انمول رشتہ 3

 











ایک لمحہ کو ماں کا جسم سهسا سخت ہو گیا اور پھر اس کا آخری ضبط بھی ٹوٹ گیا. آپ کے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر اس نے اپنے آپ کو میرے حوالے کر دیا. اس سے پہلے کہ وہ فر کچھ آنا کانی کرے، میں نے جلدی سے بٹن کھول کر اس کا بلاز اتار دیا. اس سارے وقت میں مسلسل اس کے ملائم ہونٹوں کو چوم رہا تھا. برےسير میں بندھے ان ابھرے سینوں کی بات ہی اور تھی، کسی بھی عورت کو اس طرح سے نیم برہنہ دیکھنا کتنا متحرک ہوتا ہے، اور یہ تو میری ماں تھی.

بلاز اترنے پر ماں فر تھوڑا هچكچاي اور بولنے لگی. "ٹھہر بیٹے، سوچ یہ ٹھیک ہے یا نہیں، ماں بیٹے کا ایسا تعلق ٹھیک نہیں ہے میرے لال! اگر کچھ ..."


اب پیچھے ہٹنے کا سوال ہی نہیں تھا اس لئے میں نے اس کا منہ اپنے ہوںٹھوں سے بند کر دیا اور اسے آلںگن میں بھر لیا. اب میں نے اس کی برےسير کے ہک کھول کر اسے بھی نکال دیا. ماں نے خاموشی ہاتھ اوپر کرکے برا نکالنے میں میری مدد کی.اس کے ننگے چھاتی اب میری چھاتی پر ملحق تھے اور اس کے ابھرے نپلو کا لمس مجھے مدہوش کر رہا تھا. اروجوں کو ہاتھ میں لے کر میں ان سے کھیلنے لگا. بڑے ملائم اور مانسل تھے وہ. جھک کر میں نے ایک نپل منہ میں لے لیا اور چوسنے لگا. ماں اتیجنا سے سسک اٹھی. اس کے نپل بڑے اور طویل تھے اور جلد ہی میرے چوسنے سے سخت ہو گئے.


میں نے سر اٹھا کر کہا "اماں، میں تجھے بہت پیار کرتا ہوں. مجھے معلوم ہے کہ اپنے ہی ماں کے ساتھ رت کرنا ٹھیک نہیں ہے، پر میں کیا کروں، میں اب نہیں رہ سکتا." اور فر سے ماں کے نپل چوسنے لگا.


اس کے جسم کو چومتے ہئے میں نیچے کی طرف بڑھا اور اپنی زبان سے اس کی ناف چاٹنے لگا. وہاں کا تھوڑا نمکین ذائقہ مجھے بہت منشیات لگ رہا تھا. ماں بھی اب مستی سے ہنکار رہی تھی اور میرے سر کو اپنے پیٹ پر دبایے ہوئی تھی. اس کی ناف میں زبان چلاتے ہوئے میں نے اس کے پاؤں سہلانا شروع کر دیے. اس کے پاؤں بڑے چکنے اور بھرے ہوئے تھے. اپنا ہاتھ اب میں نے اس کی ساڑی اور پیٹیکوٹ کے نیچے ڈال کر اس کی مانسل موٹی جاںگھیں رگڑنا شروع کر دیں.میرا ہاتھ جب رانوں کے درمیان پہنچا تو ماں فر سے تھوڑی سمٹ سی گئی اور رانوں میں میرے ہاتھ کو پکڑ لیا کہ اور آگے نہ جاؤں. میں نے اپنی جیبھ اس کے ہونٹوں پر لگا کر اس کا منہ کھول دیا اور زبان اندر ڈال دی. اماں میرے منہ میں ہی تھوڑی سےسسکی اور فر میری جیب کو چوسنے لگی. اپنی جاںگھیں بھی اس نے الگ کر کے میرے ہاتھ کو کھلا چھوڑ دیا.


میرا راستہ اب کھلا تھا. مجھے کچھ دیر تک تو یہ یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ میری ماں، میرے خوابوں کی رانی، وہ عورت جس نے مجھے اور میرے بھائی بہنوں کو اپنی کوکھ سے پیدا ہؤا تھا، وہ آج مجھ سے، اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ رت كريڑا کرنے کی اجازت دے رہی ہے.


ماں کے پیٹیکوٹ کے اوپر سے ہی میں نے اس کے فولے جننانگوں کو رگڑنا شروع کر دیا. اماں اب كامواسنا سے کراہ اٹھی. اس کی اندام نہانی کا گیلاپن اب پیٹیکوٹ کو بھی بھیگی رہا تھا. میں نے ہاتھ نكلاكر اسکی ساڑی پکڑ کر اتار دی اور پھر کھڑا ہو کر اپنے کپڑے اتارنے لگا. کپڑوں سے چھوٹتے ہی میرا بری طرح تننايا ہوا لوہے کے ڈنڈے جیسا عضو تناسل اچھل کر کھڑا ہو گیا.


میں فر پلنگ پر لیٹ کر اماں کی کمر سے لپٹ گیا اور اس کے پیٹیکوٹ کے اوپر سے ہی اس کے پیٹ کے نچلے حصہ میں اپنا منہ دبا دیا. اب اس کے جننانگوں اور میرے منہ کے درمیان صرف وہ پیٹیکوٹ تھا جس سے ماں کی اندام نہانی کے رس کی بھینی بھینی منشیات خوشبو میری ناک میں جا رہی تھی. اپنا سر اس کے پیٹ میں گھساكر رگڑتے ہوئے میں اس خوشبو سے لطف اٹھانے لگا اور پیٹیکوٹ کے اوپر سے ہی اس کے جننانگوں کو چومنے لگا


میرے ہوںٹھوں کو پیٹیکوٹ کے کپڑے میں سے ماں کے جننانگوں پر اوگے گھنے بالوں کا بھی تجربہ ہو رہا تھا. اس منشیات رس کا ذائقہ لینے کو مچلتے ہوئے میرے من کی تسلی کے لیے میں نے اس کے کپڑے کو ہی چوستے اور چاٹنا شروع کر دیا


آخر اتاولا ہوکر میں نے اماں کے پیٹیکوٹ کی پلس کھولی اور اسے کھینچ کر اتارنے لگا. ماں ایک بار پھر کچھ هچكچاي. "او میرے پیارے بیٹے، اب بھی وقت ہے ... رک جا میرے بیٹے .... یہ کرنا ٹھیک نہیں ہے رے ..."


میں نے اس کا پیٹ چومتے ہوئے کہا "اماں، میں تجھ سے بہت محبت کرتا ہوں، تم میرے لیے دنیا کی سب سے خوبصورت عورت ہو. ماں اور بیٹے کے درمیان کام تعلق نامناسب ہے یہ میں جانتا ہوں پر دو لوگ اگر ایک دوسرے کو بہت چاہتے ہوں تو ان میں رت كريڑا میں کیا حرج ہے؟ ہے "


ماں سسکاریاں بھرتی ہوئی بولی. "پر خوبصورت، اگر کسی کو پتہ چل گیا تو؟"


میں نے کپڑے کے اوپر سے اسکی بر میں منہ رگڑتے ہوئے کہا. "اماں، ہم چپ چاپ محبت کیا کریں گے، کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی." وہ فر کچھ بولنا چاہتی تھی پر میں نے ہاتھ سے اس کا منہ بند کر دیا اور اس کے بال اور آنکھیں چومنے لگا. بھاو وبھور ہوکر اماں نے آنکھیں بند کر لیں اور میں پھر اس منشیات رسیلے ہوںٹھ چومنے لگا.

اچانک ماں نے نڈھال ہو کر آگے ہتھیار ڈال دئے اور بیتہاشا مجھے چومنے لگی. اس کی بھی ہوس اب قابو سے باہر ہو گئی تھی. منہ کھول کر جيبھے لڑاتے ہوئے اور ایک دوسرے کا مكھرس چوستے ہوئے ہم چوماچاٹي کرنے لگے. میں نے فر اس کا پیٹیکوٹ اتارنا چاہا تو اب اس نے عذاب نہیں کیا. پیٹیکوٹ نکال کر میں نے فرش پر فیںک دیا.


ماں نے کسی نئی دلہن جیسے شرم سے اپنے ہاتھوں سے اپنی بر کو ڈھک لیا. اپنے اس خزانے کو وہ اپنے بیٹے سے چھپانے کی کوشش کر رہی تھی. میں نے اس کے ہاتھ پکڑ کر الگ کئے اور اس انمول چیز کو من بھر کر دیکھنے لگا.


سیاہ گھنے بالوں سے بھری اس موٹی فولي ہوئی بر کو میں نے دیکھا اور میرا لںڈ اور اچھلنے لگا. اسی میں سے میں پیدا ہؤا تھا! ماں نے شرما کر مجھے اپنے اوپر کھینچ لیا اور چومنے لگی. اسے چومتے ہوئے میں نے اپنے ہاتھوں سے اس کی بر سہلائی اور پھر اس کی اروجوں کو چومتے ہوئے اور نپلو کو ایک چھوٹے بچے کی طرح چوستے ہوئے اپنی انگلی اس کی بر کی لکیر میں گھمانے لگا.


بر ایکدم گیلی تھی اور میں نے فوری طور اپنی بیچ کی انگلی اس تپي ہوئی نرم رستي ہوئی چوت میں ڈال دی. مجھے لگ رہا تھا کہ میں جنت میں ہوں کیونکہ خواب میں بھی میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ میری ماں کبھی مجھے اپنا پیٹیکوٹ اتار کر اپنی چوت سے کھیلنے دے گی.


میں اب ماں کے جسم کو چومتے ہوئے نیچے کھسکا اور اس کی رانیں چومنے اور چاٹنے لگا. جب آخر اپنا منہ میں نے ماں کی گھنی جھانٹوں میں چھپا کر اس کی چوت کو چومنا شروع کیا، تو کملا، میری ماں، مستی سے همك اٹھی. جھانٹوں کو چومتے ہوئے میں نے اپنی انگلی سے اس کے بھگوشٹھ کھولے اور اس مخملی چوت کا نظارہ اب بالکل پاس سے میرے سامنے تھا. ماں کی چوت میں سے نکلتی منشیات خوشبو سوگھتے ہوئے میں نے اس کے لال مخملی سوراخ کو دیکھا اور اس کے چھوٹے سے گلابی موترچھدر کو اور اس کے اوپر دکھائی دے رہے انار کے دانے جیسے کلٹورس کو چوم لیا.


اپنی زبان میں نے اس خزانے میں ڈال دی اور اس میں سے بہتے خوشبودار امرت کا پان کرنے لگا. جب میں نے ماں کے کلٹورس کو جیبھ سے رگڑا تو وہ تڑپ اٹھی اور ایک اسفٹ كلكاري کے ساتھ اپنی ہاتھوں سے میرا سر اپنی بر پر زور سے دبا لیا. میں نے اب ایک انگلی اماں کی چوت میں ڈالی اور اسے اندر باہر کرتے ہوئے چوت چوسنے لگا.


ماں کی سانس اب رک رک کر زور سے چل رہی تھی اور وہ ہوس کے فالتوپن سے هاف رہی تھی. میں نے خوب چوت چوسی اور اس انار کے دانے کو جیبھ سے گھستا رہا. ساتھ ہی انگلی سے اماں کو مشت زنی بھی کرتا رہا. سهسا اماں کا پورا جسم جکڑ گیا اور وہ ایک دبی چیخ کے ساتھ سکھلت ہو گئی. میں اسکا كلٹ چاٹتا رہا اور چوت میں سے نکلتے رس پان کرتا رہا. بڑی سهاوني گھڑی تھی وہ. میں نے ماں کو اس کا پہلا انزال دلایا تھا.


شاد کام ہونے کے بعد وہ کچھ سنبھلی اور مجھے اٹھا کر اپنے اوپر لٹا لیا. میرے سینے میں منہ چھوپاكر وہ شرماتی ہوئی بولی. "خوبصورت بیٹے، نہال ہو گئی آج میں، کتنے دنوں کے بعد پہلی بار اس مستی سے میں جھڑی ہوں."


"اماں، تم خوبصورت اور سیکسی کوئی نہیں ہے اس دنیا میں. کتنے دنوں سے میرا یہ خواب تھا تم سے میتھن کرنے کا جو آج مکمل ہو رہا ہے."


ماں مجھے چومتے ہوئے بولی. "سچ میں میں اتنے خوبصورت ہوں بیٹے کہ اپنے ہی بیٹے کو رجھا لیا؟"


میں نے اس کے چھاتی دباتا ہوا بولا. "ہاں ماں، تم ان سب ابینےتریوں سے بھی خوبصورت ہو."


ماں نے میری اس بات پر خوشی سے وبھور ہوتے ہوئے مجھے اپنے اوپر کھینچ کر میرے منہ پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور میرے منہ میں زبان ڈال کر اسے گھمانے لگی؛ ساتھ ہی ساتھ اس نے میرا لںڈ ہاتھ میں پکڑ لیا اور اپنی یون پر اسے رگڑنے لگی. اس کی چوت بالکل گیلی تھی. وہ اب كامواسنا سے سسک اٹھی اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مجھ سے خاموش یاچنا کرنے لگی. میں نے ماں کے کانوں میں کہا. "اماں، میں تجھے بہت پیار کرتا ہوں، اب تجھے چودنا چاہتا ہوں."


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی