میں نے باہر دیکھا تو چچی اپنا کام ختم کر کے اپنے کمرے میں جا چکی تھی میں نے ٹی وی بند کیا اور چچی کی کمرے میں چلا گیا اندر داخل ہوا تو چچی کسی سے فون پے بات کر رہی تھی میں نے آنکھوں کے اشارے سے پوچھا تو انہوں نے مجھے کرسی پے بیٹھنے کا اشارہ کیا میں کرسی پے بیٹھ گیا چچی اپنی آ می سے فون پے بات کر رہی تھی پِھر 5 منٹ کے بعد چچی نے بات کر کے کال کٹ کر دی . میں نے چچی سے پوچھا خیریت تھی تو چچی نے کہا خیریت ہی ہے میں نے سائمہ کو کال کی تھی کے آج تمہیں لینے آئیں گے اور پِھر اس کے ہی فون پے ا می کا حال حوال پوچھ لیے . تم سناؤ خیریت ہے . میں نے بھی کہا خیر ہی ہے لیکن چچی اب میرے پاس دن کم ہیں مجھے کچھ دیر پہلے ابو کی کال آئی ہوئی تھی انہوں نے واپسی کا پوچھا ہے میں نے ان کو یہ ہی کہا ہے میں اگلے ہفتے واپس آ جاؤں گا. چچی میرے پاس ہفتہ ہی باقی بچا ہے آپ کوئی ایسا کام کرو کے یہ ہفتہ روز ہی کوئی نا کوئی پھدی ملے تا کے جاتے جاتے گرمی تو نکال کر جاؤں پِھر پتہ نہیں کتنے مہینے بعد چکر لگتا ہے . چچی میری بات سن کر ہنسنے لگی اور پِھر بولی تیری گرمی ہے کے آتَش فشاں ہے جو ختم ہی نہیں ہوتا . میں نے کہا چچی جان جوانی کا خون ہے اور ویسے بھی لن کو جب پھدی کا منہ لگ جاتا ہے تو اِس کو ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی موری کی تلاش رہتی ہے . چچی نے کہا ہاں یہ تو ہے جب میں بھی نئی نئی شادی ہو کر آئی تھی تو جوان اور گرم تھی اور تمھارے چچا اور میں تقریباً ہر دوسرے دن ہی خوب دبا کر چودا ئی کرتے تھے جو تمھارے چچا کے ساتھ 11سال نکالے وہ بڑے ہی شاندار اور مزے کی دن تھے کوئی فکر نہیں ہوتی تھی . پِھر ان کی موت کے بعد یہ سلسلہ کافی سال تک بند رہا اور پِھر شوکت اور عرفان بھائی کے ساتھ سلسلہ کوئی 3 سال پہلے شروع ہوا تھا جو آج تک ہے لیکن وہ مزہ نہیں ہے جو تمھارے چچا کا تھا شوکت بھی مہینے میں 2 یا 3 دفعہ آتا ہے اور عرفان بھائی مہینے میں 5 سے 6 دفعہ چکر لگاتے ہیں اور اِس طرح کچھ گزارا ہو جاتا ہےمیں نے کہا چچی یہ نورین کب سے عرفان انکل سے چودو رہی ہے چچی بولی نہیں وہ جس دن تم نے دیکھا تھا اس دن پہلی دفعہ نورین نے عرفان بھائی سے کروایا تھا. میں نے کہا آپ نے نورین کے لیے بھی دوسرے لن کا بندوبست کر دیا ہے تو چچی بولی کا شی نورین بیچاری بہت مجبور ہے اس کی عمر دیکھو خود سوچو وہ کس طرح اپنے جذبات کنٹرول کرے عشرت تو پِھر بھی اپنے میاں یا اس لڑکے سے کروا کروا کے اپنا وقعت گزار چکی ہے اور نورین بیچاری تو ابھی بچی ہے اور جوان ہے . بس اِس لیے ہی میں نے اس کو عرفان بھائی کے ساتھ ملایا ہے نہیں تو میں نے آج تک عرفان بھائی اور شوکت کبھی باہر یا خاندان کی کسی عورت کو دیکھنے بھی نہیں دیا
کئی دفعہ شوکت نے نورین کو میرے گھر دیکھا ہے اس نے کئی دفعہ مجھے نورین کے لیے کہا ہے لیکن میں نے کبھی بھی اس کی بات کو سنا تک نہیں ہے شوکت پے بھروسہ کسی عورت کے لیے نہیں کر سکتی او وہ کنوارہ ہے ہر کوئی شق کر سکتا ہے اور عرفان بھائی شادی شدہ ہیں بچے ہیں گھر میں یہاں وہاں ان پے کوئی شق بھی نہیں کر سکتا اِس لیے پہلی دفعہ عرفان بھائی کو نورین سے ملایا ہے. میں نے کہا چچی یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں میں بھی یہاں نہیں رہتا جو نورین کو ہر دوسرے دن چود لیتا اور اس کی گرمی نکال دیتا چلو عرفان بھائی تو نزدیک ہی ہیں آتے جاتے رہتے ہیں آپ کا اور نورین کا کام تو چلتا رہے گا . چچی نے کہا کا شی تم بھی کیا یاد کرو گے تمہیں اگر اسلام آباد میں بھی کسی پھدی کا انتظام کر دوں تو مانوگے . میں حیرت اور سوالیہ نظروں سے چچی کا منہ دیکھنے لگا چچی میرا منہ دیکھ کر مسکرائی اور بولی بتاؤ پِھر انتظام کر دوں وہاں بھی تمہارا میں نے چچی سے کہا نیکی اور پوچھ پوچھ چچی اگر ایسا کام ہو جائے تو میں آپ کو اپنا گرو مان لوں گا . چچی نے کہا جس پھدی کا میں تمہیں بتاؤں گی تمھارے منہ میں پانی آ جائے گا اور تو اور تمہیں جھٹکا ضرور لگے گا . اب تو میرا تجسس اور بڑھ گیا تھا . میں نے کہا چچی کیوں جان لے رہی ہو بتاؤ نہ چچی نے کہا حوصلہ رکھ حوصلہ رکھ بتاتی ہوں ابھی پِھر چچی نے کہا تمھارے اور فوزیہ کے گھر کا فاصلہ کتنا ہے وہاں میں نے کہا 2 گلیاں چھوڑ کر ان کا گھر ہے . چچی نے کہا روز آتے جاتے ہو ان کے گھر میں نے کہا روز تو نہیں لیکن ان کے گھر آنا جانا کوئی مشکل نہیں ہے عام سی بات ہے چاہوں تو روز جا سکتا ہوں چاہوں تو کبھی کبھی اور کئی دفعہ ان کے گھر بھی رات کو سویا ہوں آپ بات بتاؤ کرنا کیا ہے. فوزیہ آنٹی کا بتا دوں وہ میرے اسلم ماموں کی وائف ہیں اور ان کا دو اسٹوری گھر ہے اوپر اسلم ماموں اور نیچے فوزیہ آنٹی کے بھائی نزیر انکل رہتے ہیں اسلم ماموں ڈاکٹر ہیں اور نزیر انکل کسی پرائیویٹ کمپنی میں ملازم ہیں فوزیہ آنٹی کا بھانجا فیصل نزیر انکل کا بیٹا میرے سے 2 سال بڑا تھا یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور چھوٹا بیٹا کامی10 سال کا تھا وہ اسکول میں پڑھتا تھا.فوزیہ آنٹی ہمارے خاندان کی نہیں ہیں اسلم ماموں نے آؤٹ آف خاندان مرضی سے شادی کی ہوئی تھی اور فوزیہ آنٹی ہمارے خاندان کی بہت ہی خوبصورت اور سیکسی عورت تھی جس کسی بھی خاندان کے موقع پے جاتی تھی تو ہر مرد کی نظر ان پے ہوتی تھی لیکن وہ کسی کو بھی گھاس نہیں ڈالتی تھی تھوڑی مغرور ٹائپ کی عورت تھی لیکن اتنی زیادہ بھی نہیں تھی. میری ان کے ساتھ بھی اچھی گپ شپ تھی لیکن اِس طرح کی نہیں تھی . فوزیہ آنٹی کی ایک ہی بیٹی تھی نازیہ جو مجھ سے 4 سال چھوٹی تھی وہ میٹرک کے رزلٹ کا انتظار کر رہی تھی. میں نے پِھر پوچھا چچی آپ مجھے پہیلی نا بجھاؤ آپ سیدھی اور اندر کی بات بتاؤ. چچی نے کہا وہ جو فوزیہ کا بھانجا ہے فیصل وہ تمہاری فوزیہ آنٹی کا یار ہے اور تمہاری فوزیہ آنٹی اپنے بھانجےسے پچھلے 2 سے 3 سال سے چودوا رہی ہے. چچی کی بات سن کر مجھے واقعہ ہی حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا کیونکہ میں فوزیہ آنٹی کو بہت اچھی طرح جانتا تھا وہ بلا کی خوبصورت اور ایک حَسِین عورت تھی خاندان میں اور بھی بہت اچھے اور جوان ہینڈسم مرد تھے فوزیہ آنٹی نے ان کو تو کبھی گھاس نہیں ڈالی اور فیصل بھی بس ٹھیک ہی تھا مجھے اب تک چچی کی کہی ہوئی بات کا یقین نہیں آ رہا تھا میں نے چچی سے کہا چچی آپ واقعہ ہی سچ بول رہی ہیں. اور آپ کو یہ بات کیسے پتہ چلی ہے. چچی نے کہا یہ بات بالکل سچ ہے اور مجھے یہ بات فوزیہ کی جو کزن ہے فرح جس کی میری
خالہ کے بیٹے سے شادی ہوئی ہے وہ بھی میری بہت اچھی سہیلی ہے لیکن وہ ایسی عورت نہیں ہے وہ تمہاری فوزیہ آنٹی کی کلاس فیلو اور کزن کے ساتھ ساتھ بہت اچھی دوست بھی ہے اس نے مجھے یہ بات بتائی تھی . چچی بالکل ٹھیک کہہ رہی تھی فوزیہ آنٹی کی کزن فرح کا رشتہ بھی فوزیہ آنٹی کے ہمارے خاندان میں شادی ہونے کے بَعْد ہی ہوا تھا . چچی کی خالہ شادی ہو کر لاہور میں رہتی ہیں . ان کا بیٹا راشد نادرہ میں اچھی پوسٹ پے آفیسر ہے .
پِھر میں نے چچی سے پوچھا کے چچی فرح آنٹی کو فوزیہ آنٹی کی یہ بات کیسے اور کب پتہ چلی تو چچی نے کہا شادی سے پہلے فرح اسلام آباد میں ہی اپنے ماں باپ کے گھر رہتی تھی اور جب تمھارے اسلم ماموں باہر کسی ملک میں ٹریننگ وغیرہ یا کسی اپنے دفتر کے کام سے جاتے تھے تو فوزیہ فرح کو اپنے ہاں بلا لیتی تھی اور فرح اس کے ہاں جا کر رہا کرتی تھی بس یوں ہی ایک دن فرح نے بتایا وہ اور فوزیہ اور اس کی بیٹی ایک ہی کمرے میں سو جایا کرتے تھے تو ایک دن رات کو وہ پانی پینے کے لیے اٹھی جب باہر کچن میں پانی پی کر واپس جانے لگی تو فرح کہتی ہے میں نے سوچا اٹھ تو گئی ہوں تو باتھ روم جا کر پیشاب بھی کر کے سو جاتی ہوں وہ کہتی ہے جب میں باتھ روم کی طرف گئی تو باتھ روم سے پہلے جو کمرا تھا وہ فوزیہ کی بیٹی کا تھا جب اس کا باپ نہیں ہوتا تھا وہ اپنی ماں کے کمرے میں سو جایا کرتی تھی فرح کہتی ہے جب میں اس کمرے کے آگے سے گزری تو دروازے کے پاس ہی مجھے عجیب عجیب سی گھٹی گھٹی آوازیں آ رہی تھیں تو فرح کہتی ہے میں وہاں ہی رک گئی اور سوچنے لگی اتنی رات کو اِس کمرے میں کون ہے اور میںڈر بھی گئی تھی پِھر کہتی ہے میں نے دروازے کے نیچے دیکھا ہلکی ہلکی روشنی آ رہی تھی پِھر فرح نے یہاں وہاں دیکھا کھڑکی تو بند تھی اور اس کے آگے پردے آئے ہوئے تھے تو فرح نے دروازے کے کی ہو ل سے دیکھنے لگی پہلے تو اس کو کچھ خاص نظر نا آیا باہر اندھیرا تھا پِھر فرح نے ایک آنکھ بند کر کے دوسری آنکھ سے اندر دیکھا تو جو اس نے اندر دیکھا تو اس کو شدید جھٹکا لگا کیونکہ اندر فوزیہ پوری ننگی ہو کر اُلٹا لیتی ہوئی تھی اور اوپر فوزیہ کا بھانجا فیصل پورا ننگا ہو کر پیچھے اس کی پھدی میں لن کو اندر باہر کر رہا تھا اور فوزیہ کے منہ سے گھٹی گھٹی سی سیکس آوازیں نکل رہی تھیں جو فرح کہتی ہے میں باہر تک سن رہی تھی .
چچی کہتی ہے فرح نے وہاں پے وہ سارا شو دیکھا اور پِھر اس کو پتہ چلا تھا اور پِھر فرح اور فوزیہ کی بہت اچھی دوستی تھی اگلے دن ہی فرح نے فوزیہ کو رات والی بات بتائی اور اس سے پوچھنے لگی كے یہ کیا ڈرامہ ہے . فرح کہتی ہے پہلے تو فوزیہ نے بات کو چھپا نے کی کوشش کی لیکن بَعْد میں اس نے فرح کو ساری بات بتا دی تھی اور پِھر کئی دفعہ فرح اس کے گھر میں ہی رات کو فوزیہ کے لیے پہرہ دیا کرتی تھی . مجھے چچی کی بات سن کر اب مکمل یقین ہو گیا تھا . میں نے کہا چچی فرح آنٹی نے کبھی فوزیہ آنٹی کو یا فوزیہ نے فرح آنٹی کو اس کام میں شامل ہونے کا نہیں کہا چچی میری طرف گھور ا دیکھا پِھر بولی لگتا ہے تمہیں اب فرح پے بھی دِل آ گیا ہے . میں نے کہا ایسی بات نہیں ہے میں ویسے ہی پوچھ رہا تھا و ہ بھی عورت ہے جب کسی کو پتہ ہو اندر کیا ہو رہا ہے یا و ہ دیکھ بھی رہی ہو تو بندے کا دِل تو کرتا ہے نا تو چچی نے کہا ویسے فرح نے فوزیہ کے ساتھ مل کا کچھ نہیں کیا اور نا ہی فیصل کے ساتھ اس نے کچھ کیا ہے ویسے میں کچھ کہہ نہیں سکتی اور اب تو شادی کے بَعْد وہ بڑی خوش ہے اس کا میاں اچھا خاصا ہے روز چودتا ہو گا جب روز لن مل رہا ہو تو پِھر باہر منہ مارنے کی کیا ضرورت ہے . چچی نے کہا اب تمہیں سمجھ آ گئی ہے نا تمہیں کیا کَرنا ہے . میں نے کہا چچی آپ بے فکر ہو جاؤ اب میں جانو ں اور میرا کام اب تو فوزیہ کو چود کر ہی چھوڑوں گا . چچی نے کہا جب فوزیہ کو مرید بنا لو گے ہو سکتا ہے اس کےذریعےکوئی اور مال بھی وہاں مل جائے یا ہو سکتا ہے فرح ہی مل جائے اب یہ تو فوزیہ پے ہی ہے وہ کیا کرتی ہے . میں نے کہا چچی کل تو سائمہ آنٹی کا اکاؤنٹ کھولنا ہے لیکن میں جب واپس جاؤں گا اس سے ایک دن پہلے آپ کو نورین کو ایک ساتھ اِس ہی بیڈ پے چود کر جاؤں گا اب یاد رکھنا میری بات کو ، چچی نے کہا ہاں اب تو ہر چیز تمھارے ساتھ کھل گئی ہے فکر نہ کرو تمہاری یہ بھی حسرت پوری کر دوں گی .