پلے بوائے (آخری قسط)

 

 


خاص کرہنی من موہنی سی چوت میں ضرور لگایا۔وہاں احتیاطً لگایا تھا۔اور پھر ہانیہ کی ٹانگیں کھول کر ان ٹانگوں میں بیٹھا اور تھوڑا آ گے ہوا۔عضو ہاتھ میں پکڑا اور ہانی من موہنی کی چوت پر رکھا۔خود تھوڑا ہانی کے اوپر آیا،اور بڑی ہی آہستگی سے بڑے آرام سے ہانی من موہنی کے اندر ڈالا۔عضو کو تھوڑا آگے کیا،ہانی کی طرف دیکھا ،،تڑپ تھی،کسک تھی۔چاہت تھی،وہاں انتظار تھا۔سو میں نے تھوڑا سا اور آگے کردیا۔میں ساری احتیاط اسلیے تھی کہ اس ناخوشگوار حادثے کی وجہ سے کوئی بدمزگی نہ ہوجائے۔اچھی بھلی ہانیہ پھر واپس تنہائی میں نہ ڈوب جائے۔یہاں اس موقع پر کام خراب ہوجاتا توپھر سنبھالنا مشکل ہو جانا تھا،پرنس سما جاؤ نہ،ہانی نے پھر کہا،اس سے شاید انتطار نہیں ہو رہا تھا،اور میں نے ایک ہی دفعہ میں پورا اندر کردیا۔ہانیہ اب چودائی کی مہک سے جھوم رہی تھی،اسلیے مجھے کوئی ڈر نہیں تھا،اندر ڈالنے کے بعد میں اس میں سمانے لگا،عضو کوآگے پیچھے کرنے لگا۔ہانیہ کے چہرے پر اطمینان تھا،اورمجھے خوشی تھی کہ ہانیہ بھی مل گئی اور اس کے دل سے وہ واقع آج میں نے کھرچ کے پھینک دیا،کچھ بھی تھا ،اسے میری دشمنی میں ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔اور میرا دل مطمن نہیں تھا،اب مجھے سکون ہوگیا تھا۔میں آگے پیچھے کرتے ہوئے ہانیہ کے اوپر سا لیٹ گیا،اور مزے لینے لگا۔ہانیہ کھلی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔اس کی آنکھوں میں نشیلا پن تھا،اسے چودائی کا نشہ بڑھ رہا تھا۔آہستگی سے کرتا ہوا میں چودائی کی لذت میں آپو آپ تیز ہونے لگا۔ہانیہ کو شاید اسوقت یہی چاہیے تھا،اس کی سسکیاں ابھرنے لگی۔سانسوں کی حرارت سے ہانی من موہنی کی تنہائی پگھلنے لگی،یہی تو اسنے کہا تھا،گنگنا کے،سانسوں میں حرارت تو تبھی ہوسکتی ہے جب جسم میں چودائی کا بخار ہو۔اور اس بخار کواتارنے کیلیے ٹیکہ(عضو)لگایا جائے ۔ہانیہ کا جسم میرے دھکوں سے ہلنے لگا،اور دھکے گہرائیوں میں لے جانے لگے۔گہرائیوں میں سرُور تھا اور سرُور میں دھکے اور تیز ہوتے تھے۔پرنس تم خوب اچھی چودائی کرتے ہو۔تمھیں دیکھ کے ایسے لگتا ہے کہ تم اسوقت نہایت انہماک سے کوئی بہت ضروری کام سر انجام دے رہے ہو،تمھاری محویت میرے دل کوسکون دے رہی ہے،ہانیہ نے جذباتی بات کی ،اس کا مطلب تھا کہ میری محویت اس میں ہے،اور وہ یہی توچاہتی ہے۔پہلے اس پر لیٹا تھا پھر پھر کچھ بیٹھا کچھ لیٹا دھکے لگاتا رہا اب پھر اس پرچڑھ سا گیا اور دھکے لگاتا رہا۔دھکے لگائےتو ہی گاڑی چلتی ہے،کیونکہ چودائی کی گاڑی دھکا اسٹارٹ ہے۔جتنی تیزی سےدھکا لگایا جائے یہ گاڑی اتنی تیزی سے منزل پر پہنچتی ہے۔اور میں ہانیہ کومنزل پر پہنچانے کیلیے تیز دھکے لگاتا رہا۔میرے دھکے اب گاڑی کو ایک ہی رفتار سے بھگائے جا رہے تھے۔میرا پرنس،ہانیہ میرے ساتھ بھاگی جارہی تھی۔اسے منزلوں کی طلب ہونے لگی تھی،ایک ہی اسٹائل میں ہانیہ کومسلسل چودتے ہوئے، اب میں نے اسی حالت میں طریقہ کار بدلہ اور بڑی آہستگی سے اندر ڈالتا پھر باہر نکال لیتا ۔پھر اندر ڈالتا اور پھر باہر نکال لیتا،۔اہستگی میں جوش پورا تھا۔ذرا الگ سا اسٹائل تھا۔اندر ڈالتا پھراسے زور لگاتا اور چوت کی گہرائیوں سے لگاتا،پھر بڑے پیچھے کرتے ہوئے آہستگی سے کرتا،لیکن پورا باہر نہیں نکالتا تھا۔کچھ لمحوں میں ہانی من موہنی کو میرے اسٹائل کی سمجھ آنے لگی،اب وہ بھی اس میں شامل ہوگئی،یہ ایسے ہی تھا جیسے سلوموشن میں حرکت کی جائے لیکن پورے جوش اور جذبے کیساتھ۔ہانیہ مزے لینے لگی،میں اسے کھلونے (عضو)سے بہلاتا رہا۔پرنس تم نے تو وہ بات کردی ،جدوں ہولی جیا لینامیرا ناں ،میں تھاں مرجانی آں وے،تمھاری اس آہستگی میں تو بڑی لذت ہے یار۔ہانیہ کی آنکھوں میں وہی سب کچھ تھا جوہونا چاہیے تھا۔جب میں اندر ڈال کرچوت کی گہرائیوں میں پہنچنا چاہتا تو ہانیہ غیر ارادی طو پر نیچے سے گانڈ اٹھا کر چوت کو آگے کرتی،میں اس کی حرکت پر مسکرایا تو،ہانی سمجھ گئی کہ میں کیوں مسکرایا ہوں۔ پرنس تمنے مجھے اپنے رنگ میں رنگ لیاہے،ہانی نے مسکراتے ہوئےکہا۔اب چودائی کاردھم اچھا بن گیا تھا۔میں پیچھے کرتا تو ہانیہ گہرا سانس لیتی جیسے گہرائی میں جانے لگتی ہیے۔اورگانڈ کو بیڈ سے لگا لیتی۔پھر جیسے میں آہستگی سے آگے کرتا ہانیہ سانس روکے ہوئے گانڈ اٹھاتی اور میں آگے پورا اندر ڈالتا ۔کچھ ساعت وہاں ٹھہر بھی جاتا پھر واپس آتا۔اور وہی عمل جاری ہوجاتا۔ہانیہ نے میراہاتھ پکڑ کر اپنے مموں پر رکھ دیا،وہ چاہتی تھی۔میں انہیں مسلوں اور ساتھ ساتھ چودائی کروں،جس اسٹائل میں چودائی ہورہی تھی،اس میں ممے مسّلے جاسکتےتھے۔بلکہ اس عمل کوبھی چودائی کی ردھم میں لایا جاسکتا تھا۔اب میں عضو پیچھے کرتا اور ممے دبا لیتا۔اور جب اندر ڈالتا ور گہرائی میں جاتا تو ممے دبا دیتا۔ممے چھیڑے جائیں تو پھر پانی تو ابلےگا ہی اور جو پہلے ہی ابل رہا ہو وہ تو باہر آنے کومچلےگا۔ہانیہ کی بے چینی بتا رہی تھی کہ اس کی منزل قریب تھی۔میں نے منزل اور قریب کردی ۔اور تھوڑا تیز ہونے لگا،لیکن ہانیہ نے روک دیا۔پلیز پرنس اسی ردھم سے کرو،بڑا مزہ آرہا ہے،اسی طرح کرتے ہوئے میرا پانی نکال دو۔جو شہزادی صاحبہ ،میں نے وہیں سرجھکاتے ہوئے کہا۔ہانیہ سسکیاں بھرتے ہوئے ہنسنے لگی۔جہاں کے تم پرنس ہو پلیز مجھے وہاں کی شہزادی نہ بنانا،میں توایسے ہی ٹھیک ہوں،اگر شہزادی بناناہے توپیار کی وادیوں کی بنادو۔ہانیہ نے چاہت سے کہا،ہانی من موہنی۔کیا اسوقت میں چودائی کر رہا ہوں،جان اسوقت میں پیار ہی تو کررہا ہوں۔اور تمھارا یہ پیار مجھے پگھلا رہا ہے،ہانی نے پگھلتے ہوئے کہا۔کوئی بات نہیں ہانی،پگھلے گا تو باہرنکلے گا،میں نے معنی خیز انداز میں کہا۔اور پھر ہانی کی منزل آہی گئی۔میں چوت کی گہرائی میں عضو ڈال کررک گیا۔ہانی نے ٹانگیں میرے اردگرد لپیٹ لیں۔تو میں اس کے کچھ اوپر لیٹ گیا،اور اسکے جسم سے ہیجانی انداز میں پانی نکل رہا تھا۔کچھ پل بعد جب ہانی پرسکون ہوگئی تو ،میں نے پھر وہیں سے سلسلہ چودائی کاجوڑ دیا۔اور اب کی بار میں تیزی سے رگڑائی کر رہا تھا۔لیکن اس سے پہلے میں عضو کوکپڑے سے صاف کرنا نہیں بھولا تھا۔صفائی نہ ہوئی ہوتی تو رگڑائی نہیں پھسلن ہونی تھی۔نہ اندر جانے کا پتہ لگنا تھا نہ باہر آنےکاپتہ چلنا تھا۔اب پتا بھی چل رہا تھااور مزہ بھی آرہا تھا۔ہر لڑکی کی اپنی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں۔جیسے ہانی کی معصومیت بھرا چہرہ اور من موہنی شخصیت اب اس کی جذباتیت کا بھی اندازہ ہورہا تھا۔جذباتیت میں بھی چاہت کا تڑکا لگا ہوا تھا۔میری چودائی سے ہانیہ اب بھی محظوظ ہو رہی تھی جبکہ اس کا پانی نکل گیا تھا۔میرے دھکے پھر اس کاجسم ہلارہےتھے۔عورت کو جس مرد کی چاہت کرتی ہے اسی سے چودائی ے بعد اسے جو راحت ملتی ہے وہ کہیں نہیں ملتی۔پھر اس مرد کی طلب اس کے دل و دماغ میں بڑھ جاتی ہے۔ہانی کا بھی یہی حال ہورہا تھا۔پانی نکلنے کے بعد اس کی طلب میں اضافہ ہوگیا تھا۔مجھے اندازہ تھا جب بھی ہمارا ملاپ ہوگا۔وہ بھرپور ہوگا۔اندر باہر کرتے اب میری سسکیا ں بھی نکل جاتی تھی،کیونکہ میں منزل کے پاس تھا۔اور اضطراری انداز میں دھکے لگا رہا تھا۔آخر میں جواندر باہر ہوتا ہے وہ ارادے سے کم اور بےاختیاری میں زیادہ ہوتا ہے۔میں اوپرتلے دھکے پہ دھکے لگاتے ہوئے ہانیہ پر لیٹ گیا۔میرا پانی ہانی من موہنی کی چوت میں گررہا تھا ۔لیکن سیرابی اس کے جذبات کو ہو رہی تھی۔چاہت کی گھٹا بن کے یوں مجھ میں برس جاؤ۔یہی تو ہانی نے مجھے گنگنا کر کہا تھا۔کچھ دیر اسی حالت میں اندر ڈالے میں لیٹا رہا۔پھر میں پیچھے ہوا۔عضو بھی باہر نکلااور میں ہانی کے ساتھ لیٹ گیا۔ہانی میری طرف پہلو کے بل لیٹ گئی ۔ہانی کی آنکھوں میں وہ بشاشت تھی جواپنے من پسند ساتھی کے ساتھ چودائی کرنے کے بعد آتی ہے۔یہ ایک خوشی کی لہر ہوتی ہےاور طمانیت جیسے سارے جسم میں پھیل جاتی ہے۔بڑا کیف آوار سکون ہوتا ہے۔اپنی زندگی میں بھی اس سکون سے اسوقت گزرتا ہوں جب میرے ذوق کی انتہائی لڑکی مل جائے اور اس کے جسم سے حظ اٹھاتے ہوئے مجھے ایسا ہی سکون ملتا ہے۔ہانی نے ایک ہاتھ میرے گال پررکھا ہوا تھااور مجھے دیکھے جارہی تھی۔اس کے چہرے پر دھیمی سی مسکان تھی۔پرنس تم نے آج مجھے وہ احساس دیا ہے جو میں کھو چکی تھی،میں تمھارا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں ۔کیونکہ میرا اب کبھی بھی سیکس کرنے کا اردہ نہیں تھا،مجھے اس سے نفرت ہوگئی تھی،اس کاسوچنا ہی میرے لیے اذیت بن گیاتھا۔اب مجھے احساس ہورہا ہے جیسے تم نے مجھے میری زندگی لوٹا دی ہے۔ہانی من موہنی اب جانے بھی دو یار،میں نے کچھ بھی نہیں کیا،بس ہم دوست ہیں۔مزے کرو یار۔اچھا تو تمھارا کہنا ہے کہ مزے کریں ۔تو پھر مزے کرتے ہیں۔ہانیہ میرے اوپر آتے ہوئے بولی۔۔میں سمجھ گیا اس کادوبارہ دل کر رہا تھا۔پرنس اب تم آرام سے لیٹ کر میرے ہونٹوں کی حلاوت محسوس کرو۔میں تم جیسا تو نہیں کرسکوں گی لیکن میرے جذبات تمھیں احساس دلائیں گے کہ کوئی تمھیں بے حد چاہتا ہے،ہانی من موہنی نے میرے سینے پر چومنا شروع کردیا۔اور میں سمجھ گیا کہ وہ میری طرح ہی پیرے پورے جسم کوچومنا چاہتی ہے،اپنی شدتوں کا احساس دلانا چاہتی تھی۔ایسی تفصیل بیان کرنے کاکوئی فائدہ نہیں جو صرف محسوس کی جاسکتی ہو۔بس یہی بتانا مناسب ہوگا کہ ہانی من موہنی نے بھی میری طرح میرے جسم کا کوئی ایسا حصّہ نہیں چھوڑا جو اسنے نہ چوما ہو۔اور چوما بھی ایسے تھا جیسے چوم نہیں رہی بلکہ اپنے جذبات کی آگے میرے جسم میں انڈیل رہی ہے۔اس کے پاس یہی موقع تھا مجھے بتانے کیلیے کہ وہ مجھے کتنا چاہتی ہے۔میں اس کیلیے کیا اہمیت رکھتاہوں۔اس کے ہونٹوں کی نرمی ،اس کا انداز ،اس کی جذبوں کی حرارت نے مل کرایسا سماں باندھ دیا تھا کہ میں بھی اس چوما چاٹی کی لہروں میں بہنے لگا۔،میں ہانیہ کے ساتھ اسی لہروں میں بہنے لگا تھااور خود کواس کے سپرد کردیا تھا۔۔دورانِ سیکس کچھ جذبات جسم سے شروع ہوکر جسم پر ختم ہوجاتے ہیں۔پاگل پن ان میں بھی ہوسکتا ہے۔اور کچھ جذبات جسم سے شروع ہوکر دل میں گھر کرلیتے ہیں،ایسی چودائی جو مزہ دیتی ہے وہ اپنی انفرادیت میں لا جواب ہے۔اور مزے میں انمول ہے۔کبھی تجربہ ہوتو میری بات کی سچائی پرکھیے گا۔۔۔

ہانیہ اپنے جذبات سے اپنے انداز سے مجھے پگھلارہی تھی۔اور میں مزے کی اگلی دنیا میں پہنچ گیا تھا جہاں میرا جانا کبھی کبھارہی ہوتا ہے،کیونکہ ایسا ساتھی کبھی کبھار ہی ملتاتھا۔چومتے چومتے اپنے جسم میرے جسم کے ساتھ رگڑتے رگڑتے ہانیہ بھی بے حال ہوچکی تھی،اور اس کے جسم کی آگ اسے آگے بڑھنے پر مجبور کررہی تھی۔اسنے اپنے ہاتھ سے میرا عضو پکڑا اور اسے منہ میں لے لیا۔اور دھیرے دھیرے میرا عضو چوسنے لگی،پہلے تو میں بدمزہ سا ہوا کہ یہ اسنے کیا کِیا۔اتنے بھرپور ماحول کوخراب کردیا ہے۔لیکن پھر جب کچھ دیر گزری تو احساس ہوا کہ ہانیہ یہاں بھی اپنا رنگ قائم رکھا ہوا ہے،وہ عضو تو چوس رہی ہے لیکن مزہ کچھ اور ہی ہے،میں پھر اسی ماحول میں پہنچ گیا،مجھے مدہوشی ہونے لگی،کیونکہ وہ جسم تھا اور یہ عضو حساس ترین جگہ تھی۔یہاں تو پہلے ہی مستی چھائی ہوئی تھی۔جیسے جیسے ہانیہ عضو کو چوستی گئی میری حالت نشے سے ٹوٹنے لگی،ہانیہ میری کیفیت سمجھ گئی تھی،وہ تو خود آگے بڑھنے کیلیے یہاں آئی تھی۔اس نے نرمی اور آہستگی سے ہونٹوں کو عضوکے سے پیچھے کیا پھر اسنے ہیڈ کو چوسااور پھر ہونٹ پیچھے کیااور پھر چوسا۔آہستگی آہستگی سے ایسے ہی عضو کوکیا تو وہ سخت ترین ہوگیا۔میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے چوستے چوستے پانی نکل جائے۔ کیونکہ پانی ہمیشہ نیچے کی طرف ہی جاتے ہوا اچھا لگتا ہے۔(یعنی چوت میں )ہانی بھی اس جگہ پہنچ چکی تھی جہاں اس کی چوت نےلن لن لن پکارنا شروع کر دیا تھا۔ اسلیے ہانی میرے اوپر آگئی،اس نے چوت میں عضو لیا اور مزے کیساتھ سسکاریاں لیتے ہوئے اندر باہر لینے لگی۔ یہ مشہور ترین اسٹائل ہے یعنی عورت مرد کے اوپر (دی کاؤ گرل)اسے ملکہ کا طریقہ (کوئین میتھہوڈ )کہتے ہیں۔ یہ مغرب کا مشہور طریقہ ہے۔مشنری طریقےکے الٹ اس میں کنٹرول عورت کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ا س میں عضومیں شدید تناؤ ہونا ضروری ہے ۔اس اسٹائل میں لڑکی ہر طرح اپنی مرضی سے مزہ لیتی ہے۔زیادہ گرمی والی لڑکی ہو تو اسے عضو پر سواری کرائیں ۔اس کی گرمی نکل جائے گی۔میں سمجھ گیا ہانیہ پہلے بھی یہ سب کرچکی ہے۔لیکن کیا کم کم تھا،کیونکہ چوت تنگ تھی۔شاید اس کا منگیتر ہو،یا کوئی اور بوائے فرینڈ۔ہانیہ اسی لہر میں تھی جواسنے چوما چاٹی سے شروع کرتے ہوئے عضو چوستے ہوئے دکھائی تھی۔اور اب اسی لہر میں یہ اسٹائل بھی اختیار کیا تھا۔ اسی انداز اسی جذبات میں ہانیہ چودائی کرواتی رہی۔آہ میرے پرنس ۔ہانیہ سسکی،ہانی کو مزہ خود بھی دوبالا ہوچکا تھا۔اندر لیتے ہوئے باہر کرتے ہوئے اس کی بے چینیاں عروج پر تھیں۔ شاید اسکی طلب بہت سی چودائی اسی لمحوں میں کرلینا چاہتی تھی۔اسے پتہ نہیں تھا کہ ایسے ہی کرتے کرتے اس کی طلب اسی چودائی میں پوری ہو گی۔میں تھوڑا اٹھ کے نیم بیٹھا نیم لیٹا ہوگیا۔اور ہانی بھی تھوڑا جھک کر عضواندر باہر لینے لگی،اس کا معصومیت بھرا چہرہ میرے چہرے کے سامنے تھا۔اس کی آنکھیں نشیلی تھیں، پرنس کیسا لگا میرا پیار،تم جیسا تو نہیں مگر کچھ توتمھیں میرے جذبات کا احساس کروایا ہو گا۔ہانی کچھ نہیں بہت اچھا تھا،تم نے دل سے کیا تھا اور جو بات دل سے کی جائے و ہ ۔وہ خودبخود بہترین ہوجاتی ہے،اس میں محویت کے ساتھ جذبات شامل ہو جاتے ہیں۔میری بات سے ہانی کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا جیسے اسے کوئی ٹرافی مل گئی ہو۔آہ پرنس۔ہانی نے اندر باہر لیتے ہوئے سسکی لی،اب چودائی کے ساتھ اس کی آوازیں نکل رہی تھیں۔اور وہ چودائی کے سرُور میں آگے پہنچ گئی تھی۔جسم اب خودبخود ردھم کیساتھ چودائی کروا رہا تھا۔جیسے گاڑی پٹری پر چڑھ گئی تھی اور اب آپو آپ بھاگی جارہی تھی۔اسی طرح ہانیہ کا جسم عضو اور چوت کاملاپ کرواتے ہوئے اب بے اختیاری میں کروا رہی تھی۔اندر ،باہر،اندر باہر،اندر باہر،جسم اوپر نیچے اوپر نیچے جسم اوپر نیچے ۔ہانیہ کے ہاتھ میرے سینے پر نرمی سے ٹکے تھے کچھ اس کا سہارا لیا ہوا تھا۔میں سمجھ گیا اسے اب نیچے لے آنا چاہیے،میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو میرا رادہ سمجھتے ہوئے ہانیہ نے میرے سینے پررکھے ہاتھ کادباؤبڑھادیا۔پرنس جانی میں نے کہا تھا کہ اب تم لیٹ کر مزے لو،ہانی نے مسکراتے ہوئے کہا۔اوکے اوکے مین نے پھر پیچھے ٹیک لگا لی۔لیکن ہانی کو بھی اپنے سینے سے لگا لیا۔اسوقت عضو اندر چوت کی گہرائیوں میں جاپہنچا تھا،ہانی میرے دباؤ سے وہیں رک گئی،اس کے ممے میرے سامنے تھے،میں انے انہیں انگور کا گچھا سمجھ کے منہ میں لے لیا۔اور مزے سے کھانے لگا۔ہانی کےممے اچھے تھے ہر جوان لڑکی کے ممے اچھے ہوتے ہیں،ان کی طرف دل للچاتا ہے،یہ مرد کواپنے پاس بلاتے ہیں۔کپڑے پہنے ہوں تو یہی تو ہیں جو چھپ کے شرارتیں کرتے ہیں۔کبھی تھوڑا سا سرباہر نکال کے یکدم پھر چھپ جاتے ہیں،اپنے ہونے کا زبردست احساس دلاتے ہیں۔یہ لبھاتے ہیں تڑپاتے ہیں۔اور جب یہ کُھل کے سامنے آتے ہیں۔تو ہو ش اُڑاتے ہیں۔اور کہتے ہیں ہم چودائی کادروازہ ہیں،، ہم سے دوستی کرو گےتو چدوائی کرپاؤ گے،پھر ہی چودائی کا صحیح مزہ لے پاؤ گے۔میں بھی اسوقت چودائی کا صحیح مزہ لے رہا تھا۔اور ہانی کے ممے چوس رہا تھا،اس کے نپلوں کوچھیڑ رہا تھا۔ہانی عضو کو اندر لیے پہلے ہی بے تاب تھی اب ممے چھیڑنے سے اس کی اندر مزید اتھل پتھل ہو رہی تھی۔میں نے اسے روکے رکھا اور اپنے سامنے سجے ممے چوستا رہا،مموں کوچھیڑتا رہا۔وہ میرے سینے سے لگے ہوئے اپنے جسم کوہلانے لگی،اب وہ اوپر نیچے کی بجائے آگے پیچھے کرنے لگی۔اس کے نرم ممے میرے سخت جسم میں کُھبے ہوئے تھے۔جس طرح بھی کرو۔مزہ تو آتا ہی ہے۔اب بھی مزہ آرہا تھا۔سیدھی سی بات ہے عضو اور چوت کو بار بار گلے ملنا چاہیے،چاہے جیسے بھی ہواور وہ گلے مل رہے تھے۔پرنس تمھار ے بارے میں مشہور ہے کہ تم ایک دل پھینک انسان ہوں،ہاں تو تمھارے پاس دل پھینک دیاہے نہ ،تم اسے سنبھال کر رکھنا،اُوہ ،ہانی اندر باہر لیتے ہوئے سسکی۔کیسے سنبھالوں ۔ایسے ؟ ہانی شرارات سے مسکرئی،وہ رک گی تھی اور عضو اس کے اندر تھا۔ہاں ایسے میں نے نیچے سے تھوڑا سا زور لگایا اور عضو اس کی چوت میں اور اچھی طرح کُھب گیا۔لیکن ایسے تو کام نہیں چلتا ۔کبھی اندر کبھی باہر ہونا چاہیے ،ہانیہ نے پھر اندر باہر لینا شروع کردیا،تو ٹھیک ہے نہ پھر میں تمھارے پاس آتا جاتا (اندر، باہر)رہوں گا ۔پھر تو کام چل جائے گا نہ ،میں نے ذومعنی انداز میں میں کہا۔آہ ہانی لذت سے سسکی،لڑکیوں سے تم چنددن ملتے ہو،لیکن پھر واپس مڑ کر نہیں دیکھتے۔ہانی من موہنی ۔ یہ فضول باتیں چھوڑو یار۔مزے کرو،اچھے دوستوں کو میں کبھی نہیں چھوڑتا۔کوئی اور انداز بناؤ نہ ہانی نے فرمائش کی،اسی حالت میں اپنا منہ ایکطرف کرلو اور اپنی ایک ٹانگ میری دونوں ٹانگوں میں پاؤن بیڈ پر لگا کر گھٹنا تھوڑا کھڑی حالت مین کرو،ہاں اور اپنی دوسری ٹانگ میری بائیں ٹانگ سے اوپر سے بیڈ پر ٹکاؤ گھٹنانیچے کرو،اب یہ میں نے اپنی بائیں ٹانگ کا گھٹنا اوپر کر لیا،تم اسے ایک ہاتھ سے پکڑ لو اور تھوڑا سا منہ میری طرف کرو اور اپنا دوسرا ہاتھ میرے سینے پر رکھو،ہاں با لکل ایسے اور اب چودائی شروع کر دو،ہاں اپنی کمر گانڈ اور ہاتھوں کواستعمال کرو،،اسے کیا کہتے ہیں،ہنی نے چودائی کا مزہ لیتے ہوئے پوچھا اس ا سٹائل کو ۔تھائی ماسٹر۔ کہتے ہیں۔ ،اب عضو پر چوت ایسے چڑھتی تھی جیسے کسی کو بڑی گرم جوشی سے پکڑ کر بانہوں میں بھینچا جائے۔اس چودائی کا مزہ ہی نرالا تھا۔ ہانی میرے سینے پر دباؤ ڈالتی اور اوپر جاتی پھر دباؤ کم ہو جاتا جب وہ نیچے ہوتی،عضو کے مزے تھے،یہ اسٹائل بھی پکڑ اچھی طرح کرواتا ہے،خوب مزہ آتا ہے،ہانی کی پوزیشن ایسی تھی کہ اس کی کمر سے اس کا جسم کمان بنا ہواتھا، ہانی کو شوق تھا سب کچھ خود کرنے کا اسلیے میں نے اس کے شوق کے مطابق ایسی پوزیشن بنوائیں تھی جن میں وہ اوپر آتی تھی۔ان پوزیشن کو وومن ٹاپ پوزیشن کہتے ہیں۔کیونکہ ان میں عورت ٹاپ پر یعنی اوپر ہوتی ہے۔اسٹائل بدلنے کا ایک یہ بھی مقصد تھا کہ ہانی تھکے نہ اور مختلف پوزیشن میں چودائی کا پنا شوق پورا کرتی رہی ۔جان اس میں تو بہت مزہ آرہا ہےہانی نے ااعتراف کیا۔ہاں مزہ تو آئے گا، ہانی ڈیئر۔ اپنے من پسند ساتھی کے ساتھ جس طرح بھی چودائی کریں مزہ تو آتا ہے ۔ اسٹائل تو ہانی کیلیےتھے،ورنہ میں تو اکثر ایک یادو اسٹائل ہی میں چودائی کرتا ہوں۔اب چودائی کے دروان بار بار ردھم توڑنا مزے کیلیے کوئی اچھی بات تو نہیں ہے نہ۔لیکن دوستوں کیلیے کبھی کبھار اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے ،جیسے جیسے ہانی چودائی کرتی رہی ویسے ویسے میں بھی چودائی کو محسوس کرتا رہا۔اور ہانی کی طرف دیکھا تو پھر اسٹائل بدل دیا ۔میں اسی طرح لیٹا رہا وہ اسی طرح اوپر بیٹھی تھی ،فرق صرف یہ تھا کہ اب اس کا منہ دوسری طرف تھا اور کمر میری طرف تھی،اس کے ٹانگیں مڑی تھیں اورگھٹنے بیڈپر مکمل لگے ہوئے تھے۔اور اس کے ہاتھ میری ٹانگوں پر تھے۔اس اسٹائل کو بھی وومن آن ٹاپ (ریورس کاؤ گرل) ہی کہتے ہیں۔۔ ہانی مزے سے آگے ہوتی اور پھر اس کی گانڈ پیچھے ہوتی اور چوت عضو کو گرفت میں لیتی۔میرے اندازے کے مطابق اب منزل پہنچنے تک ہانی نے رکنا نہیں تھا۔جان بہت مزہ آرہا ہے ۔اُف دل کرتا ہے ۔۔دل کرتا ہے۔۔۔کیا دل کرتا ہے ۔۔میں نے پوچھ ہی لیا۔دل کرتا ہے اس شام سے صبح ہوجائے اور پھر صبح سے شام ہوجائے۔ہانی نے اپنی خواہش بتائی۔ٹھیک ہے مجھےتو کوئی اعتراض نہیں ہے ،تم نے ہی کرنا ہے جب تک کرو ،تم نے خود ہی کہا تھا۔کہ میں آرام سے لیٹا رہوں ۔۔اُونہہ ۔۔ہانی نے میرے سینے پر مکا مارا۔بڑے بے رحم ہے ۔تمھیں پتہ ہونا چاہیے لڑکیوں کا خیا ل رکھتےہیں،نہیں تو کبھی مزہ نہیں لے پاؤ گے۔ہانی نے نخرے سے کہا۔مگر کچھ لڑکیاں اپنے محبوب کا خیال رکھتی ہیں۔ہاں تو رکھوں گی نہ۔میری مرضی ہانی نے پیچھے مڑ کرچہرہ میری طرف کیا،۔مگر اسکی چودائی نہیں رکی تھی۔ہانی مزے سے اسی حالت میں چودائی کرتی رہی ۔میرے اندازے کے مطابق اب ہمارا وقت ہونے والا تھا۔ہانی کو منہ دوسری طرف ہونے سے شاید الجھن ہو رہی تھی۔اس نے پھر میری طرف منہ کرلیا۔میں نے اسی حالت میں تھوڑا آگے ہو ااور ٹانگیں بھی اکٹھی کرلیں۔اپنے ایک ہاتھ ہانی کی کمر پر رکھا اور دوسرا اسکی گانڈ پر رکھا۔ہانی نے اپنے ہاتھوں سے میری گردن اور سر کو پکڑ لیا،اب اسی جگہ نیا اسٹائل بن گیا تھا۔ہے تو رومانوی اسٹائل ،لیکن اسکو انگلش میں ۔دی سکوسٹ تھرسٹ ۔کہتے ہیں،اسی طرح ہانی نے چوت میں عضو لیے حرکت کرتی رہی ، کمر سے پکڑ کر اس کے جسم کو سہارا دینے سے ہانی آہستگی سے اوپر نیچے ہوتے ہوئے اندر باہر لینے لگی۔۔ایسے ہی ہانی چودائی کروتے ہوئے یکدم سسکنے لگی،اور اس کا جسم میرے سہارے کے بغیر چودائی کرنے لگا،میں تو اس کی کیفیت سے سمجھ گیا۔کہ پانی نکلنے والا ہے۔ہانی اپنے جسم کو آہستگی سے حرکت دیتے ہوئے جب بھرپور ہوگئی تو اسنے مجھے بانہوں میں لے کر گلے لگالیا،،میں نے بھی اسے بانہوں میں بھر لیا،اورہانیہ کے سانس گہرے تھے، تھی،اور اس کے جسم میں کچھ وائبریشن تھی۔لذت سے بھرپور جذباتی چدوائی نے اس کے جسم سے اچھا خاصہ پانی نکالا۔جب اس کا جسم پرسکون ہوگیا ۔اور اب میں نے چودائی کا ارداہ کیا تو اسنے بڑے انداز میں میرے چہرے کے سامنے اپنی انگلی انکار میں ہلائی اور مجھے سجھایا کہ یہ کام اِسی نے مکمل کرنا ہے۔کوئی اور اسٹائل بنوا دو،ہانی نے سرگوشی کی۔میں اسی انداز میں پھسلتا ہوا بیڈ کے کنارے پر آگیا اور ٹانگیں نیچے لٹکا لیں لیکن پہلے وہیں کپڑے سے عضو اور ہانی کی چوت صاف کر لی تھی۔ ہانی کی ٹانگیں دوہری کیں اور اس کے کچھ گھٹنے بیڈ پر لگنے لگے۔میں نے اپنے ہاتھوں سے اسکی کمر کوگھیراڈال لیا،اور اپنا چہرہ اسکے مموں سے لگالیا،ہانی کے ہاتھ میرے سر کوتھامے ہوئے تھے،اس اسٹائل کوانگلش میں دی لیپ ڈانس کہتے ہیں۔اور فیس آف بھی ۔کیونکہ اس سے ہم دونوں کا چہرہ ایکدوسرے سے چھپ گیا تھا۔اب ہانی آہستگی سے عضو پر اپنی چوت سے رگڑائی کرنے لگی۔میں اسکے مموں کی مہک کوسونگھنے لگا،اس طریقے سے بھی مزہ ملتا ہے کیونکہ ہر لڑکی کے جسم کی اپنی مہک ہوتی ہے،اور اس مہک کو بار بار محسوس کرنے کو دل کرتا ہے۔لیکن زیادہ تر یہ جذباتی حالت میں ہوتا ہے۔میری منزل کوئی اتنی دور نہیں تھی، کہ ہانیہ کوزیادہ محنت کرنی پڑتی،بس میں آنے ہی والا تھا،اس اسٹائل میں جسم جڑے ہوتے ہیں تو عضو بھی چوت کی مہربانیوں سے پورا بھیگا ہوتا ہے۔جیسے جیسے ہانی چوت سے عضو کو سہلاتی اسے چوت میں دباتی،ویسے ویسے عضو کی حساسیت بڑھنے لگی۔گانڈ اور کچھ گھٹنوں کے سہارے ہانی اچھا مزہ دے رہی تھی۔اوہ،عضو کی حساسیت بڑھ گئی۔ہانی میں آرہا ہوں ،آجاؤ میری جان ہانی نے مجھے کس لیا۔اور تھوڑا نیچے ہو کر بیٹھ گئی ۔ میرا پانی نکل نکل کر ہانی کی چوت میں ایسے جانے لگا ۔جیسے ٹیوب ویل کے لمبے سے پائپ سے پانی نکلتا ہے اور کھیتوں میں جا گرتا ہے،وہاں بیج کو پانی لگتا ہے تو وہ بڑھتا ہے۔جیسے لڑکی کا پیٹ بڑھتا ہے ،،سمجھ رہے ہیں نہ آپ۔لیکن میں اس بات کا بڑا خیال رکھتا ہوں۔ٹیبلٹس،انجیکشن ۔اور ان اسے کام نہ چلےتو ابارشن ہی کروا دیتا ہوں۔وہ کیا ہے کہ کئی طرح کی لڑکیاں ملتی ہیں۔اور کچھ کی نظر میری دولت پر ہوتی ہے۔اسلیے کوئی اس کو مجھ سے چھپانا چاہے تو ان کا مس کیرج بھی ہوجاتا ہے۔ان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ یہ میرا ہی کام ہے۔وہ تو بس میرے ساتھ مزہ لے رہی ہوتی ہیں۔ہانی اور میں پھر ساتھ ساتھ لیٹ گئے۔ہانی میرے پاس دوپہر کو آئی تھی اب شام ہوگئی تھی۔ہم گھنٹہ تو باتیں کرتے رہے ۔ پھر ہم واش روم میں چلے گئے، وہاں مل کر نہائے ۔جسموں کو صاف ستھرا کیا۔پھر ہم نے کپڑے پہنے۔ہمیں کچھ بھوک لگی تھی۔ پرنس میرادل کر رہا ہے کہ میں کچھ خود بناؤں، میرے خیال میں یہ کام اسکے بس سے باہر تھا۔پھر بھی اسکی دل شکنی سے بچنے کیلیے میں نے نوڈل کے پیکٹ نکالے اور اسے تھما دیے ۔ساتھ ہی فرج سے گوشت کے بھنے ہوئے ٹکڑےلے آیا۔ابلنے کیلیے پانی میں نے رکھا۔ ہانی نے اسمیں نو ڈل ڈالے میں نے تھوڑا زیادہ پانی رکھا تھا کیونکہ مجھے بالکل خشک نوڈل اچھے نہیں لگتے تھے۔ ہانی چہکتی رہی۔ اس کے چہرے پر چمک تھی۔آنکھوں میں کچھ خواب جنم لے رہےتھے۔پانی خشک ہو رہا تھا جب میرے ذائقے کے مطابق نوڈل ہوگئےتو میں نے اسمیں گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ڈال دیے جو ابھی ہانیہ نے کیےتھے۔کچھ دیر اسے ہلکی آنچ پر پکایا اور پھر برنر بند کردیا۔ہم نے مل کر نوڈل کھائے،بلکہ ایکدوسرے کوکھلائے بھی۔پرنس کیسا لگ رہا ہے۔مجھےتو بہت مزہ آیا۔ہانی نےکہا۔تم نے اچھے نوڈل بنائے ہیں۔ میں نے ہانی کی تعریف کی۔ پرنس کتنی عمر ہو گی تمھاری۔24 سال ۔اچھا لیکن تم تواپنی عمر سے بڑے لگتے ہو۔شاید جسمانی طور پر بڑے لگتے ہو۔ ۔ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے میں نے اپنے جسم کو کافی مشقت میں ڈالے رکھا ہے،تم دیکھتی نہیں میرا جسم فولاد ہے،میں نے مزاحیہ انداز میں اپنے مسلز دکھاتے ہوئے کہا۔۔سچ بتاؤ نہ کتنی عمر ہے تمھاری؟

( میں اسے کہتے کہتے رہ گیا کونسی عمر ،جسمانی یا ذہنی ؟ لیکن یہ سوال اس کیلیے نہیں تھا۔۔اسے کیا بتاتا کہ چھوٹی سی عمر میں مجھے کیا سے کیا بنا دیاتھا۔اور اب ذہنی طور پر تو شا ید میں بوڑھا ہوگیاہوں)

۔۔۔ہانیہ چہرہ خیالات کا عکس ہوتا ہے۔اور جب خیالات شدید ہوں ہروقت ان میں مگن رہا جائے تو چہرے ایسے ہی سنجیدہ ( میچور ) ہو جاتےہیں۔میں نے بڑی مصروف ( رِچ لائف )زندگی گزاری ہے۔اور چھوٹی عمر میں مجھے بہت کچھ مل گیاتھا، تب مجھ میں شدتیں آگئی تھی۔بہت زیادہ شدتیں ۔اب میں نارمل ہورہا ہوں،اور زندگی کسی کنارے لگنے لگی ہے۔ خیالات کی شدتوں کو سکون ہوگا تو چہرہ بھی پُرسکون ہوجائے گا۔۔خیر مجھے تمھاری لائف بارے کا تو کچھ نہیں پتہ لیکن اتنا جانتی ہوں کہ یونیورسٹی دور میں تو تم لڑکیوں سے بھاگتے تھے پھر یہ اچانک لیڈی کلر کیسے بن گئے۔ اب میں اسے کیا بتاتا۔ہانی2008 میں جوسلین گزر گئی تھیں ۔ان کے بعد میں آزاد زندگی گزارنے لگا،اور سیکس ہی میری واحد مصروفیت بن گئی،یوں سمجھ لو کہ مجھے چھوٹی عمر میں بہت کچھ مل گیا تھا ۔اور مجھ میں شدتیں ہی شدتیں آگئی تھیں۔اور ان شدتوں کانکاس سیکس کی صورت میں ہونے لگا۔ 

(شاید میں بہت زیادہ بہک گیا تھا یا میرے دماغ میں کوئی ایسی نفسیاتی گرہ پڑ گئی تھی جو نکالے نہیں نکلتی تھی۔۔ڈیول کے واقعہ کہ تین مہینے بعد مجھے نگینہ مل گئی تھی ۔نگینہ سے بدلے کے بعد مجھے قرار آنے لگا۔اور میرے دماغ کی نفسیاتی گرہ کھل گئی۔بقول میرے استاد کے ایک دن میں یہ خرافات چھوڑ دوں گا۔ اس نے سچ کہا تھا کیونکہ نگینہ سے ملنے کے بعد میری شدتوں میں کمی آنے لگی ۔ خرافات کم ہونے لگی۔اور زندگی کسی کنارے لگنے لگی) ۔

اور میں لیڈی کلر مشہور ہوتا گیا،یا بدنام کہہ سکتی ہو۔2009 سے ابتک تمھیں چوتھا سال جا رہا ہے۔تقریباً 4 سال میں اتنی شہرت /بدنامی کیسے ،ہانی حیران ہوگئی،تمھارے بارے میں تو مشہور ہے کہ سینکڑوں سے لڑکیوں سے دوستی بناچکے ہو۔ہانی سال میں 365 دن ہوتے ہیں ۔تو 4 سال میں میں 1460 دن ہوگئےاگر راتیں بھی شامل کر لو 2920 دن اور راتیں ہوگئیں ۔ہررات ایک لڑکی بھی ملے تو 1825 تو ہو جائیں گی۔مگر اتنی لڑکیاں کیسے ممکن ہے۔ہانی حیران ہوگئی۔اتنی تو نہیں لیکن کافی زیادہ لڑکیاں کہہ سکتی ہو۔پھر بھی یہ کیسے ممکن ہے۔۔کیا لڑکیاں کو پیسے دیتے ہو؟ دولت تو بے شمار ہے تمھارے پاس۔۔ہانی اس دنیا میں پیسے میں بڑی کشش ہے پیسا دیکھ کر آتی تو ہیں لیکن میں ایسے کاموں پر پیسہ ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھتا ۔۔۔۔۔اور ۔۔۔اور کیا ہانی نے پوچھا۔اب میں اسے کیا بتاتا کہ مقناطیسی جنسی کشش ہی تو ہے جو سب کوکھینچ لاتی ہے اور اسے بھی کھینچ لائی ہے۔اسی لیے تو میں کسی کی محبت پر یقین نہیں کرتا ۔۔ اور تمھاری شخصیت میں بڑی جاذبیت ہے،تمھارے چہرے کی سنجیدگی نے اس جاذبیت میں اضافہ ہی کیا ہے،ہانی نے اندازہ لگایا، ہاں کہہ سکتی ہو۔ اب شکرخورے کو تو شکر مل ہی جاتی ہے۔میں نے جن سے سیکس کیا وہ بھی چودوائی کی شوقین تھیں۔ایک کے بعد ایک آتی گئی ۔یہ بھی ہوتا تھا ۔کہ دن کوکسی ایک لڑکی کوچودا ہے تو رات کو دوسری لڑکی کے ساتھ ہوتا تھااور اگلے دن کسی اور کے ساتھ۔پارٹیز /ہوٹلوں /کلبوں /آورہ گردی میں میری راتیں گزرتی تھیں،۔تو۔۔۔جناب۔۔۔اب ۔۔۔۔۔آگے۔۔۔۔ کیا۔۔۔ارادے ۔۔۔ہیں ؟ شاید ہانی نے اسی سوال کے لیے گھما پھرا کے بات کی تھی۔یہی سب کچھ کریں گے اور اسٹیٹ آف سیکس کے شہزادے نےکیا کرنا ہے۔ہانی کے چہرے پر سایہ سا لہرایا ۔اب میں اسے کیا بتاتا کہ میری شدتوں نے بامقصد زندگی کا رستہ چن لیا ہے۔باسل اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔اور یہ سلسلہ اب پتہ نہیں کہاں تک جانا ہے۔کبھی اس زندگی سے نکل کر کسی کے ساتھ زندگی گزارنے کا نہیں سوچا۔آخر ہانی نے ڈائریکٹ سوال کر ہی دیا۔ نہیں ابھی میری عمر ہی کیا ہے،میں نے شرارت سے کہا۔سنا ہےتم کچھ لکھتے بھی ہو۔میں نے دیکھا ہے تمھارا ایک کمرہ کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔اوہ یہ سب ،،یہ تو مجھے فلیٹ کے ساتھ ہی ملی تھیں۔تم نے شاید فارسی کی وہ کہاوت نہیں سنی کہ ایک من علم کیلیے دس من عقل چاہیے۔۔اپنا کتابوں سے کیا واسطہ ،مجھے تو کتابوں کے نام سے ہی الجھن ہونے لگتی ہے ۔میں نے سرپکڑتے ہوئے کہا۔۔ہاں سچ کہا ۔کتابیں دیکھ کر میرے توسر میں درد ہونے لگتا ہے۔میں نے بڑی مشکل سے یونیورسٹی سے پیچھا چھڑایا تھا تب سے اب تک سکون ہی سکون ہے۔ہانی نےگہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔ ہانی کے انداز پر ہم دونوں ہی ہنسنے لگے۔اچھا ایک بات تو بتاؤ یونیورسٹی میں جب تم آخری بار چند دنوں کیلیے دیکھے گئے تھے تو تم ایک لڑکی غزل اور تم اکثر اکٹھے ہوتے تھے ۔سب یہی سمجھتےتھے کہ تم دونوں محبت کرتے ہو۔یہ بات اسوقت اور بھی تصدیق شدہ ہوگئی تھی جب تم نے یونیورسٹی چھوڑی تو غزل بھی یونیورسٹی چھوڑ گئی تھی۔ لیکن اب مجھے تمھاری زندگی میں غزل کا کوئی نام و نشان نہیں نظر آرہا ہے؟۔۔۔مایوسی کے بعد اب ہانیہ نے طنز ہی کرنا تھا۔ ۔۔ہانی اب تمھیں کیا بتاؤں ؟میں نے اپنی آوارہ گردی میں اسے بھی کھو دیا۔۔۔ہانی میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگی ۔۔اوکے پرنس میں چلتی ہوں ۔۔ ہانی من موہنی جاتے ہوئے میرے گلے لگی،اور میرے کان میں کہا۔ ۔۔۔۔۔

کاش تم ایک پلے بوائے نہ ہوتے۔

آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی 

ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں

ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا

کوئی بت، کوئی خدا یاد نہیں

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی