی تھی۔میں ے اسکے بظر(چوت کا دانہ ) کو عضو سے چھیڑا ،عضو میرے ہاتھ میں تھا۔اور نیلم کو گرما گرم کر رہا تھا۔کچھ ہی لمحیں گزرے ہوں گے۔کہ نیلم حال سے بے حال ہوگئی تھی،مجھے گرمی چڑھاتے چڑھاتے اسوقت وہ خود گر م ہوچکی تھی۔میں پیچھے ہو کر نیلم کی ٹانگوں میں بیٹھ گیا۔نیلم سیدھی لیٹی تھی،مغربی اقوام میں 600 کے قریب چودائی کے مختلف انداز ہیں اور یہ ان سب میں دنیا کا مشہور ترین طریقہ ہے ،اسے انگلش میں مشنری انداز کہتے ہیں ،اور اسے بادشاہ کا طریقہ (کنگ میتھہوڈ)بھی کہتے ہیں۔دنیا کا سب سے آسان ترین اور مقبول ترین انداز،جس میں سب سے زیادہ چودائی کی جاتی ہے۔لیکن آج کل پورن میڈ یائی ذہن اسے بے زار کرنے والا (بورنگ )اور دقیانوسی طریقہ (اولڈ فیشن )بھی سمجھتے ہیں۔نیلم کا حسین جسم میری آنکھوں کے سامنے تھا،چہرے کے سامنے چہرہ،آنکھوں سے ملی آنکھیں،جسم کو چھوتا جسم،اور بناء کسی مشقت کہ۔۔ ۔ نیلم سمجھ گئی تھی کہ وہ وقت آگیا ہے ۔جو کسی لڑکی کیلے انمول وقت ہوتا ہے۔میں نے اولیو آئل لگایا۔اور اسکی چوت پر عضو رکھ کر تھوڑا سا اندر دھکیلا ۔عضو اندر جاتا گیا۔اور ٹھیک اسکے پردہ بکارت پر جاکے رک گیا، جیسے آگے اسٹاپ کا سائن بورڈ لگا ہو۔نیلم کی چوت گیلی تھی۔یہ قدرتی چکنائی ہے۔اور عام فہم انداز میں یہ بھی بتاتی ہے کہ لڑکی چودائی کے لیے تیار ہے۔واقعی نیلم کی ابھی نتھ نہیں اتری تھی۔نہیں تو ان کے استادصاحبان ہی سب سے پہلے ان کی نتھ اتار دیتے تھے۔ پھر نہ جانے کتنی بار ان کی نتھ اترتی تھی۔لیکن نیلم بالکل تروتازہ تھی۔یہ مجھے نیلم سے زیادہ اسکی خرانٹ والدہ کا کمال لگتا تھا۔پہلےتو تھوڑا وہیں آگے پیچھے کیا۔کیونکہ میں بتاچکاہوں کہ چوت کا ابتدائی حصہ حساس ہوتا ہے،میں نے یہاں بھی عضو سے کچھ دیر رگڑائی کی،ایک تو اس سے نیلم مشتعل ہوئی اور مزید اس کی چوت میں عضو کی جگہ بن گئی،کچھ ہاتھ اس میں زیتون کے تیل کا بھی تھا۔اب پردہ توڑنے کا ارادہ کرلیا۔کچھ لوگ چو ت میں پہلے اپنی انگلیوں سے جگہ بناتے ہیں۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ چوت پرعضوکے سِوا کسی کا حق نہیں ہے۔خاص کر اسوقت جب چوت کا افتتاح کیا جائے۔انگلیوں کی بجائے اگر اولیو آئل استعمال کرلیا جائے اور تھوڑا سا اندر ڈالنے کے بعد وہیں پر کچھ لمحیں نرمی سے چودائی کی جائے تو زیادہ فائدے میں رہیں گے۔نیلم میری ہر حرکت کو محسوس کر رہی تھی،جب میں پیچھے ہوا اور عضو کی ٹوپی(ہیڈ) اسے اردو میں حشفہ کہتے ہیں اندر رہنے دیا تو نیلم سمجھ گئی۔ کہ میں کیا کرنے لگا ہوں۔پرنس مجھے خوشی ہے کہ میرا کنوارا پن آپکو ملے گا۔نیلم نے اتنا کہا اور ہونٹ بھینچ لیے۔ اس کے ہونٹ بھیچنے سے میں چونکا ،لیکن وہ جس گھرانے سے تھی وہاں اس کا کوئی ڈر تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بہرحال واقعی آج نیلم کا کنوارہ پن میں نے لے لینا تھا اور یہ میرے پاس ہی رہ جانا تھا۔ ایسے پتہ نہیں کتنے کنواری یادیں میرے پاس جمع ہو گئی تھیں۔لیکن میں کہانی صرف ان کی بیان کروں گا جو کسی نہ کسی لحاظ سے یادگار تھے،نہیں تو ایسی تعداد کافی ہے جو میری دولت یا کشش یا میری بدنامی کی وجہ سے میرے پاس آئے انہیں چودا اور پھر ان کی طرف پلٹ کے نہیں دیکھا ۔ نیلم اب بھی وقت ہے کوئی دل میں پھانس ہو تو بتا دو۔نیلم نے کچھ کہنے کہ بجائے نہ میں سرہلا دیا،اور میں نے اسکے پردے کے مطابق دھکا لگادیا عضو پرد ہ توڑتا ہو ا چوت کے اندر جا پہنچا۔لیکن نیلم یہاں چُوک گئی ،اور اس کے منہ سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔اتنے با کمال فورپلے کے بعد مجھے اس چیخ کی توقع نہیں تھی۔میں نے چودائی روک لی تھی۔اور نیلم کا خون نکل نکل کر بیڈ پر گررہا تھا،مگر میں وہاں پہلے ہی ایک کپڑا بچھا چکا تھا۔ میں نیلم کے ساتھ لیٹ گیا تھا ۔میں نے دوسرے کپڑے سے اپنا عضو صاف کیا۔کچھ ہی دیر میں نیلم کی بلیڈنگ رک گئی۔میں نے اسے کپڑا دیا تو وہ میرا مقصد سمجھ گئی اور اپنی چوت کو صاف کیا۔ پانچ چھ منٹ مزید میں نے اسے سنبھلنے کا موقع دیا ۔۔سوری پرنس مجھے اس بات کا شروع سے ہی ڈر لگتا تھا۔ اسلیے میں ایسے چیخ بیٹھی تھی ۔نیلم نے اپنی چیخ کی وضاحت کی۔ ہر بات کو سمجھنے اور خاص گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود نیلم کے ہونٹ بھیچنے سے میں چونکا تھا وہ صحیح چونکا تھا۔ نفسیاتی گرہیں کسی کو بھی پڑ سکتی ہیں۔ایک ایسا کرکٹر جو با کمال ہے لیکن اچانک برا کھیل پیش کرنے لگ جاتا ہے۔پھر وہ آؤٹ آف پرفارم کہلاتا ہے۔اور اچانک وہ فارم میں آجاتا ہے ۔۔یہ نفسیاتی گرہیں ہیں اور کھل بھی جاتی ہیں۔۔بہرحال کہانی کو مزہ دینے کیلیے میں یہ واقعہ کہانی سے نکال نہیں سکتاتھا،کیونکہ یہ ہوا تھا اسلیے کچھ دیر انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔میں نے نیلم کی طرف دیکھا وہاں اب سکون تھا۔ اب پھر دوبارہ اولیو آئل لگا کر اسی انداز میں بیٹھ کر میں نے اندر ڈالا ۔اور آرام سے اسے چودنے لگا۔اور اس کے ممے جھک کر تھوڑا چوسنے لگا،نیلم کو تھوڑا وقت چاہیےتھا۔میں اسے دے رہا تھا کیونکہ ممے چوسنے سے چودائی آہستہ ہوتی ہے،کچھ ہی دیر میں نیلم چودائی کو محسوس کرنے لگی۔اور مزہ لینے لگی۔اب میں آہستگی سے روانی کی طرف اسے چودنے لگا۔جیسے جیسے میری چودائی کی قربت بڑھتی گئی نیلم اس میں مدہوش ہونے لگی۔آہ پرنس تمھارے ہر لمس میں ہر حرکت میں مزہ ہے،میں ان باتوں کا عادی تھا،میں بڑے سکون سے چودتا ہوا، اب ہیجان کی طرف بڑھتا گیا۔میری رفتار کچھ تیز ہوئی لیکن مجھے احساس تھا کہ یہ نیلم کی پہلی چدائی ہے۔نیلم کی بڑی بڑی آنکھیں مجھے نشیلے انداز میں دیکھتی رہیں اور میں اسے چودتا رہا۔نیلم کے چہرے پر اس کی آنکھیں نمایاں تھی۔اور دیکھنے والے کو گرفت میں لے لیتی تھی۔یہ نہیں کہ اس میں اور حسن نہیں تھا،لیکن اس کی آنکھیں اس کے حسن پر چھائی ہوئی تھیں۔جسم اس کا سیکسی تھا،اور نزاکت پھر آہی گئی تھی۔میں اپنے پنجوں پر اور ہاتھوں پر ہوگیا،میرا جسم بالکل سیدھا تھا۔نیلم نے فوراً ٹانگیں دوہری کرلیں ۔ہماری آنکھیں کے سامنے آنکھیں تھیں۔نیلم اس اسٹائل کوسمجھ چکی تھی۔اسے دی پش اپ کہتے ہیں، ماؤنٹین کلائمبرجیسے اس کا طریقہ ہے ۔اس میں آنکھیں آنکھوں میں کھبی ہوتی ہیں،اور جسم کا وزن پنجوں اور ہاتھوں پر ہوتا ہے،میں طریقے سے نیلم کو چودنے لگا،نیلم کا ساتھ میں ایک فائدہ تھا،وہ سیکس کو سمجھتی تھی۔اور جو جانتا ہو اسے کے ساتھ کھیلنے میں مزہ آتا ہے،یہی وجہ ہے کہ نیلم سے گلے لگنے اور اب چودائی تک سب کچھ مہارت اور نزاکت سے ہورہا تھا،اس لیے اس کا بیان بھی اس انداز میں آگیا ہے کہ اسمیں معلومات کافی آگئی ہیں۔اور اب اس میں اسٹائل بھی کافی آئیں گے۔ماؤنٹین کلائمبر یعنی نیلم کے جسم پر کوہ پیمائی کرتا ہوا میں چودتا رہا۔ میں نےپھر اپنا اسٹائل بدل لیا،اب کی بار میں نے پریٹزیل اختیار کیا ۔یعنی خستہ (مزیدار )اور بل دار،جیسے ہی نیلم کی ٹانگوں میں بیٹھ کر میں نے اس کی ایک ٹانگ اپنے نیچے کی نیلم نے فورااپنی دوسری ٹانگ میری ران کے اوپر سے میرے پہلو سے لگا دی ،اور کچھ ٹیڑھی ہوگئی۔میں نے نیلم کے اندر ڈالا اور آہستگی سے چودائی اسٹارٹ کی۔یہ اسٹائل ڈوگی اسٹائل ہی ہے ،لیکن اس میں چہرے کے سامنے چہرہ ہوتا ہے۔ڈوگی اسٹائل یہ اس لیے ہے کہ اس میں ڈوگی اسٹائل کی طرح ہی گہرائی میں عضو جاتا ہے ،اور بھر پور مزہ آتا ہے،اب تک نیلم نے ہر طرح چودائی کو سمجھا تھا۔میں آہستہ آہستہ پیچھے ہو کر آگے ہوتا رہا،اور میرا عضو نیلم کی گہرائیوں میں جا کر پیار کا سندیسہ لاتا رہا۔پیار کا سندیسہ آئے تو پھر ملنے جانا پڑتا ہے،اور اسی طرح آنا جانا لگا رہا۔۔۔پہلی چودائی میں دلدوز چیخ کے بعد نیلم اب بھرپور سا تھ دے رہی تھی۔

ہر انداز کو نیلم نہ صرف محسوس کرتی بلکہ اس کے تاثرات اور جنسی آوازوں سے اندازہ ہوتا ہے اسے مزہ آرہا ہے اور اسے ایک اور نیا اسٹائل دینا چاہیے اسی وقت میں زیادہ اسٹائل بدلنے سے چودائی کا مزہ خراب ہوجاتا ہے لیکن ہم ایک لہر میں تھے اور اس لہر میں ہمیں رکنے کی بجائے مختلف انداز میں مزہ آرہا تھا۔عضو آرام سے اندر جاتا اور مزہ دیتا ،واپس آتا،جان کھینچتا اور پھر واپس 



ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی