زمیندار کی بیٹی

 


دوستو میرا قد چھے فٹ ہے گورا چٹا رنگ میرے والد آرمی آفیسر ہیں اور ریٹائرڈ ہونے کے قریب تر ہیں

میں اپنے والدین کا اکلوتا بچہ ہوں اس لئیے ماں باپ نے مجھے بہت پیار سے پالا ہے اور ابو نے سوچ رکھا ھے کہ تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد مجھے روالپنڈی کے میدانی علاقے فتح جنگ میں کچھ زمین لیکر دینگے تاکہ میرا مستقبل بن سکے میں اس وقت پنڈی کے پوس ایریا میں رہائش پذیر تھا اور گورنمنٹ ھائی سکول میں پڑھتا تھا

ہمارے پڑوس میں ایک شگفتہ بھابھی رہتی تھی جو مجھے میٹرک میں اچھے نتائج حاصل کرنے میں میری مدد کرتی تھی۔ یا ایسے کہہ لیں کہ مجھے ھوم ورک کرواتی تھی وہ کرسچن تھی خوب پڑھی لکھی تھی اسکا نام شگفتہ شمعی تها پاکستانی اداکارہ مہوش حیات سے مشابہت رکھتی تھی شمعون اسکا خاوند تھا جو ایک ٹیچر تھا

شگفتہ ایم اے انگلش کر چکی تھی جسکی وجہ سے میری قابلیت میں بھی نکھار آگیا تھا میں اسے پیار سے بھابھی بولتا تھا ان دنوں ہمارے گھر کے پاس ایک لائبریری تھی جس میں میں سیکسی کہانیوں کی بک پڑھا کرتا تھا ایک ناول پڑھا تھا رنگین راتیں جسے پڑھ کر میرا لن کھڑا ہو جاتا تھااور مجھ پہلی بار چوت، ممے اور گانڈ جیسی چیزوں کا پتہ چلا۔ اور لنڈ کی ڈیمانڈ بڑھنے لگی تھی۔ اب میں اکثر ایسی کتابیں پڑھا کرتا تھا اور میرا عورتوں ، لڑکیوں کو دیکھنے کا نظریہ یکسر بدل چکا تھا

میری چھاتیوں میں جو کڑک پن کا ابھار آیا ہے یوں لگتا ھے جوانی پر خوب نکھار آیا ہے 


اس سے پہلے میں سب کو بہنیں ہی بناتا تھا اور سمجھتا تھا۔

بس یہاں سے ہی کہانی شروع ہوتی ہے۔ ہمارے گھر میں لیپ ٹاپ تھا اور ہماری شگفتہ سے خوب دوستی تھی۔ وہ ہمارے گھر میں فلم دیکھنے بھی آتی تھی۔ ایک دن میں ایک فلم لایا انگلش فلم تھی رونگ ٹرن جس میں کچھ نیوڈ سینم تھے۔ مجھے معلوم تھا کہ فلم میں نیوڈ سین ہیں لیکن شگفتہ بھابی کو نہیں پتہ تھا۔ میں گھر آیا تو امی گھر نہیں تھیں وہ بازار گئی ہوئی تھیں اور چاہیاں بھابی کو دے کر گئی تھیں۔ میں لیپ ٹاپ پر فلم لگانے لگا تب شگفتہ بھابی پوچھنے لگی کہ کیا لگا رہے ہو ذیشان میں نے کہا انگلش فلم ہے جنات کی فلم ہے۔ بھابی بولی میں بھی دیکھ لوں۔ میں نے کہا نہیں بھابی آپ ڈر جاؤ گی 

تو بھابی بولیں نہیں تم نہیں ڈرو گئے تو میں کیوں ڈروں گی۔ تم لگا لو خیر میں نے فلم لگا لی اور بھابی کے ساتھ بیٹھا کر دیکھنے لگا۔ فلم میں ایک سین ایا جس میں ایک لڑکی نہا رہی ہوتی ہے تو ایک سانپ آتا ہے اور لڑکی کی چوچی پر کاٹتا ہے جس سے لڑکی مرجاتی ہے۔

یہ دیکھ کر بھابھی کہتیں ہیں ہٹاؤ اسے یہ گندی فلم ہے۔

میں نے کہا بھابھی آپ جاؤ یہ ایڈوینچر فلم ہے

بھابھی ہولی یہ کیسی فلم ہے 

جس میں لڑکی نہا رہی ہے اور وہ بھی ننگی۔ میں نے کہا یار بھابھی جاؤ اور مجھے دیکھنے دو۔ بھابی گئیں نہیں اور دیکھتی رہی 15 منٹ بعد ایک کس سین آیا 

بھابھی چپ رہی۔ پھر آدھے گھنٹے بعد ایک اور ننگا سین آیا۔ بھابھی پھر بھی چپ رہی۔ آخر میں بھابھی ڈرا بھی گئیں جب سانپ کو مارتے ہیں۔ وہ مجھ سے کہنے لگئیں کہ بہت گندی فلم تھی۔ ایسی فلمیں مت دیکھا کرو۔

وہ مجھ سے آنکھیں بھی نہیں ملا رہی تھیں خیر بات آئی گئی بوگی۔

ایک دن بھابھی جی مجھے بیالوجی پڑھا رہی تھیں اور فراگ سیکس چیپٹر تھا۔ بھابھی نے جو کپڑے پہنے تھے وہ بھی سفید تھے بالکل بھابھی کی طرح اجلے کپڑے سوراخوں والے تھے۔ بھابھی نیچے برا نہیں پہنتی تھی۔ مجھے اس میں سے بھابی کے نیل دکھا رہے تھے۔ میں نے بھابھی سے پوچھا، یہ سیکس میں کیا ہوتا ہے اور فراگ کے بچے کس طرح پیدا ہوتے ہیں۔

بھابھی ڈر گئی کہ یہ میں نے کیا پوچھ لیا ہے۔ وہ بولی یہ ایک پراسس ہوتا ہے جسے کرنے کے بعد فراگ انڈے دیتا ہے 

میں نے کہا یہ کیسے ہوتا ہے

تو بھابھی بولی کتاب میں سب لکھا ہے پڑھ لو وہاں سے

میں نے پوچھا بھابھی کیا آدمی بھی سیکس کے انڈے دیتا ہے۔

یہ سن کر بھابی ہنس دی اور بولی نہیں پاگل عورتیں بچے پیدا کرتیں ہیں اور میرے گال پر پیار سے نوچنے کر بولی بہت بیوقوف ہو تم تو

میں نے پوچھا بھابھی : سیکس کیسے کیا جاتا ہے۔

بھابھی بولی ۔ یہ بھی پوچھا جاتا ھے بھلا 


بھابھی کے خواب اب دن رات مجھے آنے لگے تھے پہلا توڑ کی شراب جیسا نشہ اب خمار بن کر مجھ پر چڑھنے لگا تھا 


میرے دماغ اور دھڑکنیں بتانے لگیں شگفتہ ہی وہ عورت ہے میری جوانی کے جال کی پہلی مچھلی ہے جسے اب زندہ پکڑنا تھا 

مدھوش کرنے سے جاگتی انکھوں کی سپنے اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں

میرے سونی زندگی میں چارسو شگفتہ بھابھی اجالا بن کر چھاگئی تھی تو میں نے بھابھی شگفتہ شمعون پر ڈورے ڈالنا شروع کر دئیے 

شگفتہ بھابھی بولی۔ یہ بھی پوچھا جاتا ہے۔ جب تو بڑا ہوگا خود ہی پتا چل جائے گا۔ میں نے کہا بھابھی آپ نے کبھی سیکس نہیں کیا ہے؟ آپ کی تو شادی ہو چکی ہے پر آپ نے بچہ نہیں دیا ہے

بھابی میرے اس سوال پر دنگ ھو کر رہ گئی ان کا چہرہ لال ہوگیا وہ نیچے چلی گئی۔ اس کے بعد کافی دنوں تک میں نے بھابھی کی شکل نہیں دیکھی۔ جب میں ان کے پاس پڑھنے کو گیا تو

پھر ایک دن میں فلم لایا سپائیڈر مین اور شمعون صاحب کو بلالیا فلم دیکھنے کے لیے ان کے ساتھ بھابھی بھی آ گئی

سردیوں کے دن تھے۔

ہم سب ایک بستر میں لیئے ہوئے تھے۔ بھابھی میرے اور بھائی شمعون صاحب کے درمیان میں تھی فلم دیکھتے دیکھتے ہی بھابھی سو گئی۔ اور رضائی میں ہی ان کی ٹانگوں سے قمیض ہٹ گئی۔

میں فلم دیکھ رہا تھا۔ میں نے لیٹے ہوئے کروٹ لی دیکھا بھابھی سو رہی ہاتھ نیچے بھابھی کی ٹانگوں سے لگا۔ مجھے احساس ہوا کہ بھابھی کی قمیض اوپر اٹھی ہے۔ میں نے ہمت کرکے قمیض تھوڑی اور اوپر اٹھا کر بھابھی کا پیٹ سہلانہ شروع کر دیا۔ ان کے نرم و ملائم پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مجھے عجیب سا سرور مل رہا تھا ساتھ ساتھ بھابی کو بھی دیکھ رہا تھا کہ وہ جاگ نہ جائے


بھابھی گہری نیند میں تھی ان کو پتہ نہیں چل رہا تھا۔ پھر میں نے بھابھی کی شلوار میں اہستہ سے ہاتھ ڈالا اور ان کی رانیں سہلانہ شروع کر دیں۔ میرا لن شلوار میں کھڑا ہو کر جھٹکے کھا رہا تھا۔ بھابھی کی رانیں سہلاتے سہلاتے میں جھڑ گیا

میں اٹھ کر باتھ روم میں گیا اور اور لن صاف کیا۔ اور دوبارہ بستر میں آ کر لیٹ گیا۔ بھابھی اب جاگ رہی تھی۔

میں ڈر رہا تھا کہ شاید ان کو پتہ چل گیا ہے لیکن ان کی طرف سے خاموشی پا کر مجھے کچھ اطمینان ہوا۔

فلم ختم ہوئی تو بھائی صاحب اور بهابھی اٹھ کر اپنے گھر چلے گئے۔

اگلے دن میں بھابھی کے پاس پڑھنے گیا تو وہ مجھے غصے سے دیکھ رہی تھی۔ میں پاس بیٹھا تو وہ مجھے کہنے لگئیں کہ؛

رات کو میری ٹانگوں کے ساتھ کیا کر رہے تھے۔

میں نے کہا؛ کچھ نہیں.

وہ کہنے لگی ابھی تمہاری امی کو شکایت لگاتی ہوں۔

میں رونے لگا؛ مجھ معاف کر دیں آئیندہ ایسا نہیں ہو گا۔ 

پھر کتاب نکال کر پڑھنے لگا۔

کچھ دیر بعد بھابھی مجھ سے پوچھنے لگی؛ میں تمہیں کیسی لگتی ہوں۔

یہ بہت ہی عجیب سوال تھا۔ 

میں پریشان ہو گیا۔

میں نے کہا؛ بھابھی مجھے آپ بہت اچھی لگتی ہو۔ آپ بہت پیاری ہو۔

بھابھی مجھ سے پوچھنے لگی تمہیں میرے پیر سہلانہ اچھا لگتا ہے۔

میں بھابھی کی طرف دیکھنے لگا اور کہا؛ ہاں بھابھی

بھابھی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ ان کے نرم نرم ہاتھ کا لمس پاتے ہی میرے جسم میں چیونٹیاں رینگنے لگئیں۔ انہوں نے میرا ہاتھ اپنی ٹانگوں پر رکھ دیا۔

میں ان کون سہلانے لگا۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔

بھابھی پوچھنے لگی؛ کیا تمہارا دل کرتا ہے کہ اپنی بھابھی کو ننگا دیکھو۔

میں نے کہا؛ بھابھی کرتا تو ہے اور کبھی کبھی زینے پر سے جھانک کر آپ کو نہاتے ہوئے بھی دیکھ لیتا ہوں۔

یہ سن کر بھابھی شرما گئی۔ ہائے یہ سب کب ہوا مجھے تو پتہ بھی نہیں چلا

میں نے کہا؛ بھابھی بس آپ کی کمر ہی نظر آتی ہے اور کچھ نہیں دیکھا۔

بھابھی بولی؛ کیا تم سچ میں اپنی بھابھی کو ننگا دیکھنا چاہتے ہو۔ تمہاری بھابھی بہت سندر ہے؟

میں نے : شرماتے ہوئے کہا جی بھابھی بھابھی بولی؛ ذیشان تم نے پہلے مجھ سے کیوں نہیں کہا ۔

میں نے کہا؛ بھابھی کیا آپ سچ میں مجھے

ننگی ہو کر دکھاؤ گی۔

یہ سن کر بھابھی کھلکھلا کر ہنس دی اور کہنے لگی؛ میرے بھولے ذیشان کہو تو ابھی ہو جاؤں۔

یہ سنتے ہی میں بھابھی سے لپٹ گیا۔

بھابھی مجھے پیار کرتے ہوئے بولی؛

لو جیسا چاہے دیکھ لو پر تم کو قسم ہے چودنا نہیں۔

میں نے پوچھا؛ چودنا کیا ہوتا ہے۔

بھابھی بولی؛ وہ بھی سکھا دوں گی ابھی صرف مجھے ننگا کرو اور پیار کرو۔

میں نے بھابھی کی قمیض اتاری دی۔ اب بھابھی برا اور شلوار میں تھی۔ نیٹ کی برا میں سے دودھ کی طرح سفید چھاتیاں جھلک رہی تھی۔

بھابھی پھر گھوم گرد بولی؛ لو اب برا اتار کر نظارہ کرو۔

میں نے برا کا بک کھول دیا۔

بھابھی برا اتار کر میرے سامنے منہ کیا۔

کیا مست نظارہ تھا۔ دو خوبصورت تربوز کی طرح کی چھاتیاں جن پر براؤن رنگ کے نپل تھے۔

میں تو پاگل ہو رہا تھا یہ منظر دیکھ کر بھابھی کا جسم بے داغ اور دودھ کی طرح سفید تھا بس نپل براؤن تھے باقی سب کچھ سفید تھا

میرا لن لوہے کی طرح اکڑا ہو تھا 

شگفتہ بھابھی نے مجھے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ ساتھ میں بھابھی نے میرے کپڑے بھی اتروا دیئے۔ میں نے بے اختیار بھابھی کے گالوں کو چومنا شروع کر دیا۔

پھر میں نے بھابھی کے ہونٹوں پر کس کیا

بھابھی بولی؛ ایسے نہیں

اور میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں دبا کر ہونٹ چوسنا شروع کر دیا۔

مجھے بہت مزا آرہا تھا۔ میں نے بھی بھابھی کے ہونٹ چوسنا شروع کر دیے ان کے ہونٹوں کا رس مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ میں لگاتار 10 منٹ تک پیتا رہا۔اس دوران میرے لن نے جھٹکا کھاتے ہوئے پانی چھوڑ دیا۔

بھابھی بولی؛ میرے پیارے ذیشان اتنی جلدی خلاص ہوگئے۔

میں بولا؛ بھابھی مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔

بھابھی ہنس کر بولی؛ کیا اپنی بھابھی کا دودھ نہیں پیو گئے۔

میں نے کہا بھابھی کیوں نہیں پیوں گا۔

یہ سنتے ہی بھابھی نے اپنی چوچی میرے منہ میں ڈال دی جسے میں مزے سے چوسنے لگا۔ بھابھی کی میٹھی میٹھی چوچیاں چوس کر بہت مزا آرہا تھا۔

میں لگاتار چوچی چوس رہا تھا۔ بھابھی نے میرا ہاتھ اپنی شلوار کے اندر چوت کے اوپر رکھ دیا اور بولی؛

اس کو سہلاؤ۔

میں نے ذور ذور سے سہلانہ شروع کر دیا۔ 5 منٹ بعد بھابھی کی چُوت پانی خون اگلنا شروع کر دیا اور بھابھی و نے مجھے پیار سے چومنا۔

میں زندگی میں پہلی بار عورت کے جسم کی لذت سے آشنا ہوا تھا۔ میں پھر فارغ ہو گیا۔

بھابھی شگفتہ بولی؛ پاگل جب دیکھو دھار مار دیتا ہے۔ ابھی اناڑی ہو نا۔ کچھ نہیں آتا چلو میں سب سکھا دوں۔

بھابھی اور میں نے کپڑے پہن لیے

بھابھی کہنے لگی؛ اب مجھ تنگ نہیں کرنا جب پیار کرنا ہو، دن میں میرے پاس آجانا۔ چلو اب پڑھائی کرتے ہیں۔

میں نے کہا؛ بھابھی یہ تو بتاؤ چودنا کس کو کہتے ہیں۔

بھابھی بولی؛ یہ جو لن ہے اس کو کھڑا ہونے کے بعد چوت کے سوراخ میں ڈال کر جھٹکے مارتے ہیں، اور فارغ ہوتے ہیں اس کو چودنا کہتے ہیں۔

میں نے پوچھا؛ کیا بھائی صاحب بھی آپ کو ایسے ہی چودتے ہیں۔

بھابھی بولی؛ اور نہیں تو کیا۔

میں نے کہا؛ بھابھی میں بھی آپ کو چودوں گا۔

بھابھی بولی؛

نہیں ذیشان ابھی تم بہت چھوٹے ہو۔ جب بڑے ہو جاؤ پھر جیسے چاہے چودنا۔ ابھی اوپر سے ایسے ہی مزے لو۔ کیا اس طرح مزا نہیں آیا۔

میں نے کہا؛ آتا ہے

تو بھابھی بولی؛ تو پھر اور کیا چاہیے۔

پھر میں بھابھی سے روز ایسے ہی پڑھتا کبھی چوچی چوستے ہوئے۔ کبھی چوت میں انگلی کرتے ہوئے، کبھی ٹانگیں سہلاتے ہوئے، چوچی تو روز ہی چوستا تھا

کیونکہ چوچی چوسنے میں بہت مزا آتا تھا

میں بھابھی کے ساتھ کافی مزے کرتا تھا 


ایک دن باتوں باتوں میں میں نے اس کا ذکر اپنے دوست و ماجد سے کیا۔

تو اس نے کہا؛

اتنا سب کچھ کرنے کے بعد سب سے اہم کام تو کرتا نہیں۔

میں نے پوچھا؛ اب باقی کیا رہ گیا ہے۔

وہ بولا؛ یار بہت بدھو ہے تو ابے اب چود دے اپنی بھابھی کو اصل مزہ تو اس میں ہے۔ 

میں نے کہا؛ یار مجھے چودنا نہیں آتا.

تو وہ میری بات سن کر ہنس کر کہنے لگا؛ 

یار کیسا مرد ہے تو؟ عورت کو ننگا دیکھ لیا اور چودنا نہیں آتا۔

میں نے کہا؛ یار واقعی مجھے نہیں میں نے آج تک کسی لڑکی کے ساتھ ایسا نہیں کیا۔


وہ کہنے لگا؛ یار تو بھی پاگل ہے، آج تجھے میں ایک چیز دیتا ہوں۔ اسے دیکھ کر تجھے سب کچھ آ جائے گا۔

یہ کہہ کر وہ ایک سی ڈی اٹھا لایا اور مجھے دے کر کہنے لگا؛

یہ لے اسے اکیلے میں دیکھنا۔

میں نے سی ڈی لی اور گھر آگیا۔ اور امی اپنے کمرے سو رہی تھیں۔ میں چپ کے سے اپنے کمرے میں گیا، دروازہ بند کیا اور سی ڈی لگا کر دیکھنے لگا۔

اس میں ایک انگریز مرد اور عورت ننگے ہو کر ایک دوسرے سے پیار کر رہے ہوتے ہیں۔ میں پہلی بار ایسی فلم دیکھ رہا تھا۔ مجھے عجیب سا مزہ آنے لگا۔

 


مرد عورت کی چھاتیاں چوستا ہے اور عورت مرد کا لن منہ میں لیتی ہے۔ مجھے اس سے کراہیت سی محسوس ہوئی۔ پھر مرد کا لن تن کر راڈ کی طرح ہو جاتا ہے تو وہ اسے عورت کی چوت کے سوراخ میں ڈالتا ہے اور اسے زور زور سے جھٹکے مارتا ہے اور فارغ ہو جاتا ہے

فلم دیکھ کر میرا لن بری طرح ہچکولے کھا رہا تھا۔ اور مجھے بھابھی کی شدید کمی فیل ہو رہی تھی۔

اس کے بعد ماجد نے مجھے بہت سی ایسی فلمیں دیں۔ اب میرا من بھی یہ سب کچھ کرنے کو کرتا تھا جو فلم میں ہوتا تھا۔ میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ اب کی بار میں بھابھی کی چوت کا مزہ لے کر رہوں گا۔


اگلے دن میں بھابھی کے پاس گیا تو وہ ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ میں بھابھی کے پاس بیٹھ گیا اور بھابھی سے باتیں کرنے لگا۔ باتوں کے دوران میں نے بھابھی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بھابھی کا نرم و ملائم ہاتھ پکڑ کر میرا لن کھڑا ہو گیا۔

اس دن بھابھی نے پنک کلر کی قمیض اور سفید شلوار پہنی ہوئی تھی۔ پنگ رنگ بھابھی کے گورے جسم پر بہت بھلا لگا رہا تھا۔ میں بے چین ہو رہا تھا۔ بھابھی میری بے تابیِ دیکھ کر بولی

کیا بات ہے ۔ آج میرے ذیشان کو کیا ہوا ہے

میں نے بھابھی کو بولا؛ میں آپ کو چودنا چاہتا ہوں۔

شگفتہ بهابھی میں نے کب منع کیا ہے۔ بڑے ہو جانا پھر جب مرضی کرنا۔

میں نے کہا: " نہیں بھابھی آج ہی

یہ کہتے ہی میں نے بھابھی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر بھابھی کے گالوں پر کس کی، ویسے تو میں کافی بار بھابھی سے مزے لے چکا تھا لیکن اس دن میری الگ ہی فیلنگز تھیں۔ میں بھابھی کے گالوں پر زبان رکھ کر اسے سہلانے لگا۔ پھر بھابھی نے میرے ہونٹ پر ایک کس کی۔ میں نے بھابھی کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنا شروع کر دیئے۔ میں بہت زور سے بھابھی کے ہونٹ چوس رہا تھا پھر بھابھی نے زبان میرے منہ میں ڈالی۔ میں نے بھابھی کی زبان چوسنا شروع کر دی

اف کیا مزے دار تھی بھابھی کی زبان ایسا لگ رہا تھا شکر چاٹ رہا ہوں۔ 15 منٹ ہونٹ اور زبان چوسنے کے بعد میں نے بھابھی سے قمیض اتارنے کو بولا۔

وہ بھی کافی مست ہو چکی تھی۔ وہ شرارت سے بولی؛ خود ہی اتار لو نا

میں نے ایک جھٹکے سے قمیض کو کھینچا

وہ بولی؛ ارام سے ذیشان پھٹ جائے گی قمیض! ٹھرو میں خود بی اتارتی ہوں

یہ کہہ کر بھابھی نے قمیض اتار دی۔

میں نے بھی اپنی شرٹ اتار دی۔ اور دوبارہ بھابھی کو کس کرنے لگا۔ کبھی گردن چاٹتا تو کبھی گال۔ پھر میں نے بھابھی کے کان کے نرم حصے کو منہ میں لے کر چوسا بھابھی لذت سے کراہ اٹھی۔ وہ ساتھ ساتھ میرے م بدن پر ہاتھ پھیر رہی تھی میں مزے سے پاگل ہو رہا تھا۔

میں نے بھابھی کی برا بھی اتار دی۔ بھابھی کی نوکدار چوچیاں میرے سامنے تھیں۔ اسے دیکھ کر میرا لن مزید اکڑ گیا۔ بھابھی کی تنی چوچیاں کسی بھی مرد کو گرم کرنے کے لیے کافی تھیں۔ میں نے بھابھی کو بانہوں میں بھر کر لگاتار چومنا شروع کر دیا۔ بھابھی کے جسم سے بھینی بھینی مہک آ رہی تھی جو مجھے وحشی بنا رہی تھی۔ و میرے ہاتھ بھابھی کی پیٹھ پر گھوم رہے تھے اور ساتھ ساتھ ان کے نرم چوتڑ بھی دبا رہا تھا۔ بھابھی کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں۔

پھر میں شگفتہ بھابھی کو اوپر سے چومتا ہوا بھابھی کی چھاتیوں تک آیا۔ میں نے دونوں نپلوں کو انگلیوں میں پکڑ کر دبایا۔ وہ بالکل اکڑے ہوئے تھے اب میں نے نپل منہ میں لیا اور سے چبانے لگا۔

آہہہہ،،،،،،،، پورا کھا لو میری جان۔ بھابھی مزے سے بولی۔

میں سمجھ گیا بھابھی گرم ہو چکی ہے۔ اب میں نے پورا نپل منہ میں لے لیا تھا اور اسے چوسے نے کے ساتھ ساتھ کاٹ بھی لیتا۔ تو وہ چلا اٹھتی تھی۔

اور کہا؛ آرام سے چوسو، کاٹو تو نہیں درد ہوتا ہے۔

میں لگاتار نپل چوسے جارہا تھا۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میں بھابھی کے میں بھابھی کے مموں کا دیوانہ تھا۔

میں کافی دیر بھابھی کے مموں چوستا رہا۔کبھی ایک نیل منہ میں لیتا تو کبھی دوسرا نپل۔

میرے بیدردی چوسنے کی وجہ سے بھابھی کے نپل گلابی سے لال ہو چکے تھے۔ پھر میں نے بھابھی کے دودھ جیسے گورے اور نازک پاؤں چائنا شروع کیئے میں ان کے پاؤ کے نرم نرم انگلیوں کو منہ میں لے کر چوس رہا تھا۔ ادھر میرا لن بھی کھڑا تھا اور باہر آنے کے لیے بے چین تھا۔ میں نے پھر اپنی پینٹ اور انڈر ویئر اتاردی اور بھابھی کی شلوار بھی اتار دی بھابھی نے میرے لن کو ہاتھوں میں پکڑ لیا اور سہلانے لگی 

بھابھی ما بولی؛ واہ ارے ذیشان تمہارے لن کے کیپ کی بڑی چمک ہے اور کتنا صاف ستھرا ھے ماس بھی نہیں ھے اسکے اوپر جبکہ شمعون کے لن پر ماس ہے۔

میں بولا؛ بھابھی شمعون کا ختنہ نہیں ہوا ہوگا شاید۔

بھابھی مسکرا دیں۔ بھابھی کے نرم ہاتھ لگنے سے میرا لن آپے سے باہر ہو گیا۔ میں نے بھابھی کو نیچے دھکا دیا اور بھابھی کی چوت دیکھنے کے لیے ان کی ٹانگیں اٹھائی سیکسی فلمیں دیکھا کر مجھے عورت کی چوت کے بارے میں کافی حد تک پتہ چل چکا تھا کہ کونسا سوراخ چودنے والا ہوتا ہے۔

بھابھی کی چوت گلابی تھی بالکل بھابھی کی طرح اور لیس دار پانی سے بھیگی ہوئی تھی۔ میں نے اسے سہلانہ شروع کر دیا بھابھی مزے سے بے حال ہو رہی تھی۔ میں نے چوت کے ہونٹ پھیلائے بالکل گلاب کی پنکھڑیاں لگ ربی تھیں۔ اب میرے سامنے بھابھی کا سانچے میں ڈهلا جسم تھا۔ چوچیاں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ 

میں نے بھابھی کی گانڈ کے نیچے تکیہ رکھا اور ان کی ٹانگوں کے بیچ میں آگیا۔ اب میں نے اپنا لن کی ٹوپی بھابھی کی چوت پر رکھی اور دھکا لگایا۔ لن سنسناتا ہوا آدھے سے زیادہ اندر چلا گیا۔ بھابھی کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی جو کہ اس نے اپنے ہاتھوں سے دبا لی۔

وہ بولی؛ ذیشان آرام سے کرو۔ یہ کام آرام سے کیا جاتا ہے۔

لیکن میں نے بھابھی کی ایک نہیں سنی اور بھابھی کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے ایک زوردار جھٹکا دیا اور میرا لن بھابھی کی چوت میں جڑ تک اندر چلا گیا اور بھابھی کی ایک دلخراش چیخ نکلی اسسی ذ۔۔۔۔۔ یشان ننن۔۔۔۔۔۔نکالو اہ۔۔۔۔۔ مر گی بابر نکالو 

جو میرے ہاتھوں میں دبی رہ گئی۔ جھٹکا اتنا زور کا تھا کہ بھابھی کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ میں نے نیچے جھک کر بھابھی کے ہونٹوں کو چوما اور چوسا تھوڑی دیر بعد جب بھابھی کا درد کم ہوا تو میں نے بلکے ہلکے جھٹکے لگانا شروع کر دیئے۔ میں اس وقت ہواؤں میں اڑ رہا تھا پہلی بار کسی چوت میں میرا لن تھا۔

شگفتہ بھابھی نے مجھے بانہوں میں زور سے پکڑ لیا اور مجھے زور سے جھٹکے لگانے کو بول رہی تھی۔ میں نے سپیڈ تیز کردی۔ چونکہ یہ میری پہلی چدائی تھی۔ کسی بھی عورت کے ساتھ اس لیئے میں 5 منٹ میں ہی فارغ ہو گیا اور منی بھابھی کی چوت کے اندر ہی چھوڑ دی۔

بھابھی بولی؛ 2 منٹ اور رک جاتے تو میں بھی جھڑ جاتی، کوئی بات نہیں ابھی تمہارا پہلا موقع ہے، میں سب کچھ سکھادوں گی۔

اس کے بعد بھابھی نے مجھے اپنی چوت میں انگلی ڈالنے کو کہا۔ میں نے انگلی ڈال کر زور سے بلانا شروع کردی ۔ تھوڑی دیر بعد بھابھی کی چوت نے منی کا فوارہ اگل دیا اور بھابھی کا جسم ایک جھٹکے میں ڈھیلا پڑگیا۔

شگفتہ بھابھی نے مجھے گلے لگا کر چومنا شروع کر دیا۔

اسکے بعد بھی میں نے بھابھی کو بہت مرتبہ چودا۔ میں نے میٹرک کر لیا اور پھر میرے ابو کی ریٹائرڈمنٹ ہوگئی اور میں بھابھی کی چوت سے محروم ہو گیا۔ اور پھر ہم نے پنڈی کے علاقے فتح جنگ میں بیس ایکڑ زمین خرید لی اور میں بطور  

جاگیر دار اپنا مستقبل بنانے لگ گیا۔

ہمارے ساتھ جو ڈیرہ تھا وہ بھی ایک نوجوان زمیندار تھا میری طرح اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا جب میں انکے کھیت میں گیا تو وہ لوگ کرکٹ کھیل رھے تھے مجھے دیکھ کر اس نے مجھے بھی کھیلنے کی پیشکش کی اور اپنا ہاتھ بڑھاتی ہوئی کہا؛

نام شاہد ہے مجھے نک نیم نوابزادہ سے پکارتے ہیں۔

میں نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا؛ میں ذیشان رفیق نیو گایئز ان یوئیر ویلج۔ ہم دونوں مسکرا دئیے۔

اس دن ہم لوگ شام تک کرکٹ کھیلتے رھے اور میں پہلی بار گاؤں کے کھلے میدانوں میں بھاگ ڈور کر بہت تھک گیا تھا۔ اسی لئیے ہم دونوں چلتے چلتے کھیت کی ایک پگڈنڈی پر بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے  

شاہد نے مجھے بولا کہ؛ آپ روز ہمارے ساتھ کھیلا کرو آپکے جلد ہی سب لوگ دوست بن جائینگے تو گاؤں کے سرسبز و شاداب کھیتوں کا دل فریب نظارہ دیکھتے ہوۓ میں بولا؛

یار میں تو بہت تھک گیا ہوں۔ آپ لوگوں کا ھی حوصلہ ہے فیلڈنگ بھی کرو اور باؤلنگ بھی اور کھیتوں کی جھاڑیوں سے گیند بھی ڈھونڈ کر لاؤ۔

شاہد میری بات کا جواب دیتے ھوۓ بولا؛

دیکھ ذیشان ادھر جو بندہ مار کھا جاتا ہے وہ سخت جان بن جاتا ہے دنیا ایویں نئ پینڈو زندگی کی فین ھوتی جارھی ہے۔


میں نے بولا؛ یار لمبی مت چھوڑا کر شاہد ایسا جو تجھے گاؤں بہت پسند ہیں۔

تو وہ دبنگ لہجے میں بولا؛ ہم پینڈو لوگ نا ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ھوتے ھیں اور ہماری پہچان ہماری گلی نمبر سے نہیں بلکہ باپ دادا کے نام سے ہوتی ہے۔ اور تم شہری لوگ ساتھ والے گھر میں میت پڑی ہوتی ہے اور دوسرے گھر میں میوزک چل رہا ھوتا ہے

میں جل کر بولا؛ بس بس میری جان آپکی بات سو فیصد درست ھے مگر ہمارے گاؤں کے تو چند گھر ہیں قریب پچاس گھر کوئی بڑا گاؤں ھوتا تو سب کچھ ٹھیک ہوتا۔

میری بات سن کر شاہد بولا؛

پاگل ہمارا گاؤں چھوٹا ضرور ہے پر اس میں بسنے والے لوگوں کے دل چھوئے نہیں ہیں تم چاہتے ھو شہری کلچر کہ یہاں لڑکیاں شارٹ پہن کر گھومیں اور میں اپنی آنکھوں کو خیرہ کرلوں شاہد کی اس بات پر میں کھلکھلا کر مسکرا دیا اور بولا

تو بڑا شرارتی ھے یار بھلا اس عمر میں یہ سب نہیں ہوگا تو پھر کب ہوگا

شام ڈھل رہی تھی اور پرندوں کی قطاریں آسمان پر رخت سفر باندھے گھونسلوں کو لوٹ رھیں تھیں بہت دلفریب منظر تھا شاہد کی پیش گوئی سچ ثابت ہو رہی تھی وہ مجھے آسمان کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا؛ ذیشان کیا دیکھ رہے ہوا

تو میں بولا؛ شاید یار بلا کا حسن ھے تیرے گاؤں میں

شاہد بولا؛ ذیشان جگر ابھی تم نے حسن دیکھا ھی کب ھے 

میں بولا؛ کیوں کیا ہوا

تو وہ بولا؛ وہ دیکھ

میں نے کھالے کیساتھ بنی ڈنڈی پر دیکھا تو

دو حسین لڑکیاں ہمارے طرف ھی آرہی تھیں ان کے کندھوں پر کئ تھی جو کھیتوں کو پانی لگانے کے استعمال میں آتی ھے اردو میں شاید اسے کسی بولتے ھیں

شاہد بولا؛ اس میں جو کالے سوٹ والی ہے وہ انعم شہزادی ھے اور جو اسکے پیچھے والی ہے وہ لبنیٰ شہزادی ھے چاچے شیرو کی دو ھی بیٹیاں ہیں جن کی ادھر سات ایکڑ زمیں ہے جسے اپنے باپ کیساتھ یہ بھی کاشت کرتی ہیں

میں بولا؛ واھ بھئ اب یہ کدھر جارھی ہیں


اس سے پہلے شاہد کچھ بولتا وہ دونوں ہمارے عین سر پر پہنچ گئیں اور شاہد کو بولیں؛ نوابزادے تم ادھر بیٹھے ہو۔ گھر نہیں جانا، چاچی نے مجھے کہا کہ اسکو جاتے ہی بھیج دو دودھ نکالنا بھینسوں کا

تو شاہد اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور بولا؛ ہائے میری راولپنڈی ایکپریس ذرا سانس تو لے لو دودھ بھی نکال لوں گا بھینسیں کونسا بھاگی جارہی ہیں۔

انعم شاہد کی دومعنی بات سن کر بولی؛

یہ اجنبی کون ہے

تو اس نے میرا تعارف کرواتے ہوۓ کہا؛

یہ ذیشان رفیق ھے اس گاؤں کا نیا کسان اور نیا باشنده اور ذیشان یہ ہمارے شیرو چاچا کی بڑی بیٹی انعم شہزادی

اور میں لبنی شہزادی۔ دوسری نے اپنا تعارف خود ہی کروا دیا

تو میں بولا؛ جی انعم ویسے آپکو ڈر نہیں لگتا اتنے رات گئے کھیتوں میں

میری بات کاٹتے ہوۓ لبنی بولی؛ آج ساڈی پانی دی واری اے اسیں پانی لان چلیاں واں۔ 

یعنی اسکا مطلب کہ آج ہماری کھیتوں کو پانی دینے کی باری ہے اور ٹائم پیریڈ ہے سات بجے سے نوبجے تک ہمارا باپ اکیلا ھوتا ھے اور ہم نے اپنی تعلیم مكمل کرلی ھے اور اب انہیں ریسٹ دیا ہے اور اب ہم فارمر ہیں۔ انعم نے سینے کو تان کر کہا

تو میں سوچنے لگا کہ جب کسان اتنے حسین ھوں تو گھوبھی کتنی حسین ہوگی مجھے سوچوں میں گم دیکھ کر انعم شہزادی بولی؛

ذیشان صاحب آپکی زمین کدھر ہے۔

تو شاہد نے کہا؛ انعم آپکا جو سبزی والا ایکڑ ہے جس پر امرودوں کے دو پودے بھی ہیں دراصل اسکے اگلے کھیت ذیشان کے ہیں اس کا ابو ریٹائرڈ فوجی ہے اور اس کے ماموں نے اسے یہ زمیں خرید کر دی ہے جس اب ذیشان آباد کرے گا۔


انعم بولی؛ تو تم بھی آرمی جوائن کرلیتے

تو لبنی بولی؛ اسکا نشانہ کچا ہوگا اس لئے کسان بن گیا ہے چارہ

تو میں بولا؛ نشانہ تو میرا بہت پکا ہے کبھی آزما کر تو دیکھ لو۔

میری بات سن کر وہ شرما سی گی


اور انعم بولی: کاشتکاری میں اب کسانوں کو کچھ نہیں بچتا ڈی اے پی کی بوری دس هزار سے تجاوز کرگی ھے سارا اناج تو آڑھتی خرید لیتے ہیں اور دام کماتے ہیں کسان بیچارہ تو محنت ہی کرتا رہ جاتا ہے 


میں بولا؛ میں ایک الگ ذہن کا بندہ ھوں دیکھنا اس فیلڈ میں بھی بہت کچھ الگ سے کروں گا میرے پاس وسیع پلان ہے۔ جس سے میں کسان کی زندگی خوشحال بنا سکتا ھوں

تو انعم بولی؛ آپکی پرفامنس بھی دیکھ لینگے

اور لبنی کو بولی؛ چل نی بم چلیئے انکی باتیں ختم نہیں ہونی۔

انعم نے اپنے ایک میں ہاتھ میں پکڑے آگے ٹارچ پکڑی ہوئی چل پڑی اس کے : پیچھے تھی اور دوسرے میں کئ پکڑے اگے چل پڑی اس کے پیچھے پیچھے ناک چڑھی لبنی اپنے ہاتھ میں چاۓ کا تھرماس پکڑ کر آگے بڑھ گئیں

انکے آگے بڑھتے ہی میں نے شاہد کو بولا؛

یار ان کو ڈر نہیں لگتا اگر سانت نکل آئے تو پھر کہا جائینگی بیچاری۔ 

تو شاہد بولا؛ اوہ میرے بھولے بادشاہ اس انعم نے بہت دفعہ سانپ مارے ہیں اور یہ کھیتوں میں بچپن سے ہی آرہی ہیں اسی لئیے ڈر کا تناسب بہت ہی کم رہ گیا ان کے ذہن میں۔

شاہد اپنے گھر چلا گیا اور میں اپنے گھر چلا آیا اور ان دو شہزادیوں کے بارے میں سوچتا رھا میرا دل کر رہا تھا کہ میں انکی مدد کروں مگر وہ بہت خود دار تھیں شاید مدد کی پیشکش ٹھکرا دیتیں۔

