کیا بات تھی چودائی میں،اس جیسا مزہ ،اس جیسا نشہ کہیں نہیں تھا۔اسوقت(کیمل رائڈ) میں کافی مزہ آرہا تھا کیونکہ اس میں جب چودائی کرتے ہیں تو اونٹ کے کوہان کی طرح اوپر نیچے ہوتے نظر آتے ہیں۔اونٹ کی سواری کرتے ہوئے میں گہرائی میں جا کر عضو سے مزے لیتا اور پھر مزے لینے جاتا،ویسے حرکت ایک ساتھی کرتا ہے اور مزہ دونوں کا آتا ہے۔اب ہماری لہر جو کچھ کچھ آوار گردی سے مشابہ تھی،ہمیں نئے اسٹائل پر اکسا رہی تھی،کیوں نہ اب فلیٹ آئرن میں کریں نیلم نے جوش سے کہا اس کی آنکھوں چدوائی کی بھوک تھی،میں پیچھے ہوا اور نیلم نے اپنی چوت کے با لکل تکیہ رکھا تو اس کی گانڈ اوپر ہو کر نمایاں ہوگئی،آجاؤ پرنس نیلم نے اپنی چکنی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔میں گھٹنوں پر بیٹھ کر عضو کو اس کی گانڈ پر رکھا پھر اپنے ہاتھ آگے ٹکا دیے اور عضو کو نیلم کی چوت میں ڈال دیا۔بڑا ہی جنسی انداز ہے ،اس میں چودائی کا مزہ تو آتا ہی ہے ساتھ ساتھ شہوت بھی بھرپور جاگتی ہے،جاتا تو چوت میں ہی ہے لیکن گانڈ کا پورا حصہ چھوا جاتا ہے جو کہ نیلم کو الگ سے مزہ دے رہا تھا۔پرنس کمال کا اسٹائل ہے،مجھے جب یہ ویڈیو میں دکھایا جاتا تھا تو میں سوچتی تھی کہ اس اسٹائل میں ضرور سیکس کروں گی۔اور آج اسمیں بڑا مزہ آرہا ہے۔اُوہ تھوڑا زیادہ گہرائی میں جانے دو نہ اپنے مہاراجہ کو،میں نیلم کا مطلب سمجھ گیااور بھرپور دھکے لگانے لگا۔آہ اتنا گہرائی میں بھی نہیں کہ رحم کو درد ہونے لگے،نیلم نے کراہتے ہوئے کہا،مگر میں نے اپنا انداز برقرار رکھا ،نیلم کو سکھایا تو کافی کچھ تو تھا ،لیکن ابھی اس کا تجربہ صفر تھا۔اور تجربے کو کوئی نعم البدل نہیں ہے۔کچھ دیر جب نیلم کی تکلیف بڑھ گئی تو میں نے پھر اسٹائل بدل دیا۔اور بیڈ سے نیچے کھڑا ہو گیا،اور نیلم کی ٹانگوں سے پکڑ کہ اپنی طرف کھینچا،نیلم اس چھوٹی سی زبردستی پر سیکسی انداز میں مسکرائی،میں نے اسکی ٹانگیں اٹھائی اور اسکی گانڈ کو بیڈ کے کنارے پر کیا۔ایک ٹانگ اس نے میرے کندھے پر رکھی اور دوسری میں نے دائیں ہاتھ سے پکڑ کر تھوڑا آگے کی،اور اس کی چوت میں ڈال دیا۔نیلم کے ہاتھ اسکی سرین یعنی گانڈ پر تھے۔اس اسٹائل میں بھی عضو گہرائی تک جاتا ہے ،اور اس اسٹائل کا اصل مزہ یہ تھا کہ اسمیں اپنا عضو چوت میں جاتے آتے دیکھا جا سکتا ہے،جس سے شہوت کو تسکین ملتی تھی۔اس اسٹائل میں سٹینڈ اینڈ ڈلیورکیا جاتا ہے۔اس کو بائسیکل کہا جاتا ہے ،کیونکہ اس میں لڑکی کے ٹانگوں کی پوزیشن ایسی ہوتی ہے جو سائیکل سے مشابہہ لگتی ہے۔میں اپنے عضو کو نیلم کے اندر اور باہر آتے ہوئے دیکھنے لگا،نیلم سمجھ گئی کہ میں کیا دیکھ رہا ہوں۔پرنس کیا دیکھ رہے ہو۔میں دیکھ رہا ہوں کہ تمھاری چوت میرے مہمان کا کیسے استقبال کرتی ہے۔تو پھر کیسا استقبال کررہی ہے میری چوت تمھاے لن کا۔اچھی مہمان نوازی ہے ،میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔بار بار انداز بدلنے سے ہماری ٹائمنگ میں فرق آگیاتھااور کھیل تھوڑا لمبا ہوگیا تھا۔ لیکن ہم نے اس کھیل کو بھرپور انداز میں انجوائے کیا تھا۔ساتھ سیکسی باتیں کی تھیں،اور ایکدوسرے کو بھرپور مزہ دیا تھا۔ اب میرے اندازے کے مطابق نیلم تو کنارے لگنے والی تھی،میں نے زوردار دھکوں سے نیلم کو چودا اور اسکی گہرائیوں میں رگڑ لگائی،جس سے اس کی تلذّز بھری جنسی آوازیں آنے لگی۔میں نے ان آوازوں سے ہی اندازہ لگایا تھا کہ نیلم تو اب گئی،پھر جیسے نیلم کی جسم میں جھٹکا سا لگا ،اور اس نے پانی چھوڑ دیا۔نیلم کو میری ضرورت تھی۔میں نے اسکی ٹانگیں اپنے پہلوؤں میں کی اور اس پر جھک کر اسے گلے سے لگا لیا۔نیلم نے اپنی بانہوں سے میری کمرکو کس لیا،اور خوب پانی چھوڑا۔۔پہلی بار اتنا پانی نکلنے کا مطلب تھا کہ نیلم نے اس چودائی کو خوب محسوس کیا ہے،کچھ دیر ہم ایسے ہی رہے ۔نیلم چوت صاف کر کے آجاؤ ،میں نے کھڑے ہوتے کہا۔نیلم پھرتی سے چوت صاف کر کے میری پاس آئی تو میں نے اسے ہڈن سرپنٹ بننے کو کہا۔اس نے ڈوگی اسٹائل کی طرح بیڈ کے کنارے پر میری طرف اپنی گانڈ کر لی۔اور میں کروچنگ ٹائیگر کی طرح اسکی چوت میں عضو ڈا ل کر چودنے لگا،میرے ہاتھ اس کی گانڈ کے اطراف میں تھے اور میں ڈریگن کی طرح قالین پر کھڑا تھا۔اس لیے اسے سٹینڈنگ ڈریگن کہتے ہیں ۔یہاں میں آزادی سے اور جوش سے نیلم کی چودائی کرنے لگا،تقریباً 17 یا18 منٹ ہوگئےتھے مجھے چودائی کرتے ہوئے جبکہ میری ٹائمنگ 15 منٹ کے لگ بھگ تھی۔کھڑے ہو کر دھکے بھی پرزور لگتے ہیں اور جاتے بھی گہرائی میں ہیں،پھر جب لڑکی ڈوگی اسٹائل میں ہو تو عضو ویسے ہی گہرائی کے علاوہ کہیں نہیں جاتا۔پورا اندر گہرائی میں جائےتو رگڑ بھی خوب لگتی ہے۔مجھے اسوقت رگڑ لگ رہی تھی،اور عضو حساس ہوا جاتا تھا،جیسے جیسے میرے دھکے رفتار پکڑتے جاتےتھے۔ویسے ویسے میراوقت قریب آتا جاتا تھا۔آخری دھکے تو میں نے اضطراری اندازمیں لگائے اور پھر رک گیا،میرا پانی نیلم کی چوت میں جارہا تھا۔اور وہاں بیج لگانے کی تیاری میں تھا،مگر میں نیلم پر بالکل اعتبار نہیں کرسکتا تھا۔خیر ہم آرام سے لیٹ گئے۔اور گہرے سانس لینے لگے۔ہمارے جسموں میں سکون تھا،جیسے پیٹ بھرکر کھانا کھا لیا جائے،آج جو سیکس کیا وہ اس لیے کمال کا تھا کہ مجھے سیکس کی اور طلب نہیں رہی تھی۔بھرپور فورپلے کے بعد 10 یا 15منٹ کا سیکس وہ مزہ اور سکون دیتا ے جو باربار کی چودائی نہیں دے سکتی۔سونے سے پہلے میں نے نیلم کواپنےسامنے مانع حمل کی گولیاں کھلائی اس معاملے میں مجھے بالکل اعتبار نہیں تھا۔
نیلم کمال کی لڑکی تھی،میری خوراک پوری ہو گئی تھی،اور مجھے ہلکی ہلکی غنودگی ہو نے لگی تھی،کچھ ہی دیر میں ہمیں نیند آگئی،حسبِ معمول صبح کافی دیر سے اٹھا،نہا دھو کر دھیان لگایا،میرا روشنیوں کا جسم اب بہت طاقتور ہوچکا تھا،میں پریکٹس کرنے لگا،ایک گھنٹے بعد میں نے آنکھیں کھولی تو نیلم مجھے غور سے دیکھ رہی تھی،آپ اسوقت کو ئی مہا دیو لگ رہیں ہیں، لیڈی کلرتو کہیں نہیں تھا،نیلم نے انتہائی سنجیدگی سے کہا،میں مسکرانے لگا اوراور چھلانگ لگا کر بستر پر پہنچ گیا،کچھ دیر نیلم کے ساتھ خرمستیاں کرنے کے بعد ہم نیچے آگئے،ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوکر کافی ڈرائنگ روم میں منگوا لی،،کیونکہ تنویر بھی وہیں آ گیا تھا،میرا اندازہ تھا اس کے پاس کچھ خبریں تھیں۔لیکن نیلم کی وجہ سے جھجک رہا تھا،نیلم نے یہ بات محسوس کر لی اور کافی پی کر لائبریری میں چلی گئی،سر آج صبح دس بجے ہمارے فارم ہاؤس پر پولیس نے ریڈ کی تھی۔کوئی ڈی ایس پی تھا۔اس کے ساتھ کافی نفری تھی۔فارم ہاؤس کواس نے گھیر لیااور زبردستی اندر گھسنے کی کوشش کی گارڈز نے مجھے فوراً مطلع کیا اور اس وقت تک پولیس کووہیں روکے رکھا،میں فوراً گیٹ پر پہنچا اور بات چیت کرنی چاہی ،لیکن وہ ڈی ایس پی کچھ زیادہ ہی اوچھا پن دکھا رہا تھا۔ کسی گھٹیا تھانیدار کی طرح اداکاری کر رہا تھا۔اور کسی سیدھی بات میں نہ آیا تو میں نے اس سے سرچ وارانٹ مانگے یا کسی کوگرفتار کرنے آیا ہے تو اس کے وارنٹ مانگے،وارنٹ سر اس کے پاس نہیں تھا۔اس کی کوشش بس یہی تھی کہ وہ کسی طرح اندر گھس جائے۔میرے خیال میں وہ اپنی اوقات سے بہت زیادہ کر رہا تھا سو میں نے اسے احساس دلانے کیلیے تھپڑ دے مارا،اس نے تھوڑی پھرتی دکھانی چاہی تو اسے اچھی پھینٹی لگا دی۔میرے ساتھیوں نے اور پولیس نفری نے ایکدوسرے پر رائفلیں تان لیں تھیں ،میں نے اسے دھمکی دی کہ وہ اس وقت میری نظر میں ایک ڈاکو کی طرح اندر گھسنا چاہتا ہے،اسلیے میں اسے گولی مارنے میں حق بجانب ہوں۔ اور یہ کہ اس کی سای بات کی گیٹ پر لگے کیمروں سے ریکارڈنگ ہورہی ہے،۔اسطرح جب ڈی ایس پی کی اچھی بھلی بے عزتی ہوگئی تو ایک سب انسپکٹر اسے ایک طرف لے گیا اور اسے کچھ سمجھایا جس پر وہ پھوں پھاں کرتا دفعہ ہوگیا۔تنویر تم نے اس کے ساتھ اچھا کیا،اب ہم اس کے ساتھ اور اچھا کریں گے۔کوئی گھٹیا سب انسپکٹر ہو گا جو ڈیول کی مہربانیوں سے ڈی ایس پی بن گیا ہو گا ،میں نے کمشنر سے کال ملاتے ہوئےکہا۔میں نے کمشنر سے بات کی تو اس نے ڈی ایس پی معطل کر دیا تھا ۔اور انکوائری کا حکم دے دیا تھا ۔مگر میں اتنے میں مطمن نہیں تھا میں نے تصدق ہمدانی کواس کے پیچھے لگا دیا۔گیٹ پر بنی ویڈیو اس کیلیے پھندا بننے والی تھی۔تصدق ایسے شکار کھیلنا اچھی طرح جانتا تھا ۔تنویر یہ ڈیول کی حرکت لگتی ہے ۔یس سر اورڈی ایس پی نے اچھا مال کھا یا ہوا تھا۔اور وہ مال حلال کرنے کیلیے اپنی اوقات سے بہت زیادہ اوپر آگیا تھا۔شاید اور بھی کچھ ملا ہو،تنویر نے معنی خیز انداز میں کہا۔اوکے ۔تنویر تم ہوشیار ہنا ڈیول یہاں حملہ بھی کرواسکتا ہے۔حملہ تو اسنے کروا دیا تھا،تنویر نے طنزیہ ہنسی سے کہا۔میں سمجھ گیا کہ اسنے ڈیول کی کسی اوچھی حرکت پت طنزکیا ہے۔اور کیا کِیا ہے اسنے؟ میں نے پوچھا ڈی ایس پی کے بعد اسنے انکم ٹیکس کی ایک ٹیم بھیج دی ۔ہماری طرح ہی گیم کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے،اور بندے بھی ایسے بھیج رہا ہے جو شاید اسکے ہاتھوں بلیک میل ہورہیں ہیں،کیونکہ کسی کا یہاں اس طرح آنانا ممکن ہے تنویر نے صحیح تجزیہ کیا۔بہرحال سر ہم ہر طرح سے کلیئر ہیں ۔اسلیے ان کی بات سنتے ہی پھر میں نے دوسری بات نہیں کی ۔ ان کی بھی ڈی ایس پی کی طرح پھینٹی لگا دی ہے۔کیا یاد کریں گے۔اچھا اب کہیں ہم پر اسکے غنڈے ہی نہ چڑھ دوڑیں ۔۔ بے فکر رہیں سر میں نے فارم ہاؤس کو ہر طرح سے ا یک قلعہ بنا دیا ہے۔اب یہ ڈیول جیسے غنڈوں کی اوقات سے بہت ہی اوپرہے۔ٹھیک ہے اور کچھ ۔۔ میں نے مس ہانیہ کو آپ کی ویڈیو بھیجی تھی،وہ ان کی دوست صبا کے ذر یعے ہانیہ کے موبائل میں بلیو ٹوتھ سے سینڈ کر دی گئی ہے تھی،واپسی پر مس صبا نے یہ ڈائری بھیجی ہے۔تنویر نے ڈائری مجھے پکڑا دی، میں سمجھ گیا یہ ہانیہ کی ڈائری ہے صبانے کہا تھا کہ ہانیہ مجھے چاہتی ہے ،میں کافی حیران ہوا تھا کیونکہ ہمیں ملے 12 گھنٹے ہی تو ہوئے تھے،اور صبا نے کہا تھا کہ وہ ہانیہ کی ڈائری مجھے بھیجے گی،سر ڈیول کی بلیک میلنگ موادکا کچھ پتہ نہیں چل رہا،اور ادھر اب ماکھو کے پکڑنے کی خبر بھی اسے ہو گئی ہے،آج صبح کی ریکارڈنگ کے مطابق اسے یقین ہو گیا ہے کہ نجیب کو بھیجنے اور ماکھو کو پکڑانے والے آپ ہی ہیں، اسی لیے اسنے آج ڈی ایس پی کوبھیجنے والی حرکت کی۔ سمیر نے مجھے اس کال کا پہلے ہی بتادیا تھا اور ہم ڈی ایس پی کیلیے تیار تھے۔ بلکہ اسے مس صائمہ پر بھی شک ہوگیا ہے،صبح اس نے مس صائمہ کی کافی بے عزتی کی اور اسے تھپڑ بھی مارے،پیسہ جانے کے بعد اب ماکھو کے پکڑنے سے اس کو اچھابھلا جھٹکا لگا ہے،اس کی طاقت آدھی ہوگئی ہے،میرے اندازے کے مطابق اس کے تعلقات خراب ہو جائیں گے ،کیونکہ نجیب اور ماکھو والی خبر اندر خانے پھیل رہی ہے،بلیک میلنگ مواد بہت ضروری ہو گیاہے نہیں تو وہ زخمی سانپ کی طرح حملہ کرے گا،تم سے کہا تھااس کے کسی با اعتماد ساتھی کو ڈھونڈو اس کے موبائل سے کچھ تو پتہ چلا ہوگا،۔سر کئی کالز اس کے موبائل پر آتی اور جاتی ہیں،کچھ کالیں اس کے خلاف ثبوت بھی بن سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک کال مشکوک لگی تھی۔باتوں میں آپ کو اور نجیب کو ڈسکس کیا گیا تھا ، وہ کوئی لڑکی تھی۔ان کا آپسی تعلق خاص لگتا تھا، ثناء نام کے سوا ابھی تک اس کا کوئی معلومات نہیں ملی، اس ثناء کا پتہ کرو ۔اس کا موبائل نمبر سے اس کا نام پتہ حاصل کرو۔ویسے تنویر اس طرح تو کام نہیں چلے گا ۔بلیک میلنگ مواد کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تو اب کیا کریں ؟سر میں تو کہتا ہوں اس ثناء کی بجائے ڈیول کو ہی اٹھا لیتے ہیں،وہ خود ہی بتائے گاکہ مواد کہا ہے،ویسے بھی سر اب اسے ڈھیل دینے کا مطلب ہے کہ اسے بھاگنے کا موقع دینا،تنویر نے مجھے سوچتے ہوئے دیکھ کر ایک اور دلیل دی،ٹھیک ہے تنویر اٹھا لو اس ڈیول کو لیکن کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ یہ کاروائی ہماری ہے،کسی کو ہوا بھی نہیں لگے گی سر.،
اتنے میں آپریشن روم سے انٹر کام پر سمیر نے رابطہ کیا ،سر ڈیول مس صائمہ کو قتل کر دے گا،،وہ جانوروں کی طرح مس صائمہ کو مار رہا ہے ۔اوکے ،تنویر فوراً نکلو ابھی ڈیول کے بنگلے پر حملہ ہو گا،اگر صائمہ کو کچھ ہو گیا تو میں خود کو معاف نہیں کر سکوں گا،میں بھاگتا ہوا نکلا اور اپنی گاڑی میں تیزی سے باہر نکلا،تنویر زبردستی مجھے اپنا پسٹل پکڑا چکا تھا ۔میں ہوا میں اڑتا ہوا تیزی سے ڈیول کے بنگلے کی طرف جا رہا تھا۔خطرناک ڈرائیونگ سے میں جلدی ڈیول کے بنگلےتک پہنچ گیا۔تنویر بھی پیچھے آرہا تھا لیکن وہ میری طرح ڈرائیونگ نہیں کرسکتا۔میں نے گاڑی ڈیول کے بنگلے کے پاس روکی اور تیزی سے باہر نکلا۔ ۔بنگلے کے باہر دو گارڈ کھڑے تھے۔میرے تیور دیکھ کر ابھی وہ گنیں سیدھی کر رہے تھے،کہ میری کک ایک کی جانگھ میں پڑی وہ وہیں گر گیا،دوسرے کے سر پر میری کک پڑی ،وہ بے ہوش گیا ۔اوپر چھت پر دو گارڈ تھے انہوں نے مجھ پر فائرنگ کی لیکن میں تو وہاں تھا ہی نہیں ، فائر پھر میرے سائے پر ہوا مگر میں ہاتھ لگنے والا نہیں تھا ۔اس دوران میرے پسٹل سے دو فائر ہوئے اور دونوں کے کندھے کی ہڈیوں میں گھس گئے، سارا جسم چھوڑ کر کندھوں میں گولی مارنا کافی مشکل نشانہ نہیں ہے؟اوپر والوں میں سے ایک نیچے گرپڑا تھا مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اندر موجود گارڈ باہر آنے لگے ہیں۔۔ میری سیدھی ٹھوکر مین گیٹ پر پڑی دروازے کاہضمی قفل ٹوٹ گیا ۔اور بری طرح ہل گیا۔اور زبردست انداز میں اطراف میں جا لگا اور ایک پھرتیلا گارڈ اس کی زد میں آگیا،اور دیوار اور گیٹ کے درمیان پس گیا۔دوسرے گارڈ نے مجھ پر فائر کیا،لیکن میں وہاں نہیں ہوتاجہاں مجھے نشانہ بنایا جاتا ہے،اس دوران میری گولی لان میں کھڑے ایک گارڈ کے ران کوتوڑتی گئی،اور جو مجھ پر فائر کر رہا تھا۔جس نے مجھ پر فائرنگ کی تھی اس کی بھی فائرنگ رک گئی کیونکہ اس کی بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی،اور نیچے گرتے گرتے مجھ سے ایک لات کھاتے ہوئے ٹانگ بھی تڑوا چکا تھا۔میں ایک کی گن اٹھا چکا تھا۔اس دوران اندرونی دروازے سے مجھے بھاگتے ہو ئے قدموں کی آواز آئی ۔تو میں نے دروازے پر ہی فائر کردیے۔ادھر باہر جیپوں کے ٹائر چیخنے کی آواز آئی،میں نے مڑ کردیکھا تو وہ تنویر اور ا سکے ساتھی ہی تھے۔میں تیزی سے تنویر کے پاس پہنچ چکا تھا۔تنویر طوفانی انداز میں آ پہنچا تھا۔اتنے میں بنگلے میں بدمعاش سنبھل چکے تھے۔اندر سے بھی ہلَّے کے انداز میں بدمعاش نکلے۔اور چھت پر بھی کچھ لوگوں نے پوزیشن لے لی تھی۔زبردست انداز میں فائرنگ شروع ہوگئی۔تنویر پوری تیاری سے آیا تھا۔ دستی بم۔گیس ماسک، آنسو گیس۔جدید گنیں ،کوئی بھی ان کے سامنے ٹک نہ سکاجیپیں بھی بلٹ پروف تھیں۔ہم ان جیپوں کی آڑ لے چکے تھے۔ تنویر اور اس کے تمام ساتھیوں بلٹ پروف جیکٹس پہنی ہوئی تھی۔اور پیشہ ورانہ طرز پرنقاب پہن رکھے تھے۔جو گردن تک آتے تھے اور ان میں بس آنکھیں نظر آتی تھیں۔تنویر نے ایک نقاب اور جیکٹ مجھے بھی پہنا دی۔تین چار منٹ زبردست انداز میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ہمیں احساس تھاکہ پولیس کام بگاڑسکتی ہے۔کیونکہ پوش علاقے میں سے پولیس کو اتنی دیر میں پتہ نہیں کتنے فون جاچکے ہوں گے۔میں نے ڈی آئی جی سے رابطہ کیا ۔اور اسے کہا کہ فی الحال اس طرف کوئی نہ آئے۔اور 25 منٹ بعد ایس ایس پی کو بھیج دے۔میرا اصل رابطہ اسی ڈی آئی جی سے تھا اور اسی نے مجھے ایس ایس پی سے ملوایا تھا۔ میری بات کرنے کے دوران ہی جب میں نے پچیس منٹ کا وقت دیا تھا۔ تنویر نے آنسو گیس کے شیلنگ شروع کرد ی تھی۔دستی بم بھی تھے لیکن وہ انتہائی مجبوری میں ہی استعمال کرنے تھے۔۔کیونکہ میری طرف سے کسی بھی قاتلانہ اقدام کی سختی سے ممانعت تھی۔اور لمحوں میں پوزیشن بدل گئی۔چھت والے بدمعاش ایک کمانڈو حیدر گراچکا تھا۔حیدر مایہ ناز نشانہ باز تھا۔اور اس نے بڑا تحفظ دیا کیونکہ اوپر سے راکٹ لانچر سے بھی مارنے کی کوشش کی گئی ۔لیکن حیدر نے ان کو موقع ہی نہیں دیا۔جیسے ہی آنسو گیس کی شیلنگ سے اندر کا ماحول کمزور لگا۔اس سے پہلے ہی تنویر اور اس کے کچھ ساتھی ماسک لگا چکے تھے۔ تنویر اور اس کے ساتھی پیشہ ورانہ انداز میں بنگلے میں پھیل گئے،تنویر ان کی رہنمائی کر رہا تھا۔تنویر اور اس کے ساتھیوں کو بس ایک موقع چاہیے تھا۔اور وہ انہیں مل گیاتھا۔اس وقت وہ ایک جنگجو کے روپ میں تھا،تنویر اور اس کے ساتھیوں میں خودکارانہ ہم آہنگی تھی،سمیر سے ان کا رابطہ تھا۔اس نے مجھے بتایا تھا کہ اپنے کیمرے لگانے کی بجائے انہوں نے ڈیول کے سارے بنگلے میں لگے سیکورٹی کیمرے ہی ہیک کرلیے تھے۔ڈیول کے خریدے ہوئے آدمی کے ذریعے انہوں نے ان کے کیمرہ کنٹرولنگ سسٹم میں اپنی پروگرامنگ ڈال دی تھی۔اور ان کے سی پی یو میں ایک ڈیوائس لگوا دی تھی ۔جس سے سگنل نشرہوتے تھے اور سمیر اپنے کمپیوٹرسے کیمرے کنٹرول کرسکتا تھا۔ ۔ اور اب کا ان کا سمیر سے رابطہ ہے،سمیر ان کو ہرممکن حرکت سے باخبر کر رہا ہو تھا ،یہ ہمارا طے شدہ طریقہ کار تھا۔مجھے تنویر اور اس کے ساتھیوں پر اعتماد تھا،فائرنگ کی آوازیں آتی رہیں لیکن اب پہلے والی بات نہ تھی۔ دس منٹ میں بنگلے پر ہمارا قبضہ تھا،ہمارا کوئی آدمی زخمی بھی نہیں ہوا،وہاں موجود ہر مقابلہ کرنے والے کہ ٹانگ یا بازؤں میں گولیاں لگ چکی تھیں،تنویر ان سب کو ایک جگہ اکٹھا کرنے لگا،صا ئمہ بے ہوش پڑی مل گئی اس کے پیٹ میں گولیاں لگی تھیں،میں نے فوراً اسے ہسپتال بھیج دیا، لیکن ڈیول پورے بنگلے میں کہیں نہیں تھا،تہہ خانے میں کافی اسلحہ ملا،اس میں کچھ خطرناک اسلحہ تھا جو غیر ملکی تھا ۔ منشیات کی بھاری مقدار ،غیر ملکی شراب،اور وہاں چھ لڑکیاں ملی ۔ڈیول کے کمرے میں ایک جگہ شک ہوا کہ یہاں خفیہ سیف ہے۔کیونکہ وہاں دیوار میں بڑی معمولی سی لکیر سی محسوس ہوئی تھی۔لیکن میری نظروں سے چھپ نہیں سکی تھی۔یا تو اسے جلدی میں صحیح بند نہیں کیا گیا تھا۔یا اسے ابھی پوری طرح کھولا ہی نہیں گیا تھا۔میرے اندازے کے مطابق اس سیف کا صائمہ کو بھی نہیں پتہ تھا۔کیونکہ اس میں بھاری مقدار میں ڈالز۔جوہرات تھے ۔اس کا مطلب تھاڈیول کا اصل مال تو اب ہاتھ لگا تھا۔ اور ملکی معاملات کی حساس فائلز۔ایک ٹرانسمیٹر کے ساتھ کچھ ایسی فائلز بھی ملیں تھیں جن سے ثابت ہوتا تھا کہ ڈیول ملک سے غداری کا مرتکب ہو رہا ہے۔لیکن ہمیں بلیک میلنگ مواد کہیں نہیں ملا،ہم تیزی سے وہاں سے نکل گئے،اور وہیں کھڑی پجیرو میں لڑکیوں کو فارم ہاؤس لانے کی بجائے کہیں اور بھیج دیا،میں انہیں یہاں چھوڑ کر خبروں کی سرخیاں نہیں بننے دینا چاہتا تھا،نہ انہیں فارم ہاؤس میں لے جا کر خود سامنے آناچاہتا تھا،۔ لڑکیوں کو میں اپنی ذمہ داری سے ان کے گھر پہنچانا چاہتا تھا۔ہم نکلے ہوں گے کہ ایس ایس پی پہنچ گیا۔۔ڈالرز اور جواہرات میں نے وہاں سے نکال لیے تھے۔ایس ایس پی ایمانداری دکھا بھی دیتا لیکن جہاں بھی یہ پہنچائے جاتے ہر حال میں اسکےحصے بخرے ہی ہونے تھے۔ سیاست دانوں کی بجائے پھر میں ہی کیوں نہیں؟ باقی تفصیلات میں نے ایس ایس پی کو بتا دی تھیں ۔اس نے جاتے ہی سیف سے سب کچھ اپنے قبضے میں لے لیا۔اس نے یہ کاروائی پوش علاقے سے کی گئی کالوں کی وجہ سے کی،جو کہہ رہے تھے کہ بنگلے میں شدید فائرنگ ہو رہی ہے،اب اسے بھی تو اپنا بچاؤ کرنا تھا،اور پھر میرا نام بھی کہیں نہیں آنے دینے تھا۔کیونکہ ڈیول ابھی فرار تھا،پکڑا نہیں گیا تھا۔فارم ہاؤس جاتے ہی سیدھا آپریشن روم میں بیٹھ گئے۔
میں ڈیول کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔میں نے پھرنجیب کو استعمال کرنے کا سوچا اور اسے کال کی۔ میں نے نجیب کو وہ ریکارڈنگ سنوائی جس میں ڈیول ماکھو کو نجیب کا گھر شکار کرنے کا کہہ رہا تھا،نجیب کا غصے سے برا حال تھا،او یار پرنس تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا،میں اس کتے کا خون پی لیتا،،کتوں کا خون نہیں پیتےنجیب،انہیں کتے کی موت مارتے ہیں،اور ماکھو گروپ کو میں نے تمھارے گھر پہنچنے سے پہلے توڑ پھوڑ دیا تھا وہ اب ایس ایس پی کے پاس ہے۔اب غور سے میری بات سنو، ڈیول کے بنگلے میں بڑی فائرنگ ہوئی تھی،مجھے لگتا ہے ماکھو کے پکڑے جانے کے بعد ان کے کسی دشمن نے ڈیول پر حملہ کر دیا تھا،قریبی تھانے میں وہاں مقیم لوگوں کی طرف سے کالیں گئی تھیں،معاملہ کیونکہ ڈیول کا تھا اسلیے اوپر رابط کیا گیا ۔ تو میرا دوست ایس ایس پی وہاں پہنچ گیا تھا،ڈیول تو بھاگ گیا تھا لیکن ڈیول کے بنگلے سے کچھ ایسے شواہد ملے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ غداری کا مرتکب ہو رہا ہے، ایس ایس پی کے پاس سب کچھ ہے،میں چاہتا ہوں تم اس کی مدد کرو،غداری کو بنیاد بنا کر ڈیول کو ایسا پھنساؤ کہ اس کا ساتھ دینے والے اس سے ہاتھ اٹھا لیں،اور ڈیول کا نام ای سی ایل میں ڈال دو،تمھارا کام ہو جائے گاپرنس،اور تمھارا بہت شکریہ تم نے ماکھو کو پکڑا کر مجھے اور میری فیملی کو بچایا۔یہ باتیں پھر سہی ،لیکن ڈیول ملک سے بھاگنا نہیں چاہیے۔اسے تو میں اب بھاگنے نہیں دوں گا،نجیب نے عزم سے کہا،اوکے ۔سر ا سکا مطلب ہے ڈیول باقاعدہ نشانہ بنا کر بلیک میلنگ مواد اکٹھا کر رہا تھااور ان سے دولت کے علاو ہ مخصوص فوائد لے رہا تھا،ہاں تنویر میں بھی یہی سوچ رہا ہوں ،مجھے لگتا ہے کہ ہم سے چُوک ہوگئی،اب وہ کہیں بھی بیٹھ کر اپنے شکار کو کنٹرول کرسکتا ہے،یا اپنے آقاؤں کو یہ مواد دے سکتا ہے،اور ہمیں کبھی یہ پتہ نہیں چلے گا کہ کون لوگ اس کا شکار ہیں اور وہ ان سے کیا کیا کام لے رہا ہے،لیکن سر ہمیں یہ اندازہ تو نہیں تھا کہ وہ یہ سب کام منظم طریقے سے کر رہا ہے،ہم تو اسے ایک بلیک میلر سمجھ رہے تھے جو اپنے عیاشی اور دولت کیلیے یہ سب کر رہا ہے،بہر حال تنویر مجھے ا سکے جانے کا فسوس ہے۔ سمیر تم بتاؤ تم نے کیا دیکھا ڈیول کب اور کیسے بھاگا ،تمھیں چاہیے تھا مجھے اطلاع کرتے، سر جب تنویر بنگلے میں اندر داخل ہوئےتو میرا اس سے رابطہ تھا۔جیسے ہی فائرنگ دھیمی ہوئی اور ڈیول کے گرگے پسپا ہونے لگے۔تو میں نے تنویر کواس کی رپورٹ دی تھی کہ ڈیول اپنے کمرے میں گیا ہے۔ تنویر اس طرف گیا بھی لیکن اسوقت تک وہ نکل گیا تھا۔ مجھے اس سیف کا خیا ل آگیا۔یقیناً یہ خفیہ سیف اسوقت ڈیول کھول کر اسے خالی کردینا چاہتا تھا۔لیکن جب اسے موت سامنے نظرآئی تو اسے خالی کیے بغیر ہی بھاگنا پڑااور ہماری خوش قسمتی کہ وہ سیف ہمیں مل گئی۔اس میں ڈیول کی بربادی کا پوراسامان موجود تھا۔ سر ہمیں اس خطرناک مواد کی پریشانی ہے تو وہ کسی کو نہیں دے گا،کیونکہ اگر یہ مواد یہ کسی کو بھی دے دیتا ہے تو خود کو بچانے کیلیے اسے کسی وقت بھی گولی ماری جا سکتی ہے،میں سمجھتا ہوں اس دھندے میں کسی پر اعتبار نہیں ہوتا،اور اسے پتہ ہے اصل اہمیت اس کی نہیں بلیک میلنگ مواد کی ہے۔اور یہی اس کی طاقت ہے، تنویر نے نکتہ اٹھایا ۔یہ تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو تنویر۔سمیر ڈیول کا موبائل کی کیا رپورٹ ہے سر اس کا موبائل آف ہے،،ٹھیک ہے سمیر ہو سکتا ہے
ڈیول موبائل آن ضرور کرےگا کیوں کہ وہ نہیں جانتاکہ اس کا موبائل ہمارے کنٹرول میں ہے۔لیکن ہوسکتا ہے اب سم نئی استعمال کرے۔تم اس پر نظر رکھنا،با لکل سر اس کا موبائل ہماری آبزرویشن میں ہے ۔اور تنویر تم ایسا کرو ڈیول کے باپ کو اٹھوا لو،دوسرا لڑکیوں کو ان کے گھروں تک پہنچاؤ،اوکے سر ،تنویر فوراً باہر نکل گیا۔اتنے میں ایس ایس پی کا فون آگیا۔ جی ایس ایس پی صاحب ۔پرنس ڈیول کے بنگلے سے تو میں نے سب کچھ قبضے میں لے لیا ہے۔اب اس پر بنے پہلے والے مقدمے بھی کھول دوں گا۔لیکن ایک بات تمھیں بتادینا چاہتا ہوں۔ڈیول کے باپ سے غافل نہ رہنا ۔وہ بڑاخطرناک ہے۔یہ سارا سیٹ اپ اسی نے کھڑا کیا تھا۔بعد میں ڈیول اپنے باپ سے بھی بڑھ گیاتھا۔ لیکن اب بھی ڈیول کی کوٹھیوں میں چلتا کاروبار اس کے باپ کے ہاتھ میں ہی ہے۔وہ اگر بچ گیا تو یہ کاروبار پھر چلالے گا۔اور اہم بات یہ کہ وہ خطرناک ہے اس نے یکدم تمھارے سر پر پہنچنا ہے۔ہاں میں سمجھتا ہوں میں نے تنویر کو اس کی طرف بھیجا ہے ۔اور پرنس ڈیول کے سلسلے مجھے آئی جی صاحب کا تعاون چاہیے ۔ مجھےکوئی اوپر سے کو ئی کال نہ آئے۔ٹھیک ہے میں انہیں کہہ دیتا ہوں۔تم بے فکر ہو کر کام کرو۔بائے۔سمیر ڈاکٹر جمیل سے صائمہ کا پتہ کرو،صائمہ کو ہسپتال بھیجے کافی دیر ہو گئی،سمیر نے کال کی تو اس کی باتوں سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ صائمہ کا کامیاب آپریشن ہو گیا ہے،اور وہ بچ جائے گی،شکر ہے خدا کا یہ اچھی خبر ملی،میں نے خود کلامی کی،پیٹ کی بجائے اگر سینے میں گولیاں لگی ہوتی تو صائمہ نے ہسپتال ہی نہیں پہنچنا تھا۔میں نے بےاختیار آنکھیں بند کر لیں،میں ڈیول کو ڈھونڈنے لگا،میرے بچے خفیہ صلاحیتوں کو ایسے استعمال کرنا ہے کہ کسی کوکچھ خبر نہ ہو،یہی لگے کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہےیہ تمھاری اوّلین ذِمّہ داری ہے،اور اسی میں تمھاری بقا ہے،کوان لی نے ہمیشہ کی طرح میری رہنمائی کی،مجھے خوشی ہے کہ خرافات سے نکل کر تم بامقصد زندگی گزارنے لگے ہو،لیکن تم نے ڈیول کے بنگلے پر حملہ کر تے وقت اپنے آپ کوچھپانے کا خیال نہیں رکھا،وہاں تم دیکھے گئے ہو۔،اس وقت تم جذباتی تھے ۔خیر میں وہ سنبھال لوں گا،لیکن آئندہ تمھیں بے حد احتیاط کرنی ہوگی،اگر تم اپنا آپ ظاہر کرتے ہو تو بہت سے لوگ تمھیں اپنے لیے استعمال کرنا چاہیں گے اور بہت سےتم سے خطرہ محسوس کریں گے،اس دنیا میں سپر مین بھی ہو تو وہ بھی ساری دنیا سے نہیں لڑسکتا،دنیا خباثت سے بھری پڑی ہے،احتیاط میرے بچے احتیاط۔شکر ہے محترم کوان لی نے رابطہ تو کیا۔پچھلے سال سےمیری حرکتوں کی وجہ سے وہ مجھ سے ناراض تھے۔ میں نے آنکھیں کھول دی،تنویر آچکا تھا لیکن وہ سمجھ رہا تھا کہ میں آرام کر رہا ہوں۔ سر ڈیول کا باپ (آئندہ اسے کوڈ نیم فادر سے ہی لکھوں گا) تو نہیں ملا۔اس ے بنگلے میں اتنے بدمعاش نہیں تھے ہمیں قبضہ کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی لیکن فادر ہم سے پہلے ہی نکل چکا تھا لگتا ہے ڈیول نے اسے غائب ہو نے کا کہہ دیا تھا۔ہوسکتا ہے یہ سب سیف سے نکلنے والے ثبوتوں کی وجہ سے ہو۔تنویر فادر کا ملنا بہت ضروری ہے۔وہ ڈیول کی طرح جذباتی نہیں ہے ،ٹھنڈے دماغ کا آدمی ہے اور اس سیٹ ا پ کا وہی بنانے والا ہے۔میں نے تنو یر کے ساتھی کما ل کی طرف دیکھا ،یہ ایم آئی(ملٹری انٹیلی جینٹس) میں رہا تھا۔اور ماہرسراغ رساں تھا۔کمال فادر تمھارا خصوصی نشانہ ہے مجھے وہ ہر صورت میں چاہیے۔جو مرضی کرو ،تمھیں کھلی چھٹی ہے۔ایک بات یاد رکھنا ہمارے اس سارے کام کا دارومدار ڈیول کے ساتھ اس فادر کو ڈھونڈنے پر بھی ہے۔میں سمجھ گیا سر آپ بے فکر ہوجائیں کمال نے اعتماد سے کہا۔۔اورتنویر تم منسٹر کی نگرانی کرواؤ۔خاص طور پر اس کے موبائل کا کچھ کرو ۔منسٹر ڈیول کا اہم ساتھی ہے ڈیول اس سے ضرور رابطہ کرے گا۔سر آس پاس کی چھت سے اس کے دفتر کی کسی کھڑکی وغیرہ کے سامنے وائس کیچر بھی لگاتے ہیں۔ سمیر نے تجویز دی ۔دفتر میں جو گفتگو ہو گی وہ ریکارڈ کر لیں گے۔ کتنے فاصلے تک کام کرے گا۔میں نےپوچھا،سر ہمارے پاس 100 میٹر تک کام کرنے والا ہے، بہترین کوالٹی کا امریکن میڈ ہے ۔ٹھیک ہے تنویر کسی کو بھیجو ،مجھے منسٹر کی ہر خبر چاہیے۔چاہے دفتر میں ہی کیوں نہ گھسنا پڑے،ہری اپ،مجھے سراغ چاہیے سراغ۔
اور میں نے تمھیں اس ثناء کا پتہ کرنے کو کہا تھا۔کیا بنا اس کا۔آجکل دو تین ہزار میں کسی کے نمبر سے ایڈریس لینا کوئی مشکل نہ تھا۔سر اس وقت ہم نے ایمرجنسی میں ڈیول کے بنگلے پرچڑھائی کردی تھی۔ابھی اس کا پتہ کرواتا ہوں۔
کچھ ہی دیر میں پتہ چلا کہ وہ نمبر کسی ثناء کے نام پر ہی ہے۔تنویر نے فوراً اس کے ایڈریس پر معلومات کیلیے ایک کمانڈو فیصل کو بھجوایا۔دو گھنٹے بعد۔ تنویر کو کال آ گئی ،دوسری طرف سے اس کا کمانڈو ساتھی وقاص تھا۔تنویر نے موبائل کی آواز لاؤڈ پر کرد ی ۔ تنویر ہم نے دفتر کےہی ایک کمرے سے منسٹر کے دفتر کی ونڈو کے سامنے وائیس کیچر لگایا ہے،اس کمرے کا آدمی ہمارے قبضے میں ہے، اور ہم اب منسٹر کی کار میں مائک لگانے کی کوشش میں ہیں،گڈ تنویرنے کہا ۔ کوئی خاص اطلاع ؟ ہاں سر کیلیے ایک خاص اطلاع ہے ۔ منسٹر نے دفتری وقت کے بعد کچھ سیاست دانوں سےایک میٹنگ کی ہے۔منسٹرسر کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے ۔منسٹر اور اس کے کچھ سیاسی دوست جو ڈیول کی وجہ سے عیش کوشی کرتے تھے،وہ اب سر کو دبوچنا چاہتے ہیں ۔ وہ حکومتی مشینری استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کوئی اور ہتھکنڈہ بھی اختیار کریں گے ،لیکن اس معاملے میں ابھی ان کا پلان کھل کر سامنے نہیں آیا ہے۔میرا خیال ہےتنویر کہ ڈیول کا ان سے کسی ذریعے رابطہ ہے ۔اور اسنے سر کے خلاف یہ محاز کھول دیا ہے۔ٹھیک ہےتم یہیں سے خبریں نکلوا ؤ، تنویر نے کہا۔ہم اس منسٹر اور اس کے ساتھیوں کا کچھ کرتے ہیں۔ یہ حکومتی مشینری استعمال کریں گے تو بیورو کریٹس میں اپنے دوستوں کی بڑی تعداد ہے ،تم اس طرف سے بے فکر ہوجاؤ۔ تنویر نے کال بند کی تو میں فوراًایک بڑے کاروباری دوست کو کال کرچکا تھا۔اس کو فون کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ بزنس مین موجودہ برسرِ اقتدار پاڑٹی کا خفیہ فنانسر تھا۔آخر اس نے تو بھی تو اس ملک میں رہنا ہے اور بزنس پروفٹ بھی کمانا ہے۔اوئے پرنس میرا یار،کہاں ہو یار،فرانس سے ایک ماڈل میرے پا س آئی ہوئی ہے قسم سے یار اسنے دل خوش کردیا ہے ،تم دیکھو گے تو اس کی صحیح تعریف کرو ۔قسم سے ہیرا ہے ہیرا۔۔کال ملتے ہی میرا دوست چہکنے لگا۔میں تمھاری طرف دوتین دن تک آؤں گا۔ابھی میری بات غور سے سنو۔پھر میں نے اسے بتایا کہ میری ڈیول سے لڑائی ہوگئی تھی ۔دوسری طرف سے وہ قانون کے شکنجے میں آگیا ہے ۔اب اس نے سب کچھ میرے سرپر تھوپ کر منسٹر اور کچھ سیاسی لوگوں کو میرے خلاف کھڑا کردیا ہے۔اچھا چھا میں سمجھ گیا۔تم ان کے نام بتاؤ تمھاری طرف دیکھیں گے بھی نہیں۔وہ اعتماد سے بولا۔مجھے اندازہ تھا اسکے پارٹی کے مرکز سے رابطے ہیں۔منسٹر نے چوں چُراں کی تو وہ اوپر سے دباؤ ڈال سکتا ہے،منسٹر کو اپنی منسٹری بچانا مشکل ہوجائے گا۔میں نے اسے ان کے نام بتائے۔ایک شرط پر تمھارا کام ہو گا پرنس،اس نے کہا۔ہاں ہاں کہو میں نے پوچھا۔جلد میرے پاس چکر لگانا ہوگا۔آؤں گا یار یہ بھی کوئی کہنے کہ بات ہے۔اوکے پھر بے فکر ہوجائے۔اوکے بائے۔یہ دوست پیسے کے زور پر دنیا ئے میڈیا کی خوبصورت لڑکیوں سے عیش کرتا تھا۔میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اداکاری ماڈلز اور ایکٹرس کاسائیڈ بزنس ہے ساری دنیا میں اصل بزنس تو راتوں کوچلتا ہے۔
اپنے دوست کی طرح میں خریدو فروخت تو نہیں کرتا تھا۔ لیکن یورپ اور امریکہ کہ چکر لگا چکا تھا۔اور بڑے ذائقے چکھ لیے تھے۔ دوسرا فون میں نے احتیاطً بیورو کریسی کے ایک خاص بندے کو کیا۔اسے جب میں نے منسٹر اور اس کے سیاسی ساتھیوں کا بتایا تو وہ ہنسنے لگا۔پرنس یہ سیاست دان فصلی بٹیرے ہیں، یہ آتے ہیں اور اپنی بولی بول کر اڑ جاتے ہیں،حکومت سسٹم کی ہے اور سسٹم بیروکریسی کے ہاتھ میں ۔تم بے فکرہوجاؤ گورنمنٹ کی طرف سے تمھارے خلاف کچھ نہیں ہوگا۔اگر وہ بدمعاشی پر اتر آئیں تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا ۔۔تمھیں پتہ ہونا چاہیے کہ یہ گھٹیا لوگ جلد ہی اپنی اوقات پر آجاتے ہیں۔بدمعاشوں کو میں سنبھال لوں گا ۔اوکے سی یو بائے۔شام کو کئی خبریں اکٹھی ہوگئی۔ ایک تو وقاص کا پھر فون آیا وہ منسٹر کی گاڑی میں خفیہ ٹرانسمیٹر لگوا چکا تھا،اور اسنے ڈرائونگ کے دوران ایک کال سنی تھی ۔جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ اس کی بیوی کا فون تھا۔ وہ کہہ رہی تھی کہ ڈیول کا نام ای سی ایل سے نکلوائے،اور نجیب کہ گلے میں پٹہ ڈالے،منسٹر نے کہا حالات خراب ہوگئے ہیں، ڈیول پر اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا بھی کیس بن گیا ہے۔اور اسکے سیف سے پکڑے جانے والے ٹرانسمیٹر اور کچھ کاغذات سے اس پر غداری کاشک کیا جا رہا ہے۔ایف آئی اے(نجیب) ڈیول کو پکڑنے کیلیے ہر ممکنات والی جگہ پر چھاپے مار ہی ہے۔اور ڈیول کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے، ابھی ڈیول جہاں ہے کچھ دن وہیں رہےان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ ڈیول منسٹر کی بیوی کا بھائی بنا ہوا ہے،وقاص کی بات پر میں چونک پڑا۔اوئے تنویر اللہ کے بندے ہماری بھی مت ماری گئی ہے یار،میں نے بے ساختہ کہا،کیاہوا سر،کوئی غلطی ہوگئی ہے،تنویر نے پوچھا،یار تنویر یہ منسٹر کی دوسری بیوی کا فون ہوگا منسٹر نے حال ہی میں یہ شادی کی ہے اس کا نام ثناء ہے،کچھ کچھ اسکینڈل بنتے بنتے رہ گیا تھا۔ بھائی وہ وہ ڈیول ہی کی عورت ہو گی اور ڈیول نے ہی اسے منسٹر سے ملوایا ہو گا؟ یہ کوئی گہری سازش لگتی ہے،فوراً قاص سے منٹسر اور ثناء کی کال کی ریکارڈنگ منگواؤ۔یس سر تنویر نے پھرتی سے کہااور ایسا کرو اس کی پہلے جو کال ہمارے پاس پڑی ہوگی ۔
ابھی دونوں کالز کوٹیلی کرتے ہیں،، تنویر نے فوراً وقاص سے ریکاڈنگ منگوائی۔ یہ سارا کام سمیر نے سنبھالاہوا تھا۔اوکے سر ابھی چیک کرتے ہیں،سمیر ان کی آواز کو سوفٹ ویئر سے ملانے لگاتھا، سر 100 فیصد یہ ایک ہی لڑکی کی آواز ہے،میں نے پھر خود بھی سنی اور یہ دونوں کال ثناء ہی کی تھی۔مزید تصدیق اسوقت ہوگئی جب فیصل آیا اور اس نے ثناء کی معلومات دی۔ منسٹر کی بیوی کی آواز سن کر میرے دل میں اس کاجو تصور بنا وہ خطرناک تھا،میرا دل کہہ رہا تھا منسٹر کی بیوی اور ڈیول کوئی عام گٹھ جوڑ نہیں ہے۔ مجھے خود منسٹر کی دوسری بیوی کے پاس جانا چاہیے۔اور اسے اچھی طرح کھنگالنا چاہیے ۔اس ساری باتوں میں شام ہونے والی تھی۔میں نے ثناء سے ملنے کیلیے رات کا پروگرام بنا لیا۔میں اسے تنہائی میں اس کے گھر میں ہی ملنا چاہتا تھا۔
ملازم نے اطلاعی دی کوئی صحافی آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ اسنے اپنا وزٹنگ کارڈ بھیجا تھا۔میں حیران ہونے لگا۔کسی صحافی کا مجھ سے کیا کام۔بہرحال میں نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھانے کا کہا۔میں محل کی طرف چل پڑا۔ٹہلتا ہوا ۔میں وہاں پہنچا۔صحافی مجھے دیکھ کرکھڑا ہوگیا۔ہیلو ہائے کے بعد میں اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔سر آپ کی کچھ خبریں غلطی سے میرے پاس آگئی ہیں۔میں نہیں چاہتا کہ یہ ہمارے نیوز چینل پر آئیں۔اسی لیے حاضر ہوا تھا۔جیسے آپ حکم کریں ۔میں اس میسنے صحافی کی طرف دیکھنے لگا،وہ مجھے بلیک میل کرنے آیا تھا۔لیکن آیا میری ہمدرد کے روپ میں تھا۔کونسی معلومات ہیں تمھارے پاس،میں نے اسے پرکھا۔اس نے آج ڈیول کے حملے کی میری ویڈیو مجھے اپنے موبائل میں دکھائی۔ویڈیو کے اینگل سے لگ رہا تھاکہ یہ جیسے ڈیول کے بنگلے سے ہی بنائی گئی ہے،اس میں میرا اکیلیے کا حملہ کرنا۔پھر میرا تنویر سے ملنا،مجھے کمانڈو زکی رہنمائی اور پھر نقاب اور بلٹ پروف جکیٹ پہنتے صاف دیکھا جا سکتا تھایقیناً ۔کوان لی نے کہا تھا کہ مجھے وہاں دیکھا گیا تھا ۔اس کا مطلب یہی تھا۔اس نے کہا تھا کہ سنبھال لے گا اور وہ دیکھاہوا اب میرے سامنے لا دیا تھا۔۔ ۔ ۔مسٹر صحافی آپ کہہ رہیں ہیں کہ چینل پر نہیں آنی چاہیے تو پھر انہیں ڈیلیٹ کردیں۔میں نے اسے رگڑا دیا ۔اور وہ کچھ کھل گیا۔وہ سر ہم تو بس ملازم ہیں۔ویری سوری سربڑا مجبورہوں۔سرکچھ کیش ہو جس سے چینل کے مالک کامنہ بند ہوجاتا۔ہمارا کیاہے سر ہم تو آپ کے خدمتگار ہیں۔مجھے گفتگو کا یہ طریقہ بڑا زہر لگتا تھا۔کتی کا بچہ ایک تو مجھے بتا رہا تھا کہ اس میں چینل کے مالکان شامل ہیں تا کہ میں اس پر ہاتھ ڈالنے کا نہ سوچوں دوسرا وہ پیسا بھی لینا چاہتا تھا اور مجھ پر احسان بھی کر رہا تھا۔لعنتی کرادر۔فی الوقت ہمارے ملک میں الیکٹرانک میڈیا ایک بڑی انڈسٹری بن چکا ہے۔لیکن ان کا طرز پیشکش ایسا ہے جیسے عوام کا درد ان سے زیادہ کسی اور کے پیٹ میں نہیں ہوتا۔ کچھ اچھے لوگ بھی ہیں جیسے مجید نظامی صاحب وغیرہ جو نظریاتی صحافت پر یقین رکھتے ہیں۔لیکن اکثریت پروفیشنل ہیں۔اور کئی صحافت کی کالی بھیڑیں ہیں۔چھوٹےموٹے بلیک میلر تو سب ہی ہوتے ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ نیوز چینل سے وابستہ چھوٹےسے چھوٹے ملازم کی بائیک پر بھی پریس لکھا ہوتا ہے۔جس کا مطلب ہوتا ہے کہ مجھ سے پنگا نہ لینا۔یہ پولیس اور سرکاری محکموں اور کاروباری لوگوں کیساتھ دھڑلے سےپنگالیتے ہیں۔ہر کوئی اپنی عزت کیلیے ان سے ڈرتا ہے۔یہ ہمارے ملک میں نئی مافیا بن گئی ہے۔(پرویز مشرف سے پنگالینے کے بعد آرمی سے پنگا لیا گیا اور ہنوز وہ چینل چل رہا ہے ۔)
ان نیوز چینلز کے سیاسی ٹاک شوز پر گرما گرم بحثیں ہوتی ہیں۔جو پورے ملک میں پھیل جاتی ہیں،اور بڑے بڑے دفتروں سے لیکر چائے خانوں تک اس پر باتیں ہوتی ہیں۔لیکن عوام الناس کو یہ نہیں پتہ کہ یہ سب عوام کواپنی مرضی سے ڈھالا جا رہا ہے۔عوام کوکسی ایک طر ف ہموار کیا جا رہا ہے۔میری نظر میں تونیوز چینل بولی لگاؤ خبررکواؤ/چلواؤ(پیڈ کمرشل) کی طرز پر کا م کرتے ہیں۔مجھے اس صحافی پربڑا غصہ آرہا تھا۔لیکن اس کا حل آسان نہیں تھا۔ایک معمولی سی خبر بات کو کہاں سے کہاں لے جاتی تھی۔اس پر ٹاک شو ہونے لگتےتھے۔لااینڈ آڈر کی باتیں ہونے لگ جانی تھی۔اور کسی کو پتہ نہیں ہونا تھا کہ یہ خبر اس لیے لگی ہے کہ انہیں پیسے نہیں ملے۔میرا ذہن بن گیا کہ چند کڑوڑ کی بات نہیں ہے اسے کسی طرح ٹال دوں ۔اس کو بعد میں دیکھ لوں گا۔کیونکہ دوسرا حل سخت تھا۔یا قانونی حل بھی تھا،ہمدانی کو ان کے پیچھے لگا دیتا ۔لیکن بات یہ ہے کہ کمزوری میری بھی تھی۔کسی ہائی پروفائل کی سفارش ،لیکن اس نے اور چوڑا ہو جانا تھا۔مجھے اس حرامی پر بڑاغصہ بھی آرہا تھا۔کتنی قیمت ہے تمھاری ؟ میں نے تلخی سے ایسے پوچھا جیسے وہ کوئی طوائف ہو۔بڑا ہی کوئی میسنا تھا،میری بات کوتو پی گیا۔ لیکن طنزیہ انداز میں مسکرانے لگا۔سر آج جوڈالرز اور جواہرات باسل کی سیف سے ملا ہے اور جو مال نجیب لے گیاہے سب ہمارے حوالے کردیں۔اور باسل کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ ختم کروا ئیں ۔ہمارے پاس وقت تھوڑا ہے۔وہ کیا ہے کہ رات کو دیر سے بریکنگ نیوز نہیں جانی چاہیے۔ابھی خبر آن ائیر ہوجائے گی تو پھر رات گئے تک لوگوں کو اسکرین پر باندھ کررکھیں گے۔باسل کا نام آتے ہی مجھے واقعی جھٹکا لگا۔باسل کے علاوہ کسی کو نہیں پتہ تھا کہ سیف میں کیا کچھ ہے ۔اس کا ایک اور بھی مطلب تھا کہ ڈیول کو پتہ ہے کہ ڈالرز اور جواہرات میرے پاس ہیں۔اور ایس ایس پی کے پاس فائلز ہیں۔نیوز چینل کے مالک اور باسل کے گٹھ جوڑ کا ایک ہی مطلب تھا کہ یہ بھی منسٹر کی طرح باسل کی پشت پناہی کرنے والا تھا
کیونکہ یہ اس کے ہاتھوں بلیک میل ہورہا ہوتا تو کبھی اس کو میری ویڈیو بارے نہیں بتاتا تھا۔باسل کا نام آتے ہی میں نے صحافی کوپھرتی سے پکڑا اور اسے زناٹے کے تین چار تھپڑ مارے۔پھر اسے پھینٹی لگانے لگا۔بشیر میرے ملازموں کا ہیڈ مجھے دیکھنے آیا۔اور بھاگ کر تنویر کو بلا لایا۔اتنے میں صحافی کا برا حال ہوچکا تھا۔تنویر لے چلو اس گھٹیا صحافی کو۔ٹھیک ہے وہ بڑے چینل کے مالک کی طرف سے آیا تھا ۔لیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ میرے پاس وسائل بھی ہیں،دولت بھی ہے۔تعلقات بھی ہیں۔اور وہ جرات اور طاقت بھی ہے جو بڑے سے بڑے آدمی سے ٹکر لے سکتی ہے۔میری نظر میں ان کی اوقات ایک بلیک میلر سے زیادہ نہیں تھی۔تنویر ہاؤس میں لے جاکر صحافی کوایک کمرے میں باندھ دیا۔حرامی کی جرات تو دیکھو میرے فارم ہاؤس پر کتنے بے حیائی سے مجھے بلیک میل کرنے آگیا تھا۔اس سے ان کی چینل مافیا کے غرور کا ندازہ ہوتا تھا۔۔تنویر تو پتھروں کو بلا لیتا ہے۔یہ صحافی کیا چیز تھا۔جلد ہی ہی وہ بول پڑا ۔سر مجھے تو ہمارے مالک نے بلا یا اور یہ ویڈیو میرے موبائل میں ڈالی اور آپ کے پاس بھیج دیا ۔ میرے لیے ایسے کام معمول کی بات ہے۔وہ ایسے کام مجھی سے لیتے ہیں۔میں تو اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میرے باس باسل صاحب کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہیں ۔وہ باسل صاحب کیلیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔اس ویڈیو کی کتنی کاپیاں بنی ہیں اور اس کا کتنے لوگوں کوپتہ ہے۔میرا لہجہ بڑا خطرناک تھا۔باس کو ہی پتہ ہوگا سر۔صحافی نے بیچارگی سے کہا۔۔تم اب یہیں رہو گے ۔اور اگر میں نے تمھاری کوئی بات چھپائی ہوئی تو تمھاری خیر نہیں ہے۔میرے لہجے کی سنگینی سے اسے حالات کی نزاکت کا اندازہ ہوگیا تھا۔تنویر اس چینل کے مالک کواٹھا لاؤ۔میرا خیال ہے اسکے گھر میں جاؤ اور وہاں ذرا شور شرابا ہونا چاہیے ۔وہیں اس باس کوبھی بلا لینا ۔اس باس کو بھی پتہ چلے کہ کس سے واسطہ پڑا ہے۔میری بات سے صحافی کی رنگت سیاہ ہوگئی ۔اور اسکے چہرے پر مایوسی پھیل گئی۔اوئے صحافت کی کالی بھیڑ جس کے ڈر سےڈیول بھاگتا پھرتا ہے۔منسٹر بے بس ہوگیا ہے ۔تمھارا مالک کیا چیز ہے۔میں نے اسے دھمکایا تا کہ مجھ سے اسنے کچھ چھپایا ہو تو بک دے۔اور اس نے بک دیا۔سر وہ آپ ویڈیو کی کاپی کا پوچھ رہے تھے ،تو مجھے یاد آیا باس نے لازماً اس کی دو سی ڈیز بنا کر اپنے سیف میں رکھ لی ہوں گی۔دعا کرو ہ تمھاری باتوں میں کوئی جھوٹ نہ نکلے،میں نے اسے دوبارہ دھمکایا۔وہاں سے میں آپریشن روم میں داخل ہوگیا۔سمیر مجھے سمجھاؤ کہ یہ ویڈیو ڈیول کے بنگلے سے کیسے بن سکتی ہے،میں نے اسے صحافی کے موبائل میں سے ویڈیو پلے کر کے دی۔سمیر ویڈیو دیکھتے ہوئے ہونٹ چبانے لگا۔یہ اس کی عادت تھی۔یعنی وہ پریشان ہےسر میں نے آپ کوبتایا تھا کہ ڈیول نے پورے بنگلے کیمروں کا جدید سیکورٹی سسٹم لگایا ہو تھا۔جو کہ ہم نے اپنی پروگرامنگ ڈال کر ہیک کرلیا تھا۔