پلے بوائے (قسط 4)

 

 


میں نے بات مکمل کی تو کچھ وقت کیلیے خاموشی چھا گئی،صائمہ کی آنکھوں میں آنسو تھے،بہت عرصے بعد میری آنکھوں سے پردہ ہٹا ہے ،مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے ایک طویل عرصے کے بعد میں ہوش میں آئی ہوں ۔پرنس مجھے لگتا ہے جیسے میرا ذہن ڈیول کے قبضے میں تھا،پرنس آپ جو کہو گے میں کروں گی،صائمہ کا ذہن پلٹ چکا تھاصائمہ تم میرا ساتھ دو گی تو میں تمھارے باپ کا علاج کروا دوں گا،اور جیسے بھی ہوا تمھیں تمھارے گھر والوں سے ملا دوں گا،اور یہ جو ڈیول نے اپنی وحشت مٹاتے مٹاتے تمھیں بھی جنونی بنا دیا ہے میں یہ سب ٹھیک کردوں گا اور تم چدائی کا صحیح لطف لے سکو گی،صائمہ پھر رونے لگی،ڈیول نے کبھی یہ کیوں نہیں سوچا پرنس،جبکہ وہ مجھے اپنی زندگی کہتا ہے،صائمہ میں لوگو ں کی زندگیوں سے نہیں کھیلتا اسلیے میں ایسا سوچ سکتا ہوں ،لیکن ڈیول ایک انتہائی مطلب پرست آدمی ہے وہ لوگوں کو بلیک میل کرتا ہے ،لڑکیوں کو پھنساتا ہےجھوٹ اور فریب سے ،پھر ان کی دورانِ سیکس ویڈیو بنا کر ان کو بلیک میل کرتا ہے،پتہ نہیں کن کن گھروں کی لڑکیوں اس کے ہاتھ بلیک میل ہو رہی ہیں ۔پھر ان لڑکیوں سے کئی امیر لوگ اور بیورو کریٹ اور سیاست دانوں کی ویڈیو بنوا چکا ہے،مجھے اس کا یہ شکنجہ توڑنا ہے،اس کی طاقت اس کا بلیک میلنگ مواد ہے ،وہ میں تباہ کرنا چاہتا ہوں ،یقیناً تم جانتی ہو گی کہ وہ سارا مواد کہاں رکھتا ہے،بس مجھے وہ سارا مواد چاہیئے،جب تک یہ موا د اس کے پاس ہے ہم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

اس دوران ہم اپنے کپڑے پہن چکے تھے اور سیٹ کو واپس اپنی حالت میں کر کے فرنٹ سیٹوں پر بیٹھےہوئے تھے،صائمہ انتہائی سنجیدہ تھی،پرنس تم نے بات تو ٹھیک کی ہے ،لیکن افسوس میں اس میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتی،کسی کو نہیں پتہ کہ ڈیول اپنا بلیک میلنگ مواد کہاں رکھا ہے،اس بارے میں وہ کسی پر اعتماد نہیں کرتا،اتنا عرصہ اس کے ساتھ رہنے کے باوجود مجھے بھی اس کا کچھ پتا نہیں ہے،صائمہ میری طرف دیکھ رہی تھی اور میں اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا مجھے محسوس ہوا کہ وہ سچ کہہ رہی ہے،اور یہ اتنا بعید بھی نہیں تھا،بلکہ ڈیول سے یہی امید کی جا سکتی تھی،صائمہ تمھیں اس کے پاس کچھ عرصے کیلیے واپس جانا پڑے گا،اور اس بات کا کھوج لگاناپڑے گا،صرف تمھارے لیے میں یہ کروں گی پرنس ،ورنہ اب میرا ڈیول کے پاس جانے کو بالکل دل نہیں کرتا۔صائمہ یہ کر لو اور پھر ایک اطمینان بھری زندگی پا لو گی۔پرنس میں اسکے ہر لین دین کو سنبھالتی ہوں،۔اسکے اکاؤنٹس کو کنٹرول کرتی ہوں،وصولیاں کرتی ہوں۔سارا حساب کتاب میرے پاس ہوتا ہے۔یوں سمجھ لو میں اس کے مالی معاملات کی نگران ہوں۔یہ اس کی دوسری طاقت ہے،جہاں لڑکیوں سے کام نہیں نکلتا وہاں دولت سے کام نکلواتا ہے،ویسے بھی یہ سب وہ دولت کیلیے ہی تو کرتا ہے،اور اگر یہ دولت ہی اس کے پاس نہ رہے تواس کا کیا ہو گا ،میں نے معنی خیز انداز میں کہا،توصائمہ میری بات سمجھ گئی،ٹھیک ہے میں یہ کام کر لوں گی،اس کے ہر اکاؤنٹ اور ہر تجوری کوخالی کر دوں گی،صائمہ ایک عزم سے بولی ،،نہیں صائمہ یہ کام تم نہیں کرو گی، تم صرف مجھے ساری معلومات دو گی،یہ کام ایف بی آئی والے کریں گے،کالے دھن کو سفید کرنے کیلیے باسل کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ساری دال ہی کالی ہے،وہ بچ نہیں سکے گا۔