جیسا کہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میرا نام منور شاہ اور میری ایج پینتالیس سال ہے
میری وائف کی ڈیتھ ہو چکی ہے
اور قریبی بڑی مارکیٹ میں تین دکانوں کا مالک اور ایک پہ خود بیٹھتا ہوں جہاں لیڈیز اینڈ جینٹس کپڑے کا کام ہے میرا
نائمہ (نمی) میری بڑی بیٹی جیسا کہ بتا چکا ہوں اب بار بار کیا لکھوں
نادیہ دوسری نمبر کی بیٹی
ریحانہ (روحی) سب سے چھوٹی
راشد (ریشی) سب سے چھوٹا اور اکلوتا بیٹا
یہاں انٹرو دوبارہ کروا دیا ہے کہ جو دوست سیدھا اس کہانی کو جوائن کرتے ہیں ان کے لیے آسانی رہے
اب کہانی کی طرف
تو جیسا کہ میں بتا چکا ہوں پچھلے پارٹ میں کہ میں نے کس طرح اپنی بڑی بیٹی کو پٹایا
جس میں مجھے کافی مغز ماری بھی کرنا پڑی اور آخر کار میں خود اپنی بیٹی کو اپنے نیچے لانے میں کامیاب ہو ہی گیا
تو اس کے بعد وہ رات اور تین دن تک ہم باپ بیٹی جب بھی موقع ملتا کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ اپنی راس لیلا چلا ہی لیتے
اس میں ایک الگ ہی لذت تھی یوں چھپ چھپ کر ملنا
اور پھر چدائی کا مست کھیل کھیلنا میرے لیے ایک الگ ہی لذت آمیز کام بن گیا تھا
کہ ان تین دنوں کے بعد جب میں دن کے وقت دوستوں میں بیٹھا گیم کر رہا تھا
تو نمی کا واٹس ایپ ملا اسی پری والے نمبر سے
کیوں کہ اب ہم دونوں میں سب کھل چکا تھا تو بات یہاں تک بھی کھل گئی تھی
جو ہمارے بیچ واٹس ایپ پر ہوتا رہا تھا
لیکن نمی یہ نمبر الگ سے ہی یوز کرتی تھی اب بھی ختم نہیں کیا تھا اس نے
تو میں نے دیکھا تو لکھا تھا
نمی: (اب کیوں کہ کوئی پردہ رہا نہیں تو پری کی جگہ بیٹی کا نام ہی لکھا کروں گا) کیا چل رہا میرے ہیرو
میں: وہیں بس
نمی: کیوں جی ڈر لگ رہا کہ دوست پوچھیں گے کہ کون آئٹم ہے
میں: سالی رک ذرا
نمی: پہلے ڈیسائیڈ کر لو شاہ جی بیوی بنایا ہے مجھے یا سالی ہی ہی ہی
میں: (دوسرے روم میں جا کر نمی کو جواب لکھا کیوں کہ دوست اشاروں میں ہنس رہے تھے) کُتیا پتا ہے سب ہنس رہے تھے مجھ پہ
نمی: تو آرڈر کرو جان جی میں کچھ کروں کیا
میں: پہلے یہ بھونک کے کیا تکلیف اٹھی ہے تیرے پیٹ میں جو تنگ کر رہی ہے اس وقت
نمی: قسم سے شاہ جی بدل گئے ہو پتا ہے پہلے تو ہر وقت پری جی پری جی کر کے لار ٹپکاتے رہتے تھے
اور اب دیکھ لو بات کرنے کو بھی وقت نہیں نکالتا جناب سے
میں: سوری یار وہ سب حرامیوں نے دماغ خراب کر ڈالا تھا اس لیے ذرا جھلا گیا تھا
نمی: اچھا ایک بات کرنا تھی
میں: ہاں بولو
نمی: وہ نہ نیند کی گولیاں ختم ہو گئی ہیں میرے پاس باقی سیفٹی والی بھی لیتی آنا
میں: اوہ ہو ہو ہو ٹھیک ہے کرتا ہوں کچھ
نمی: کرنا کیا ہے وہ آپ کا دوست ہے نا ندیم میڈیکل سٹور والا اس سے لے لو
میں: تم کو کیسے پتا کہیں
نمی: یار شاہ جی اب منہ مت کھلوا لینا میرا مسکان لائی تھی اس سے پاگل ہو رہا ہے اس کے لیے لڑکی سمجھ کر
میں: کیا سچ میں
نمی: تو اور کیا میں جھوٹ بولوں گی
میں: چل رات کو لیتا آؤں گا
نمی: خود کے لیے بھی آج کوئی گولی منگوا لینا جان بڑا من کر رہا ہے آج پوری نائٹ کے لیے
میں: تو سالی تیرا من ہے تو کوئی کھیرا گھسا لے نا چوت میں مجھے نہیں کھانا گولی وولی
نمی: اگر نہیں کھاؤ گے گولی تو قسم کھاتی ہوں کہ میں ننگی ہو کے باہر نکل جاؤں گی اور پورے محلے والوں سے چدواؤں گی سمجھے
میں: یار بلیک میل نہیں کرو
نمی: تو مہاراج آپ نے کیا پریم منتر پھونکا تھا ہم پہ ویڈیو کو ہی سہارا بنایا تھا آپ نے بھی
میں: ہائے رے قسمت کس گشتی سے پالا پڑا ہے
نمی: منور شاہ جی کی لاڈلی بٹیا رانی سے سمجھے ہی ہی ہی
میں: چپ کر کنجری نہ ہو تو بھونکے جا رہی ہے چل اب بس کر کرتا ہوں کچھ
نمی: کرتا ہوں کچھ نہیں کرنا ہے سمجھے
میں: سمجھ گیا میری مااااں
نمی: ہائے مر جاؤں تیرے جیسا حرامی بیٹا ہو نا تو قسم سے خود ہی مار دینا چاہیے
میں: چل صحیح سے ماں چدوا لے پہلے
نمی: ہی ہی ہی غصہ آ گیا میرے بابو کو ہاں میرا بچہ سالے حرامی بیٹی پہ چڑھنے سے پہلے سوچ لیتا نا ایک بار تو آج یہ نوبت نہیں آتی
میں: جو حکم مہارانی جی اب جاؤں دوسرے روم میں یا ابھی کچھ باقی ہے
نمی: نہیں اب جاؤ
نمی سے گپ لگا کے میں وہاں سے اٹھا اور ساتھ والے روم میں چلا گیا
جہاں سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے
مجھے روم میں ان ہوتا دیکھ کے ہی سب کے فیس پہ کمینی سی مسکراہٹ دوڑ گئی
لیکن کوئی کچھ بولا نہیں تو میں بھی چپ ہی رہا اور گیم میں لگ گیا
اور پندرہ منٹ بعد اچانک بولا
میں: یار ندیم آج کل دکان کون دیکھ رہا ہے تیری
(کیوں کہ لاک ڈاؤن کے دوران صرف گروسری، میڈیکل، مِلک وغیرہ کی دکانیں ہی کھل رہی تھیں باقی سب بند ہوتا تھا)
ندیم: (کمینی ہنسی کے ساتھ بولا) بھتیجا ہوتا ہے تیرا ایک بجے دوپہر کو کھول لیتا ہے
میں: اوہ ہو ہو ہو اچھا تو تم کب بیٹھو گے
ندیم: دس بجے آ جانا مل جائے گا سامان
(ندیم کی اس بات پہ ایک دم سے سب کی ہنسی نکل گئی تو میں بھی جھینپ سا گیا اور بولا یار تم لوگوں کی گانڈ میں کوئی کھجلی کر رہا ہے جو اس طرح ہنس رہے ہو)
ندیم: (ہنستے ہوئے) سالے شکل دیکھ اپنی کیسے یتیمی برس رہی ہے
باقی یہ سب کون سا دودھ کے دھلے ہیں
آج کل ان کی جہاں جہاں سیٹنگ ہے ان کے خسم بھی گھر میں ہی گانڈ گھسا رہے ہیں
تو جو چیز تو مانگ رہا ہے وہ یہ سب بھی لیتے ہیں
میں: ہاہاہا مطلب سب ہی تیرے آستانے پہ ماتھا ٹیکنے والے ہیں
ندیم: اب کیا کریں ہم تو یار باش قسم کے بندے ہیں
خود کوئی سیٹنگ نہیں ہے اپنی بس یاروں کے کام آتے ہیں
میں: ہاں پتا چلا ہے مجھے وہ بتا رہی تھی
ندیم: (ہڑبڑا سا گیا اور بوکھلاتے ہوئے بولا) ک کون
میں: یہیں بتا دوں کیا
میری بات پہ سب شور مچانے لگے کہ میں اس حرامی ندیم کا بھانڈا پھوڑ ڈالوں
کیوں کہ یہ سب سے ٹریٹ مانگتا رہتا ہے
اتنا خرچہ سیٹنگ کا نہیں ہوتا جتنا اس حرامی کو خوش رکھنے کے لیے کرنا پڑ جاتا ہے
ندیم: (بیچارہ بری طرح پھنس گیا تھا اس لیے مجھے سائیڈ پہ لے جا کے بولا) کون کس کی بات کر رہے تھے تم
میں: (کمینی ہنسی کے ساتھ) ارے وہی ہمارے مکان میں جو رینٹ پہ رہتی ہے
فری کی نیند والی گولیاں اور نقصان سے بچنے والا سامان لے جاتی ہے جو تجھ سے
ندیم: (بری طرح بوکھلا گیا اور بولا) دیکھ بات یہیں ختم کر دے
میں تجھ سے کوئی ٹریٹ نہیں لوں گا لیکن کسی کو پتا نہیں چلنا چاہیے یہ سالے حرامی ہاتھ سے نکل جانے ہیں
میں: اوکے لیکن کل رات ایک ٹریٹ تجھے دینا ہو گی ہم سب کو
ندیم: اوکے مر لیکن یہ تو بتا کہ کہیں تیرا چکر مسکان کے ساتھ تو نہیں چل گیا
میں: ابے پاگل ہے کیا بیٹی جیسی ہے وہ میرے لیے
ندیم: ہمارے لیے تو نہیں ہے نا اور ہاہاہا کر کے ہنس دیا
(اس حرامی بلا کا یوں قابو آنا کون سا آسان کام تھا
حرام کھانا تو سمجھو اس کے ماتھے پہ لکھا ہوا تھا
آج پہلی بار پھنسا تھا وہ بھی میرے سامنے
اسی لیے میں نے بھی نچوڑنے کی ٹھان لی تھی اور روم میں جاتے ہی بولا)
میں: لو جی بھائی لوگ کل اپنے ندیم صاحب ہم سب کو ٹریٹ دے رہے ہیں
میری بات سنتے ہی سب کھل اٹھے
اور کیوں کہ سب کچھ بند تھا تو اسے گھر سے ہی سارا سامان تیار کروانا تھا
اور پارٹی یہیں میرے مکان میں ہونا طئے پائی
جس کے بعد ہم گیم میں لگ گئے اور اسی بیچ میرا سامان بھی ندیم نے اپنے ملازم کے ہاتھ وہیں مجھے منگوا دیا
وہاں سے ہم رات آٹھ بجے اپنے وقت پہ ہی اٹھے
اور جاتے جاتے بھی دوستوں نے صحیح سے چھیڑا لگایا کہ لے بھائی شاہ اب ہم تو نکلتے ہیں
اور تو بھی اپنی جانِ تمنا کو یہ سامان کسی طرح پہنچا دے کہ تیرا کام بھی آج ہی ہو جائے
اور ہنستے ہوئے نکل گئے
لیکن بھلا اب میں ان کو یہ کیسے بتاتا کہ میری جانِ تمنا میری اپنی ہی بڑی بیٹی ہے
تو میں بس ان کی باتوں پہ ہلکا سا ہنس کے ہی رہ گیا اور کچھ نہیں بولا
جس کے بعد میں نے مکان کو لاک کیا اور گھر چلا گیا
جہاں روحی پنجے جھاڑ کے میرے پیچھے پڑ گئی اور بولی
روحی: پاپا آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے مجھے کچھ بتائے گا کوئی
میں: (تھوڑا حیرانی سے بولا) ارے میری گڑیا کیا ہوا کچھ بتاؤ گی تبھی تو کچھ بتاؤں گا نا تم کو
ریشی: پاپا اس چڑیل کو لگتا ہے کہ سب باہر پارکس، ہوٹل میں آتے جاتے ہیں لیکن آپ نے ہمیں یہاں بند کر رکھا ہے
روحی: ایسا کب کہا میں نے جھوٹے
میں: اچھا اچھا لڑنا نہیں ہے
دیکھو روحی بیٹا ذرا نیوز سنو گی تب ہی پتا چلے گا نا کہ سب کچھ بند ہے
جو جہاں ہے وہیں پھنس گیا ہے کوئی بھی کہیں آ جا نہیں سکتا
روحی: پتا ہے پاپا کتنا بور ہو رہے ہیں یہاں اوپر سے آپ کا یہ لاڈلا نواب ہر وقت تنگ کرتا رہتا ہے
ریشی: توبہ روحی کتنی بڑی جھوٹی ہو تم خود تو چپکی رہتی ہو اور مجھ پہ الزام لگا رہی ہو
نمی: اچھا اب بس کرو اپنی یہ رام لیلا اور چلو کھانا کھا لو
اور پاپا آپ کھانا یہیں کھاؤ گے یا روم میں
میں: (نمی کے لفظ روم پہ زور سے سمجھ گیا اور بولا) بیٹا میرا کھانا روم میں ہی لیتی آنا میں تب تک ذرا نہا لوں
نمی: اوکے پاپا دس منٹ تک لے آؤں گی کھانا
میں: اوکے بیٹی
میں وہاں سے اٹھا اور روم میں جا کے نہایا
اور صرف لوز ٹراؤزر میں ہی باہر نکلا اور بیڈ پہ بیٹھ کے ٹی وی اوکے کر لیا
جس کی آواز سنتے ہی نمی کچھ دیر میں ہی میرے لیے کھانا لے آئی
اور کھانا میرے سامنے رکھتی ہوئی بولی
نمی: سامان لے آئے ہو
میں: ہاں اور سائیڈ سے پیکٹ نمی کو پکڑا دیا
نمی: آپ کی گولیاں
میں: اسی میں ہیں چائے کے ساتھ لیتی آنا
نمی: اوکے
نمی اپنا سامان چھپا کے باہر لے گئی
تو میں کھانا کھانے لگا
لیکن اب ساتھ ہی یہ فِکر بھی کھانے لگی تھی مجھے کہ ہم تو چلو جو کر رہے ہیں سو کر رہے ہیں
لیکن یہ ڈیلی بچوں کو نیند کی گولی دینا صحیح نہیں ہے
اس سے ان کی صحت پہ اس کا برا اثر پڑے گا اور وہ عادی ہو جائیں گے اس چیز کے
لیکن اس کے علاوہ بھی کوئی حل نظر نہیں آ رہا تھا
کیوں کہ اگر سب کو نیند کی گولی کھلا کے نہیں سلاتے تو کبھی بھی کوئی گڑبڑ ہو سکتی تھی
جس سے بچنا بھی ضروری تھا۔
انہی سب سوچوں اور خیالوں میں کھوئے ہوئے ہی کھانا کھایا
اور برتن ایک طرف سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کے سگریٹ سلگا لیا
اور سگریٹ پیتے ہوئے ٹی وی دیکھنے لگا
تو کوئی مزید پانچ منٹ کے بعد نمی میرے لیے چائے کا کپ لے کر آئی
اور مجھے پکڑا کے خالی برتن اٹھانے لگی تو میں نے کہا
میں: کیا پوزیشن ہے سب کو کھلا دی
نمی: ہاں بابا کھلا دی
میں: اب کتنا تڑپاؤ گی
نمی: اففففف یار کتنی بھلکڑ ہوں میں رکو ذرا تمہاری ٹیبلٹ لے آؤں پھر چائے پینا
میں: پھر کبھی کھلا لینا گولی
نمی: (میرے ہاتھ سے چائے کا کپ پکڑ کے ایک طرف رکھتی ہوئی مڑی
اور اچانک سے ہاتھ بڑھا کے میرا لنڈ پکڑ کے ذرا زور سے دباتی ہوئی بولی)
حرامی بولا ہے نا آج تو پھر آج ہی سمجھا۔ کہیں یہ نہ ہو کہ میں اپنے ہاتھوں تجھے نامرد بنا ڈالوں
میں: سسسسس کُتیا چھوڑ اسے
نمی: لو جی نکل گئی ہوا چھ چھ چھ میرے راجا پہلے تو بڑا اکڑتے تھے اس پہلوان پہ اب کیا ہوا
میں: جا دفع ہو چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے
نمی: (چائے کا کپ اٹھا کے باہر جاتی ہوئی بولی) ابھی دوبارہ گرم کر لاتی ہوں
