.
.
.
میں نے دروازہ بند کیا اور کرسی کھینچ کے بیڈ کے پاس رکھ کر بیٹھ گیا اور چچی کی طرف دیکھنے لگا . چچی بولی کے نورین کی امی عشرت میری سہیلی بہت پہلے سے تھی جب میں شادی ہو کر کے یہاں آئی تھی اس کے کوئی 3 یا 4 سال بعد وہ میری بڑی پکی سہیلی بن گئی تھی کیونکہ وہ عمر میں مجھے سے 3 سال بڑی تھی اِس لیے میں اپنی ہر بات ہر دکھ سکھ اس کے ساتھ بانٹتی تھی اور آہستہ آہستہ وہ اور میں آپس میں اپنے ہر دکھ سکھ بانٹتے تھے اِس لحاظ سے وہ میری اور میں اس کی زندگی کی سب باتیں جانتے ہیں یوں سمجھ لو وہ میری پہلی اور سب سے پرانی رازدان تھی. عشرت کے میاں سعودیہ میں ملازمت کرتے تھے اور وہ 2 سال بعد ہی 2 یا 3 مہینے کے لیے گھر آتے تھے وہ یہ ہی وہ ٹائم ہوتا تھا جب عشرت خوش رہتی تھی اور اس کی بیٹی بھی خوب باپ کے ساتھ اچھا ٹائم گزرتی تھی . شروع شروع میں تو عشرت کا میاں بھی جوان تھا اور جب سعودیہ سے آتا تھا تو خوب اچھی طرح دن رات عشرت کی پھدی کی گرمی اُتارتا تھا ان دنوں میں عشرت بہت خوش نظر آتی تھی . پِھر آہستہ آہستہ کوئی 10یا 12 سال جب گزر گئے تو وہ زیادہ عشرت کو خوش نہیں رکھ سکتا تھا وہ باہر رہ کر شو گر کا مریض بن گیا تھا اور زیادہ دیر تک عشرت کو خوش نہیں رکھ سکتا تھا عشرت اور اس کے میاں کی عمر میں بھی فرق تھا اس کا میاں عشرت سے 7 سال بڑا تھا اِس لیے عشرت اس کے مقابلے میں زیادہ گرم اور جوان تھی اِس لیے وہ بیچاری دِل پے پتھر رکھ کے ٹائم گزار دیتی تھی. عشرت مجھے اپنا دکھ آ کر بتاتی تھی لیکن میں اس وقعت اس کی کچھ بھی مدد نہیں کر سکتی تھی اس وقعت تمھارے چچا زندہ تھے اور میں ان کے ساتھ بہت اچھا وقعت گزر رہی تھی تمھارے چچا مجھے ہر لحاظ سے خوش رکھتے تھے اس کا لن بھی تمھارے جتنا لمبا تھا لیکن اتنا موٹا نہیں تھا جتنا تمہارا ہے . عشرت کا میاں جب آتا تھا تو اپنی پوری کوشش کرتا تھا کے وہ اپنی بِیوِی کو مطمئن کر سکے لیکن وہ نہیں کر پاتا تھا وہ شو گر کی وجہ سے 3 سے 4 منٹ کے اندر فارغ ہو جاتا تھا بیماری کی وجہ سے اس کی سانس پھول جاتی تھی. اور عشرت بیچاری 2 سال انتظار کرتی رہتی تھی اور جب میاں آتا تھا تو بھی بیچاری اپنی آگ میں سلگتی رہتی تھی . وہ اپنے من کا بوجھ میرے ساتھ اپنا دکھ بانٹ کر پورا کر لیتی تھی . اور میں میں کئی سال تک اس کو دلاسہ دیتی رہتی تھی اور کچھ نہیں کر سکی . اور پِھر عشرت کی زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا جس کو وہ آج بھی اپنے دِل میں بسا کر بیٹھی ہے جو صرف میرے یا اس کے علاوہ کسی اور کو نہیں پتہ . ہوا کچھ یوں کے عشرت کے گھر کے ساتھ میں ہمارے ایک اور محلے دار رہتے ہیں ان کا 1 بیٹا اور 2 بیٹیاں ہیں بیٹیاں بڑی ہیں ان کی شادی ہو چکی ہے اور بیٹا اس وقعت چھوٹا تھا لیکن آب وہ بھی شادی شدہ ہو چکا ہے ایک بچے کا باپ ہے اور دبئی میں بینک کا ملازم ہے . عشرت کا ان کے گھر آنا جانا تھا اور اس لڑکے کی ماں عشرت کی ہمسائی اور دوست بھی تھی اِس لیے ان کا بیٹا عشرت لوگوں کے گھر کا کام بھی کر دیا کرتا تھا گھر کے کام کر دیتا تھا بِل جمع کروانا گھر کا سودا سلف لے کر آنا وغیرہ وغیرہ . اس کا عشرت کے گھر آنا جانا عام تھا وہ لڑکا عشرت کو عشرت آنٹی کہہ کر بلاتا تھا . اور اپنے گھر کی طرح ان کے گھر کا بھی خیال رکھتا تھا .
اس لڑکے کی عمر اس وقعت کوئی 222سال تھی اور اچھا صحت مند بھی تھا اس کے باپ کی اچھی خاصی بڑی شیخوپورہمیں اپنی کریانہ کی دکان تھی. جب نورین کی شادی نہیں ہوئی تھی اس وقعت وہ بس اگر کوئی گھر کا کام ہوتا تھا تو عشرت کے گھر آتا جاتا تھا . لیکن جب نورین کی شادی ہو گئی تو وہ عشرت کے گھر زیادہ آتا جاتا تھا اور عشرت سے کہتا تھا کے آنٹی آپ اکیلی ہوتی ہیں اِس لیے میں آپ کا ہاتھ بارنے کے لیے آ جاتا ہوں باجی نورین کے بعد آپ تو اکیلی ہو کر رہ گیں ہیں . عشرت بھی اس کا بڑا خیال رکھتی تھی . وہ اکثر عشرت سے اس کے میاں کے متعلق پوچھتا رہتا تھا کے وہ اتنا زیادہ عرصہ باہر کیوں رہتے ہیں وہ آپ کے ساتھ کیوں نہیں رہتے ان کو آپ کا خیال رکھنا چائے اِس طرح کی باتوں سے وہ عشرت کی دِل جوئی کیا کرتا تھا . عشرت بھی ایک عورت تھی عورت کی کوئی دِل جوئی کرے اس کا خیال رکھے تو عورت اس پے مکمل بھروسہ کر کے اپنا دکھ بانٹ لیتی ہے عشرت نے بھی آہستہ آہستہ ایسا ہی کیا اور وہ اس لڑکے کے ساتھ گُھل مل گئی اور اپنی دکھ اس کے ساتھ بانٹنے لگی. عشرت نے آہستہ آہستہ اس کو اپنا سب کچھ مان کر سب کچھ بتانے لگی اور اس کو اپنی اور اپنے میاں کے ساتھ تعلق کا بھی بتا دیا . عشرت مجھے یہ باتیں بتاتی رہتی تھی میں اس کو بس یہ ہی کہتی تھی عشرت ذرا سنبھل کر یہ بچہ ہے کہیں بدنام نا کر دے تمہاری باتیں باہر لوگوں کو نا بتاتا پھرے . وہ مجھے کہتی تھی فکر نا کر میں اس کو جانتی ہوں وہ ایسا کبھی بھی نہیں کرے گا میں نے بھی زمانہ دیکھا ہے . ایک دن اس لڑکے کے گھر کی موٹر خراب ہو گئی تو وہ عشرت کے گھر آ گیا اور آ کر بولا عشرت آنٹی پانی والی موٹر خراب ہو گئی ہے مجھے نہانا ہے کیا میں آپ کے گھر نہا سکتا ہوں . عشرت نے کہا یہ تمہارا اپنا گھر ہے جو چیز مرضی ہے استعمال کرو اِس میں پوچھنے کی کیا ضرورت ہے . اور وہ شکریہ بول کر نہانے کے لیے باتھ روم میں گھس گیا اور نہانے لگا جب وہ نہا رہا تھا تو بجلی چلی گئی اور عشرت کا گھر گراؤنڈ فلور پے تھا اِس لیے تھوڑا بند بند تھا بجلی جانے سے تھوڑا اندھیرا ہو جاتا تھا اِس لیے باتھ روم میں بھی اندھیرا ہو گیا اور وہ لڑکا ڈر کے مارے اندر سے بولا آنٹی یہاں بہت اندھیرا ہے مجھے ڈر لگ رہا ہے کیا میں دروازہ کھول کے نہا لوں . عشرت اس لڑکے کی بات پے ہنسنے لگی اور بولی بیٹا دروازہ کھول لو اندھیرا تو باہر بھی ہے تم دروازہ کھول کے نہا لو. وہ لڑکا دروازہ کھول کے نہانے لگا اور عشرت باتھ روم کے بالکل سامنے بنے کچن میں ایمرجنسی لائٹ لگا کر ہانڈی بنا رہی تھی. کوئی آدھے گھنٹے کے بعد بجلی آ گئی تو باتھ روم کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور اور کچن سامنے ہونے کی وجہ سے جب عشرت کی نظر باتھ روم کے اندر گئی تو وہ وہاں کا منظر دیکھ کر ہکا بقا ہو گئی اور حیرت سے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اندر کا منظر دیکھنے لگی اندر وہ لڑکا عشرت کا انڈرویئر اپنے لن پے چڑہا کے اور شیمپو لگا کے بڑی تیزی سے مٹھ لگا رہا تھا. جب اس لڑکے کی نظر عشرت پے پڑی تو اس کا رنگ لال سرخ ہو گیا اور وہ ڈر کے مارے اس نے جلدی سے دروازہ بند کر دیا عشرت بھی دروازہ بند ہونے کی وجہ سے اپنے حواس میں واپس آ گئی. عشرت چولہا بند کر کے جلدی سے اپنے بیڈروم میں جا کر دروازہ بند کر بیٹھ گئی اور سوچنے لگی یہ میں نے آج کیا دیکھ لیا اور بار بار اس کو اس لڑکے کا لن اور اپنا انڈرویئر اپنی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا اور عشرت کے میاں کو بھی چھٹی کاٹ کر باہر گئے ہوئے 1 سال ہو گیا تھا . نا چاہتے ہوئے بھی عشرت کے دِل اور دماغ میں وہ منظر اور اس کا لن چھایا ہوا تھا . آہستہ آہستہ سوچتے ہوئے عشرت نے محسوس کیا کے اس کی پھدی نیچے سے ہلکا ہلکا پانی چھوڑ رہی ہے اور اس کے نپلز سخت ہو گئے ہیں. عشرت کو اپنے اوپر کنٹرول نا رہا اور اس نے اپنی شلوار اُتار دی اور اپنی انگلی کو اپنی پھدی کے اندر باہر کر کے اپنی پھدی کو ٹھنڈا کرنے لگی اور تھوڑی دیر مٹھ لگانے کے بعد اس کی پھدی نے ڈھیر سارا پانی چھوڑ دیا اور وہ سکون میں آ گئی جب اس کو تھوڑا ہوش آیا تو اٹھ کے بیٹھ گئی اور بیڈ پے دیکھا تو اس کا بیڈ کافی زیادہ گیلا ہوا تھا اس کا پانی بہت زیادہ نکلا تھا وہ حیران تھی کے اس کا پہلے کبھی اتنا پانی نہیں نکلا جتنا آج نکلا ہے . اس نے جلدی سے الماری میں سے نئی چادر نکالی اور بیڈ پے ڈال دی اور پرانی چادر کو اٹھا کر اور ہلکا سا دروازہ کھول کے باہر کو دیکھا تھا تو اس کی نظر باتھ روم کے دروازے کی طرف گئی تو وہ کھلا ہوا تھا وہ آہستہ آہستہ سے چلتی ہوئی باتھ روم میں آ کر دیکھا تو اندر کوئی نہیں تھا وہ لڑکا کب کا جا چکا تھا . عشرت نے گندی چادر گندے کپڑوں میں پھینک دی اور باتھ روم میں داخل ہو کر اندر مشین میں سے اپنا انڈرویئر دیکھنے لگی اس کا اور منی سے بھرا انڈرویئر کپڑوں کے نیچے اس کو مل گیا اس نے جب وہ انڈر وئیر اٹھایا تو اس میں سے اس لڑکے کی منی کی ایک عجیب سے بو آ رہی تھی جو عشرت کو پِھر مدھوش کر رہی تھی . لیکن عشرت نے فوراً اپنے آپ کو سنبھالا اور وہ انڈرویئر اور اور سب کپڑے دھونے بیٹھ گئی. عشرت کا اس واقعہ کے بعد اب دِل اور دماغ اس لڑکے کے لن پے ہی کھویا رہتا تھا وہ ڈرتی تھی کے اگر وہ غلط فیصلہ کر کے اس لڑکے کے ساتھ کچھ کر لیتی ہے تو بدنام ہو جائے گی . لیکن دوسری طرف اس کے اندر کی عورت اور آگ اس کو کہتی تھی کے تیرے پاس اپنی جسم کی بھوک اور آگ ٹھنڈی کرنے کا اور کوئی موقع نہیں ہے یہ لڑکا ٹھیک ہے اِس کے ساتھ اپنا تعلق بنا لو اور خود بھی عیش کرو اور اس لڑکے کو بھی کرواؤ وہ بھی پیاسا ہے اور تم بھی پیاسی ہو . اور اگر وہ تمہیں بدنام کرنا چاہتا تو وہ تمہاری زندگی کی سب باتیں جانتا ہے لیکن پِھر بھی بدنام نہیں کیا آج تک . بس ان سوچوں کے بعد عشرت فیصلہ کر چکی تھی کے اس کو اب کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے 3 دن ہو گئے تھے وہ لڑکا عشرت کے گھر دوبارہ نہیں آیا اور عشرت یہاں انتظار میں تھی کے وہ آئے تو کوئی بات آگے چلے لیکن وہ نہیں آیا اور چوتھے روز عشرت خود اس لڑکے کے گھر چلی گئی جب ان کے گھر داخل ہوئی تو وہ صحن میں کھڑی اپنی موٹر بائیک دھو رہا تھا . اس کی نظر عشرت پے پڑی تو ڈرکے مارے اس کا رنگ لال سرخ ہو گیا اور بھاگ کر اندر کمرے میں چلا گیا . عشرت اس کی ماں کے پاس بیٹھ گئی اور یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگی اور پِھر تھوڑی دیر بعد اس لڑکے کی ماں سے بولی بہن ذرا اپنے بیٹے کو میرے گھر بھیجنا مجھے تھوڑا سودا سلف منگوانا ہے تو وہ آگے سے بولی کیوں نہیں بہن میں ابھی اس کو کہتی ہوں اس کی ماں نے آواز لگائی بیٹا باہر آؤ وہ جب باہر آیا تو عشرت سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا اور منہ نیچے کر کے ہی اپنی ماں کی باتیں سن رہا تھا اس کی ماں نے کہا بیٹا آنٹی کے گھر چلے جانا ان کو کچھ گھر کا سودا سلف منگوانا ہے . وہ لڑکا بولا جی ٹھیک ہے امی جی میں چلا جاؤں گا اور پِھر اندر چلا گیا اور عشرت تھوڑی یہاں وہاں کی باتیں کر کے وہاں سے گھر آ گئی . اور اس لڑکے کا گھر آنے کا انتظار کرنے لگی . دوپھر کے وقعت وہ لڑکا عشرت کے گھر آیا اور عشرت نے اس کو اندر بلا لیا لیکن اس لڑکے کا چہرہ صاف بتا رہا تھا وہ کافی زیادہ ڈرا ہوا تھا . عشرت نے اس وقعت اس سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اس کو پیسے اور سودا سلف کی رسید دی تا کے وہ لے آئے وہ لڑکا سودا لینے چلا گیا اور کوئی 1 گھنٹہ بعد واپس آیا تو عشرت نے اس کے لیے شربت بنا کے رکھا ہوا تھا اس کو کمرے میں اور دے کر خود سودا سلف رکھنے کچن میں چلی گئی وہ کچن سے فارغ ہو کر دوبارہ کمرے میں گئی تو وہ لڑکا پی چکا تھا اور عشرت کو دیکھ کر اٹھ کر جانے لگا تو عشرت نے اس کو روک لیا اور کہا کے یہاں ہی بیٹھو مجھے تم سے ضروری باتیں کرنی ہے
جاری ہے .