پرنس یہ تمھاری غلط فہمی ہے،کوئی محکمہ ایسا نہیں ہے جہاں اس کے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے،اور ویسے بھی کون ایماندار آدمی ہے وہ جو یہ کام کرے گا،صائمہ نے بات ہی ایسی کی تھی کہ میں ہنسنے لگا،صائمہ یہ کام ایماندار آدمی نہیں بلکہ کرپٹ افسران کریں گے،اور سب مل کر باسل کا پیسہ بندر بانٹ کریں گے۔اس سسٹم میں ڈیول کی کوئی سفارش یا رشوت کا م نہیں آئے گی کیوں کہ پیسہ تو کوئی بھی نہیں چھوڑے گا،بلکہ جب تک ڈیول کچھ کرے گا ،پیسے کے نہ جانے کتنے حصے ہو چکے ہوں گے،کرپٹ لوگوں سے باسل پھر نپٹتا پھرے ہمارا کام ہو جائےگا، بلکہ ہم کچھ نہیں کریں گے،بس کچھ خاص لوگوں تک یہ ٹپ پہنچائیں گے۔صائمہ میری بات سے مطمن نظر آنے لگی،ٹھیک ہے میں تمھیں پوری تفصیل بتا دیتی ہوں،میں نے موبائل کا آڈیو ریکارڈ آن کر لیا ،اور صائمہ کی تفصیل ریکارڈکرنے لگا،بات مکمل ہوئی تو صائمہ کے چہرے پر جوش تھا،صائمہ اس میں ایک سوفٹ ویئر ہے،میں نے ایک یو ایس بی صائمہ کودیتے ہوئے کہا،یہ وہی یوایس بی تھی جوآتے ہوئے تنویر نے مجھے پکڑائی تھی۔اگر یہ سوفٹ ویئر تم ڈیول کے موبائل میں انسٹال کر دو تو پھر ڈیول کے موبائل کی ہر کال ہم سن سکے گےہر میسج پڑھ سکیں گے،بلکہ اس کا موبائل واکی ٹاکی بنا کر ہم اس کی باتین سن سکیں گے،اس کے تمام کو نٹیکٹ دیکھ سکیں گے،ٹھیک ہے میں یہ کا م آج رات ہی کر لوں گی جیسے ہی انسٹال کرو ۔اس نمبر پر مس کال دینا پھر واپس ایک میسج آئے گا وہ اوپن کردینا ۔ بظاہر وہ خالی میسج ہو گالیکن ہمارا کام ہوجائےگا۔میں نے کار اسٹارٹ کر کے چلا دی،پرنس تم نے ابھی کہا تھاکہ ڈیول نے مجھے بھوک کا عادی بنا دیا ہے ،تو یہ کیسے ٹھیک ہو گا۔صائمہ جسم کو چودائی کے نشے کا عادی بنایا گیاہے اور تمھاری سوچوں کو اسنے تسخیر کر لیا ہے۔،اب تمھارا ذہن تو اسکے کنٹرول سے نکل جائےگا،تو تمھارا علاج آسان ہوجائےگا،،فکر نہ کرو تم نارمل ہو جاؤ گی،یہ پرنس کا وعدہ ہے۔میں نے اُسی ہوٹل میں صائمہ کو اتار دیا ا س میں صائمہ کی کار کھڑی تھی۔صائمہ کار میں بیٹھ کر چلی گئی ۔جانے سے پہلے میں نے اس کی دونوں آنکھوں کو چوما اور اس کے ہونٹوں پر کس دی،اور اسے گلے سے لگا لیا،میرے حسنِ سلوک نے صائمہ کا دل جیت لیا تھا،اور ڈیول کا ایک اہم مہرہ میرے ہاتھ میں آگیا تھا،میں واپس فارم ہاؤس پہنچ گیا،،میں نے ایک کال ملائی ،بیل جانے لگی،یہ نمبر ایف بی آئی کے ایک اعلی افسر کا تھا،ہیلو پرنس ،کیا بات ہے یار،رات کو اسوقت خیریت تو ہے،؟نجیب ایک ٹپ ہے میرے پاس اور کام بھی فوری چاہیے ،کیا ٹپ ہے؟نجیب کی آواز سے نیند فوراً غائب ہو گئی،پہلے تو یہ بتا دوں کہ یہ ٹپ ڈیول کے خلاف ہے ،میں نے اپنے نجیب کو ٹٹولا ،گالی نہ دو پرنس، ایف آئی اے کے سامنے کسی ڈیول کی کوئی اہمیت نہیں ہے،یہاں بتاتا چلوں کہ ایف ائی اے ایک وفاقی ادارہ ہے اور وازارتِ داخلہ کے ماتحت ہے۔اس میں دہشت گردی ،وفاقی جرائم ۔فسطائیت اور سمگلنگ کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے۔شروعات تو اس کی پاکستانی اسپیشل پولیس کے طور پر ہوئی تھی،لیکن کچھ سا ل سےایف بی آئی کی طرز پر اس کاڈھانچہ بن چکا ہےاور یہ اُسی طرح کام کررہا ہے۔نجیب اس کے سارے کالے دھن کی تفصیل میرے پاس ہے،اور وہ سارا پیسہ تمھارااور تمھارے ساتھیوں کا ہے،کیونکہ اس کے پاس اس پیسے کا کوئی پروف نہیں ہے،لیکن تم پر دباؤ تو پڑے گا،۔۔۔۔ایسی کی تیسی اس کے دباؤ کی ،ہمارے گلے میں بھی پٹاہے پرنس ۔میں جانتا ہوں اس بلیک میلر کے ساتھیوں کو ،تم تفصیل بتاؤ میں سارا دباؤ اسی پر موڑ دوں گانجیب پوری طرح لالچ میں پھنس چکا تھا،ٹھیک ہے میں تمھیں ابھی ای میل کر دیتا ہو ں ،میں نے اسے انتظار میں ڈال دیا۔نجیب ایک کرپٹ افسر تھا اور اس کی پوری ٹیم تھی جو اس نے ایف بی آئی کے اندر بنائی ہوئی تھی،بے دھڑک پیسہ کمانے کیلیے یہ کسی پر بھی ہاتھ ڈال دیتا تھا،کیونکہ اپنا حصہ کھانے والے اس کے ساتھ بہت تھےاور اس نےچُن کر چوٹی کے بندے ہاتھ میں رکھے ہوئے تھے اس لیے ابھی تک اس پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکا تھا ،اسے سوچ سمجھ کے ہی میں نے چنا تھاڈیول اپنے تمام اختیارات کے باوجود اس جونک کو کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا اس لیے کل کا دن ڈیول کے لیے بہت بڑا جھٹکا بننے والا تھا،میں نے پوری تفصیل لکھ کر ای میل نجیب کوبھیج دی۔صبح میری آنکھ نجیب کی کال سے ہی کھلی۔گلّا خالی کردیا ہے ۔

میرے ہیلو کے جواب میں نجیب نے کہا۔گڈ میں نے کہا ۔شکریہ نجیب نے کہا۔میں اٹھا کسل مندی دور کرنے کیلیے نہایا،پھر آسن جما دیا اور دھیان لگا دیا۔ناشتہ تیار تھا، ملازم نے ناشتہ لگایا تو تنویر بھی آگیا،تنویر پر جوش تھا یقیناً اس کے پاس خاص خبریں تھی۔سر ایک تو تصدیق ہو گئی ہے کہ ماکھواور اس کے چار ساتھی ہی ہانیہ کے گھر گئے تھے۔دوسرا کل رات ہی ماڈل ہسپتال پہنچ گئی ہے،ہمارےایک کمانڈو نے جان بوجھ کر اس سے اپنی کار ٹکرائی تھی اور جیسے ہی وہ مغلضات بکتی اپنی کار سے باہر نکلی ہمارے ساتھی اسے پکڑ لیا اور بڑی پھینٹی لگائی۔اچھی گہری چوٹیں اسے لگی ہیں۔دو ہفتے تو ہسپتال سے نہیں آتی۔اور ڈیول کا موبائل اب ہمارے کنٹرول میں ہے۔رات ہی سوفٹ ویئر انسٹال ہوگیا تھا آپ نمبر دے آئے ہوں گے اسلیے فوراًسوفٹ وئیرانسٹال ہونے کی اطلاع آگئی۔سمیر نے فوراً لنک جوڑنے والا میسج بھیج دیا،اسی وقت وہ اوپن ہوگیا اور موبائل ہمارے کنٹرول میں آگیا۔اور جو اس کا گھریلو ملازم ہم نے خریدا تھا،اس نے ہماری دیئے ہوئے کیمرے بنگلے کے اندر اہم جگہوں پر بڑی ہوشیاری سے لگا دیے ہیں کیمرے ایسی بناوٹ میں ہیں کہ ان پر شک نہیں ہوسکتا۔ اب بنگلہ ہماری نگرانی میں ہے،ایک خبر میرے پاس بھی ہے،میں نے مسکراتے ہوئے کہا،ڈیول کا سارا پیسہ ایف آئی اے لے گئی،واؤ سر،میں نے صبح بنگلے میں ہلچل دیکھی تھی۔ ،ہاں تنویر صائمہ نے رات ہی سارے راز مجھے بتا دیے تھے،اب تم اپنی توجہ اس سے ثبوت اکٹھے کرنے اور خاص کر بلیک میلنگ مواد ڈھوندنے پر لگا دو ،کوئی ایسا با عتماد ساتھی جس کے پاس ڈیول یہ ویڈیوز رکھوا سکے،اس نکتے پر بھی غور کرنا،یس سر جیسے ہی کوئی خبر ملتی ہے،میں آپ کواطلاع دیتاہوں،ایک کام کرو ماکھو اور اس کے چاروں ساتھی جب باہر نکلے تو مجھے بتانا،اوکے سر،تنویر چلا گیا ،میں کافی پینے لگا،انٹرکام پر تنویر نے رابطہ کیا،کیا بات ہے تنویر ؟سر ماڈل کی والدہ آئی ہے اس کے ساتھ اس کی چھوٹی بیٹی بھی ہے،میں نے چیک کرلیاہے وہ کلیئر ہیں،اگر آپ کہیں تو آپ کے پاس بھیج دیتا ہوں،بھیج دو ،میں کچھ سوچتے ہوئے کہا،کچھ دیر بعد ملازم ایک عورت اور ایک حسین لڑکی کو چھوڑ گیا۔ انہوں نے ہاتھ ماتھے پر لے جا کر مجھے تسلیم کیا،بیٹھیں،کہیے کیا بات ہے،بیٹا ہم معافی مانگنےآئے ہیں،عورت نے اتناہی کہا تھا کہ میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا،میں کسی کا بیٹا نہیں ہوں،جو بات کرنے آئی ہو وہ کرو،مجھے ماڈل کی والدہ خرانٹ نائیکہ محسوس ہوئی۔اوکے پرنس،پرنس ہم فنکار لوگ ہیں ہمارا کسی سے جھگڑا نہیں ہے،آپ کی ڈیول سے لڑائی ہے آپ اسے جو مرضی کریں،ہم ڈیول کوچھوڑ چکے ہیں۔پلیز میری بیٹی سے جوغلطی ہوئی ہے میں اس کی معافی مانگتی ہوں،نائیکہ نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ دیے۔اس کے چہرے پر مسکینی بھی آگئی تھی۔میری بیٹی ہسپتال میں ہے جیسے ہی وہ ٹھیک ہو گی وہ خود آپ اسے معافی مانگنے آئے گی،آپ جو ہرجانہ کہیں ہم دینے کوتیار ہیں،پلیز ہمیں معاف کردیں،اچھا بہت پیسہ ہے تمھارے پاس،میں نے طنزیہ انداز میں کہا۔نہیں نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا،نائیکہ ہکلائی،توبہ توبہ میری ایسی مجال کہاں، کہاں گنگو تیلی کہاں راجہ بھوج،آپ تو ارب پتی ہیں، ہماری کیا اوقات آپ کوپیسوں کا ہرجانہ دے سکیں۔ میں نےتو ہرجانہ اسلیے کہا ہےحضور ،کہ آپ کےشوق کیلیے کچھ خدمت کرسکیں،نائیکہ نے معنی خیز انداز میں کہا،مجھے بازاری چیزیں پسند نہیں ہیں۔ میں نے بے زاری سے کہا۔۔کنیز یہ بات جانتی ہے،نائیکہ کی چاپلوسی جاری تھی،اس کے ہاتھ اب تک جڑے ہوئے تھے۔یہ میری سب سے چھوٹی بیٹی ہے۔آپ کے ذوق کے عین مطابق ۔۔۔۔میں نے نائیکہ کوہاتھ کے اشارے سے وہیں روک دیا لیکن اس نے اپنا مدعا سمجھا دیا۔مجھے کسی کا مجبوری سے آنا پسند نہیں ہے،اسلیے تم لوگ جاؤ لیکن اگر مجھے دوبارہ کوئی شکایت ملی تو پھر نہ ماڈلنگ رہے گی اور نہ کچھ اور۔۔۔شکایت نہیں آئے گی سرکار۔شکایت کے ازالے کیلیے تو حاضر ہوئے ہیں حضور۔ٹھیک ہے تم جاؤ۔کنیز تب تک نہیں جائے گی جب تک آپ ہمارا تحفہ قبول نہیں کریں گے،یہ با لکل ان چھوئی ہے،کچھ دن اسے خدمت کا موقع دیں۔میں نے بے زاری سے انہیں جانے کا اشارہ کیا۔وہ جھک کر مجھے آداب کرتی ہوئی چلی گئی اور لڑکی وہیں بیٹھی رہی۔میں سمجھ گیا وہ لڑکی کوسمجھا کر لائی ہے۔ لڑکی تو بڑی حسین تھی،لیکن مجھےاس سے الجھن ہونے لگی ۔دیکھو لڑکی تمھاری ماں تمھیں زبردستی لائی ہو گی،میری طرف سے تم پر کوئی پابندی نہیں ہے،تم جا سکتی ہو،تمھاری بہن کو اب کچھ نہیں ہو گا۔ پہلے تو وہ خاموش نظریں جھکائے بیٹھی رہی۔ پھر اس نے اپنی لانبی پلکیں اٹھائی اور موٹی موٹی آنکھوں سے مجھے دیکھا۔