خاندانی تعلقات قسط (6)

 

















نمی کے جانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں کچھ زیادہ ہی بے قابو ہو گیا تھا اپنی بیٹی کی جوانی بھرے بوبز کو دیکھ کر اور اپنا لن تک مسلنے لگ گیا تھا، جو کہ کچھ زیادہ ہی لمبی جمپ تھی اور ابھی یہ سب مناسب بھی نہیں تھا شاید۔ لیکن اب تو جو ہونا تھا ہو گیا تھا، کیا بھی کیا جا سکتا




خیر، میں نے سر جھٹکا اور کھانا کھانے لگا۔ کھانا کھانے کے بعد میں نے برتن سائیڈ ٹیبل پر رکھے اور سگریٹ سلگا لی۔ کہ تبھی نمی پھر سے چائے کا کپ لیے میرے کمرے میں داخل ہو




گئی اور مجھے سگریٹ پیتے دیکھ کر بولی:




نمی: پاپا تھوڑا صبر نہیں کر سکتے تھے؟ اب دیکھو تو ذرا کمرے میں کیسے دھواں پھیلا رکھا ہے،




سانس نہیں گھٹتی آپ کی؟




میں : سوری بیٹی، مجھے خود ہی خیال رکھنا چاہیے تھا۔




نمی : اٹس اوکے پاپا، لیکن آپ چھوڑ کیوں نہیں دیتے سگریٹ پینا؟




میں : چائے کا کپ پکڑتے ہوئے بولا : بس بیٹی اب ممکن نہیں ہے، پرانی عادت ہے۔




نمی: لیکن بری عادت ہے نا؟




میں : ہاں بیٹی، لیکن کچھ بری عادتوں کا زندگی میں ہونا بھی ضروری ہوتا ہے، ورنہ زندگی بورنگ ہو جاتی ہے۔




نمی: اوکے تو آپ آج یہیں رہو گے یا دوستوں کے ساتھ ؟




میں نہیں آج یہیں ہوں۔




نمی: اوکے تو پھر آرام کرو۔




نمی اتنا بولتے ہی برتن اٹھا کر اپنی گانڈ کو تھوڑا زیادہ ہی مٹکاتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔ لیکن اس کی یہ حرکت تو جیسے میرے لن کے لیے قاتل ہی ثابت ہوئی، کیونکہ نمی کی سیکسی گانڈ نے تو مانو مجھے اور میرے لن کو ہلا ہی ڈالا تھا۔ میں ایک لمبی سی آہ بھرتے ہوئے اپنا لن مسلتے




ہوئے دوسرے ہاتھ چائے پینے لگا۔ لیکن سچ بولوں تو اس وقت میرے من سے بس ایک ہی آواز اٹھ رہی تھی کہ "شاہ جی جو ہو گا دیکھا جائے گا، لیکن ابھی تو نمی کو کھول ہی ڈالو"۔ لیکن دوسری طرف سے آواز آتی کہ "نہیں شاہ جی، دھیرے سے مزا لو، ایسی زبردستی میں مزا نہیں آئے گا"۔




انہی خیالات میں کھویا میں چائے پیتا رہا اور چائے پی کر خالی کپ سائیڈ میں رکھتے ہوئے بیڈ پر ہی لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ آخر ایسا کیا کروں کہ نمی میرے ساتھ پوری طرح اوپن ہو جائے۔




لیکن کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ چائے کا خالی کپ روہی میرے کمرے سے لینے آئی تو میں نے کہا:




میں: کیا بات ہے روہی، ابھی تک جاگ رہی ہو؟


روہی: تو اور کیا کروں پاپا ، آپ ہی بتاؤ اب نمی اپنا سارا کام میرے سر ڈال کر خود اپنے کمرے میں چلی گئی ہے۔


میں: اوہ ہو ، یہ تو بڑا ظلم ہو رہا ہے میری بیٹی پر۔ دیکھنا میں صبح کیسے کلاس لیتا ہوں سب کی۔


روہی: چلو رہنے دو پاپا، بڑی بہن ہے کیا یاد کرے گی ہمارے ہوتے اور... ہی ہی ہی ہی کہتی ہوئی میرے کمرے سے نکل گئی۔




روہی کے جاتے ہی میں نے اپنے کمرے کا دروازہ لاک کیا اور لائٹ بھی آف کر دی اور ٹی وی دیکھتے ہوئے نمی کا انتظار کرنے لگا کہ وہ کب آن لائن آتی ہے، جس کے لیے مجھے کوئی تیس منٹ انتظار کرنا پڑا، جس کے بعد نمی نے واٹس ایپ کیا:




نمی: ہیلو


میں: ہاں جی


نمی: کیا ہاں جی؟ کچھ کیا کہ نہیں؟


میں: کس بارے میں پوچھ رہی ہو؟


نمی: جگہ کا ہی پوچھا ہے حرامی کے پلے اور بھلا کیا پوچھوں گی؟


میں: نہیں یار، ابھی تک نہیں ہوا۔


نمی: ویسے تمہیں برا تو نہیں لگتا نا؟


میں: کیا؟


نمی: یہ جو میں کبھی کبھی گالی بک جاتی ہوں تو۔


میں: سچی بتاؤں؟


نمی: ہاں پلیز


میں: مزا آتا ہے۔


نمی: کیوں حرامی، تم کہیں کوئی بھڑوے ٹائپ تو نہیں ہو نا؟ ہی ہی ہی


میں: جو بناؤ گی بن جاؤں گا جان۔


نمی: ہاں بڑے آئے میرے تابعدار، جیسے میرے سے پوچھے بغیر کچھ کرتے ہی نہیں ہو۔


میں: ہاں تو کب کچھ کیا میں نے تمہاری مرضی کے بغیر؟


نمی: وہ منور شاہ تیری بیٹی کا یار لگتا ہے، جو اس سے میرے بارے میں بات کی تھی۔


میں: اچھا بابا، اب ہو گئی نا غلطی؟


نمی: ہوں، ہو گئی غلطی۔


میں: اچھا اب غصہ ٹھنڈا کرو اور فیس کے ساتھ سیکسی پک دکھا دو نا پلیز۔


نمی: نہ جانی، یہ نہیں ہو سکتا۔


میں: کیوں؟


نمی: بنا فیس کے دکھاؤں گی ابھی ،فیس تب دکھاؤں گی جب ملوں گی۔


میں: تب تو فیس کے ساتھ پھدی بھی دیکھ لوں گا۔


نمی: سسی کتے، کیوں آگ بھڑکا رہا ہے؟


میں: آگ بھڑکے تو تب ہی ملے گی نا حرام کی جنی۔


نمی: اچھا ایک بات تو بتاؤ۔


میں: پوچھ سالی۔


نمی: یہ منور شاہ کا کتنا سائز ہے؟


میں: میں کون سا سالی اس کا ناپتا رہا ہوں کہ کتنا بڑا ہے اس کا؟


نمی: کیوں، اپنی بیٹی کو نہیں چڑوايا اس سے تم نے حرامی؟


میں: سالی پوری گشتی ٹائپ کی ہے تو۔


نمی: اچھا جی۔


میں: ہاں جی۔


نمی: یار بتا نا پلیز۔


میں: کہیں میرا پتہ تو نہیں کاٹ دے گی؟


نمی: نہ، میرا بچہ نا۔


میں: میرے جتنا ہی ہے۔


نمی: سسی حرامیو، گدھے کے ساتھ بدلا ہے کیا؟


میں: جیسا سمجھو، لیکن پہلے کچھ دکھانا پڑے گا۔


نمی: رک ذرا۔










میں: کچھ دکھنا بھی چاہیے یار۔


نمی: رکا نہیں جا رہا؟


میں: سسی یار، کیا مال ہو، ذرا اور بھی دکھاؤ نا پلیز۔













نمی: کتے کو کھیر اور عاشق کو عزت ہضم نہیں ہوتی۔


میں: کیا مطلب؟


نمی: جتنا بھی دکھنے کو مل رہا ہے، اس پر صبر نہیں کر سکتا نا عاشق؟


میں: اب کیا کروں، دکھا دے نا پلیز، تیرا کیا جاتا ہے؟


نمی: رک تھوڑا۔




نمی کے جواب سے میرے لبون پر مسکراہٹ سی پھیل گئی، کیونکہ اب مجھے پتا چل چکا تھا کہ میری بیٹی کی ٹائپ کیا ہے اور وہ جتنا ذلیل کرے گی، اتنا ہی مزا بھی دے گی۔ کہ تبھی کوئی دو منٹ بعد ایک پک آ گئی۔














نمی: اب خوش؟


میں: ہاں جان 


نمی: اب نہیں بولنا اور دکھاؤ 


میں: اس کی اس بات سے میں سمجھ گیا کہ وہ خود چاہ رہی ہے کہ میں اسے اور دکھانے کو کہوں، تو میں نے بھی ایسا ہی کیا اور: پلیز یار، فیس دکھانے کا تو نہیں بول رہا ہوں نا


نمی: نہ جی نہ، آج کے لیے بس


میں: پلیز جان، کیوں تڑپانا چاہتی ہو اپنے بوڑھے عاشق کو؟


نمی: یار تم زیادہ ہی فری نہیں ہو رہے


میں: یہ تو آپ جناب پر ڈپنڈ ہے نا کہ کتنا فری کرتی ہو


نمی: سالے تو مجھے کتے کا پلا لگ رہا ہے


میں: جو چاہو سمجھ لو


نمی: ایسے نہیں، اگر اور بھی دیکھنا ہے تو بولنا پڑے گا کہ تم کتے کے بچے ہو


میں: جلدی سے: ہاں میری ماں میں کتیا کا بچہ ہوں


نمی: اور میں تیرے جیسے حرامی کی بیٹی ہوں


میں: ہاں ہاں، تو ہی میری بیٹی ہے، میں ہی تیرا باپ ہوں


نمی: لے دیکھ حرامی، اور بتا کہ تیری بیٹی سیکسی ہے کہ نہیں


میں: سسی اوہہہ پری


نمی: کیا ہوا میرے حرامی راجا؟


میں: سالی کیا چیز ہے تو


نمی: وقت دیکھو


میں: مطلب؟


نمی: مجھے صبح اٹھنا بھی ہوتا ہے


میں: یار کیوں ڈراما کر رہی ہو


نمی: نہ میری جان، نہ ڈراما نہیں، جگہ کا انتظام کرو، میں تو خود جل رہی ہوں


میں: تو پھر منور شاہ کے مکان پر مل لو نا


نمی: نہیں، وہاں ملنے سے تو اچھا ہے کہ میں اپنے باپ سے چدوا لوں


میں: آئیڈیا اچھا ہے


نمی: اپنا آئیڈیا اپنے پاس رکھو، اور جگہ کا کچھ کرو، ورنہ ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے


میں: اوکے، دو دن کا وقت دے دو پلیز


نمی: دیے


میں: اب؟


نمی: سو جاؤ، بائے









ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی