ہم باپ بیٹی کی بات چیت بڑھتی بڑھتی اب یہاں تک آ پہنچی تھی کہ فیس بک سے ہم سیدھا جمپ کر کے واٹس ایپ چیٹ تک آ گئے تھے۔ لیکن جیسے جیسے ہم آگے بڑھ رہے تھے، ویسے ہی ویسے خطرہ بھی بڑھتا جا رہا تھا، کیونکہ واٹس ایپ پر اب وائس چیٹ کے ساتھ کال بھی ہونا تھی، ویڈیو کال بھی ہونا تھی، جو کہ میرے لیے بہت بڑا مسئلہ بن سکتا تھا، کیونکہ ویڈیو کال تو میرے لیے قابلِ قبول ہی نہیں تھی، کیونکہ میں اپنی بیٹی کو اب کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اس کے لیے شاید میں سب کچھ کر گزرنے کو بھی تیار ہو چکا تھا۔
وائس کال پر تو چلو میں آواز بھاری بنا سکتا تھا، جس سے نمی کو شک نہ ہوتا، لیکن ویڈیو کال کے لیے بھی میں نے بہانہ سوچ ہی لیا تھا۔ اور اس نئے پلان کو، جو کہ میں نے ابھی بنایا تھا، فائنل کر کے موبائل رکھا اور آنکھوں کو بند کرتے ہوئے اپنی بیٹی کے حسن کے جلوؤں میں کھویا، کب سویا پتا ہی نہ چلا۔
اگلی صبح میں جلدی ہی اٹھ بیٹھا، سات بجے، اور نہا کر گھر چلا گیا۔ تو نادیہ کو کچن میں مصروف دیکھا تو کچن ہی میں چلا گیا اور پانی نکال کر پیتے ہوئے بولا:
میں: خیر تو ہے میری نادیہ بیٹی؟ آج کچن میں کیسے؟
نادیہ: کیوں پاپا، میں گھر کا کام نہیں کر سکتی کیا؟
روہی: جو کہ تبھی کچن میں آئی تھی، مجھے دیکھ کر بولی: بس بس باجی رہنے بھی دو، زیادہ نمبر نہ بناؤ پاپا کے سامنے۔ بڑی آئی میں نہیں کر سکتی کیا؟
میں: کیا ہوا میری روہی؟ کیوں چڑھی بیٹھی ہے؟
روہی: تو اور کیا کروں؟ دو بہنیں ہیں، وہ بھی بڑی والی، لیکن کام مجھ بیچاری کو کرنا پڑتا ہے، اور نمبر یہ بناتی ہیں۔
نادیہ: پاپا یہ چڑیل بھی نہ، آپی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو دیر سے سو کر اٹھی ہیں، تو ناشتہ اس نے بنا لیا، اب سب کو جتاتی پھر رہی ہے۔
میں: روہی کو اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ گھماتے ہوئے بولا: ارے بابا، اس ننھی سی جان سے کام ہی کیوں کرواتی ہو آپ لوگ؟
روہی کے کندھوں پر ہاتھ میں خالی دماغی میں پھیر رہا تھا، کوئی خاص مقصد نہیں تھا میرا، لیکن تبھی پیچھے سے نمی کے کھانسنے کی آواز سن کر میں چونکا اور روہی کو خود سے الگ کرتے ہوئے بولا:
میں: ارے نمی، اب کیسی ہے طبیعت بیٹا؟
نمی: ذرا عجیب نگاہوں سے مجھے دیکھتی ہوئی بولی: اچھی ہوں پاپا، بس سر درد تھا۔
(نمی کی آنکھوں میں کچھ نیا پن تھا، جیسے اسے کسی بات کا یقین نہ ہو رہا ہو، اور یہی بات میرے لیے کافی حیران کن تھی کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ نمی نے مجھے ایسے دیکھا ہے۔)
نادیہ: پاپا آپ بیٹھیں، ناشتہ لاتی ہوں۔
نمی: تم بھی جاؤ، میں کر لوں گی باقی سب۔
نمی کی بات سن کر سب باہر نکل گئیں، تو میں بھی وہاں سے اپنے کمرے میں چلا گیا، کیونکہ میں کبھی زیادہ لڑکیوں کے پاس نہیں بیٹھا کرتا تھا، اور ناشتے کا انتظار کرنے لگا، جو کہ نمی کوئی دس منٹ بعد چائے بنا کر ساتھ ہی لے آئی۔ لیکن میرے لیے کافی حیرانی کی بات یہ تھی کہ نمی بنا دوپٹہ کے تھی۔
ابھی میں حیران ہو ہی رہا تھا کہ نمی خاموشی سے میرے پاس آئی اور ناشتہ میرے سامنے بیڈ پر رکھنے کو جھکی، تو میری نظر سیدھی اپنی بیٹی کے جوان اور سیکسی بوبز پر، جو کہ ریڈ برا میں قید صاف نظر آ رہے تھے، اٹک کر رہ گئی۔
نمی نے بھی شاید جان بوجھ کر چند سیکنڈ لگائے تھے ناشتہ رکھ کر سیدھا ہونے میں، تو اس کے سیدھے ہوتے ہی میں چونک اٹھا اور اپنی بیٹی کی جانب دیکھا، تو اس کا چہرہ بھی ہلکا سرخ ہو رہا تھا، لیکن میں کچھ نہ بولا اور سر جھٹک کر رہ گیا۔
نمی بھی اب بنا کچھ بولے کمرے سے باہر اپنی گانڈ کو مٹکاتی ہلاتی ہوئی نکل گئی، تو میں کچھ دیر تک شاک سا بیٹھا رہ گیا، لیکن پھر رات نمی سے ہوئی گپ شپ کو یاد آیا، تو میرے لبون پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی۔
میں اب سمجھ چکا تھا کہ نمی کے ساتھ جو میری گپ ہوئی تھی، اس کو لے کر ہی نمی نے آج میرے سامنے بنا دوپٹہ کے آنے کا رسک لینے کا فیصلہ کیا تھا، اور میری طرف سے کچھ بھی ڈانٹ ڈپٹ نہ ہونے سے شاید وہ من ہی من خوش ہو کر گئی تھی۔
ناشتہ کر کے میں گھر سے نکلا اور ساتھ کے مکان میں چلا گیا، جس کے کوئی تیس منٹ بعد ہی نمی کا واٹس ایپ آ گیا، جسے میں نے اوپن کیا اور پڑھتے ہی مسکرا اٹھا، کیونکہ اس نے لکھا تھا:
پری: پتہ ہے آج میں نے تمہارے بتائے آئیڈیا پر عمل کیا تھا، اور باپ کا ری ایکشن بڑا ہی پوزیٹو لگا مجھے۔
میں: کیا ہوا؟ سیدھی بات بتاؤ۔
پری: میں نے آج بنا دوپٹہ اوڑھے باپ کو جھک کر ناشتہ دیا۔
میں: تو اس میں کون سی بڑی بات ہے؟
پری: بڑی بات یہ ہے کہ ایک تو بنا دوپٹہ کے میں کبھی باپ کے سامنے نہیں گئی، اور آج گئی تو باپ نے ڈانٹ ڈپٹ بھی نہیں کی، الٹا میری کلیویج میں اندر تک جھانک کر میرے بوبز تاڑ رہے تھے۔
میں: اوہ واؤ مبارک ہو!
پری: اچھا اب بولو، کہاں تک ساتھ دو گے؟
میں: جہاں تک تم چاہو۔
پری: نام بتاؤ گے ریئل؟
میں: (کچھ سوچ کر اپنے ایک دوست کا نام لے دیا) ناصر۔
پری: ناصر سنار؟
میں: اوہ، مطلب جانتی ہو؟
پری: ہاں۔
میں: اب پھر؟
پری: کامران صاحب کو جانتے ہیں آپ؟
میں: تم... کامی کی بیٹی ہو؟
پری: جی۔
میں: (جانتا تھا کہ یہ سارا سر جھوٹ ہے میرے جیسا، لیکن نہیں بولا، کیونکہ کامران بھی میرا دوست ہی تھا، لیکن ہمارا دونوں کا گھر آنا جانا نہیں تھا) اب پھر؟
پری: اب بولو، میں نے بھی بتا دیا۔
میں: کوئی پلان کرو نا یار، ملنے کا۔
پری: اور کون کون خاص دوست ہے آپ کا؟
میں: منور شاہ ہے، آج کل اسی کے مکان میں تاش کھیلتے ہیں مل بیٹھ کر، اور صفدر ہے، ذیشان ہے، کیوں؟
پری: میرا من ہے کہ آپ کے علاوہ بھی کوئی دوست بنا لوں۔
میں: کوئی پسند ہے تو بولو۔
پری: مجھے کیا پتہ، کون کس قسم کا ہے، کس قسم کا نہیں، ہاں اعتبار والا کوئی ہے۔
میں: ایک داؤ مارنے کی سوچ کر: منور شاہ اچھا دوست ہے، مل کے کبھی کبھار مزا بھی مار لیتے ہیں کسی نہ کسی سے، باقی کسی کا کچھ نہیں بول سکتا۔
پری: کیسا بندہ ہے یہ منور شاہ؟
میں: سمجھو مجھ سے بھی بڑا حرامی بندہ ہے۔
پری: مطلب؟
میں: کوئی جوان لونڈیا دکھ نہ جائے، اسے کتے کی طرح دم ہلاتا پھرتا ہے اس کے پیچھے۔
پری: میرے بارے میں تو اسے کچھ نہیں بتایا نا ابھی تک؟
میں: (ذرا کھل کر سٹرائیک لینے کی کوشش کی) یار سچی بتاؤ تو اسے بتایا ہے میں نے۔
پری: اوف، کیا بتایا ہے؟
میں: یہی کہ اپنے ہی علاقے کی لونڈیا ہے، لنڈ کے لیے دیوانی ہو رہی ہے، اور تصویریں بھی دکھائی تھیں۔
پری: کیوں کیا ایسا؟ مجھ سے پوچھے بغیر؟
میں: یار میرے پاس جگہ نہیں ہے نا، اسی کے مکان میں ملتا، میں تم سے اسی لیے اسے بتانا پڑا۔
پری: پھر کیا بولا اس نے تصویریں دیکھ کر؟
میں: پہلے تو کافی دیر مانو شاک میں رہا، لیکن جب میں نے پوچھا کہ کیا ہوا، تو بولا: یار کیا سیكسی مال ہے! کب کھلا رہے ہو؟
پری: کیا سچ میں ایسا بولا؟
میں: ہاں نا یار، مجھے کیا ضرورت ہے جھوٹ بولنے کی؟
پری: ایک نمبر کے گانڈو ہو حرامی! کتے کے پلے، مجھے کہتے تھے کہ وہ لڑکا میرے لیے صحیح نہیں ہے، سب دوستوں کو میرے اوپر چڑھا دے گا، جس سے کبھی بھی بدنامی ہو سکتی ہے، اور خود کیا کیا تم نے؟
میں: یار فکر مت کرو، بندہ بڑا اعتماد کا ہے۔
پری: پرے مر، آج کے بعد مجھ سے بات بھی مت ک
نمی کے اس طرح غصہ کر جانے سے میں تھوڑا پریشان بھی ہوا اور بار بار واٹس ایپ بھی کیا لیکن وہ کوئی جواب نہیں دے رہی تھی۔ میرے معافی مانگنے پر بھی کوئی جواب نہیں، لیکن وہ آن لائن ہی تھی۔ تو میں نے بھی زیادہ تنگ نہیں کیا اور موبائل کو ایک طرف رکھ دیا اور انتظار کرنے لگا کہ کب تک نمی غصہ رہتی ہے۔
اتنا تو مجھے یقین ہو چکا تھا کہ نمی میرے لن کی دیوانی ہو چکی ہے اور شاید اب زیادہ صبر نہ کر سکے۔ اسی لیے میں نے بھی زیادہ منانے کی کوشش نہیں کی اور موبائل رکھ دیا تھا۔ اور میرے اس یقین کو نمی نے برقرار رکھتے ہوئے دس منٹ بعد خود ہی واٹس ایپ کر دیا، جس میں لکھا تھا:
پری: شرم تو نہیں آ رہی ہو گی نا؟
میں: یار اب تم خود ہی پل میں تولا پل میں ماشہ ہو رہی ہو۔ صحیح سے بات کرو گی تو تب ہی بات بنے گی نا۔
پری: اچھا جی اب یہ بھی میرا ہی قصور ہے نا؟ میں نے کہا تھا کہ تم منور شاہ سے گانڈ مرواؤ اور میرے بارے میں بتاؤ۔
میں: یار یہ بھی تو سوچو نا کہ ان حالات میں جب ہر چیز ہوٹل، گیسٹ ہاؤس سب بند ہو چکے ہیں، تو پھر ملنے کے لیے کوئی سیف جگہ ایسی ہی ہونی تھی نا۔ اسی لیے منور شاہ کو اعتماد میں لیا تھا میں۔
پری: مجھے نہیں ملنا منور شاہ کے مکان پر۔ تم سے کوئی اور جگہ دیکھو۔
میں: کوئی خاص بات ہے جو منور شاہ والے مکان میں ملنا نہیں چاہتی ہو؟
پری: ہاں خاص بات ہے لیکن بتاؤں گی نہیں۔
میں: پھر بھی یار دیکھ لو، اس سے زیادہ سیف جگہ ملنا مشکل ہے۔
پری: سمجھ سکتی ہوں لیکن منور شاہ بھی تو ہو گا نا وہاں؟
میں: تو تم نے ہی کہا تھا نا کہ کوئی اعتماد والا ایک اور بھی ہو جائے تو اچھا رہے گا۔
پری: ہاں کہا تھا لیکن اپنا پہلوان دیکھا ہے؟ مجھے مرنا نہیں ہے۔ ویسے بھی منور شاہ کے سامنے نہیں آنا چاہتی میں۔
میں: یہ اب کیا رنڈی رونا شروع کر دیا ہے تم نے؟ اچھی خاصی جگہ مل جائے گی۔
پری: وہ حرامی منور شاہ پہلے بھی پتا ہے مجھ پر لائن مارتا رہا ہے، لیکن میں ہاتھ نہیں آئی اس کے۔
میں: تو ایک کام کرتے ہیں۔
پری: کیا؟
میں: تم ہی اسے کیوں نہیں پٹا لیتی؟
پری: اس سے اچھا ہے کہ میں اپنے باپ کے پاس ہی ننگی ہو کر چلی جاؤں۔
میں: کیا مطلب؟
پری: تمہارا منور شاہ مزا بھی کرے گا اور میرے باپ کو بھی بتا دے گا، سمجھے؟
میں: نہیں یار وہ ایسا نہیں ہے۔
پری: بحث نہیں کرتی۔ اگر کوئی اور جگہ بنا سکتے ہو تو ٹھیک، ورنہ میں کچھ اور سوچوں۔
میں: تھوڑا وقت لگے گا۔
پری: زیادہ نہیں، اوکے۔
میں: اوکے۔
پری: ٹھیک ہے اب رات کو بات ہو گی۔
میں: اوکے۔
پری سے بات کر کے میں اتنا تو سمجھ گیا تھا کہ اب جو اور جتنا بھی وقت مل رہا ہے، اس سے فائدہ اٹھانا ہے۔ تو نمی سے ذرا فری ہونا ہو گا، نہیں تو لونڈیا ہاتھ سے کھسک جائے گی۔ ویسے بھی نمی میرے ہی مشوروں سے ہی سہی، تھوڑا بہت کھلنے کا اشارہ تو صبح ناشتے کے وقت دے ہی چکی تھی۔ اور اب اگر میں بیوقوف بنا بیٹھا رہتا تو پھر نمی کا قصور نہیں گنا جا سکتا تھا۔ اور وہیں دوسری طرف وہ خسری مسکان بھی میرا من اور لن دھڑکا رہی تھی، کیونکہ میں نے یار دوستوں سے جو اور جتنا سن چکا تھا، اس حساب سے ریئل خسری جتنا مزا دیتی ہے، وہ کوئی اور نہیں دے سکتا ۔
انہی سب سوچوں میں میں کافی دیر تک گم رہا اور کبھی کچھ، کبھی کچھ پلان کرتا رہا کہ تب تک یار دوست آ گئے اور ہماری محفل جم گئی، جس میں وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہو سکا اور دوپہر کا کھانا بھی گل ہو گیا اور رات کے 8 بج گئے، تو سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو نکل لیے۔ میں بھی اٹھا اور مکان کو لاک کر کے گھر چلا آیا، جہاں سب بچے باہر ہال میں ہی بیٹھے ہوئے ٹی وی دیکھ رہے تھے، تو میں بھی وہیں ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا اور کچھ دیر ان کے ساتھ گپ لگا کر کمرے میں جا کر نہایا اور بیڈ پر بیٹھ کر خبریں دیکھنے لگا کہ تبھی نمی میری رانی بیٹی میرے لیے کھانا لے کے آ گئی۔
نمی اس وقت بھی صبح والے حلیے میں تھی (یعنی بنا دوپٹے کے، کھلے گلے والی قمیض پہنے ہوئے)۔ نمی خاموشی سے سر جھکائے کھانا لا کر میرے سامنے بیڈ پر رکھتے ہوئے جھکی، تو میری نظر سیدھے اس کے کھلے گلے سے اندر جا گھسی اور وہاں کا نظارہ دیکھ کر مانو میرا لن جھٹکا کھاتے ہوئے کھڑا ہو گیا اور میرا ایک ہاتھ سیدھا میرے لن پر چلا گیا، کیونکہ نمی نے اس وقت تو برا تک نہیں پہنی ہوئی تھی، جس وجہ سے آج زندگی میں پہلی بار میں اپنی بیٹی کے اس طرح کے بوبز دیکھ رہا تھا۔
نمی اس بات کا اچھی طرح احساس کر چکی تھی کہ میری آنکھیں اس کی قمیض کے اندر اس کے بوبز پر اٹک کے رہ گئی تھیں۔ اور شاید اسی وجہ سے وہ بھی مجھے پوری طرح اپنی جوانی کے درشن کروانے کی خاطر ہی ویسے ہی جھکی ہوئی تھی۔ ایک ایک چیز نکال کر میرے سامنے رکھنے لگی۔ نمی کے ایسا کرنے سے اس کے بوبز بری طرح ہل رہے تھے اور ذرا سے ہارڈ بھی لگ رہے تھے، مانو قمیض سے باہر نکلنا چاہتے ہوں۔ وہیں میرا ہاتھ بھی اب لن کو مسلنے لگا تھا، جسے نمی بھی اچھی طرح دیکھ چکی تھی۔ اور پھر نمی آہستہ سے سیدھی ہوتی ہوئی بولی:
نمی: پاپا آپ کھانا کھائیں، میں چائے بنا کے لاتی ہوں آپ کے لیے۔
میں: ٹھیک ہے بیٹا۔
نمی میرا جواب سن کر کمرے سے نکل گئی، لیکن اس کے چہرے پر ایک الگ ہی مسکراہٹ صاف دکھ رہی تھی، معاً جیسے اسے یقین تھا کہ میں اس کی جوانی کا سامنا کر ہی نہیں سکوں گا۔ اور شاید اس کا یقین بھی صحیح ہی تھا۔