پھر اس کے یاقوتی لب ہلے اور مٹھاس بھری آواز میں بولی۔ہمارا نام نیلم ہے۔،ممّا نے ہم سے کہا ضرورتھا لیکن ہمیں بھی آپ کو دیکھنے کا شوق تھا،ہم دیکھنے چاہتے تھے کہ وہ کون ہے جس نے مما اور آپی اور ڈیول کو ایک ساتھ قابو کر لیاہے،مما کے پتہ نہیں کہاں کہاں تعلقات ہیں اور آپی کے فین تو بڑے بڑے لوگ ہیں،لیکن مماآپ سے معافی مانگنے آئی بلکہ ہمیں بھی ساتھ لے آئی،بخدا ہم تودیکھنے بناءآپ کوچاہنے لگے تھے۔اور دیکھ کر تو اور بھی چاہنے لگے ہیں،آخر میں اس کی آواز تھوڑی شوخ ہو گئی۔آپ ہمیں قبول نہ کریں گے تو کسی نہ کسی نے تو پہل کرنی ہی ہے،اگر آپ نتھ اتارتےتو یہ زندگی بھر یادگار بن جاتی،نیلم نے حسرت سے کہا،اس کی باتوں میں تو کیا آنا،لیکن نیلم انتہائی خوبصورت تھی۔اور یہ بات بھی اس کی صحیح تھی کہ آج یا کل اس کی چوت کا دروازہ کھلنا ہی تھا۔میں نے ایک ملازم کوبلایا ،مس نیلم کو کمرے میں پہنچا دو،نیلم تم آرام کرو ،اور اپنے فیصلے پر غور کرو۔جی حضور فیصلہ ہوچکا ہے ،ہم آپ کا انتظار کریں گے۔نیلم نے اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے کہا،یقیناً اس میں نیلم کے کپڑے وغیرہ تھے ،نیلم پکے ارادے سے آئی تھی۔اس کے جاتے ہی میں نے تنویر کو انٹر کام سے کال کی،جی سر،تنویر تم نے دیکھ لیاہوگا ماڈل کی والدہ اکیلی واپس گئی ہے اس لیے نیلم پر نظر رکھنا ،یس سر میں سمجھتا ہوں سر۔ماکھو کی کوئی اطلاع ؟ نہیں سر ۔ابھی تو وہ ڈیول کے غضب کا سامنا کر رہیں ہوں گے۔جیسے ہی کوئی اطلاع ملی میں آپ کو بتا دوں گا۔اوکے۔میں سوچنے لگا ڈیول کا اس وقت کیا حال ہو گا

------------

اوہ صائمہ یہ سب کیسے ہو گیا،کیسے ہو گیایہ سب۔ دوٹکے کے ایجنٹ کی یہ مجال میرے بنگلے میں گھس کر میری آنکھوں کے سامنے میری ساری عمر کی کمائی لے اڑے،ڈیول نے غرّاتے ہوئے کہا۔اور ماکھو تم ،کیا فائدہ ہوا مجھے تم جیسے سانڈ پالنے کا،بغیرت انسان ،لعنت ہے تم سب پر۔یہ منسٹر صاحب (پنجاب کے نامور سیاستدان)سے کال ملائی ہے ان سے بات کریں ،صائمہ نے موبائل ڈیول کوپکڑاتے ہوئے کہا۔کیا بات ہے باسل(ڈیول )یہ میں کیا سن رہا ہوں،منسٹرصاحب نے شدید حیرانگی سے پوچھا۔ٹھیک سن رہے ہو یار،کوئی نجیب نامی ایف آئی کا ایجنٹ تھا،حرامزادہ پوری تیاری سے آیا تھا،موبائل جیمر سے ہمارےمو بائل بھی جام کر دیے،کوئی کال نہیں کرنے دی سالے نے۔تو تم نے اسے وہیں گولی مار دینی تھی حرامزادے کو۔بعد میں سب سنبھال لیتا میں،بڑے صاحب غصے سے پھنکارے، گولی تو میں نے مار ہی دینی تھی ۔لیکن وہ کنجراپنی فورس کے ساتھ پوری تیاری سے آیا سے تھا ،، باہر کھڑے گارڈز کو اس نے ہلنے نہ دیا،ہم تو سو رہے تھے۔ہمیں تو تب پتہ چلا جب ہمارے سروں پر پہنچ گیا تھا۔بنگلے میں جوپیسہ خفیہ جگہ رکھا ہوا تھا ۔بینک اکاؤنٹس میں جو تھا سب لے گیا، میں تو برباد ہوگیا،میری تو ساری دولت لے اڑا وہ۔حرامزادے کو جیسے ہربات کی خبر تھی ۔اس نے سیدھا بنگلے میں تجوریاں ہی کھولی ۔تہہ خانےمیں غیرقانونی سامان پڑا تھا لیکن وہ جیسے طے کر کے آیا تھا کہ کیا کرنا ہے ۔اور کب نکلنا ہے۔کوئی بات نہیں باسل،اس کے حلق میں ہاتھ ڈال کے سب نکال لیں گے،میں بات کرتا ہوں ڈی جی سے،دیکھتا ہوں اس کا پٹہ کس نے کھولا ہے،۔تم ذرا یہ پتہ چلاؤ اسے تمھاری خفیہ معلومات ملی کہاں سے؟ وہ تو میں پتہ کر کے ہی چھوڑوں گااور پھر اس کے ٹکرے ٹکرے کر دوں گا۔باسل غرّایا۔منسٹر صاحب نے کال بند کر دی،ڈی جی ایف آئی سے ملاؤ،انہوں نے پی ۔اے سے کہا،منسٹر صاحب بات کرنا چاہتے ہیں۔کال ملتے ہی پی اے نے کہا،ہیلو جناب ڈی جی صاحب اب آپ کو دوستوں اور دشمنوں کی کوئی پہچان نہیں رہی،ملک کے عزت دار لوگوں کوآپ کے ایجنٹ پریشان کر رہیے ہیں،ڈاکو بن گئے ہیں یہ،کیا ہوا منسٹر صاحب ؟اتنا بھاؤ کیوں کھا رہے ہیں،ڈی جی نے منسٹر کو اپنے لہجے سے سمجھایا کہ وہ کس سے بات کر رہا ہے،ڈی جی صاحب آپ کےایجنٹ نجیب نے ہمارے دوست باسل پر آج غیر قانونی چھاپہ مارا اور اس کی جائزکمائی لے اڑا،اچھی طرح جانتا ہوں آپ کے باسل کی جائز کمائی کو،ڈی جی نے دل میں کہا،منسٹرصاحب مجھےتو اس بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔اگر اس نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہےتو اسے اس کی سزا ملے گی،لیکن ایسا ہونہیں سکتا کہ وہ غیر قانونی طور پر یہ سب کرے۔ اس کے پاس کچھ تو ہوگا،نہیں تو آپکے دوست باسل اسےروک دیتے ۔ڈی جی صاحب ہمیں ان باتں کا پتہ نہیں ہے،ہمیں اپنے دوست کا پیسا واپس چاہیے۔جیسے بھی ہوسکے پیسہ واپس لے کے دیں،اوکے میں نجیب سے بات کرتا ہوں آپ فکر نہ کریں اگر اس نے کچھ بھی غلط کیا ہے تو میں اسے برخاست کر دوں گا،اور اسے پیسہ واپس دینا پڑے گا،ڈی جی صاحب نے منسٹر کو کسی طرح مطمن کیا،پھر ڈی جی نے پی اے سے کہا،فوراً نجیب کو میرے پاس بھیجو،،سر آپ نے مجھے بلوایا ہے،کچھ دیر بعد نجیب نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔بیٹھو نجیب ،نجیب باسل پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے تمھیں مجھے بتانا چاہئے تھا،ابھی منسٹر صاحب کا فون آیا ہے ،اس سے پہلے بھی دو فون مجھے آچکے ہیں،تم جانتے بھی تھے کہ باسل کے پیچھے تین چار چوٹی کے سیا ست دان ہیں،اب میں کس کس کا دباؤ برداشت کروں ،سر آپ فکر نہ کریں ،یہ روٹین کے فون ہیں،اب اتنا تو انہوں نے پھوں پھاں کرنا ہے نہ ۔۔۔ہاتھ پاؤں تو ماریں گے ہی۔۔نجیب نے اطمینان سے کہا،نجیب پیسہ واپس کر دو ،تم جانتے ہو تم نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔پیسا تو سر مال خانے میں جمع کروا دیا،نجیب نے معنی خیز لہجے میں کہا۔سر میں کچھ کرتا ہوں ،اب آپ کو کوئی فون نہیں آئے گا،،نجیب جو کرنا ہے کرو، لیکن اگر مجھ پرمزید دباؤ آیا توپھر میں کاروائی کیلیے مجبور ہوں ،آپ بے فکر رہیں سر،بس ایک گھنٹا دیکھ لیں،نجیب نے دفتر سے باہر نکلتے ہی موبائل سے کال ملائی،ہاں نجیب کیا بات ہے،سر میرا تحفہ آپ کو مل گیا ہوگا،ہاں ہاں مل گیا ہے،لگتا ہے اس بار کو ئی بڑا ہاتھ مارا ہے،جی سر بڑا ہاتھ بڑا تحفہ،لیکن سر ایک پریشانی ہے، ہمارے ہوتے ہوئے پریشانی،دوسری طرف شدید حیرانگی سے کہا گیا،سر وہ آج صبح میں نے ایک آپریشن باسل کے خلاف کیا ہے ۔سر ہر طرح سے قانونی آپریشن کیا ہے ۔۔لیکن باسل اب ڈی جی صاحب پر دباؤ ڈال رہا ہے ،کوئی منسٹر اس کی سفارش کر رہا ہے ۔اورڈی جی صاحب مجھے پریشان کر رہے ہیں۔بے فکر ہو جاؤ ،میں سب سنبھال لوں گا،لیکن تحفے کا سائیز کچھ بڑھنا چاہیے،سر ہم تو آپ کے خدمت گار ہیں،جیسے آپ کا حکم،نجیب نے دل ہی دل میں سر کو گالی دیتے ہوئے کہا۔

لیکن نجیب کو پتہ نہیں تھا موت اس کی طرف دبے پاؤں بڑھ رہی ہے۔شام کا وقت تھا،اور باسل کا برا حال تھا،کڑوڑوں کمایا اور کیا کچھ نہ کیا،لیکن آج سارا پیسہ ایک جھٹکے میں حلال ہو گیا،چوروں کو پڑ گئے مور والی بات ہو گئی تھی،صبح سے شام تک ماکھو اور صائمہ کی بات بے بات بے عزتی ہوچکی تھی،ڈارلنگ کیا ہوگیا ہے تمھیں ،اتنا غصے میں تو کبھی بھی نہیں ہوئےتم،صائمہ نے ڈیول کو لاڈ سے پچکارا،حرامزادی تجھے کیا فکر ہے،تجھے تو یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ تمھارے کام کی معلومات نجیب کے پاس کیسے چلی گئی،ڈیول غرّایا۔مجھے تو یہ کام پرنس کالگتا ہے،ماکھو نے اپنے سر سے بلا ٹالی ،شک تو مجھے بھی ہے لیکن صبح سے سوچ سوچ کر یہ سمجھ نہیں آتا کہ اگر اس نے کیا ہےتو اس کے پاس اتنی جلدی یہ معلومات کیسے آگئی، وہ ایک شوقین پیسے والا ہےکچھ گارڈز اس نے رکھے ہیں،ایک محل بنا لیے ہے، اور بس۔ڈیول بڑبڑایا۔لیکن باسل صاحب میں نے آپ کو بتایا تھا کہ جب اس پر حملہ کیا گیا تھا تو اس نے بڑی دلیری اور پھرتی سے حملے کاجواب دیا تھا،ہمارے آدمیوں کے پاس اسلحہ تھا لیکن اس پر قابو نہ پا سکےتھے،اور پھر جب میں نے اس پر میزائل سے حملہ کیا تھا پتہ نہیں اسے کیسے پتہ چلا۔اور میں چھت پر اپنا بندہ بٹھا کر خود اس کی طرف گیا تھا لیکن میرے جاتے جاتے اس نے ہمارے چار بندے پھڑکا دیے ،اور اسی وقت اس کے گارڈز آگئے،وہ پتہ نہیں کیسے پہنچ گئے،مجھےتو یہ پرنس بڑا مشکوک لگ رہا ہے۔ماکھو نے پورا پورا تجزیہ کیا،باسل صاحب آپ خود سوچو آخر اس نے ٹھنڈے پیٹوں اتنا بڑا قاتلانہ حملہ کیسے برداشت کر لیا، ماکھو پرنس سے بد ظن ہو چکا تھا،اوئے ماکھو میری معلومات کے مطابق وہ مارشل آرٹ کا شوقین ہے، لڑکیوں کا شکاری ہے ، لڑکیاں اس کے پیسے پر مرتی ہیں،اور وہ پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتا ہے ڈیول نے حسّد سے کہا۔ لیکن یہ بات نجیب ہی بتا سکتا ہے کہ اسے ہماری معلومات کسی نے دی ہیں۔اب اس نجیب کو پکڑو ۔ڈیول خطرناک لہجے میں بولا،کچھ دیر پہلے منسٹر صاحب کا فون آیا تھا،نجیب ہاتھ پاؤں مار رہا ہے،۔میں نے اس کے پیچھے کئی لوگ لگائے ہیں۔ لیکن میری معلومات کے مطابق پیسے کے حصے بخرے ہوگئے ہیں۔اور راتب کھانے والے اب نجیب کوتحفظ دے رہیں ہیں ۔اب گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلے گا،ہمیں خود ہی کچھ کرنا پڑے گا،آج رات نجیب کو شکار کرو اس کی ایک بیٹی ہے اسے اس کی آنکھوں کے سامنے حلال کرو ،اور نجیب سے مال نکلواؤ،حرام کا مال بڑا اس نے جمع کر رکھا ہو گا،جو ملے لے آؤ،اور پھر اس کو گولی مار دینا،ڈیول آتش فشاں بنا ہوا تھا،اب ہم دوبارہ مال ایسے ہی جمع کریں گے اور شروعات نجیب سے ہو گی۔ نجیب کا انجام دیکھ کر سب پیسہ خود ہی پہنچا دیں گے۔باسل ڈئیر وہ ایف آئی اے کا بڑا آفیسر ہے،سرکاری بندے پر ہاتھ اٹھایا تو تھڑتھلی مچ جائے گی،صائمہ نے اتنے بڑے قدم سے باسل کوروکنا چاہا،شٹ اپ صائمہ ،مجھے بدلہ چاہیے، ماکھو میرے سینے میں ٹھنڈ ڈالو گےتو مجھے سکون ہوگا،کچھ نہیں ہوتا ،سرکاری کتے سیاست دانوں کی گاڑیوں کے نیچے آکر مرتے ہی رہتے ہیں،جو ہو گا میں سنبھال لوں گاجب نجیب ہی نہیں ہو گاتو اس کی پشت پناہی کرنے والے کیا کریں گے،وہ کسی اور کے سر پر ہاتھ رکھ دیں گے۔ڈیول نے کمینگی سے مسکراتے ہوئےکہا،ماکھو بھی درندگی سے مسکرانے لگا،نجیب کی بیٹی کا خیال اسے گدگدانے لگا تھا،(مجھے یہ ساری معلومات ڈیول کے موبائل ،خفیہ کیمروں اور صائمہ اور نجیب سے ملیں تھی،جو ترتیب سے یہاں بیان کر دیں)

چلو بھئی کوشش تو کرو ،میں نے تنویر اور ا سکے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کی،تنویر اور اس کے ساتھی اس وقت آڑے ترچھے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔جب کہ میں کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑا انہیں اکسا رہا تھا،ہم اس وقت پریکٹس ہال میں تھے جو میں نے تنویر اور اس کے ساتھیوں کیلیے بنوایا ہو تھا،ہم دوستانہ انداز میں فائیٹ کر رہےتھے کبھی کبھار تنویر اس فائیٹ کیلیے مجھے کہہ دیتا ہے ،اور میں اکیلا ایک طرف اور و دس دوسری طرف ہوتے ہیں۔لیکن نتیجہ ہر بار ایک ہی ہوتا ہے کہ تنویر اور اس کے ساتھی مجھے چھو بھی نہیں سکتے اور ہانپ کر گر پڑتے ہیں،اب بھی ایسی ہی صورتِ حال تھی اور تنویر کا اب اٹھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا،تم بوڑھے ہوگئے ہو تنویر ،اب تمھارا کچھ سوچنا پڑے گا،میں نے اسے چھیڑا،سر،سمیر گھبرایا ہوا آیا،کیا بات ہے سمیر،میں نے اس سے پوچھا، سمیر ہمارا کمانڈو ساتھی،کمپیوٹر کا شعبہ اسکے پاس تھا۔،وہی ساری الیکٹرانک نگرانی کرتا ہے، اور جدید ٹیکنالوجی استعمال کر تا تھا۔سر آج رات ماکھو نجیب کا شکار کرنے اس کے گھر جا رہا ہے ،تو تنویر چوہا بل سے نکلنے والا ہے،آج کی رات وہ خود شکار ہو گا، میرے ذہن میں ماکھو کیلیے ایک منصوبہ تھا ،یس سر ،تنویر نے جوش سے کہا،کچھ مزید معلومات ملی اس ماکھو کے بارے میں ،میں نے تنویر سے پوچھا،سر خونخوار آدمی ہے لڑائی بھڑائی کا ماہر ،اس کے ساتھی بھی اسی کے جیسے ہیں،اور سب کہ سبخطرناک ۔اور سفاک اشتہاری ہیں،تنویر نے پرانی معلومات دہرا دی ،،اشتہاری ہےتوکیوں نہ اپنے ایس ایس پی صاحب کو یہ انعام دلوایا جائے،میں نے اپنا منصوبہ تنویر کو بتایا،ٹھیک ہے سر،میں انھیں بتادیتا ہوں،،نہیں ابھی نہیں ،حلوہ پکا کے کھلائیں گے،میں نے پورا منصوبہ تنویر کو سمجھایا،اوکے سر ،میں تیاری کرتا ہوں،میں خود جاؤں گا،جیسے ہی وہ بنگلےسے نکلے مجھے اطلاع کر دینا اور روانگی کیلیے تیار رہنا،اوکے سر،11 بجے تنویر نے اطلاع دی کے ماکھو اور اس کے ساتھی بنگلے سے نکل پڑے ہیں،ہم تیزی سے جیپ میں نکلے۔تنویر ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ایک جگہ ہم نے سڑک پر ہی مورچہ لگا لیا۔میرے ساتھی اطراف میں چھپے تھے۔ماکھو کی گاڑی آرہی تھی ۔جبکہ میں خالی ہاتھ فلمی انداز میں سڑک کہ بیچو بیچ کھڑا تھا۔



ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی