پھر ثناء میرے اوپر لیٹ گئی،اب وہ عضو کو اندر لے کر آگے پیچھے ہونے لگی،بڑے آرام سے مزہ لیتے ہوئے ،جیسے قطرہ قطرہ کشیدتے ہوئے پھر قطرہ قطرہ پیتے پیتے ہوئے ،اس کے دل فریب ممے میرے سینے سے ٹکراتے ،میرے آنکھوں کے سامنے لہراتے،مجھے ایسے لگتا جیسے انگور کا گچھا میرے سامنے ہے ، انگوروں کا گچھا میں منہ میں لے لیتا ،کچھ کٹھا کچھ میٹھا،مزہ تھا،انگوروں کا، جیسے تازہ تازہ انگور ہوں، جن کی تازگی (جوانی) دلفریب تھی ۔جو لبھاتے تھے،ترساتے تھے،بلاتے تھے،دس منٹ تک ثناء نے میرے ساتھ خوبصورت انداز میں چودائی کروائی۔یقیناً اس نے بڑا لطف دیا بھی اور لیا بھی،پھر میں اسی مزے کی ترنگ میں اٹھا اور اسے اپنی جگہ لٹا کر اس کی چوت میں عضو ڈالا اور اس کی چودائی کرنے لگا،اب کی بار حیرانگی ثناء کیلیے تھی،وہ خود کو ایکسپرٹ سجھتی تھی ،لیکن اب سیر کے سامنے سوا من آگیا تھا،میں بڑی مہارت سے ثناء کی چوت کی وادیوں کی سیر کر رہا تھا،اس کی چوت تنگ تھی، ،ہاں ثناء کی چوت تنگ تھی،اور مجھے اس سے ملاقات کر کہ اچھا لگ رہا تھا،پورے ٹیکٹ ،پوری مہارت ،سے میں ثناء کو چودتا رہا،ثناء مزے کی اگلی دادیوں میں جانے لگی،اب ثناء کو پتہ چلا ہوگاکہ چودائی کسے کہتے ہیں،ثناء خود کو بڑی ماہر سمجھتی تھی،بے شک وہ تھی اس نے مزہ بھی دیا ۔لیکن وہ اپنی مہارت کا منفی استعمال کر رہی تھی،ثناء کی چوت کو استعمال کرنے والا منسٹر تھا،اس کا مطلب ہے وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اندر ڈالتے ہیں اور اندر باہر کرنے کوچودائی سمجھتے ہیں،ویسے بھی منسٹر کی عمر جا رہی تھی اور ثناء پورے جوبن پر تھی،ابھی ثناء کی چوت میں کوئی اچھی طرح گھومنے پھرنے والا نہیں آیا تھا،اب پرنس اسے بتا رہا تھا کہ مزہ کیا ہوتا ہے،میں سمجھ گیا تھا ثناء کی مہارت دیکھ کر اور سمجھا کر بنائی گئی ہے،اسے ٹرینڈ کیا گیاتھا۔اس کی ٹریننگ اور نیلم کی ٹریننگ میں فرق تھا۔ثناء (وِش کنیا )تھی۔ہنڈو راجے مہاراجے ضصوی طور پر یاسی لڑکیوں کوتربیت دیتے تھے جن کی پرورش زہر کھلا کر ہوتی تھی، دواؤں کے ساتھ تھوڑا تھوڑا زہر ان کے جسم کا حصہ بنایا جاتا تھا۔اور آہستہ آہستہ وہ پوری کی پوری زہریلی بن جاتی تھیں ۔اور پھر جو ان کے ساتھ ہم بستری کرتا وہ موت کے گھاٹ اتر جاتا تھا۔ثناء جسمانی طور پر زہریلی نہیں تھی باوی وہ کسی وِش کنیا سے کم نہیں تھی۔لیکن اس کی چوت کا دروازہ منسٹر نےہی کھولا تھا،اب منسٹر اتنا بھی بچہ نہیں تھا کہ کھلے دروازے اور بند دروازے میں کوئی فرق ہی نہ جان سکے،اس بات سے میرے خیالات کی تصدیق ہوتی تھی ،کہ ثناء کے ذریعے منسٹر کو باقاعدہ پھنسایا گیا ہے ،کوئی اونچا کھیل ہی لگتا تھا،کیونکہ منسٹر ظاہر ہے اپنی پارٹی میں نمایاں مقام رکھتا تھا،یعنی غداری والی بات صحیح لگتی تھی،اور اگر یہ سب ڈیول کر رہا تھا تو وہ صرف پیسہ وصول کررہا تھا اصل فائدہ کوئی اور لے رہا تھا،اس پورے نیٹ ورک کو توڑنا بڑا ضروری ہوگیاتھا،پتہ نہیں ایسی کتنی ثناء بیویوں اور رکھیل کی صورت میں اہم آدمیوں کے ساتھ تھیں،اور یہ طریقہ کار بلیک میلنک کے علاوہ تھا،اور جہاں سے ثناء کو ٹرینڈ کیا گیا ہو گاوہیں سے ثناء جیسی اور ٹرینڈ ہوئی ہوں گی،اس دوسرے نیٹ ورک کو توڑنے کیلیےاب ثناء اہم ہوگئی تھی،،مجھے تو یہ نیٹ ورک بلیک میلنک سے زیادہ خطرناک لگ رہا تھا،اور ثناء کا نام سامنے آتے ہی میری ساتویں حس نے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی ۔ اور اب اس کا گھنٹی کا مطلب سمجھ آرہا تھا ۔اب ثناء کے ساتھ وقت گزار کے کئی باتوں کاادراک ہو رہا تھا،، میرا دھیان کہہ رہا تھا کہ ثناء کے پاس ویڈیوز کی ایک کاپی پڑی ہے،اُدھر مجھے فون کال کا انتظار تھا، میں نے ثناء کی چودائی کرتے ہوئے اسکے ریشمی ممے ہاتھ میں لے لیا،ظاہر سی بات ہے یہ عورت کا وہ حصہ ہے جس سے اسے گرمی ملتی ہے،میں اس کے اوپر لیٹ کر ان مموں کو منہ میں لے لیااور چودائی بھی کرتا رہا،ثناء کا مزے سے برا حال تھا،جبکہ یہ ایک عام سی ٹرِک تھی،اب ثناء بھی آنے والی تھی اور میں بھی دوبارہ آنے والا تھا میں بیٹھ گیااور اس کی چوت میں دھکے لگانے لگا،
دھکوں نے منزل قریب کر دی اور ثناء کا پانی نکل گیا،میں رک گیا،جب اس کا پانی نکل گیا تو ٹشو پیپر سے اس کی چوت صاف کر کے میں نے اندر ڈالا اور پھر اس کی چودائی شروع کر دی،میری چودائی میں ردھم تھا،تیکنیک تھی،ایک جیسی طاقت تھی،اور چوت کو پتہ چلتا تھا کہ کوئی آیا ہے اور ابھی پھر آئے گا،ثناء کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ بھرپور مزہ لے چکی ہے،اور یہ ا سنے کہہ بھی دیا،پرنس جو مزہ آج تم نے دیا ہے ایسا مزہ میں نے پہلے کبھی نہیں لیا،نہ ایسا سنا،نہ کبھی دیکھا،ثناء بتا رہی تھی کہ اسنے سنا بھی ہوا تھا اور دیکھا بھی ہوا تھا،یعنی ٹریننگ۔ثناء کی چودائی کرتے ہوئے بہرحال ایک حقیقت کا مجھے اعتراف تھا کہ اس کا جسم کمال تھا اور اس کی تربیت نے اسے دوآتشہ بنا دیا ہے۔ڈیول نے ایسی لڑکیوں کو بڑی کوشش کے بعد ڈھونڈا ہوگا۔خیر اب تو میں اپنا پانی نکالنے کیلیے تگ و دو کر رہا تھا،کیونکہ ثناء تو فارغ ہو کر آرام سے لیٹی مجھے دیکھ رہی تھی،میرے دھکوں سے اس کاجسم ہل رہا تھا اور ممے ایسے ہلتےتھے جیسے ساحل سمندر کی لہریں آتی جاتی ہیں،میں نے دھکے جاری رکھے اور میری منزل قریب آگئی،میں بے اختیار ثناء کے اوپر لیٹ گیا،اور سارا پانی ثناء کی چوت سے باہر اس کی ٹانگوں میں عضو دبا کرنکال دیا۔جی ہاں میں ثناء پر اعتبار نہیں کرسکتا تھا،ہوسکتا ہے کل کووہ مجھ پر عزت لوٹنے کا الزام لگا دیتی ۔اور میڈیکل رپورٹ سےبڑی خبر بننی تھی ۔ منسٹر کی بیوی کی عزت لوٹ لی گئی۔مجھے عزل کی بڑی پریکٹس ہوگئی تھی۔میں سکون سے فارغ ہوا،اور ثناء کے ساتھ لیٹ گیا،پرنس میں چاہتی ہوں ہم اچھے دوست بن جائیں،ہمیشہ کیلیے،بہت اچھے دوست،ثناء نے میری توقع کے مطابق کہا،میں ہوں ہاں کرتا رہا اور وہ اپنی لفاظی کا جادو دکھاتی رہی ،میں کال کا انتظار کر رہا تھا،اسوقت مجھے دو گھنٹے تو ہوگئےہوں گے،کہ میرے حساس کانوں نے اپنے موبائل کی وائبریش کی آواز سنی،میرے کپڑوں میں میرا موبائل پڑا تھا کال سمیر کی تھی،ہاں سمیر کیا بات ہے میں نے کال رسیو کرتے ہی پوچھا،سر،ڈیول کا موبائل آن ہوگیا ہے،اب ہمیں اس کی لوکیشن معلوم ہو رہی ہے ۔لگتا ہے وہ سفر میں ہےاور کار بھگائے جا رہا ہے، ہاں حرکت میں برکت ہے، میں نے سمیر سے کہا۔
(مجھے اس کا اندازہ تھا کہ وہ شہر سے کہیں دور نکلے گا تو نئی سم سے موبائل ضرور آن کرے گا ۔کیونکہ اسے رابطوں کی ضرورت ہو گی سہہ پہر کو اس نے موبائل بند کیا تھا اور اب آن کر لیا تھا)
اوکے وش یو گڈ لک ،میں نے کال اینڈ کر دی،ثناء میری طرف گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی،جیسے وہ مجھے کھوج رہی ہو،میں ثناء کے ساتھ لیٹ گیا،ہم ابھی بھی ننگے تھے، چوہا بل سے باہر چلا گیاہے،کیا،ثناء میری بات کا مطلب نہیں سمجھی۔ تم نے جس تیسرے گارڈ کو بھگایا تھا وہ ڈیول تھا،پرنس یہ الزام ہے مجھ پر ،اور تمانچہ ہے میری چاہت پر،میں تو سمجھ رہی تھی کہ ہم اب دوست بن گئے ہیں،اور تم مجھے مجرم بنا رہے ہو،ڈیو ل نے یہاں سے تمھاری کار کو دھکا لگا کر نکالا اور کچھ دور جا کر کار اسٹارٹ کی، اگر تم سچ بول رہی ہو،تو جب میں آیا تھا تو تمھاری کار کھڑی تھی،اور وہ اب نہیں ہے،میں نے پورے یقین سے کہا،سارے میرے اندازے تھے ۔ثناء چپ ہوگئی،تم چاہتی تھی اسے بھاگنے کیلیے جتنا وقت مل جائے تو اچھا ہے۔ اسلیے تم مساج کاڈراما کیا اور تقریباً گھنٹا گزار دیا ۔اس دروان تم نے مجھے ذہنی طور پر بھی اور جسمانی طور پر اپنا اسیر بنانے کی پوری کوشش کی،لیکن میں پرنس ہوں ،منسٹر نہیں ۔ثناء کو حیرت کے جھٹکے لگ رہے تھے۔ خیر ڈیول کہاں بھاگا جا رہا ہے،وہ تو ہاتھ آہی جائےگا اب تم اپنی بات کرو۔میرا تمھارے ساتھ سیکس کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اب تمھیں اندازہ ہوگیا ہو گا۔کہ بلی چوہے کے کھیل تم چوہیا ہو ۔اب تم اچھے بچوں کی طرح مجھے وہ چیز دے دو جو ڈیول تمھارے پاس رکھوا گیا ہے،کیا میرے پاس کچھ نہیں ہے،ثناء نے بے اختیار کہا،ثناء میں گزرے وقت کی وجہ سے لحاظ کر رہا ہوں۔اسلیے مجھے سختی پر مجبور نہ کرو،میں انسان کےفعل کی وجہ سے اس سے اچھایا برا سلوک کرتے ہوں،مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ سامنے عورت ہے یا مرد۔ پرنس تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے،میرے پاس ایسا کچھ نہیں ہے اور نہ ہی ڈیول سے میرا اتنا گہرا تعلق ہے،۔وہ مجھےہم تو مہرے ہیں اس کے،بلیک میل کررہا ہے۔مجھے تم ہر لحاظ سے بہتر لگے ہو،میں تو تم سے فار لائف دوستی کرنا چاہتی ہوں،میں بھی ہوں ،میری فرینڈز بھی ہیں،پیسہ بھی ہے،منسٹر سے جو چاہیں کروا بھی لیں۔ثناء پرنس کو لالچ دے رہی تھی ثناء میں تمھیں آخری چانس دے رہا ہوں پیار کی زبان سمجھ جاؤ اور وہ ویڈیوز مجھے دے دو،ہماری تو قسمت ہی ایسی ہے ،باسل ہمیں تمھارے رحم و کرم پر چھوڑ کر بھاگ گیا،اور تم مجھ پر اعتبار نہیں کر رہے،نہ میں تمھیں اپنی بے گناہی کا کوئی ثبوت دے سکتی ہوں،ثناء نے روتے ہوئے کہا،الّو کی پٹھی بڑی کاریگر ہے ،آنسو ہی نکال لیے،میں نے دل میں سوچا،،میں نے اس کی گلے کی نس دباتے ہوئے ہاتھ پھیرا اور اس کی آواز بھی بند ہوگئی تھی،تمھاری آواز بند ہوگئی ہے اسی طرح ساری عمر گونگی رہو گی، ویڈیوز مجھے دے دو، ثناء نے بولنے کی کوشش کی لیکن بول نہ سکی،اس نے آنسوؤں کیساتھ نہ میں سر ہلایا۔بڑی پکی ہو تم۔اسے نہیں پتہ تھا میں نے اس کی آواز کیوں بند کی تھی، اب میرا ہاتھ اس کے پیٹ پر تھا،ناف سے اوپر اور سینے کے پنجرے کے نیچے،میری دو انگلیاں کھڑی حالت میں تھی۔ اوکے ثناء جیسی تمھاری مرضی،میں نے انگلیاں مخصوص دباؤ میں کے تحت اس کے پیٹ میں گاڑ دی،پھر انگلیاں گھما دی،ثناء اگر تم میرے کپڑے پہنتے تک یہ تکلیف برداشت کر لو تو میں تمھیں چھوڑ دوں،میں نے کپڑے پہنتے ہوئے کہا،اگر میری بات ماننی ہو تو ہاں میں سر ہلا دینا۔ثناءکا جسم جھٹکے لے رہا تھا،اس کے چہرے پر بے پناہ تکلیف تھی،،ابھی میں بیڈ پر بیٹھ کر پینٹ پہننے ہی لگا تھا ،کہ اس نے بمشکل ہاں میں سر ہلا دیا، اگر کوئی ہیر ا پھیرا کی تو میں اس تکلیف میں چھوڑ کے اب چلا جاؤں گا۔میں نے دو انگلیاں سے اس کے پیٹ کا سسٹم ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔ثناکی آنکھوں میں ڈر تھا اور اور تکلیف کے آثار باقی تھے۔اس نے پیٹ پر ہا تھ رکھ کر اظاہر کیا کہ اسے ابھی درد ہے ،یہ درد بعد میں ٹھیک ہوگا،میں نے اسے بازو سے پکڑ کر قالین پر کھڑا کرتے ہوئے کہا،جن لوگوں کوپیٹ کے شدید درد کا سامنا ہوا ہے یاکسی نے ایسے مریض کو تڑپتے ہوئے دیکھا ہے تو وہ میری بات کچھ کچھ سمجھ جائیں گے،کہ تیکنیک سے درد کو انتہا پر پہنچانا کیا ہوتا ہے، ثناء بمشکل میرے سہارے واش روم کی طرف چل پڑی ۔واش روم میں اس نے بیسن کے نیچے ٹونٹی کو گھمانے کی بجائے ہتھیلی سے زور لگایا،درد سے اس کا برا حال تھا،بہرحال واش بیسن کے اوپر لگے آئینے نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور وہاں ایک سیف نمودار ہوگیا،بظاہر وہ دیوار ہی لگتی تھی،سیف میں نمبروں کا کمبی نیشن لگا کر سیف اوپن کر کے ثناءنے اس میں سے ایک پورٹیبل یو ایس بی ہارڈ نکالی اور مجھے پکڑا دیااسوقت میں نے اطمینان کی گہری سانس لی ۔یہی وہ بلیک میلنک کا مواد تھا جس کی مجھے تلاش تھی۔میرا ثناء کے پاس رکنے کا فیصلہ صحیح تھا ڈیول بھی پکڑا جانا تھا لیکن اہم چیز ثناء کے پاس تھی ،اس مواد کیلیے میں بڑا پریشان تھا۔بعد میں جب ثناء کی زبان کھلوائی تو وہ اور اہم ہوگئی ۔ او تیری خیر ہووے۔سیف دے اندر تے ڈالراں دا ڈھیر لگیاں ہویا سی ۔لیکن وہاں ڈی وی ڈیز ۔ اور ایک لفافہ پڑا تھا جس پر انتہائی اہم لکھا ہوا تھا ، اور کچھ فائلیں پڑی تھیں،میں نے یہ سب بھی اٹھا لیا اور بڑے سے خصوصی لفافے میں ڈال لیا۔ثناء بے بسی سے مجھے دیکھتی رہ گئی۔اگر اس کا خیال تھاکہ یہ ڈالر میں یہیں چھوڑ دوں گا تو یہ اس کی بھول تھی۔مالِ غنیمت کون چھوڑتا ہے۔اور یہ تو طےتھاکہ ثناء اور ڈیول ایک ہی تھے اور یہ ڈیول کا آخری جمع پونجی (بیک اپ)تھی ۔میں ثناء کو باہر لے آیا،اسکا پیٹ درد ٹھیک کیا،اس نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا تو میں نے اسے کپڑے پہننے کا کہا،ثناء کے کس بل نکل چکے تھے۔وہ کپڑے پہننے لگی،تو میں نے بھی کپڑے پہن لیے۔جیسے ہی اس نے کپڑے پہنے میں نے اس کے گلے کی طرف ہاتھ بڑھایا،اور میری مڑی انگلی اس کی کنپٹی کوچھو گئی ۔ثناء بے ہو ش ہو کر میرے ہاتھوں میں جھول گئی۔میں باہر نکلا اور دونوں گارڈز کو بے ہوش کر دیا ،انہیں بھی میرا تب پتہ چلا جب وہ بے ہوش ہو رہے تھے۔ظاہر ہے میرا چہرہ تو وہ دیکھ نہیں سکے،میں کچھ دور کھڑی اپنی گاڑی سیدھا کوٹھی میں لے آیا،اس میں ثناء کوڈالا اور گاڑی کوفارم ہاؤس میں لے گیا،لیکن اس سے پہلے منسٹر کی کوٹھی میں لگے کیمروں کا مین سسٹم ڈھونڈکر اس سے اپنی ویڈیوز ڈیلیٹ کر دی تھی۔میں کوئی بھی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔میں نے رستے ہی میں سمیر کو کال کی، ڈیول کی کیا لوکیشن ہے سر وہ توکہیں بھاگا ہی جا رہا ہے ،سمیر نے جواب میں کہا۔ بائی روڈ تو اب اس کو پکڑنے میں کافی مشکل ہوگی وہ بہت دور نکل گیاہے۔ٹھیک ہے نوید سے کہو ہیلی کاپٹر تیار رکھے،میں نے کال بند کر ی،نوید بھی ریٹارڈ کمانڈو ساتھی تھا اور ہیلی کاپٹر کاپائلٹ بھی تھا،فارم ہاؤس میں کھڑا میرا ذاتی ہیلی کاپٹر اسی کے حوالے تھا۔فارم ہاؤس پہنچتے ہی میں گاڑی سیدھی محل کے پیچھے واقع ہیلی پیڈ پر لے گیا،تنویر اپنی ٹیم ساتھ وہاں موجود تھا۔ تنویر یہ سیف میں رکھ آؤ میں یوایس بی ہارڈ اور انتہائی اہم لفافہ تنویر کو پکڑایا۔اور گاڑی میں منسٹر کی دوسری بیوی ہے،اسے اپنے ہاؤس میں پہنچا دو اور خیال رکھا جائے ،بڑ ی کائیاں عورت ہے،اوکے سر۔تنویر کار میں ایک تھیلا بھی ہے ۔میں نے ڈالرز کا کہا ۔یہ میں نے تکیہ کے غلاف میں ڈال لیے تھے۔ ۔تنویر کو پتہ تھا اس تھیلے کا کیا کرنا تھا۔تنویر گاڑی اسٹارٹ کر کے تنویر ہاؤس کی طرف لے گیا۔میں اس کا نتظار کرنے لگا،تنویر واپس آیا تو کہنے لگا،سر آپ آرام کریں،میں ڈیول کولے آتا ہوں،ہاں تم لے آؤ گے لیکن مجھ سے انتظار نہیں ہو رہا۔میں نے ہیلی کاپٹر میں بیٹھے ہوئے کہا