میں اس رات جلد سو گیا کیونکہ حویلی نما اس گھر میں شہر کی طرح پُرسکون رات کی سیاهی پوری طرح سے پھیل چکی تھی۔



میں صبح جب اٹھا تو ھمارے گھر کے سامنے بیری کے درخت تھے ان پر چڑیاں چہچہا رھی تھیں اور کوئل کی کوک سنائی دے رھی تھی میرا گاؤں میں آج ایک ھفتہ مکمل ھوگیا تھا

اور آج پہلی صبح میری آنکھ جلد کھل گئ تھی تو میں نے سوچا چلو مارننگ واک کرنے جاتا ھوں میں نے ٹی شرٹ پہنی اور پھر واش روم جاکر ھاتھ منہ دھویا اور باھر کا بڑا گیٹ کھوال اور باہر نکل گیا میرا کمرہ اوپر والے پورشن میں تھا اور ممی پاپا نیچے والے دو روم میں رھتے تھے اور گھر کے پچھلے گیٹ کیساتھ مامو سمیر کا روم تھا میرا ماموں ھمارے ساتھ رھتا تھا

کیونکہ انکی اپنی اولاد نہیں تھی اور انکی وائف پچھلے سال ھی چل بسی تھی

خیر سب گھر والے صبح کی وقت خواب خرگوش تھے تو میں نے جب اپنے روم کے گلاس ڈور سے لوگوں کو واک کرتے دیکھا تو میرا دل بھی واک کرنے کو کیا اور میں نکل گیا پھر اور یہ میری پہلی واک تھی میں سلو موشن میں گنگناتا ھوا ایک طرف بھاگتا ھوا جارہا تھا کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر سرسبز گھاس میرے نرم پاؤں کو ٹھنڈک پہنچا رھی تھیں گھاس ھر سو ایک دلفریب نظارہ پیش کرتی جب ان پر پڑی شبنم چمک دمک دکھا رھی ھوتی میں پرندوں کے منفرد سنگیت اور شور کو سنتا ھوا اب اپنے کھیتوں سے نکل کر انعم شہزادی کے امردوں والے ایریا میں آ گیا تھا سامنے امرودوں کے کچھ پیڑ نظر آرھے تھے جو اپنی بہار کے کچے پکے امرودوں سے لدے ھوۓ تھے تو میں نے دل ھی دل میں سوچا

اچھا ذیشان کاکا یہ ھیں تیری محبوبہ انعم شہزادی کے امرودوں کے درخت اور ساتھ ھی میں نے ایک امرود توڑ لیا اور دانتوں تلے کڑچ کرکے اپنے منہ میں اسکا میٹھا پن محسوس کرنے لگا ہاۓ انعم تیری طرح تیرے سارے امرود بھی میٹھے ھیں پھر میرے دل نے کہا اوئے ظالماں اسے تو پتہ

ھی نہیں ھے اور تم اسے اپنی محبوبہ مان رھے ھو میں نے اسی پگڈنڈی کو پکڑا اور

سیدھا نہر کے پل کی طرف دوڑنے لگا امرودوں والی یہ وٹ جسے اردو میں پگڈنڈی یا ڈنڈی بولتے ھیں سیدھا ھمارے اور انعم کے کھیتوں کی طرف سے نکل کر ایک چھوٹی نہر پر چلی جاتی میں اسی وٹ پر دوڑتا جارھا تھا آس پاس بوڑھے جوان اور عورتیں بھی اس حسین صبح کا درشن کرتے ھوۓ میڈم پیس پر بھاگ رھی تھیں مجھے یہ نظارہ پہلی بار دیکھنے کو ملا تھا مجھے یقیں نہیں ھو رھا تھا کہ ھمارے پاکستان کے دیہاتی لوگ بھی واک کرنے کی اہمیت سے پوری طر ح سے واقف ھیں شکر ھے ان کو بھی احساس ھے فٹنس کا خیر کھلی فضاؤں میں خاص کرکے صبح کی رننگ کا اپنا ھی مزہ ھے جب بھاگتے ھوۓ آپکے پھیپھڑے تازہ ھوا حاصل کرتے ھیں اور سرسبز و شاداب فصلیں نظر کو بڑھا دیتی ھیں گاؤں کے افراد اسی وجہ سے تندرست اور توانا ھوتے ھیں کہ وہ کثرت سے واک کرتے ھیں اور شہر کے لوگ بہت کم واک کرتے ھیں اسی لئیے عمر سے بڑے انکے پیٹ ھوتے ھیں سارے نہیں تو بہت زیادہ لوگ موٹاپے کا شکار ھو جاتے ھیں اگرچہ اسمیں فاسٹ فوڈ اور میٹھے کا بہت زیادہ رول ھے گاؤں کے لوگ فاسٹ فوڈ کو بہت زیادہ نہیں کھاتے اور پہلے پہر ھی سو جاتے ھیں دوستو گاؤں میں رات اور دن کا الگ الگ پتہ چلتا ھے آسمان پر رات کو تارے ھوتے ھیں اور دن کو دوستوں کی محفل بھی میسر آجاتی ھے مگر شہر میں گزرتے وقت کا احساس نہیں ھوتا وقت سپیڈ سے گزرتا ھے اور مل بیٹھنے کی گھڑیاں بہت کم میسر آتی ھیں اسی لئیے ہر بندہ تنہائی اور ڈپریشن کا شکار رھتا گاؤں ہے ۔


میں بھاگتا ھوا اب نہر کے قریب پہنچ چکا تھا میرے دل کی دھڑکن تیز چل رھی تھی اتنی دور سے بھاگتا ھوا آرہا تھا اور یہ دھڑکن اب اور بھی تیز ہوگئی جب سامنے سے انعم اور لبنی بھاگتی ھوئی آرھی تھیں اور لبنی اسکے آ گے آگے دوڑتی آرھی تھی اور انعم تھوڑی دھیرے دھیرے بھاگ رھی تھی اور بلیک کلر کی کٹ ان دونوں نے زیب تن کی ھوئی تھی دونوں کی عقابی نظروں نے مجھے دیکھ لیا اور میں اس سویر کو سلام پیش کرتے ھوۓ ان دونوں کے قریب جا کھڑا ھوا ہاۓ کیا منظر تھا دونوں طرف اکھڑی ھوئی سانسیں تھیں بس نظریں ایک

ھوئیں اور انعم ہانپتے ھوۓ بولی؛

اوۓ تو وی اسی سائیڈ تے واک کرنا ایں بہت سانس چڑھا ھوا ھے نکے فوجی کو


مجھے انعم کی بات سن کر بہت ھنسی آئی اور مجھے بہت اچھا لگا کیونکہ اس نے میری شناخت یاد رکھی کہ میں فوجی کا بیٹا ھوں

میں بولا؛ جناب آج ھی واک کرنے آیا ھوں اور آج صبح کا درشن بہت اچھا ھوا تمہارا چہرہ دیکھ لیا 


میری بات سن کر لبنی مسکرا دی اور بولی؛

واہ اے گلاں وی کرلینداے 


میں بولا؛ جی کرلیتا ھوں باتیں اگر کوئی کرنے دو 

تو پھر میری بات سن کر حیا کی لالی انعم کے گالوں پر امڈ آئی تھی وہ کچھ سبنھلتی تو میں نے کہا؛

مجھ سے دوستی کروگی

اور اپنا ھاتھ بڑھا دیا اسکی طرف وہ تو پہلے چھوئی موئی بن کر بیٹھی تھی بے چینی کے عالم میں اس نے بھی اپنا ہاتھ

میرے ہاتھ میں دے دیا اور بولی؛

میں ایسی ویسی لڑکی نہیں ھوں ذیشان اپنے باپ کی پگ ھوں، مجھے بدنام مت کرنا

میں بولا؛ میرا باپ فوجی ھے اور میں ایک فوجی کا خون ھوں محبت اور دوستی اصول کیساتھ کروں گا دھوکہ دینا میری فطرت نہیں اور آپ میرا چناؤ کرکے فخر محسوس کروگی میں بھی تمکو بہت پسند کرتا ھوں میری چاھت کا مان رکھنا۔


لبنی بولی؛ واہ ذیشان بھائی آپکا پرپوز کرنے کا انداز بہت پسند آیا

میں نے اسکا ہاتھ چھوڑا اور وہ آگے بڑھ گئیں اور بولیں؛

سوری ھم نے جاکر بھی دودھ بھی نکالنا ھے پھر ملاقات ھوگی

اور وہ چلی گئیں میں تھوڑا آگے گیا تو وہ اپنے گھر کو چل پڑیں...


دراصل انعم سے ایک دو ملاقاتیں ھو چکی تھیں میری اور میں نے محسوس کیا کہ محبت کی چنگاری ادھر بھی سلگ رھی

ھے اسی لئیے میں نے پرپوز کردیا کہ ھوسکتا ھے انعم مان جاۓ میرا اندازہ سہی ثابت ھوا وہ بھی چوری چوری مجھے دیکھ رھی تھی اور میں بھی ۔


میں جب واپس آیا تو مما ناشتے کی میز پر میرا انتظار کر رھی تھیں ھم نے ناشتہ کیا اور پھر ابو پوچھنے لگے کہ؛

ذیشان بیٹا کیسے لگے گاؤں کے لوگ اور کیا تم خوش ھو یہاں

تو میں بولا؛ جی پاپا میں اس نئ شروعات سے بہت خوش ھوں تو پھر کیا پلان ھے ابا

جان

ابا جان بولے؛ پلان یہ ھے کہ کسان زمین کا سینہ چیر کر اناج اگاتا ھے، اور میں اس عمر میں زمیں کا سینا چیرنا میرے بس کی بات نہیں ھے

ماں بولی؛ میرا پتر بہت سیانا ایں آپے کرلے گا سب تسی فکرنہ کرو۔


ایک دن میں کھیتوں میں جوار کے کھیتوں سے ھوتا ھوا اپنے دوست شاہد کی طرف جارہا تھا دوپہر کا وقت تھا ستمبر کی نیم گرم دھوپ تھی اور اتنی زیادہ گرمی نہیں تھی فصلیں جوان ھو چکیں تھیں ان کے درمیاں سے گزرتے ھوۓ بھی خوف آتا تھا 


میں جب جوارکی فصل کے درمیان پہنچا تو مجھے ایک نسوانی آواز سنائی دی اور کچھ گڑ بڑ سی محسوس ھوئی اور میری چھٹی حس نے محسوس کیا کہ ضرور اس جوان فصل میں کوئی پریمی جوڑا ھے مگر ھے کدھر اس کا معلوم کرنا میرے لئیے مشکل تھا میں نے ان کی پیش قدمی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا میں نے کان لگا کر سنا تو مکئ

کی فصل میں کچھ کھسر پسر اب سسکیوں میں بدل چکی تھی مجھے اس طرح اوپن

ماحول میں اس طرح کی مدھوش سسکیاں بہت متاثر کر رھی تھیں میری عقل نے کام کیا میں نے نیچے بیٹھ کر جوار کے پودوں

کے درمیانی فاصلوں سے دیکھنا شرو ع کیا تو ایک طرف مجھے ایک لڑکی گھوڑی بنے ھوۓ نظر آئی.

مجھے تعجب ھورہا تھا کہ ایک تو پاگل اوپن سیکس کر رھے ھیں اور دوسرا یہ ڈر ذرا بھی نہیں کہ پکڑے جائینگے تو پھر کیا ھوگا

دور کسی نے کھیتوں میں ہل چالتے ھوۓ سرائیکی گانا لگایا ھوا تھا ونگاں لے بھانویں لے چھال سوہنا ڈھول چل دویں

چلئیے سنارے کول جسکی آواز دور تک جارھی تھی

میں سمجھ گیا کہ چودنے والا کوئی جدید قسم کا لونڈا ھے جسکو شاید معلوم تھا کہ ادھر کسی نے نہیں آنا اور لڑکی بھی شاید دیسی پورن سٹار تھی جو شاید سمجھ رھی تھی کہ ٹریکٹر پر لگے اس گانے کے شور میں بھلا کون سنے گا اسکی شہوت بھری سسکاریاں مگر اسے کیا معلوم تھا کہ آج چھاپہ پڑ چکا ھے

میں رینگتے رینگتے ان کے بہت قریب تر چلا گیا تھا میں نے جب دیکھا تو میرے حوش وحواس گم ھو گئے یہ لڑکا کوئی اور نہیں تھا میرا دوست نوابزادہ شاہد ھی

تھا

ور لڑکی ھمارے قریبی گھر کی نادیہ تھی میں چپ چاپ دیکھتا رھا اور نادیہ کی شلوار پر جب میری نظر پڑی تو میں نے وہ اٹھالی اور تب شاہد نے اپنا لن اسکی چوت سے نکلا اور نیچے گھاس پر اپنا پانی گرا دیا تب میں بولا؛

شاباش۔۔۔۔! شرم نہیں آتی تم دونوں کو

تو شاہد کا رنگ اڑ گیا اور وہ بولا؛ ذا ذا ذیشان تت تت تم

میں نے اسے آنکھ ماری اور کہا؛ آپ لوگ

شرم کرو کچھ اور نادیہ تمہیں شرم نہیں آتی تم نے یہ کب سے شروع کر رکھا ھے

وہ مجھے دیکھ کر بہت ڈرگئی اور بولی؛

پلیز میری شلوار تم واپس کر دو اور مجھے جانے دو۔

تو میں نے اسے کہا؛ ایسے کیسے جانے دوں، آپکو شاید یہ نہیں معلوم کے پکڑے جانے پر حصہ دینا پڑتا ھے تم مجھے ایک بار کرنے دو پھر بیشک چلی جانا

تو وہ بولی؛ نہیں ذیشان تم تو میرے بھائیوں جیسے ھو تم میرے ساتھ ایسا مت کرو۔

میں بولا؛ بھائی کا اندر نہیں جاتا اور میں کب سے تمہارا بھائی ھوگیا اور چل جلدی کر اور مجھے بھی کرنے دو ورنہ میں نے جو ویڈیو بنائی ھے وہ نیٹ پر اپلوڈ کر دوں گا۔ 

تو وہ بولی؛ نہیں ذیشان تم ایسا مت کرنا میرا منگیتر مجھے مار ڈالے گا اور میرا رشتہ بھی ٹوٹ جاۓ گا۔

تو میں بولا؛ پھر تم میری بات مان لو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔

وہ بولی؛ پکا تم کسی کو نہیں بتاؤ گے تو۔


شاہد بولا؛ نادیہ ذیشان میرا دوست ھے اگر تم اسے دے بھی دوگی تو آپکا

کچھ نہیں جاۓ گا بلکہ اسکا منہ بند ھو جاۓ گا۔

نادیہ بولی؛ اچھا ٹھیک ھے

میں نے نادیہ کو اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا اور اسے چومنے لگا نادیہ مزے سے سسکاریاں بھرتی ھوئی پھدی سے پانی کا سیلاب نکال کر میرے لن کو متاثر کرتی رھی۔

میں نے.نادیہ کے مموں کو چھوڑا اور اسکو کندھوں سے پکڑ کر اوپر کو کھینچا اور

اسکو اٹھا کر بیٹھا دیا. اور نادیہ کی قمیض پکڑ کر اتارنے لگا

تو. نادیہ بولی؛ نہیں ذیشان قمیض نہیں اتارنی کوئی آگیا تو اتنی جلدی سنبھلا نہیں جانا

میں نے کہا؛ یار کوئی نہیں آتا۔

نادیہ بولی؛ ایسے ھی اوپر کر لو.

مگر میرے اصرار پر اسے ہار ماننی پڑی اور یہ کہتے ھوے اس نے بازو اوپر کردیے کہ۔۔

مرواو گے مجھے


میں نے بنا کچھ بولے اسکی قمیض پکڑ کر اوپر کر کے اسکے سر سے نکال دی باقی کی اس نے خود ھی بازوں سے نکال کر

سیدھی کر کے پھینک دی میں نے جلدی سے اپنی شرٹ اتاری اور اسکی قمیض کی طرف پھینکنے لگا تو. نادیہ نے میری شرٹ راستے میں ھی کیچ کر کے پکڑ لی اور شرٹ کو سیدھا کر کے پھر اپنی قمیض کے اوپر

پھینک دیا۔

نادیہ کا دودھیا ممے کالے بریزیر میں چمک رھے تھے۔ نادیہ کا جسم دیکھا تھا تو عجیب سی کیفیت ھو رھی تھی جیسے پہلی دفعہ اسکا گورا جسم دیکھ رھا ھوں.

نادیہ نے جب میری نظروں کو اپنے مموں کو گھورتے دیکھا تو بریزیر کی طرف اشارہ کر کے بولی۔۔۔ اسے بھی اتار دوں کہ ایسے ھی کام چل جاے گا۔

نادیہ کی طنز پر مجھے ہنسی آگئی میں نے مسکراتے ھوئے کہا؛ اتار دو گی تو مہربانی۔ عرصہ دراز سے دودھ کے پیالوں کا درشن نصیب نہیں ھوا۔۔

نادیہ طنزیہ انداز میں مسکراتے ھوے ھاتھ پیچھے کمر کی طرف لے جاکر بریزیر کی ہک کھولتے ھوے مموں پر آئے اپنے سلکی اور لمبے بالوں کو جھٹک کر پیچھے لیجاتے ھوئے بولی؛.. لو کر لو درشن تم خوش ھو جاو۔

اس کے ساتھ ھی بریزیر کی ہک کھلی اور بریزیر نے مموں کو رھائی دی۔

اور نادیہ نے بڑے نخرے اور ادا سے بریزیر کو بازوں سے باری باری نکلا اور بڑا احسان کرتے ھوے مموں کے آگے سے پردہ ہٹا کر مموں کو جلوہ گر کیا۔

اففففففف کیا چٹے سفید ممے گول مٹول اوپر ہلکے براون رنگ کا گول چھوٹا سا مگر تنا ھوا نپل، مموں پر بریزیر کے نشان مموں کے احساس نرم نازک ھونے کی دلیل پیش کر رھے تھے۔ 

بریزیر پھینکتے ہی دھڑام سے پیچھے تکیے پر سر کو گراتے ھوے جب لیٹی تو اففففففففففف کیا سین تھا کیا نظارا تھا کیا غضب ڈھاتے ھوے ممے چھلکے جیسے ابھی سارا دودھ باہر کو گر جاے گا۔

نادیہ جس انداز سے پیچھے کو گری اسکے گول مٹول نرم ممے بھی اپنے بڑے اور جوان ھونے کا احساس دالتے ھوے چھلک رہے تھے۔ مموں کا یہ منظر دیکھ کر میرے ھاتھ خود با خود مموں کی طرف بڑھے اور میرے ھاتھوں نے ان چھلکتے جاموں کو مٹھیوں میں بھینچ لیا۔۔ اففففففف کیا سوفٹنس تھی۔ کیا سیکسی ممے تھے میں مزے لے لے کر مموں کو مٹھیوں میں بھینچ رھا تھا اور ساتھ ساتھ انگوٹھوں سے مموں پر لگے انگور کے دانوں پر مساج کر

رھا تھا۔ نادیہ پھر تتڑپنے لگ گئی اسکی انکھوں میں نشے کے ڈورے تیرنے لگ گئے آنکھوں اور گالًوں کی لالی بڑھنا شروع ہوگئی۔ نادیہ کی سانسیں تیز اور منہ سے سسکاریاں بلند ہونا شروع ھوگئی۔


نادیہ کو لٹا دیا اور وہ شرما کر بولی؛

ذیشان تم نے آرام آرام سے کرنا ہے.

میں بولا؛ کہ تم فکر مت کرو میری جانِ۔

پھر نادیہ نے کہا؛ آہستہ اندر کرو.

میں نے آہستہ آہستہ لن کو اندر دبانا شروع کیا۔ نادیہ نے اپنے ہاتھ بھی میرے سینے پے رکھے ہوئے تھے تا کہ میں زیادہ زور سے جھٹکا نہ مار سکوں اس سے ظاہر ھو رہا تھا کہ وہ ایک پورن سٹار تھی مطلب وہ تجربہ کار تھی۔ 

میں اب اپنا لن آہستہ آہستہ نادیہ کے اندر کر رہا تھا تقریبًا میرا 2 انچ سے زیادہ لن اندر جا چکا تھا لیکن نادیہ کا منہ لال سرخ ہو چکا تھا۔ آنکھیں اور زیادہ پھیل گئی تھیں۔ اور درد اس کے چہرے پے عیاں تھا جب میرا آدھا لن اندر گھس چکا تھا تو نادیہ نے مجھے روک دیا اس کی آنکھوں میں نمی تھی مجھے اس پہ بہت پیار آیا 


ساتھ کھڑا ھوا شاہد بولا؛ سالے کڑی مارنی آں اپنی باجی سمجھ کے کر۔

تو میں بولا۔۔۔۔ یار تم تو وٹ پر جاؤ ورنہ پھر کوئی آ جائے گا۔

میں نے پھر سے کہا؛ میں اور اندر نہیں کروں گا۔ بس یہاں تک ہی اندر باہر کر لیتا ہوں۔

تو نادیہ درد بھری آواز میں بولی؛ نہیں ذیشان لن تو میں اب تمہارا پورا اندر لے

کر رہوں گی چاہے جتنا مرضی درد ہو لیکن تم تھوڑا رک جاؤ مجھے تھوڑا سا سکون ملنے دو پھر دوبارہ اندر کرنا۔

میں پھر وہاں تھوڑی دیر رک گیا کچھ منٹ مزید انتظار کے بعد نادیہ نے کہا۔۔

ذیشان اب اندر باہر کرو لیکن مجھ سے بار بار کا درد برداشت نہیں ہوتا بس باقی کا لن ایک ہی جھٹکے میں اندر کر دو۔

میں نے کہا؛ نادیہ جی سوچ لو

تو اس نے کہا؛ میں نے سوچ لیا اب بس ایک جھٹکے میں اندر کر دو.

میں نے آگے ہو کر اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹ میں بھینچ لیا اورِ پھر اپنے بازو نادیہ کی کمر میں ڈال کر ایک زوردار جھٹکا مارا میرا پورا لن نادیہ کی پھدی کو چیرتا ہوا اندر گہرائی میں اتر گیا اسکا منہ میرے منہ میں ہونے کی وجہ سے اس کی ایک زوردار چیخ میرے منہ میں ہی رہ گئی۔

لیکن اس کی آنکھوں سے پانی کا سیلاب نکل آیا تھا وہ درد سے بلبلا اٹھی تھی اور اس نے مجھے پیچھے سے میری کمر میں ہاتھ ڈال کر جھکڑ لیا تھا۔ اور سختی کے ساتھ اپنے ساتھ چمٹا لیا تھا. میں بھی کافی دیر تک اس کے اوپر ایسے ہی پڑا رہا اور ہلا نہیں


لن پھدی کے اندر جکڑا ھوا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے کوئی لوہے کی گرم بھٹی میں

ڈال دیا گیا ھو لن اسکی پھدی کوِ چیرتا ہوا اندر تک گھس گیا تھا۔ میرے لن میں بہت سخت جلن ہو رہی تھی۔


تقریبًا 10 منٹ کے بعد درد بھری آواز آئی۔۔جکن محسوس ہو رہی ہے، یار آج تو تم دونوں نے میری جان نکال دی ہے۔

میں نے کہا؛ نادیہ جان یہ درد ھوتا ھے تم تھوڑا سا صبر کرو ابھی یہ درد اور جلن کم ہو جائے گی یہ ایک دفعہ ہی ہوتی ہےِ اس کی بعد تو مزہ ہی مزہ ہے۔


پھر میں مزید 5 منٹ تک کوئی حرکت نہ کی کچھ دیر بعد نادیہ نے کہا۔

ذیشان اب تم آہستہ آہستہ میرے اندر باہر کرو

میں نے اپنے جسم کو حرکت دی اور باہر حرکت دینے لگا میں تقریبًا اپنے لن کو آہستہ آہستہ اندر 5 سے 7 منٹ تک لن کو آرام

سے اندر باہر کر رہا تھا اب لن نے اپنا رستہ بنا لیا تھا اور لن آسانی سے اندر باہر ہو رہا تھا اور اسکی درد بھری سسکیاں بھی اب لّذت میں بَدل رہیں تھیں۔

میں اسکو چودنے میں مصروف تھا دور سے کہیں ٹریکٹر کے اوپر لگے سونگ نیڑے آہ آہ ظالماں وے لگا ھوا تھا۔

میں بھی مستی میں مفت میں ملی اس چوت کا مزہ لینے لگا میرے گھسے مارنے کی وجہ سے جوار کے کچھ پودے ٹوٹ پھوٹ گئے تھےِ پھر نادیہ کو بھی شاید تھوڑی راحت محسوس ہو رہی تھی اس نے اپنی ٹانگوں کو میری کمر کے پیچھے کر کے جڑو لیا اور بولی...... ذیشان اب تھوڑا تیز کرو اب مزہ آ رہا ہے۔

میں بھی اپنی رفتار میں تھوڑی تیزی لے آیا. نادیہ کے منہ سے ہی سسکیاں نکل رہیں تھیں،،،،،،،، آہ اوہ آہ آہ آہ ذیشان مار ڈالا یار اوہ اوہ آہ۔۔

پھر میں نے دیکھا اسکو مزہ آ رہا ہے میں اور تیز تیز جھٹکے مارنے لگا نادیہ بھی اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر لن اندر کروا رہی تھی وہ بولی،،،،،،،آہ آؤچ ذیشان میں ڈسچارج ھوگئی ھوں

میں نے اپنا لن باہر نکال لیا اور ایک زور دار پریشر نکال اور میں ایک دم سے خوش باش ھوگیا میں اپنے آپ کو صاف

کرکے باہر نکلنے لگا


تو میں نے نادیہ سے کہا؛ کہ اس بات کا ذکر کسی سے مت کرنا.

تو وہ بولی؛ میں نے بھال کسی کو بتا کر مار کھانی ھے.

میں نے اسے ایک کس کی اور پانچ سو کا نوٹ اسکی مٹھی میں دے دیا وہ بولی...... نئیں ذیشان بھال آپ نے تو مجھے طوائف سمجھ لیا

میں نے اسکا گال اپنے ھاتھوں سے سہلانے لگا اور بولا؛ میری جان میں نے تجھے کب طوائف کہا آپ تو میری جان ھو آپ نے رضامندی کیساتھ مجھے موقعہ فراہم کیا کہ میں آپکے جسم کا رس پی سکوں

اور میں نے کہا کہ؛،،، تم اس سے کوئی چیز کھا لینا

تو وہ میرے ہاتھ سے پانچ سو پکڑ کر چلی

گئ اور شاہد بولا؛ سالے تو کدھر سے آ گیا سارے رنگ میں بھنگ ڈال دیا تم نے

تو میں بولا؛ جناب قسمت میں ایک سانولی

سلونی لڑکی کی پھدی مارنا لکھا تھا تو بس نکل آیا اس طرف تم مجھے چھوڑو اپنا

بتاؤ کتنی لڑکیوں کو چود چکے ھو اور سب سے پہلی بار کس کی ٹانگیں اٹھائیں تھیں آپ نے.؟

تو شاہد شرما کر بولا؛ یار یہ کونسا جیتو پاکستان پروگرام کا سوال ھے جو میں بڑے فخر سے بتادوں کہ میں کتنی لڑکیوں کی ٹانگیں اٹھا چکا ھوں،

تو میں بولا؛ یار دوستی بھی کوئی چیز ھوتی ھے تم بتا دو پھر میں بتا دیتا ھوں۔

شاہد بولا؛ اب تک صرف تین لڑکیوں کی ٹانگیں اٹھا چکا ھوں۔

میں بولا؛ کون کون سی

ھم اس وقت چلتے چلتے انعم کے امرودوں کے پودوں کی طرف چلے گئے اور امرود توڑ کر کھانے لگے اور پھر میرے اسرار پر شاہد بولا؛ کہ پہلی بار لبنی کی سیل توڑی تھی اور اسکی ٹانگیں اٹھائیں اور دوسری بار نادیہ کے ساتھ کیا تھا جب یہ مجھے ڈیرے پر اکیلے میں ملی تھی۔

میں لبنی کا نام سن کر پریشان ھوگیا اور بولا؛ اب تیسری کون ھے.

تو وہ بولا؛ کہ کہ تیسری لبنی کی ایک دوست ھے۔

تو میں پھر بڑے اشتیاق سے اسے پوچھنے لگا آپ کھل کر بتاؤ اس کا نام کیا تھا۔

تو وہ بولا ؛ یار ذیشان تم میرا سارا ڈیٹا اکٹھا کرنے لگ پڑے، چھوڑو اس بات کو کسی اور موضوع پر بات کر تے ھیں۔

تو میں بولا؛ اگر تم نے نہ بتایا تو میں تم سے ناراض ھو جاؤں گا

میری بات سن کر شاہد بولا؛

سالہ تو نادیہ اور لبنی کا تو پوچھ چکا اب کیوں تیسری کا نام سننے کے لئیے اتنا باؤلہ ھو چکا ھے۔

میں اٹھ کر شاہد کے پیچھے لگ گیا اور بولا؛ ٹھہرو تیری تو تجھے میں بتاتا ھوں اتنی بات سننا تھا کہ شاہد میرے آگے آگے اور میں اس کے پیچھے بھاگنے لگے مجھے غصہ آرہا تھا. کہ شاید شاہد نے انعم کو بھی چود ڈالا ھو اور اسی وجہ سے مجھے نہیں بتا رہا کہ میں انعم کو پسند کرتا ھوں جیسے میاں

صاحب کا ایک شعر ھے جو آپکی نذر کرتا ھوں۔

جو وی کسے دا عاشق ھوندا

اوسے دی اوہ گل کردا سو سو مکر بہانے کرکے اوہدے مرنے مردا

قصہ مختصر دوستو شاعر کہتا ھے

 جب پیار ھو جاتا ھے کسی سے تو دنیا کی سب باتیں اسی کی باتیں لگتی ھیں

ھم چھوٹے سے کھالے کے ساتھ بنی پگڈنڈی پر بھاگ رھے تھے گاؤں کی طرف اور شاہد بولا؛ بچو تو مجھ نہیں پکڑ سکتا میں ان کچے راستوں کا پکا کھلاڑی ھوں تو تم ٹھہرے شہری بابو پیزا ہٹ کی پیداوار۔

میں بولا؛ تم رکو تو سہی میں نکالتا ھوں

تمہارا دیسی پن۔

ھم جب گاؤں کی پہلی گلی میں داخل ھوۓ تو سامنے سے لبنی آرھی تھی اپنے پانچ چھے بھینسوں کو لیکر جسے وہ نہر پر لے جاکر نہالتی اور کچھ دیر ان کو چراتی تھی اور پھر واپس اپنے باڑے میں لے جاتی تھی اور باندھ دیتی یہ اس کا روز کا معمول تھا اور آج وہ ھمیں دیکھ کر بولی کہ؛ کدھر بھاگ کر جارھے ھیں، ھمارے سانڈ بہت مستی چڑھی ھے تم دونوں کو

تو میں بولا؛ یہ شاہد بہت شرارتی ھے تم اسے بولو رک جاۓ

تو شاہد بولا؛ چل سالے تم سے پکڑا ھی نہیں گیا تم نہیں پکڑ سکتے

تو میں غصے سے شاہد کی دومعنی بات کا جواب دیتے ھوۓ بولا؛ کہ تمہیں تو عادت ھے پکڑنے کی میں بھلا کیوں پکڑوں۔

ھم ایک دوسرے کو پکڑنے کی خاطر لبنی شہزادی کی بھینسوں کے بیچ میں سے ادھر

ادھر بھاگ رھے تھے دوسری طرف کالا سوٹ سر پر حیا کا ڈوپٹہ پاؤں میں چم کا کھسہ

اور گورے گورے ہاتھوں میں ایک بڑا سا ڈندا ایسے پکڑا ھوا تھا۔ جیسے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کھلاڑی ثنا میر ھو اور بیٹنگ کرنے چلی ھو وہ ثنا میر تو نہیں تھی البتہ لبنی شہزادی گاؤں کی ایک الہڑ مٹیار تھی جو ھمارے باتوں سے لطف اندوز ھوتے ھوۓ بولی؛ ویکھو کھاں کیسے مستی چڑھی ھوئی ھے ان دونوں سانڈوں کو۔

لبنی کیساتھ میں اتنا فری نہیں تھا، مگر اسکی گلابی اردو سن کر بولا؛ اب سانڈ کو بھینس ملے تو اسکو کچھ بنے۔

تو وہ بولی؛ شرم نئیں آتی ایسی باتیں کرتے ھو تم

تو میں بولا؛ شرم تو بہت آتی ھے مگر جب حسن اپنا سراپا لیکر دستک دے رہا ھو تو ڈور کھولنے والا خود کو خوش نصیب ھی سمجھے گا۔

میں نے پوچھا؛ تم بتاؤ کدھر جارھی ھو اس وقت اور انعم کہاں ھے


انعم گھر پر ھے اسے بخار ھے اسی لئیے تو مجھے سب کچھ کرنا پڑ رہا ھے،،،،، اور ایک بوری بھینس کو ڈنڈا مارتے ھوۓ بولی،،،،،، میں انہیں نہر پر لیکر جا رھی ھوں کچھ دیر یہ ادھر گھاس چر لینگی پھر انکو واپس لے آئینگے،

تو میں بولا؛ یار ھم کو ایک اچھے گھر ضرورت ھے جو دودھ فروخت کرتے ھوں اور پانی سے پاک خالص دودھ بیچتے ھوں۔ تو وہ بولی؛ ذیشان ھمارا دودھ خالص ھوتا ھے تم لوگ ایک بار چیک کرلو

تو میں بولا؛ سہی کہا تم نے لبنی کسی دن چیک کروادو نہ تاکہ اندازہ ھو سکے کہ آپکا دودھ واقعی خالص ھے۔

تو وہ بولی؛ تم مجھ سے ڈنڈا کھاؤ گے تو پھر عقل آئے گی تمکو

تو میں بولا؛ اب بھلا میں نے کونسی غلط بات کردی دودھ چیک ھی تو کرنا ھے ارے یہ شاہد کدھر بھاگ گیا

تو وہ بولی؛ کہ شاہد بھی اس وقت اپنی بھینسوں کو نہر پر چرانے لے جاتا ھے آج شاید تمہارے ساتھ باتوں باتوں میں وہ لیٹ ھوگیا ھوگا تبھی تو جلدی گھر بھاگ

گیا....

میں نے کہا؛ تمہیں ڈر نہیں لگتا اکیلی جاتی ھو چاروں طرف فصلیں جوان ھیں مطلب کماد چری اور جوار وغیرہ۔

تو وہ بولی؛ کہ جب رات کو پانی لگاتی ھوں تب ڈر نئیں لگتا اب تو دن کی روشنی ھے اور میں نے شام سے پہلے پہلے واپس آنا ھے میں بولا؛ انعم کو بولو نہ کہ مجھے اس سے پیار ھوگیا ھے.

تو وہ بولی تم خود بات کر چکے ھوں اس سے اب میری سفارش کی ضرورت نہیں ھے۔

تو میں بولا؛ یار تم بتادو بندہ واقعی معصوم ھے کھل کر نہیں کہہ سکتا۔

تو وہ بولی؛ ذیشان تم جاؤ کسی نے دیکھ لیا تو باتیں بنائینگے یہ گاؤں ھے شہر نہیں یہاں پر سر راہ لڑکی لڑکا باتیں کرینگے تو گاؤں کے لوگ انہیں اچھا نہیں سمجھتے تم گھر جاؤ اور دودھ کی بات بھی فائنل کرلو

اور اپنی محبوبہ کا حال احوال بھی پوچھ لو۔

تو میں بولا؛ کہ آپکی بات میں دم ھے۔ مجھے اسکی باتوں کی سمجھ لگ چکی تھی کہ وہ سہی کہہ رھی تھی اور میں انکے گھر چلا گیا انعم کا گھر ایک حویلی نما گھر تھا بہت کھلے کھلے روم تھے اور گھر کے ایک طرف بھینسوں کا اور بکریوں کا باڑہ تھا تو دوسری طرف انعم کے گھر کی باؤنڈری کی شکل میں گول کمرے اور صحن میں نیم کا درخت تھا۔ جب میں نے گیٹ پر دستک دی تو اندر سے انعم اور لبنی کی

ماں باہر نکلی سر پر چادر اور منہ پر نقاب سا کر کے بولی؛ بیٹا کون ھو تم اور کس سے ملنا ھے۔

تو میں بولا؛ جی وہ وہ چاچا شیرو صاحب ھیں گھر پر۔

تو وہ بولی؛ وہ گھر پر ھی ھیں۔

میں نے کہا؛ ان سے ملنا ھے۔

تو انہوں نے کہا؛ وہ سامنے برآمدے میں لیٹے ھیں چلے جاؤ انکے پاس،،،،،، تو میں چلا گیا اندر اور جاکر ایک موڑھے پر بیٹھ گیا اور سامنے چارپائی پر بیٹھے ایک شخص جو انعم کا باپ تھا

ان سے ہاتھ ملاتے ھوۓ تھوڑا اونچی آواز میں بولا؛ انکل جی میں ذیشان ھوں اور پچھلے دو ماہ سے آپکے ساتھ والے ڈیرے پر آباد ھوا ھوں وہاں کچھ زمین خریدی ھے اور آپکے ساتھ کچھ دعا سلام کرنے چلا آیا۔ انعم کا باپ کوئی چالیس پینتالیس سال کا تھا اسکو ہل چلاتے ھوۓ کچھ چوٹیں آئی

تھیں جسکی وجہ سے وہ ان فٹ تھے،

ذیشان کا نام سن کر انعم جلدی سے باہر آئی اور بولی؛ ذیشان تم اور یہاں

تو اسکی ماں بولی؛ انعم تم اسے جانتی ھو بیٹا۔

تو انعم بولی؛ ماں یہ ھمارے ساتھ کالج میں پڑھتے رھے ھیں

تو انعم کی ماں بولی؛ یہ بڑی اچھی بات ھے تو بیٹی پھر ان کے لئیے کوئی چاۓ

وغیرہ کا بندوبست کرو

وہ بولی؛ کہ ابھی لیکر آتی ھوں ماں جی۔

انعم اندر چلی گئ اور میں چاچا شیرو سے باتیں کرنے لگا اور سوچنے لگا کہ انعم نے بڑی مہارت سے میرے ساتھ کالج فیلو والا رشتہ جوڑ لیا ھے، میں بیٹھا ھوا چاچا شیرو سے باتیں کر رہا تھا تب انعم کولڈ ڈرنک لیکر آ گئ اور میرے سامنے والی چارپائی پر بیٹھ گئ اور اپنی انگلیاں مروڑتے ھوۓ میری طرف دیکھنے لگی اور اشارے سے پوچھنے لگی کہ آپ کس وجہ سے آۓ ھو اور وہ وجہ اب بیان بھی کرو کالے رنگ کا سوٹ اور گورے گورے پیر جس میں گولڈن رنگ کی پائل بہت خوبصورت لگ رھی تھی اور جس کا سراپا دیکھ کر مجھے ایک خمار سا چڑھ جاتا اور میں اپنے حواس کھو دیتا انعم نے کھانستے ھوۓ مجھے خیالی دنیا سے واپس موڑا تو ہڑبڑا کر بولا؛ جی انکل اصل میں میں اس سلسلے میں حاضر ھوا تھا کہ مجھے دودھ چاہئیے تھا آپ لوگ ھمیں دودھ دے دیا کرو اور جتنا بل بنے گا وہ ھم ھفتہ وار آپکو ادا کر دیا کرینگے میری بات سن کر انعم کی مما بولیں؛ بیٹا آپ جتنا چاھو دودھ لے جایا کرو ہمارا دودھ سارا پنڈ شوق سے لیکر جاتا ھے۔

آپ پیسوں کی فکر نہ کرنا ماسی پیسے تہانوں ہرہفتے مل جان گئے ویسے صرف ایک ماہ کی تو بات ھے پھر ھم فارم خریدلیں گے ۔



 

 

 

 

 



ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی