پلے بوائے (قسط 11)

 

 


دوسرا خاص واقعہ یہ ہوا تھا کہ ماڈل تندرست ہوگئی تھی اس نے مجھ سے نیلم کے ذریعے رابطہ کیااور مجھے ملنے آئی ،ایسے پیشہ ور لوگ۔ڈوبتے جہاز کو چھوڑ کر نئے جہاز پر بیٹھنے کے عادی تھے۔لیکن مجھ سے انہیں کچھ نہیں ملنے والا تھا۔پرنس ۔جو بھی ہم میں غلط فہمیاں ہوگئیں ان کی معذرت چاہتی ہوں۔ماڈل خصوصی تیاری سے آئی تھی۔ ماڈل کو دیکھ کر بندہ خوامخواہ جنسی ہیجان میں مبتلا ہوجاتا ہے،۔میں سمجھ گیا تھا کہ وہ کس ارادے سے آئی تھی۔پرنس میں چاہتی ہوں آپ میری طرف سے دل صاف کرلیں ۔میں چپ ہی رہا۔تو وہ اٹھی اور میرے پیروں میں آکر بیٹھ گئی۔بیٹی ماں سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔یہ کیا اٹھو یہاں سے ۔نہیں جب تک آپ میری طرف سے دل صاف نہیں کریں گے میں یہیں بیٹھی رہوں گی۔میں سمجھ رہا تھا کہ یہ سب اداکاری ہے۔لیکن اب اصل گناہگار تو پکڑا گیا تھا ۔ماڈل کو کچھ کہنے کا فائدہ نہیں تھا۔ایک کال گرل کا کیا ہے آج اس کی گود میں اور کل کسی اور کی گود میں۔میں نے سر ہلادیا تو ماڈل میرے پیر چومنے لگی۔یہ بھی اس کی اداکاری کی انتہا تھی،کیونکہ پیر چومتی چومتی اور ٹانگیں چومتی وہ اوپر آگئی اور پینٹ کی زپ کھول کر عضو چوسنے لگی۔لو جی کھیل شروع ہوگیا۔اب یہ کہنا تو فضول ہے کہ ماڈل بڑی ماہر تھی۔کیونکہ یہ اسکا پروفیشنل تھا۔میرا عضو اس کو سلامی نہیں دے رہا تھا۔لیکن ماڈل نے عضو کو غصہ دلا ہی دیا۔اور عضو تن کے کھڑا ہو گیا۔تو ماڈل نے میری پینٹ اتار دی۔اور کھڑے ہو کر اپنے کپڑے اتارنے لگی۔ننگی ہو کر لہراتے ہوئے گھومتے ہوئے اسنے اپنے جسم کے جلوے دکھائے۔میں تو اسے کپڑوں میں دیکھ کرہی سمجھ چکا تھاکہاسکا جسم ایسا تھا کہ بندہ خوامخواہ جنسی ہیجان میں مبتلا ہوجاتا تھا۔ایسے ہی تو وہ ٹاپ کی ماڈل نہیں بن گئی تھی۔میں نے اسے صوفے پر ہی ڈوگی بنایا اور گانڈ کی طرف سے چوت میں ڈال کر چودائی شروع کردی۔وہ صوفے کہ ہتھے پر اپنے ہاتھ ٹکائے تھوڑا سا ترچھا ہو کر گانڈ میری طرف نکالے ڈوگی بنی بیٹھی تھی۔ میں بتا چکاہوں کہ صوفے پر بڑی چودائیاں ہوچکی ہیں۔ بیڈروم میں ۔کچن میں ۔واشروم میں ۔بس ایک بیسمنٹ ہی بچی ہوئی ہے وہاں میں کسی کو قدم ہی نہی رکھنے دیتا ۔ماڈل کی گانڈ پر ہاتھ رکھے میں کھڑے ہو کر چودائی شروع کر چکا تھا۔ویسے تو میں اس اسٹائل کو گھوڑی(ہورسیس اور پرنسیس میں اایک جیسی صوتی تاثرات آتے ہیں ) اسٹائل کہتا ہوں ۔لیکن کچھ لڑکیاں کیلیے ڈوگی لفظ ہی ٹھیک لگتا ہے۔ماڈل میرے پاس آتو گئی تھی لیکن اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔پہلے تو ماڈل چسکے میں سسکاریاں لے رہی تھی۔آخر وہ پرنس سے چودائی کروا رہی تھی۔پھر میں اپنی جھٹکے اور رفتار دونوں ہی تیز کرتا گیا۔ڈوگی اسٹائل میں تو جھٹکا ویسے بھی زیادہ لگتا ہے،کیونکہ چوت میں گہرائی تک عضو جاتا ہے۔میرے طاقتور دھکوں سے ماڈل مزہ لینے لگی۔لیکن یہ مزہ کیلیے نہیں تھے۔یہ درد دینے کیلیے تھے۔اور ماڈل کواس کا احساس ہوچکا تھا۔پہلے تو آہستہ اہستہ کراہنے لگی۔پھر اس کی آہیں بلند ہونے لگی۔میں نے تورکنا نہیں تھا۔تو پھر ظاہر ہے ماڈل نےاب چیخنا ہی تھا۔جیسے جیسے وہ چیختی گئی،میرے دل کوسکون آنے لگا۔اور مجھے چودائی میں سرُور آنے لگا۔میں نے کہا نہ کچھ لڑکیاں کیلیے لفظ ڈوگی ہی صحیح ہے۔شاید کسی نے اس اسٹائل کا نام تبھی رکھا ہو جب اسنے کسی (بِچ )کو چودا ہو۔اہو پرنس۔اوہ پرنس،ماڈل چلا رہی تھی۔لیکن اتنی سمجھداری اسمیں تھی مجھے رکنے کا نہیں کہہ رہی تھی۔میں نے درد کو بے درد کردیا۔یہ جو تراکیب ہیں ان کو( اِیول تیکنیکس )کہتے ہیں،کچھ اس میں میری طرف سے بھی اضافہ ہوا ہے۔شیطانی تراکیب ہونے کی وجہ سے یہ عام نہیں ہیں ۔صرف اساتذہ کے پاس ہوتی ہیں۔اور باقی وہ اس میں اپنے تجربے سے اضافہ کرتے ہیں اس طرح ان تراکیب کی بناوٹ ہوئی تھی۔ماڈل سے اب چیخا بھی نہیں جا رہا تھا۔اور جسم کانپنے لگ گیا تھا۔مگر میں بے رحمی سے چودتا رہا۔اور ماڈل ڈوگی اسٹائل میں کھڑی نہ رہ سکی۔چوت کا برا حال ہوچکا تھا۔میں صوفے پر ٹانگیں لمبی کر کے لیٹ گیا،اور اسے اوپر انے کا اشارہ کیا۔مرتی کیا نہ کرتی ،ماڈل عضو پر کانپتے جسم سے بیٹھ گئی۔چلو اب تم اپنی مرضی سے چودائی کرو۔یہ نہ کہنا پرنس نے مزہ نہیں دیا تھا۔یہ چودائی اس کیلیے ایک اور سزا تھی۔کیونکہ جب چوت ایک زخم بن چکی ہوےتو دوسرا تو جو مرضی زبردستی کرتا رہے مگر اپنی مرضی سے چودائی کروانا بڑا عذاب بن جاتا ہے۔بہرحال ماڈل نے جیسے تیسے یہ مرحلہ طے کر ہی لیا۔اسکی برداشت کی داد دینی پڑے گی۔وہ عضو پر چڑھے چودائی کرواتی رہی۔لیکن یہ تھا کہ اسنے میری عضو کو ایک بار بھی دبایا نہیں تھا،مجھے اس نے مزہ ہی دیا تھا۔مجھے مزہ دیتے دیتے آخر میرا وقت آہی گیا،اور میرا پانی نکل گیا۔اب ماڈل کا پانی تو کیا نکلنا تھا۔اس کی ساری شہوت تو ہوا ہو گئی تھی،جیسے تنا ہوا عضو یکدم ڈھیلا پڑ جائے تو پانی کہاں سے نکلنا ہے۔ ماڈل کا سب کچھ پروفیشنل تھا ۔بہرحال جسمانی طور پر کہیں تو اس نے مجھے مزہ دیا۔ ۔جاتے جاتے اسنے اپنی اوقات دکھا دی ۔پرنس آپ نے فلمی دنیا میں بھی وقت گزارا ہے اور آپ کی کافی جان پہچان ہے تو اگر مجھے کوئی فلم دلوا دیں تو کنیز آپ کی ساری عمر نوکری کرے گی۔وہ اس وقت کی بات کر ہی تھی جب دریا چڑھا ہوا تھا۔(جوسلین کی وفات کے بعد تین سال تو دریا میں اونچے درجے کا سیکسی سیلاب آ گیا تھا،2012 کے آخر میں یہ سیلاب اترنا شروع ہوگیا تھاکیونکہ میں نے بالآخر نگینہ کو شکار کرہی لیا تھا)اور میں نے اس دنیا میں بھی چار پانچ ماہ گزارے تھے۔ماڈل کے ارادے سامنے آگئے تھے۔میں نے اسے چلتا کیا اور پھر اس سے نہ ملا۔۔مجھے بازاری چیزیں پسند نہیں تھیں

تیسرا خاص واقعہ یہ ہوا۔کہ اسی ہفتے میں تنویر نے مجھ سے رابطہ کیا۔سر فادر نے کسی کو آپکے قتل کا ٹارگٹ دیاہے،اندازہ ہو رہا ہے کہ کوئی بہت ہی خطرناک بندہ ہے،مگر تنویر پرسوں رات سے فادر تمھارے پاس ہے اس نے خطرناک بندے سے رابطہ کب کرلیا؟سر اس نے یہ ہم سے ملنے سے پہلےکیا تھا۔فادر کے ذہن میں کہیں تھا کہ ہوسکتا ہے وہ ناکام ہوجائے ،اس لیے اس نے یہ بندوبست کیا تھا کہ اگر وہ اس دن شام کو اس قاتل سے رابطہ نہ کر سکے تو وہ پرنس کو قتل کرد ے۔ہم تو فادر سے معلومات لے رہے تھے ۔کہ وہ تشدد کی وجہ سے ہذیانی انداز میں خود ہی بک پڑا کہ تم لوگ جو مرضی کر لو اب تمھار ا پرنس نہیں بچے گا۔پھر اس نے زبان ہی سی لی اور تشدد سے ہمیں کچھ نہیں بتایا۔ مجھے اس کی خاموشی سے سنگینی کا احساس ہوا تو میں نے اس پر تشدد کی انتہا کردی۔اور فادر کو آخر بولنا ہی پڑا۔سر ا س نے جو کچھ بتایا تھا وہ نہایت خطرناک ہے۔تنویر نے تشویش سے کہا۔ تنویر پریشان تھا تو کوئی خاص ہی بات تھی۔تنویر مجھے پوری بات نہیں کررہا تھا،جیسے وہ آگاہ بھی کرنا چاہتا ہو اور بتانا بھی نہ چاہتا ہو۔تنویر جو بات ہے کھل کربتاؤ ۔اور اب سسپنس ختم کرو اور اس کا نام بتاؤ۔جسے فادر نے میرے قتل کا سودا کیا ہے۔سر آزاد علاقے کی دہشت (جانور)،تنویر نے چار لفظ کہے۔ میرے یاداشت میں اخبار کی ایک خبر لہرانے لگی۔پچھلے سال اس نے ایک امریکی ٹورسٹ گروپ اغوا کرلیا تھا۔ اور امریکی حکومت باوجود کوشش کے اسے ان علاقوں میں نہ ڈھونڈ سکی تھی۔کوئی اس کا نشان نہیں تھا کیونکہ اس کی مخبری کرنے سے پہلے وہاں کہ لوگ ہزار دفعہ سوچتے تھے۔ یہ بھی ہوسکتاتھا امریکی حکومت کو بھی اس کیلیے ڈاج دیا گیاہو ۔دونوں طرح سے ہی اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا تھا۔تب میں نے اس کے بارے میں معلوم کیا تھا۔ یہ آزاد علاقے کا ایک انسان نما جانور تھااور نہایت خطرناک تھا قتل وغارت اس کا محبوب مشغلہ تھا۔اور گولہ بارود اس کے کھلونے تھے۔وحشت اور خونریزی اتنی زیادہ تھی کہ اس کا نام ہی دہشت بن گیا تھا۔،نہ جانے کتنی معصوم جانوں کا قاتل۔قانون کے کئی رکھوالے اس کی بربریت کا نشانہ بن چکے تھے،انسانوں کو مکھی کی طرح مسلنا اس کی سرشت تھی ،عورتوں کوچودتا نہیں تھا بلکہ ذبح کرتا تھا۔اس کی جسمانی طاقت کے افسانے مشہور تھے وہ انسان کو بازوؤں میں جکڑ کر توڑ پھوڑ دیتا تھا۔سر فادر نے یہاں کے ایک اور بدمعاش سے رابطہ کیا ہوا تھا۔اور جانور نے اسی سے ملنا تھا اور دونوں نے آپ کوٹارگٹ کرنا تھا۔ہماری معلومات کے مطابق اب وہ کسی بھی وقت پہنچ سکتا ہے۔تنویر جیسے ہی وہ اس بدمعاش کے پاس پہنچے مجھے فوراً اس کی اطلاع دینا،اور تم نے کوئی ایڈوانچر نہیں کرنا۔سمجھ رہے ہو نہ میری بات۔سر ہماری تیاری مکمل ہے،اسی لیے تنویر نے عین موقع پر مجھے اطلاع دی تھی۔شاید وہ نہیں چاہتا تھا کہ میں جاؤں ۔میں نے کہا نہ تم نے کوئی ایڈوانچر نہیں کرنا۔صرف مجھے بتانا ہے۔ کہ وہ کہاں ہے۔۔اوکے سر۔تنور نے بے دلی سے کہا۔سر ایک بات اور کہنی تھی۔تشدد سے فادر کا بچنا مشکل لگ رہا ہے۔میں سمجھ گیا میری زندگی کو خطرہ دیکھ کر تنویر نے اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی تھی۔تنویر اس کے ساتھ جو لوگ پکڑے تھے ان کاکیا کِیا تم نے؟ سر انہیں تو ایس ایس پی کے حوالے کر دیا تھا۔تو پھر ایسا کرو فادر بھی اس کے حوالے کرو۔اس کے پاس فادر کیلیے کافی کچھ موجود ہے ۔آگے زندہ بچتا ہے یا نہیں اب یہ اس کی قسمت۔اوکے ۔میں سوچنے لگا۔ جا نور خطرے کی بُور دور سے سونگھ لیتا تھا۔۔اسے نگرانی کی بِھنک پڑ سکتی تھی،بڑی بھیا نک چیز تھا۔میں نے گاڑی نکالی اور اس بدمعاش کے ٹھکانے کی طرف دوڑا دی جس کے پاس جانور نے آنا تھا۔وہاں کافی فاصلے پر مجھے کمال نظر آگیا۔تنویر نے اسے وہاں بھیجا تھا تا کہ جب بھی جانور آئے تو وہ مجھے بتائیں۔ میں نے کمال سے رابطہ کیا۔کمال تم نے چلے جاؤ۔میں سنبھال لوں گا۔کمال چلا گیا۔اور میں نے گاڑی کو مین گلی کی طرف کھڑا کر دیا۔جو بھی اس بدمعاش کی کوٹھی کی طرف جانا چاہتا اسنے اسی طرف سے آنا تھا۔میرا انداز ایسا تھا جیسے یہاں کوئی لڑکی ہے اور اس ے میرا رابطہ ہے ۔اورمیں اس کا انتظار کررہا ہوں۔ایسے کاموں کی مجھے ویسے بھی بڑی ایکٹنگ آتی تھی۔مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا۔ایک پراڈو کو دیکھ کر میری دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئی۔میں سمجھ گیا اس میں میرا شکار ہے۔فرنٹ سیٹ پر کوئی بڑے ٹھسے سے بیٹھا ہوا تھا میں نے اس کی آنکھوں سے اسے پہچان لیا۔ ۔آزاد علاقے کی دہشت ۔امریکہ کو مطلوب ۔اس نے بڑے بڑے بالوں کو فوجی کٹنگ ،بڑی بڑی مونچھوں کو نہ ہونے کے برابر اور گھنی داڑھی کو ٹھپ دیکر بالکل چھوٹا کردیا تھا۔اس کی داڑھی اور مونچھیں لال رنگے ہوئے تھے اور بڑا سا پگڑ سر پر بندھا ہواتھااس کی رنگت بھی بدلی ہوئی تھی۔اور لباس بھی ۔ وہ با لکل نہیں پہچانا جا رہا تھا۔وہ کوئی بڑا سردار لگ رہا تھا۔ویسے بھی اس کی اخبارات میں یا قانون کے پاس اس کی کافی پرانی جوانی کی تصویر تھی۔اور اس میں اب کافی تبدیلیاں آچکی تھیں ۔میں نے اس پر بس سرسری نظر ڈالی تھی زیادہ دیکھتا تو اس جانور نے فوراً میری طرف تاڑنا تھا۔اور اس کی نظر بھی غیر معمولی تھی۔جیسے ہی وہ کوٹھی میں داخل ہوئے ۔میں نے کار کو ایک سائیڈ پر لگایا اور پیدل ہی کوٹھی کی طرف چل پڑا۔کوٹھی کے گیٹ کے پاس پہنچ کر میں رک گیا۔اور اندر کے ماحول کو محسوس کرنے لگا۔میں فوری طور پر فیصلہ کر چکا تھا۔جانور کو ابھی اسی وقت اپنے درشن کروانے تھے۔اس کیلیے کیسی حیرانگی ہو گی جسے وہ قتل کرنے آیا ہے وہ اس کے پاس خود آگیا ہے۔میرے اندازے کے مطابق دوسری طرف دو گارڈ تھے۔ایک گیٹ کے پاس تھا جبکہ دوسرا اس سے کچھ دور تھا۔دونوں عام گارڈ محسوس نہیں ہورہے تھے میں نے ہولے سے گیٹ بجایا کہ اندر بیٹھے جانور تک نہ پہنچ جائے۔فوراً چھوٹا دوازہ کھلتا محسوس ہوا ۔میں اچھلا اور ٹھیک دوسرے گارڈ کے پاس اندر جا اترا ۔اس سے پہلے وہ کچھ کرتا اس کی گردن پر میرے انگھوٹے کے مخصوص دباؤ نے اسے بے ہوش کردیا۔ وہ کئی گھنٹوں کیلیے بے ہوش ہوگیا تھا۔ووہ نیچے گرا تو میں نے اس کی گن پکڑ لی اور اسے ہاتھ سے اتنا سہارا دے دیا تھا کہ نیچے گرتے آواز نہ آئے،اور گن کندھے سے لٹکا لی۔اتنے میں پہلے گارڈ نے واپس سر اندر کیا اور دروازہ بند ہی کیا تھا۔کہ میں اس کے پاس تھا،اگر وہ مجھے محسوس کر جاتا تو میری مہارت ہی کیا تھی ؟اس کی کنپٹی پر میری مڑی انگلی پڑی اور میں نے اس کا گرتا جسم سنبھال لیا اور دوسرے سے گن پکڑ لی ۔میں نے اسے بغل میں ایک ہاتھ سے اٹھایا اور اسے جیپ کے نیچے ڈال دیا،گن بھی وہیں رکھ دی لیکن میگزین نکال کے کیاریوں میں پھینک دی۔اسی طرح دوسرا بھی وہیں جیپ کے نیچے گھسا دیا ۔کوٹھی میں بھیانک خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔میری حسّیات پوری طرح جاگی ہوئی تھیں۔انسان کی سونگھنے کی حِسّیں 30 ہیں اور کتے کی50 ہیں اور بھیڑیے کی 500 ہیں۔لیکن انسان جب اندرونی حسِّیں بیدار کر لےتو جانور پیچھے رہ جاتے ہیں ۔اور میری تربیت یافتہ حِسّیں اس وقت کوٹھی میں ہر سانس لینے والے کو محسوس کر رہی تھیں۔۔کل سات انسان مجھے یہاں محسوس ہو رہے تھے۔میں نے سوچاان میں دو ملازم ہوں گے۔ایک میزبان ہوگا۔اور چار آنے والے مہمان ہو ں گے۔اندازاً یہ سب انتہائی رازادری برتنے کیلیے کیا جا رہا تھا۔میں نے کبھی ہتھیار وغیرہ نہیں رکھے تھے۔میں خود ہی ہتھیار تھا۔میرے جوتے پاؤں پر مکمل گرفت والے بے آواز ہوتے ہیں۔او ر کپڑے ایسے جن میں جسم تیزی سے حرکت کرسکے۔آہستگی کے ساتھ میں مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوا۔اس وقت میرے جسم کا ہوا میں کوئی احساس نہیں تھا ، ایک ایسا سایہ جس کی کوئی پرچھائیں نہیں تھی۔۔میں محسوس کرتاہوا ان پانچوں کے پاس پہنچ گیا،وہاں زبردست کھانے کی اشتہاء تھی اور بھرپور مہمان نوازی کا کھانا تھا۔ وہ لمبے سفر سے آئے تھے اور سیدھا کھانے پر ٹوٹ پڑے تھے۔اورمیں ان پر ٹوٹ پڑا۔افتادِ ناگہانی کی طرح۔میں اچھلا اور اسطرف کھانے کھاتے دو آدمیوں کےپیچھے حرام مغز ہڈیوں کے جوڑ پر میرے پاؤں رکے اور میں ڈائننگ ٹیبل پرتھا۔میری دو ٹھوکریں ان کے سامنے بیٹھے آدمیوں کے ہنسلی کی ہڈیوں پر پڑی اور دونوں کٹاک کر کے ٹوٹ گئی،پچھلے دو بھی اپنی ہڈیاں تڑوائے کرسیوں پر ہی دھنس گئے تھے۔جانور نہ صرف کھڑا ہوچکا تھااورپسٹل نکال چکا تھا بلکہ اسنے مجھ پر گالی بھی چلا دی تھی۔میرے جسم کی تھوڑی سی جنبش سے گولی ایک طرف سے نکل گئی اور میں نے گلاس کوٹھوکر ماری گلاس اس کےپسٹل پر پڑا اور پسٹل اڑتا دور جاگرا میری دوسری ٹھوکر سے ایک اور گلاس میزبان کے ماتھے پر پڑا،وہ بے ہوش ہوگیا۔اور میں اچھل کر نیچے جانور کے سامنےکھڑا ہوچکا تھا۔،میری آنکھوں میں اس کیلیے چیلنچ تھا۔ آجاؤ میں نے اسے ہاتھ سے اشارہ کیا۔وہ بھیڑیے کی طرح دانت نکوستا ہوا میری طرف آیا،اس سے پہلے اس نے کرسی کو ایک ہاتھ سے میری طرف اڑا دیا تھا۔میں اس کی بات سمجھ گیا تھا ،نہ میں وہاں تھا جہاں کرسی آئی تھی،اور نہ میں وہاں تھا،جہاں مجھے کرسی سے ہٹنے کے بعد ہونا تھا اور جانور نے وہاں مجھ پر حملہ کرنا تھا۔میں نے پھر اسے ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔اس نے مکے اور لاتیں ماری لیکن وہ ہوا کو نہیں مارسکتا تھا۔اس کا اسٹائل اسٹریٹ فائٹنگ جیسا تھا۔ اس میں تیزی اور طاقت تھی۔میں کچھ دیر اُس سے آنکھ مچولی کھیلتا رہا۔پھر اسے اپنی طرف ہاتھ کے اشارے سے بلایا۔وہ اس وقت جھنجھلا چکا تھا۔یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اسطرح اس سے کوئی کھیل بھی سکتا تھا۔لیکن ابھی تو اس کیلیے اور حیرتیں انتظار کر رہی تھیں۔جیسے ہی اس نے اپنے بازو پھیلائے میں نے کھیلنا بند کردیا ۔یہی تو میں چاہتا تھا۔۔وہ بازو پھیلائے ایسے میری طرف آیا جیسے اپنی وحشیانہ طاقت سے مجھے بازؤں میں لیکر پیس ڈالے گا۔میں تو اس کی ہربات کا اندازہ کرچکا تھا یہ بھی کہ اسکی گینڈے جیسی کھال پر مارنے کیلیے عام آدمی کی طاقت تو کچھ بھی نہیں تھی۔اگر میں اِدھراُدھر نکلنے کیلیے یا اس کے کھلے سینے پر مارنے کیلیے کچھ کرتا تو جانور بھی یہی چاہتا تھا۔ لیکن میں بھی تو کچھ چاہتا تھا۔میں آرام سے کھڑا رہا،جانور نے مجھے بازوؤں میں جکڑ لیا،اسے یقین تھا اب مجھے موت سے کوئی نہیں بچاسکتا۔اس نے مجھے بازوؤں میں بھینچنا شروع کردیا۔شاید اس کے کان میری چیخوں کے منتظر تھے۔اور ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز سننا چاہتے تھے۔لیکن میں سکون سے تھا،جانور غرّایا اس نے اپنا پورا زور لگا لیا۔اسے اس بات کا یقین نہیں آرہا تھا،کہ اس کے بازوؤں کے شکنجے سے کوئی بچ بھی سکتا ہے۔یہ جانور کا مشہور داؤ تھا اور اس کے مخالفین پر اس داؤ کی دہشت قائم ہوگئی تھی۔میں نے اپنے بازو کوتھوڑا زور لگایا اسکےشکنجے میں کلائیاں نکالی اوراوپر اس کے بازوؤں میں پھنسا دیں۔اب میں نے اس کے بازو کھولنے شروع کردیے۔اس کیلیے یہ حیرت کا جہان تھا اس کے بازو کھل رہے تھے شکنجہ ٹوٹ رہا تھا۔زور لگاؤ میں نے اس کا مذاق اڑایا۔وہ زور توپہلے ہی لگا رہا تھا۔لیکن کیاکرے۔وہ میرے استاد کونہیں جانتا تھا۔تم مجھے اتنی دور سے قتل کرنے آئے ہوکچھ ہمت کرو۔ میری بات سےاسے جھٹکا تو لگا لیکن وہ کیا کرتا ۔کھیل اس کے بس میں نہیں رہا تھا۔اس کی تمامتر کوشش کے باوجود بازووں کھل گئے میں نے پھرتی سے اس کے سر پر ٹکر ماری ۔اور۔۔۔۔۔اسے اپنے بازوؤں کے شکنجے میں لے لیا۔پھرمیں نے بازوؤں کاشکنجہ جکڑ لیا۔پھر کسنا شروع کردیا ۔اب کی بار اسے حیرت کازبردست جھٹکا لگا،آج کادن اس کیلیے تھا ہی حیرت کا دن۔تم نے پچھلے سال ایک ٹورسٹ گروپ کو اغواء کرلیا تھا،اور ان کی عورتوں کےسامنے دو مرد ایسے جکڑ کر ماردیے تھے۔پھر تمھاری درندگی نےکے دوران ایک لڑکی مرگئی اور دوسری کچھ ہی دن زندہ رہ سکی ۔جو لڑکی مرگئی وہ صرف پندرہ سال کی تھی۔سن رہے ہو نہ وہ صرف پندرہ سال کی تھی۔باقیوں کا پتہ نہیں تم نے کیا کیا۔تمھاری ایک پرانی سی تصویر کے ساتھ وہ خبر چھپی تھی،اور میں نے اسی وقت عہد کرلیا تھا کہ تمھیں ایسے ہی جکڑ کے دکھاؤں گا۔آزاد علاقے کی دہشت کے بازو کڑکنے لگے۔تم جتنا مرضی بدل جاؤ لیکن تمھاری خونی آنکھیں مجھے یاد ہوگئی تھیں،جیسے بڑا سانپ اپنے جسم سے اپنے شکار کوشکنجے میں لیتا ہے، اور ہڈیوں کو توڑ پھوڑ دیتا ہے۔ایسے ہی تیکنیک سے اپنے سے دوگنی طاقت والے کوکڑکایا جا سکتا ہے۔بازو چورا ہونے کےبعد اب اس کے پنجر کی باری تھی،ریڑھ کی ہڈی اور سینے کو سنبھالنے والا پنجر تڑکنا شروع ہوگیا تھا۔اور پھر پسلیاں اور سینے اور ریڑھ کی ہڈی سب کچھ ٹوٹ گیا۔میں نے اپنے بازو کھول کر اسے پھینک دیا۔مجھے پتہ ہے تمھاری جان ابھی بھی نہیں نکلے گی۔ تم بہت سخت جان ہو۔لیکن اب تم ساری عمر کیلیے معذور ہوگئے ہو۔جانور نے اس حالت میں بھی غرانے کی کوشش کی۔اسکے منہ سے خون نکل آیا۔یہی تو وہ بڑی کامیابی تھی جس کا میرے دل میں خیال آرہاتھا۔ میزبان یقناً فادر کا کوئی غنڈہ تھا۔میں نے ایس ایس پی کو فون کیا،وہ میرا رازدار تھا۔،اسے ساری صورتِ احوال بتائی،میں چاہتا تھا وہ جانور کی گرفتاری ڈالے ۔ایس ایس پی گھبراگیا،پرنس آزاد علاقے کی دہشت کی گرفتاری ڈالنا خطرے سے خالی نہیں ہے،چپ چاپ یہاں سے نکل جاؤ۔اسے مرنے دو۔یہ کیاکہہ رہے ہو ۔یار تم ایک ایس ایس پی ہو۔پرنس یہ انسانوں کا معاشرہ نہیں ہے جنگل ہے۔ اور جنگل میں جو جانور جتنا بڑا ہو اس کی اتنی عزت ہوتی ہے۔۔ایسے جانوروں کامر جانا ہی بہتر ہے۔آج ایک بزرگ ہونے کے ناطے تمھیں ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں ۔جانوروں کو گرفتار نہیں کیا جاتا ۔ان کوماردیا جاتا ہے ۔تم جو مجرموں کو توڑ پھوڑ دیتے ہو۔تم بھی جانتے ہو کہ قانون میں ان کیلیے کوئی سزا نہیں ہے۔ اچھا یار ۔۔اس کے میزبان نے مجھے دیکھ لیاہے۔کون ہے وہ،ایس ایس پی نے پوچھا ۔۔مجھےتو پتہ نہیں ،چوڑا ماتھا ہے۔رخساروں کی ہڈیاں نکلی ہوئی ہیں۔اندر دھنسی ہوئی آنکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پتلے پتلے ہونٹ اور موٹی سی گردن اور ناٹا قداور بھینسے جیسا جسم۔ ایس ایس پی نے فقرہ مکمل کیا۔پرنس یہ کسی بڑی واردات کیلیے اکٹھے ہوئے تھے۔ان کو بلانے والے کوئی خاص ہاتھ ہوں گے۔اب اسے میں کیا بتاتا کہ وہ بڑی واردات میرا قتل ہی تھا۔اور اسے بلانے والے فادر کے پروردہ ہوں گے۔اب میں کیاکروں ؟ میں نے پوچھا۔تم مجھے پتہ بتاؤ اور یہاں سے نکل جاؤ۔اتنا بتا دوں ان کی گرفتاریاں نہیں ہوگی۔اس پتلے ہونٹ والے کو میں گرفتار کر بھی لُوں لیکن انتہائی مطلوب ہونے کے باوجودکل اس کی ضمانت ہوجائے گی،مقدمے اس پر نہ جانے کتنے ہیں،پھر کیاہو گا،ثبوت اور شواہد کے باوجود یہ آزاد ہوجاتےہیں۔جج بِک جاتےہیں۔وکیلوں کے پینل ان کی حفاظت کرتے ہیں۔اور ہمارے ہاتھ بندھے ہیں۔بس تم جاؤ باقی میری ذمہ داری ہے۔۔دو ملازم بھی وہاں تھے ۔میرے اندازے کے مطابق وہ کچن میں ہونے چاہیے،لیکن وہ کچن میں بھی نہیں تھے وہ چپ چاپ نکل گئے تھے ۔اور میں بھی چپ چاپ نکل گیا۔ایس ایس پی کی باتیں میرے ذہن میں گونج رہی تھیں۔اور میری اداسی کاسبب بن رہی تھیں۔

جاتے جاتے ہانیہ کی کہانی مکمل کرجاتا ہوں نہیں تواس کی تشنگی رہ جائے گی۔ہانیہ اب روزانہ آنے لگی تھی ۔ہانیہ کو ہالی ووڈ کی فلموں کا شوق تھا، میں بھی بس ہالی وڈ کی فلمیں دیکھتا تھا،مجھے انڈین چربہ فلمیں با لکل اچھی نہیں لگتی تھی۔ہم نے کئی فلمیں دیکھی،مجھے بھی فلمیں دیکھنے کا وقت نہیں ملتا تھا تو اس دوران اپنی پسندیدہ فلمیں دیکھیں۔ایک ہی صوفے پر ساتھ ساتھ بیٹھے الٹر ایچ ڈی اسکرین پر فلم دیکھنے کا مزہ ہی آجاتا تھا۔ماحول بڑا اثر انگیز ہوجاتا تھا۔مجھے تو ٹویلتھ ساگا بریکنگ ڈان پارٹ 2 کا انتظار ہے ۔ہانیہ نے کہا۔وہ تو نومبر میں آئے گی فلموں کے بارے میں میری معلومات اچھی تھیں ۔ہم مل کر فلمیں دیکھتے ۔کھاتے پیتے۔باتیں کرتے،ہانیہ اب سنبھل گئی تھی۔وہ ٹھیک تھی۔باقی جوکچھ رہ گیا تھا وہ وقت پر چھوڑدینا چاہیے تھا۔ہانیہ کی وجہ سے میرے معمولا ت متاثر ہورہے تھے۔ اب ہانی من موہنی کا آخری علاج بھی کردینا چاہیے تھا۔ ۔آج بھی ہم ۔دی بوررن لگیسی ۔ دیکھ رہے تھے۔حال ہی میں یہ فلم آئی تھی۔اس سیریز کی چوتھی فلم تھی اور مجھے یہ پسند تھی۔ہائے کئی ہالی ووڈ ایکٹر زسے ملنے کودل کرتا ہے۔خاص کررابرٹ پیٹنسن سے ،ہانیہ نےٹویلتھ سیریز کے ہیرو کا نام لیتے ہوئے کہا۔فی الحال تو تم مجھ سے ملو نہ۔میں نے اسے گدگداتے ہوئے کہا۔نہی نہی نہ کرو نہ،اس نے بےتحاشہ ہنستے ہوئے کہا۔کیوں نہ کروں۔میں نے اسے پکڑلیا اور اپنے جسم کے نیچے دبا لیا۔ہم صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔اُف توبہ لڑکی تھوڑی سی بے تکلف کیاہوجائے۔آج کے لڑکے گلے لگنے لگتے ہیں،ہانیہ نے مجھے چھیڑا۔اچھا تو نہیں لگتے گلے ،میں نے اسے چھوڑتے ہوئے کہا اور منہ دوسری طرف کرلیا۔اہ میلا پالا پلا منا،نا لاج ہوگیا،ہانیہ نے میری چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے کہا۔میں نے چہرہ اس کی طرف کیا تو میں ہنس رہا تھا۔اچھا تو پرنس کوبڑا ہنسنا آتا ہے،اب اس نے مجھے گدگدانا شروع کردیا۔میں ہنسنے لگا،وہ میرے اوپر چڑھ گئی،آجکل لڑکیوں سے تھوڑا بے تکلف کیا ہوجاؤ وہ گلے لگنے لگتی ہیں،میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ہاں ہوں بےتکلف کرلو جوکرنا ہے،ہانیہ کی آنکھوں میں شرارت تھی،میں نے اسکےہاتھ پکڑ لیے اور اس کی من موہنی صورت دیکھنے لگا۔کیا دیکھ رہے ہو۔ہانیہ میری نظروں کی تپش سے شرما گئی۔دیکھ رہا ہوں جب چاند بدلیوں کی اوٹ سے نکلتا ہےتو کیسا لگتا ہے۔اچھا یہ تو بڑا پرانا ڈائیلاگ ہے،ہانیہ شرارتی موڈ میں تھی۔لیکن آج بھی لڑکی اس سے پھنس جاتی ہے،اب کی بارمیں نے اسے چھیڑا،غلط فہمی ہے جناب کی،اس نے مجھے منہ چڑایا،ابھی تک ہم اسی انداز میں پڑے تھے،کچھ صوفے پر کچھ نیچے لٹکے۔میں نیچے وہ میرے اوپر۔اسکی من موہنی صورت مجھے تڑپا رہی تھی کہ اس صورت کی اپنے ہونٹوں سے عبادت کروں۔اچھا تو تمھیں پھنسانے کیلیے مجھے کیا کرنا ہوگا،میں نے ازراہِ مذاق پوچھا۔ وہ ایک انگلی دانتوں میں دبا کرسوچنے کی اداکاری کرنے لگی،

تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا

اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے

شوق میں مہندی کے وہ بے دست وپا ہونا ترا

اور مرا وہ چھیڑنا ، وہ گدگدانا یاد ہے

چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ

مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے

(حسرت موہانی)

ہُوں ایسا کرو مجھے ڈانس کی ریکوسٹ کرو میں مان جاؤں تو پھر مجھے اپنی بانہوں میں ڈال کرڈانس کرو۔شاید اسوقت تک میں پھنس ہی جاؤں،ہانیہ من موہنی نے شرارت سے کہا۔میں نے اسے ایک طرف کیا پھر زمین پر بیٹھ گیا اور ہاتھ بڑھا کر کہا،پرنسیس کیا آپ میرے ساتھ ڈانس کریں گی۔ہانیہ کھڑی ہوگئی تھی،اس نے دونوں ہاتھ کی انگلیاں پھنسائی ہوئی تھیں اور ہاتھ سامنے کی طرف لٹکے ہوئے تھے۔۔اور جسم ہل رہا تھا،وہ مکمل شرارتی موڈ میں تھی،لیکن میں سمجھ رہا تھا وہ ہماری پہلی ملاقات کو دہرا رہی تھی۔اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیا۔میں نے ہاتھ کو پشت سے چوما اور کھڑا ہو کہ اپنا ایک ہاتھ اس کی کمر پر رکھا۔دوسرا دوسرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا،اس نے اپنا ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھا۔ہم تھوڑا تھوڑا ہلنے لگے۔ہمارے جسموں کو ایکدوسرے سے حرارت ملنے لگی۔اس کی معصومیت بھرہ چہرہ چومنے کی شدید خواہش ستانے لگی۔

کیا لڑکی پھنس گئی ہے؟ میں نے پوچھا۔ہم تو کب کہ پھنسے ہوئے ہیں۔کیا آپ نے میری ڈائری نہیں پڑھی اس نے اپنا سر میرے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔پڑھی تھی،پھر کیا محسوس کیا تم نے ،ہانیہ جذباتی لہجے میں بولی۔آزاد نظموں کی شاعری تھی،اور کسی پرنس نامی لڑکے کیلیے تھی،کوئی پاگل لڑکی اسے چاہتی ہے نہ جانے کیوں۔میں نے سے سرگوشی میں بتایا،ہانیہ میں ۔۔۔ میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ ہانیہ نے میرے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا کوئی ایسی ویسی بات مت کرنا۔جو اس ماحول کوخراب کردے،مجھے پتہ ہے تم اس معاملے میں بہت منہ پھٹ ہو۔تم جو بھی ہو بس میں تمھارے ساتھ اچھا وقت گزارنا چاہتی ہوں میں نے اسکا ہاتھ چوم لیا،ہانیہ کی آنکھوں میں اس وقت لال ڈورے تیر رہے تھے۔ہانیہ نےہلتے ہوئے اپنا موبائل اٹھا لیا،اور اسی طرح میرے سینے سے لگتے ہوئے اس میں سے ایک پرانا انڈین گانا لگا دیا۔موبائل صوفے پر پھینک دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوری نہ رہے کوئی،آج اتنے قریب آؤ

میں تم میں سما جاؤں ۔تم مجھ میں سما جاؤ ۔

دوری نہ رہے کوئی۔۔۔۔۔

سانسوں کی حرارت سے تنہائی پگھل جائے

جلتے ہوئے ہونٹوں کا ارمان نکل جائے

دوری نہ رہے کوئی۔۔۔۔۔

چاہت کی گھٹا بن کے یوں مجھ میں برس جاؤ

دوری نہ رہے کوئی۔۔۔۔۔

آج اتنے قریب آؤ۔۔۔۔

میں تم میں سما جاؤں۔۔۔

تم مجھ میں سما جاؤ۔۔۔

مجھے گانوں کا کچھ نہیں پتہ،اس سلسلے میں اناڑی ہوں۔لیکن گانے کے بول مجھے لبھانے لگے،دل کو کچھ سمجھانے لگے،ماحول پہلے ہی بڑا خاص تھااب اور خاص ہوگیا۔ہم ایک دوسرے کی بانہوں گم اور ہانیہ میرے سینے سے لگی ہوئی۔ہانیہ۔۔ میں نے پکارا ۔۔۔۔۔جی۔ اس نے کہا۔اتنا تو بتا دو یہ سب کب سے کیسے ،کیوں۔۔۔۔کیوں کا تو کوئی جواب نہیں ہے ۔جناب آپ جس یونیورسٹی سے پڑھیں ہیں۔اسی دور میں میں بھی یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔آپ شروع شروع میں تو ریگولر آتے رہے اس وقت آپ کی دوستیاں کافی ہونے لگی تھیں میں بھی آپ کی طرف بڑھنا چاہتی تھی۔کہ آپ غائب ہوگئے ۔پھر آپ کبھی کبھار آتے تھے۔اور پھر آپ با لکل ہی غائب ہوئے ۔،اسی دور میں آپ کو دیکھتے ہی دل نےبغاوت کردی تھی ۔ اب کافی عرصے بعد اسی کلب میں نظر آنے لگے تو دل میں پھر گدگدی ہونے لگی ۔میں نے تمھارے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا موصوف بِلا کے شوقین ہیں۔ پیسہ بے حساب ہے۔لہذا سوائے لڑکیوں کے شوق کے اور کسی بات کا ہوش نہیں ہے۔ ،میں اس امید میں رہنے لگی کہ شاید کبھی آپ ہماری طرف بھی نگاہِ کرم کریں۔اور ایک دن میری قسمت جاگ گئی۔اب جتناوقت تمھارے ساتھ گزر جائے وہی میری زندگی کاحاصل ہے۔ہانیہ میرے سینے پر سررکھے ہوئے تھی اور ہم ہولےہولے ہل رہے تھے۔

دوری نہ رہے کوئی،آج اتنے قریب آؤ

میں تم میں سما جاؤں ۔تم مجھ میں سما جاؤ ۔

دوری نہ رہے کوئی۔۔۔۔۔

سانسوں کی حرارت سے تنہائی پگھل جائے

جلتے ہوئے ہونٹوں کا ارمان نکل جائے

دوری نہ رہے کوئی۔۔۔۔۔

چاہت کی گھٹا بن کے یوں مجھ میں برس جاؤ

دوری نہ رہے کوئی۔۔۔۔۔

آج اتنے قریب آؤ۔۔۔۔

میں تم میں سما جاؤں۔۔۔

تم مجھ میں سما جاؤ۔۔۔

گانا پھر لگ گیا تھا،یعنی یہ ریپیٹ پر لگا ہوا تھا۔وہ گانا کچھ کہہ رہا تھا،مجھے کچھ سمجھا رہا تھا۔میں رک گیا۔میں نے ہانیہ کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں لیا،اور اس کے ہونٹؤں کی طرف میرے ہونٹ بڑھے،ہانیہ کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔میں نے اس معصومیت کے خزانے پر اپنے لب رکھ دیا۔ہانیہ نے مجھےبانہوں میں کس لیا۔اور میں اس کے ہونٹوں کا شہد پینے لگا۔ہانیہ نے اتنے زور سے مجھے پکڑاہوا تھا جیسے مجھ میں سماجانا چاہتی تھی۔میرے ہاتھوں کے پیالے میں ایک چاند تھا اور اس کی چاندنی میرے جسم میں سمارہی تھی۔میں نے اس کے نچلے ہونٹ کا شہد پیاپھر اوپری ہونٹ کا شہدپیا۔پھر ہونٹوں میں اس کی زبان چوس لی۔پھر اسکے دونوں ہونٹ اپنے لبوں میں لے لیے،اسوقت بس مجھے اس کے لب ہی یاد تھے

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

اک پنکھڑی گلاب کی سی ہے۔

ہونٹوں سے فرصت ملے تو میں کہیں اور دھیان دوں۔کتنی دیر میں نے ہانیہ کہ ہونٹ چوسے مجھے یاد نہیں ۔ہانیہ بھی بے خود سی میرے ساتھ لپٹی ہوئی تھی۔میں نے اس کی آنکھیں چوم لیں۔اور ہاتھوں کےپیالے کو کھول دیااور اس کے گالوں کو بے تحاشا چومنے لگا۔یہی وہ معصومیت بھرا چہرا تھا جس کی حسن کاانعکاس میرے دل پرپڑتا تھا۔ہانیہ من موہنی نے مجھ پر سحر کردیا تھا۔کمال کی لڑکی تھی۔میں اسکا چہرہ چومے جارہا تھا۔مجھے احساس ہی نہیں رہا،کیونکہ ہانیہ کے جذبات،احساسات مجھے بڑھاوا دے رہے تھے۔میں اسے لیکر صوفے پر بیٹھ گیااور ہانیہ کو اپنی گود میں بٹھالیا۔اس کاچہرہ میرے سامنے تھا۔ہم ایکدوسرے سے ہم آغوش تھے۔اور ایکدوسے کو بے تحاشا پیار کر رہے تھے۔پرنس تم نے مجھے اپنا کر امر کردیا۔ میں نے اس پل کے خواب کئی بار دیکھے ،کئی بار سوچا کہ میں تمھیں ملوں ،تمھیں بتاؤں کہ کوئی تمھیں چاہتا ہے،کوئی تمھارے پیار کوترستا ہے۔آئی لویو میر ی جان پرنس۔میں ایسے آئی لویو سنتا رہتا تھا لیکن ہانیہ کے جذبوں میں شدت تھی،اب ہانیہ کی باری تھی اور وہ مجھے جذباتی انداز میں پیار کر رہی تھی،مجھے چوم رہی تھی،گال ،ماتھا،آنکھیں،ہونٹ،چہرہ پتہ نہیں کتنی بار چوم،اور پتہ نہیں کتنی بار میں اسے چوما۔ساتھ ساتھ ہماری گفتگو بھی جاری رہی جو کہ کافی جذباتی تھی۔تمھارا نام کیاہے،ہانیہ نے ایک مشکل سوال کردیا،اس سوال سے مجھے چڑ تھی۔ ہانیہ نے ابھی کہا تھا کہ منہ پھٹ ہوں،انگلش میں پیار سے اسے اسٹیٹ فارورڈ کہیں تو اتنا محسوس نہیں ہوتا۔ہانی بچپن میں مجھےشہزادہ کہتے تھے،اور اب پرنس کہتے ہیں۔کہاں کے شہزادے ہو تم ،ہانی کو میری جستجو تھی،ساتھ ساتھ ایک دوسرے کوچومنا بھی جاری تھا۔بتاؤ نہ کہاں کہ شہزادے ہوتم ،ہانی من موہنی نے اپنا سوال دہرایا،،یہ سوال کبھی کسی نے پوچھا نہیں تھا۔مذاق تو ہوجاتا ہوگا،ہانی من مو ہنی ۔۔۔میں۔۔۔۔۔( اسٹیٹ آف سیکس) کا پرنس ہوں۔جس طرح میں نے کہا تھا ہانی رک کرمجھے غور سے دیکھنے لگی۔اور کوئی جذبہ نہیں ہے تمھاری زندگی میں،ہانیہ نے عجیب سوال کیا۔ہانی من موہنی ۔۔نہ مجھ سے کسی کوکچھ اور چاہیے نہ میرے پاس اس کے علاوہ کچھ ہے۔کیوں نہیں چاہیے پرنس،مجھے چاہیے،پلیز بتاؤ نہ تم نے ایسے کیوں کہا۔۔ہاں۔۔بتاؤ نہ ۔ہانیہ پھرجذباتی انداز میں مجھے چومنے لگی۔مجھے چاہیے،میں تم سے کچھ اور چاہتی ہوں،پرنس آئی لویو۔ہانیہ جذباتی ہورہی تھی۔ اور جذبات مجھے پگھلانے لگتے تھے۔میں نے اسے کسی اور رستے پر لگا دیا۔۔میں اسے چومتے ہوئے اس کی گردن سے ہوتے ہوئے اس کے گلے سے جتنا سینہ نظر آرہا تھا وہ چومنے لگا۔۔وہاں چاٹنے لگا۔مجھے پتہ تھا ہانیہ اس سے بچنا چاہتی تھی۔ابھی اس کے ز خم تازہ ہی تھے۔لیکن یہ اس کیلیے ضروری تھا نہیں تو اس کے ڈر نے کبھی یہ سرحد پار ہی نہیں کرنے دینی تھی۔یہ نہیں اس نے اس سے پہلے سیکس نہ کیا ہو،یا شاید کیا ہو۔ اپر کلاس میں کچھ پتہ نہیں چلتا ۔لیکن یہ طے تھا اب وہ سیکس نہیں کرے گی۔میں کوئی نیکی نہیں کررہا تھا نہ ہی یہ کوئی نیکی تھی نہ ہی میں اس لفظ کے مطلب سے آشنا تھا۔میں اس کے سینے کوچومتا ہو اس کے مموں کوہاتھوں سے معمولی سا سہارا دیا۔وہ اوپر ہوئے تو اوپر والے کچھ حصے کو میں چاٹنے لگا ،چوسنے لگا۔ہانی من موہنی کسمسانے لگی۔لیکن اس نے میرے ہاتھ نہ روکے،میرےلیے اتنا ہی کافی تھا،میں ممے کا کچھ حصہ چاٹتے ہوئے اسے کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگ،وہ میرے ساتھ ہم آغوش تھی۔ہانی من موہنی کاچہرہ جذبات کی شدت سے سرخی لیے ہوئے تھا۔ہانی ۔۔جی ۔۔ا سکی جی میں کچھ خاص تھا۔کیا میں تمھارے جسم کوپیار کرسکتا ہوں۔پلیزپرنس پلیز ۔۔۔ہانی نے میرے سینے پر سر رکھ دیا۔ کانپتا جسم اس کی پلیز کا مطلب سمجھا رہا تھا۔ہانی ۔۔جی ۔۔۔میں نے اس کی شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے اس کی طرف دیکھا ۔ہانی کی آنکھیں بند تھیں ۔ہانی کیا میں تمھارے جسم کوپیار کر سکتا ہوں صرف تمھارے جسم کوچوموں گا،پرنس تمھیں میں کس طرح منع کرسکتی ہوں۔تمھیں خوشی مل جائے میرے درد کا کیا ہے۔ہانی نے کرب سے کہا۔میں نے ہانی من موہنی کے جسم سے ایک ایک بٹن کھولتے ہوئے اس کی شرٹ اتار دی۔اور اسے اسی طرح گود میں اٹھائے بیڈ پر لے آیا۔وہاں اسے لٹا کر میں نے اپنا اوپری جسم بھی ننگا کر دیاپھر اس ہانی کو نیچے سے بھی ننگا کردیاپھراس کے جسم کوچومنا شروع کردیا،اس نے برا ابھی پہنی تھی،لیکن اوپری جسم ننگا تھا۔اور یہ جسم داغ داغ تھا،زخم بھر گئے تھے لیکن نشان رہ گئے تھے،میں اس کازخم زخم جسم چومنے لگا،جہاں پر چاقو سے گھرونچا گیا تھاوہاں وہاں سے چومنے لگا۔پیٹ سے سینہ اور سینے سے بازو اور بازوؤں سےپیٹھ سے اورپیٹھ سے کمراور کمر سے ٹانگیں اور اور ٹانگوں سے پیٹ سینہ اور اسی طرح اس کے جسم کی کوئی ایسی جگہ نہیں رہی جو میں نے نہ چومی ہو۔۔ پھر میں ہانی کو چومتا ہی گیا،کبھی اسے گود میں بٹھا کر کبھی اسے لٹا کر۔کبھی الٹا کر۔میں نے ہانی من موہنی کواتنا چوما کہ انتہا کردی۔پہلے جیسے جیسے میں اسے چومتا گیا تھا اس کا جسم بے چین تھا۔پھر اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔پھر وہ روتی رہی اور میں اس کے من موہنے جسم کو پیار کرتا رہا۔اس وقت تک کرتا رہا جب تک اس کے آنسوخشک نہیں ہوگئے اور وہ میرے ہونٹوں کی حدت کو محسوس کرنی لگی،میرے جذبوں کی شدت اسے پگھلانے لگی۔اور اس کے جسم میں احساسِ آرزو جاگا ۔پرنس پیار کرو میرا یہ جسم تمھارے پیار کاترسا ہوا ہے۔پرنس مجھے اپنی بانہوں میں لے لو کہ کتنی راتیں تمھارے خیالوں کے ساتھ گزری ہیں۔پرنس تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔

ہاں ہاں۔۔۔ ہانی من موہنی۔۔کہو نہ کیا کہنا ہے ۔۔اور میں حیران رہ گیا جب ہانیہ من موہنی اپنا پسندیدہ گانا گنگنانے لگی،اس کی آواز دھیمی تھی،اس میں شدت تھی،وہ مجھ سے کچھ چاہ رہی تھی۔

دوری نہ رہے کوئی،آج اتنے قریب آؤ

میں تم میں سما جاؤں ۔تم مجھ میں سما جاؤ ۔

دوری نہ رہے کوئی۔۔۔۔۔

میں نے اپنے باقی کپڑے اتار دیئے اور ننگا ہوگیا۔،اور اس کی برا بھی اتار دی۔اس کا جسم داغ داغ تھا لیکن اس میں جذبات کی چاہت تھی۔ ہانی من موہنی گنگنا رہی تھی

سانسوں کی حرارت سے تنہائی پگھل جائے

جلتے ہوئے ہونٹوں کا ارمان نکل جائے

دوری نہ رہے کوئی۔۔۔۔۔

میں ہانی من موہنی کے ساتھ لیٹ گیا تھا۔اس کے جسم میں جذبوں کی حرارت تھی۔ہانی نے مجھے گلے لگا لیااور میں نے اسے اپنی بانہوں میں لے لیا۔

چاہت کی گھٹا بن کے یوں مجھ میں برس جاؤ

دوری نہ رہے کوئی۔۔۔۔۔

آج اتنے قریب آؤ۔۔۔۔

میں تم میں سما جاؤں۔۔۔

تم مجھ میں سما جاؤ۔۔۔

میں ہانی کے اوپر آگیا اور اس کے مموں پراپنے ہونٹ رکھ دیے۔اور ایک کوچوسنے لگا دوسرے کوہاتھ سے پکڑلیا۔انگھوٹھے اور انگلی سے اس کے نپل کومسلتا۔کبھی ہاتھ میں پورا لے لیتا اور اس مسلتا۔دوسری طرف ہونٹوں نے قیامت مچائی ہوئی تھی۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹا پہلے ہانی سے جب میں نے پوچھا تھا کہ کیا میں تمھیں پیار کر لوں تو اس نے بڑے کرب سے کہاتھا کہ پرنس تمھیں خوشی مل جائے میرے درد کا کیا ہے،اور اب وہی ہانی میرے ہونٹوں سے پگھل کروصال کی آرزو میں جلنے لگی تھی۔پہلے اس کے ہونٹوں کارس پیا تھا تو سواد اگیا تھا،اب اسکے مموں کا رس پی رہا تھا تو احساس ہو رہا تھا کہ جیسے مزے کی لہریں دھکیل کر گہرے سمندر میں لے جارہی ہوں۔میرا عضو اس کی چوت کے آس پاس اپنی موجودگی کااحساس دلا رہا تھا۔ہانی من موہنی میرے ممے چوسنے سے گرم ہوری تھی،اس کی پیٹھ کے پیچھے پانی ابلنا شروع ہوگیا تھا۔اور یہ پانی بڑا ظالم ہے،اپنے ساتھ سب کچھ بہا کہ لے جاتا ہے،او ر اب ہانیہ بھی اس کے پرزور ریلوں میں بہنے لگی تھی۔ پرنس آج اسطرح برسو کے ساری عمر کی پیاس بجھ جائے۔آج یوں سما جاؤ کہ کوئی دوری نہ رہے،ہانی نے کہا کوئی دوری نہ رہے اور میں نے سرہانے کی دراز میں پڑی زیتوں کے تیل کی شیشی اٹھا لی،پتہ نہیں اس شیشی میں کتنا تیل آیا اور کتنا تیل بہہ گیا۔اس کاڈھکن کھولے بغیر اس کی چھوٹی سی نوزل سے تیل ہاتھ پر ڈالا اور اسے اپنے عضو پر لگایا،خاص کر ہانی من موہنی ی چوت میں ضرور لگایا۔وہاں احتیاطً لگایا تھا۔اور پھر ہانیہ کی ٹانگیں کھول کر ان ٹانگوں میں بیٹھا اور تھوڑا آ گے ہوا۔عضو ہاتھ میں پکڑا اور ہانی من موہنی کی چوت پر رکھا



ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی