سرفادر جو کہ ابتک لاپتہ ہے،اصل میں اس کام کوشروع کرنے والا وہی ہے، ۔اور جو کال گرلز کا منظم کاروبار ہے اس کو فادر ہی کنٹرول کرتا تھا۔صائمہ اور میرا اندازہ ہے کہ جب بھی ہم اس دھندے کو ختم کر کے کہیں اور مگن ہوجاے جائیں گے ۔ فادراس بزنس کو پھر کھڑا کرنے کی کوشش کرے گا۔تو پھر تنویر اسطرح تو ہماری ساری محنت ضائع ہوجائے گی ۔اس ڈیول کے باپ کو ڈھونڈو جیسے بھی ہو۔اگر وہ بزنس دوبارہ کھڑا سکتا ہے تو ہماری پیٹھ پر حملہ بھی کرسکتا ہے۔یس سر اندھی گولی کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کس طرف سے آنی ہے ۔۔تنویر تم ،صائمہ اور ایس ایس پی ،جیسے بھی ہو اسے ڈھونڈو ۔ہر ممکنہ جگہ چھان مارو۔اس کے قریبی ساتھی ڈھونڈو۔اوکے سر اب اسے ڈھونڈ کر ہی دم لوں گا،تنویر پرجوش ہوگیا۔جو کچھ ایس ایس پی نے کہا تھا وہی اب صائمہ کہہ رہی تھی ،وہ اس سارے کاروبار کی کلیدی ساتھی تھی۔اس کی بات غلط نہیں ہوسکتی تھی۔میری پریشانی عروج پر تھی۔میں نے آنکھیں بند کرلیں اور کچھ دیر سر پیچھے ٹکا لیا۔ہونہہ بہتر یہی تھا کہ انتظار کیا جائے میں نے آنکھیں کھولتے ہوئے سوچا۔پتہ نہیں اس میں کیا مصلحت تھی۔میرے بچے جب تک خرافات نہیں چھوڑو گے تم حقیقتوں سے دور رہو گے۔اور تم میری جگہ تک نہیں پہنچ سکو گے۔کوان لی کی آواز میرے دل میں گونجی ۔اس سے پہلے کوان لی نے ایسی بات کبھی نہیں کی تھی۔میں سوچوں میں پڑ گیا۔خیر۔ آج کی خاص خبر یہ تھی کہ نائلہ کے والد بھی اسی دوران ایک تہہ خانے سے مل چکے تھے۔شام کووہاں سے نکلا،اور حسبِ معمول ہانیہ کے پاس پہنچ گیا،واہ آج تو کپڑے بھی تبدیل کیے تھے اور منہ ہاتھ بھی دھویا ہوا تھا۔چہرے پر پیلاہٹ کافی کم ہوگئی تھی،اور مجھے محسوس ہوا ہانیہ میرے انتظار میں تھی،یہ بھی اچھا تھا اس سے اس کا دھیان تقسیم ہو رہا تھا،وہ عذاب عذاب سوچوں سے نکل رہی تھی۔جسمانی طور پر ہانیہ اب بہتر تھی،اسے جسمانی تشدد کانشانہ بھی دورانِ ریپ بنایا گیا تھا۔اسے جگہ جگہ دانتوں سے کاٹا گیا تھا،سگریٹوں سے جسم کوجلایا گیا تھا۔کسی تیز دھار چھوٹے چاقو سے اس کے جسم پر خراشیں ڈالی گئی تھیں،جسمانی طور پر ہانیہ اب بہتر تھی،میں نے اسے ہسپتال کے ماحول سے نکالنے کاسوچا۔صبا سے بات کی تو وہ بھی سمجھ گئی۔بہرحال آج میں نےہانیہ کو بولنے پر اکسایا اور اسے بولنے دیا،اس کے خاندان،اس کی مصروفیات،اس کی زندگی کے پلان،ہانیہ کو شاعری پسند تھی،دھیما دھیما بولتی تھی۔اس کے چہرے پر معصومیت بہت تھی۔بڑی پیاری لگتی تھی،تقریباً گول مٹول چہرہ ۔اور درمیانہ جسم،درمیانہ قد۔جسمانی طور پر میرے ذوق سے ہٹ کر تھی۔لیکن اس کی صورت ،دھیما دھیما بات کرنے کا دل کو چھوتا ہوا انداز اور شخصیت بڑی من موہنی تھی۔آج باتوں باتوں میں میں مجھے اندازہ ہوا کہ ہانیہ کی منگنی شگنی ہوچکی ہے یا بات پکی ہوچکی ہے،اور رشتہ داروں کو کچھ نہ بتانے میں یہی بڑی وجہ ہے۔لیکن یہ بات سرسری ہوئی تھی،باقی تو میں نے سارےاندازے لگائے تھا۔کافی رات گئے تک میں بیٹھا رہا ۔پھر نکل پڑا ۔آج صبا مجھے چھوڑنے باہر تک آئی۔وہ ساتھ چلتے ہوئے مجھ سے ٹکرائی بھی ۔مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی تھی۔وہ ایکطرف ہانیہ کی وجہ سے پریشان ہوکر مجھے اس کی ڈائری دیتی ہے،تا کہ میں ہانیہ کی موجودہ حالت میں ہانیہ پر توجہ دوں،اور دوسری طرف اب جب وہ کافی سنبھل رہی ہے تو پھر مجھ پر کلب کی اُس رات کی طرح ڈورے ڈال رہی ہے،اس کی یہی وجہ ہو سکتی تھی کہ اس وقت وہ دوستی نبھا رہی تھی اور اب ہانیہ کے سنبھلنے پر وہ اپنے جسم کی آواز سن رہی ہے۔صبا نارمل لڑکی تھی۔نارمل جسم،قبولِ صورت حسن،صاف چہرہ ۔لیکن لڑکی ہونا بذاتِ خود نارمل نہیں ہوتا بلکہ نہا یت ہوتی ہے۔اوپر سے اس پر دولتمندی کا بھی رنگ چڑھا ہوا تھا۔میرے اندازے کے مطابق اس کی چوت کادروازہ کھل چکا تھا اور اس میں کچھ لڑکے گزر چکے تھے۔میں پھر فلیٹ واپس آگیا،آج کل نیلم اچھا مزہ دے رہی تھی۔میں تو کھانا آج پھر کھا آیا تھا ۔نیلم میرے انتظار میں ہی تھی،اور ایک فلم دیکھ رہی تھی۔اس نے فلم دیکھتے ہوئے کھانا کھایا،میں بھی بیٹھا رہا۔میرے پاس ہالی ووڈ فلموں کی بڑی اچھی کولیکشن تھی، مارشل آرٹ پر بنی چائنہ کی بنی فلموں میں بھی کئی تو بڑ ی کمال کی ہیں۔نیلم نے اسوقت۔ کنگفو ہسل ۔لگائی ہوئی تھی،یہ 2004 میں ریلیز ہوئی تھی،اسٹیفن چو نے خود ہی لکھی تھی اور خود ہی ڈائریکٹ کی ،اور خود ہی اس میں ہیروبنا تھا،، ۔ کنگفو ہسل ۔ لاجواب فلم ہے اور میری پسندیدہ فلموں میں سےہے۔اس میں مارشل آرٹ کے ایسے اسٹائلز کا افسانوی انداز تعارف کروایا گیا ہے،جومترُوک چکے ہیں، اور ان کاذکر بس قصے کہانیوں میں رہ گیا،اس میں بڑے خوبصورت انداز کیساتھ افسانوی مارشل آرٹ کی عکاسی کی گئی ہے۔اور دلچسپ پیرائے میں کہانی کو بڑھایا گیا ہے۔اب یہ فلمیں ہیں لیکن کہیں یہ حقیقت کی شکل میں بھی موجود تھے۔اس سے پہلے اس ہیرو کی ۔شاؤلن سوکر۔ آئی تھی جو کہ اپنے آئیڈیےمیں لاجواب تھی آئیڈیا یہ تھا کہ مارشل آرٹ صرف لڑنے بھڑنے کا فن نہیں ہے بلکہ اس کی صلاحیتوں کو تعمیری انداز کیساتھ زندگی کے ہر شعبے میں استعمال کیا جاسکتا ہے،جیسے اس فلم میں مارشل آرٹ کی انتہائی صلاحیتوں کو فٹبال کھیلتے ہوئے استعمال کیا گیاہے ایسے ہی اسےہر کھیل اور ہرشعبے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ خودپر کنٹرول ہونے کے بعد ہر شعبے کی تیزی ،پھرتی،طاقت،مہارت ،اندازے کے مطابق ذہن اور جسم کو استعمال کرنا ممکن ہو جاتا ہے میں خود گولف کا بہترین کھلاڑی ہوں جبکہ میں گولف کی الف ب بھی نہیں جانتا ،اور نہ یہ کسی سے سیکھا ہے،اور میں اپنے ذہن اور جسم کو استعمال کرتے ہوئے ایسی ہٹ لگا سکتا ہوں کہ گولف بال ڈائریکٹ ہول میں آنکھیں بند کر کے پھینک سکتا ہوں۔کنگفو ہسل میں نے کئی بار دیکھی ہے۔اب پھر دیکھ کر ہی اٹھے ۔کافی کولیکش اکٹھی کررکھی ہے تم نے۔نیلم یو ایس بی ہارڈ ز میں موجود ڈیٹا دیکھ کر حیران ہوئی۔لگتا ہے تم انٹرنیٹ کافی استعمال کرتے ہو۔ارے نہیں نیلم ۔ مجھے تو انٹر نیٹ یا کمپیوٹر کا کچھ پتہ نہیں ہے ۔مجھے تو بس ٹورنٹ سائیٹس کا پتہ ہے ۔تھوڑی بہت سرچ کرنی جانتا ہوں اپنی تھوڑی سی ضرورت کیلیے کمپیوٹر استعمال کرنا جانتا ہوں۔
لیکن فلمیں ڈاؤنلوڈ کرنے کیلیے بھی انٹرنیٹ کو وقت تودیتے ہوگے نیلم نے کہا۔نہیں یارمیں اپنی پسند کی فلمیں ڈھونڈتا ہوں زیادہ تر بہترین پرنٹ 1080 پی کی فلمیں دیکھتا ہوں ۔ان فلموں کی ڈاؤنلوڈنگ پر لگا دیتا ہوں اور لیپ ٹاپ چلتا رہتا ہے ۔ میں اپنا معمول کی زندگی گزارتا رہتا ہوں ۔میرا کوئی پروفیشنل رابطہ تو انٹرنیٹ سے تھا نہیں ۔اور اپنی سوشل لائف کی وجہ سے انٹرنیٹ استعمال کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ انٹرنیٹ نے انسان کی سوشل لائف ختم کردی ہے اور اسے تنہا کردیا ہے۔اکیلے گھنٹوں لیپٹاپ یا کمپیوٹر کے سامنے پتہ نہیں لوگ کیسے بیٹھ جاتے ہیں۔۔اسی لیے مجھے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ دونوں سے چڑ ہے۔ایک طنزیہ یہ لطیفہ یاد آگیا ۔بجلی جانے کے بعد لڑکا گھر والوں کے پاس آکر بیٹھ گیا۔وہاں گپ شپ میں اچھا وقت گزرا۔ لڑکا سوچنے لگا اچھے لوگ ہیں یہ بھی ،کبھی کبھار ان سے مل لینا چاہیےمیرا نظریہ تو یہ ہے کہ لیپ ٹاپ کے ساتھ تنہائی کی زندگی گزارنے سے بہتر ہے بندہ کسی سے مل ملا لے۔میں نے معنی خیز انداز میں کہا تو نیلم مسکرانے لگی،وہ میری بات سمجھ گئی تھی۔۔۔۔تو پھر کیوں نہ آپ مجھ سے ملیں نیلم نے میرے عضو والی جگہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔اور پھر مستیاں شروع ہوگئی۔اگلے دن شام کو ہانیہ ڈسچاج ہو کر اپنے گھر چلی گئی۔
اسی دن ابھی ہم سو رہے تھے اور فادر نے مجھے آکر اُٹھایا۔وہ اکیلا نہیں تھا اس کے ساتھ چھ بندے کلاشنکوف اور پسٹل سے لیس تھے اور ان گنوں کا رخ میری طرف تھا۔ دو بندے دروازے پر جبکہ مجھے لگ رہا تھا کہ دو ڈرائنگ روم میں بھی ہیں۔ مجھے احساس ہوا کہ فادر مجھ سے کافی محتاط ہے ۔جب میں سو رہا تھا تب فادر اپنے غنڈوں کے ساتھ میرے فلیٹ میں گھس آیا تھا۔اور اب پستول کی نالی میرے گالوں میں گھسا کر مجھے اٹھا رہا تھا۔اٹھ جاؤ بچے ۔ہماری نیندیں اڑا کر تم مزے کرر ہے ہو،میں اٹھا اور فادر کو دیکھ کر شکر کیا کہ مچھلی نے چارہ نگل لیاہے۔میں نے ہاتھ بڑھا کر پاجامہ لیا اور کمبل میں ہی اسے پہن لیا۔فادر پرسکون تھا،اور ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا کوئی بندہ یہ کرسی کچن سے اٹھا کر لایا تھا۔ بچے مجھے میرا بیٹا چاہیے۔فادر نے بڑے سکون سے کہا،اس کے سکون سے مجھے محسوس ہوا بندہ واقعی گہرا ہے ۔اور جتنے سکون میں دِکھ رہا ہے اتنا ہی زیادہ خطرناک ہے۔دوبارہ مجھے بچہ نہ کہنا،مجھے یہ الفاظ با لکل اچھے نہیں لگتے ،میں نے فادر کے ہی انداز میں سکون سے کہا۔فادر مجھے گہری نظروں سے دیکھتا رہا، بچے مجھے میرا بیٹا چاہیے اور ابھی اسی وقت چاہیے،نہیں تو میں تمھیں یہاں تڑپا تڑپا کر ماروں گا۔تم جانتے ہی نہیں تم نے کس بلا سے پنگا لے لیا ہے،فادر نے خطرناک انداز میں کہا۔اتنے میں نیلم بھی اٹھ گئی تھی۔جب اسنے کمرے کا ماحول دیکھا تو ڈر گئی ۔اس نے کمبل اچھی طرح اپنے اوپر لپیٹ لیا ۔میں بیڈ پر ٹیک لگائے سکون سے بیٹھا تھا۔تمھارا بیٹا اسوقت بہت دور پہنچ گیا ہے ۔تو تم اسے قریب لاؤ نہیں تو موت قریب آجائے گی۔اس کے اشارے پر ایک آدمی نے خنجر نکال لیا۔اور دو نے گنیں میرے سر پر لگا لیں۔جیسے ابھی میں نے کچھ کیا نہیں اور وہ مجھ پر بےدریغ فائر کر دیں گے۔ایک نے نیلم کو اٹھا کر کمرے میں ایک کونے میں پھینک دیا،وہ ننگی تھی۔لیکن ان میں سے کسی کا دھیان اسوقت نیلم کے جسم کی طرف نہیں تھا۔ان کے موڈ بڑے خطرناک تھے۔میں آخری بار کہہ رہا ہوں بچے مجھے باسل کا پتہ بتادو میں چپ چاپ یہاں سے چلا جاؤں گا،ہمارا جھگڑا یہیں ختم ہوجائےگا،فادر نے چارہ پھینکا ۔تمھیں اپنا بیٹا چاہیےتو ہم سودا کرلیتے ہیں ۔کیسا سودا۔فادر چونکا۔مجھے اس سیٹ اپ کا اصل کھلاڑی چاہیے ۔تم مجھے اصل کھلاڑی کا نام دو اور اپنا بیٹا لے جاؤ۔بچے کیوں نہ میں تمھارے جسم کے ٹکڑے ٹکرے کر کے ان میں سے پنا بیٹا نکال لوں۔فادر کے لہجے سے مجھے اندازہ ہوا کہ اب مجھ پر تشدد کروانے کا ارادہ کرچکا ہے،اس کے خیال میں اس نے مجھے کچھ دیر ڈھیل دی تھی۔تمھارا بیٹا اس وقت ایک ایجنسی کے پاس ہے،اس لیے سودے کے بغیر وہ تمھیں نہیں ملے گا،میرے ساتھ زبردستی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔میں اب ایجنسی کو کہہ بھی دوں تو پھر بھی وہ تمھارے بیٹے کو نہیں چھوڑیں گے،الٹا تمھیں خود کو بچانا مشکل ہوجائے گا،اصل بندہ دو گے تو ایجنسی سے ڈیل کروا دوں گا اور بیٹا تمھیں مل جائےگا۔آگے تمھاری مرضی،میں نے سکون سے کہا،میں نے فادر کو الجھن میں ڈال دیا۔اس ساتھ موجود غنڈوں کی قابلیت کا اچھی طرح اندازہ کرچکا تھا۔اور ان کی پوزیشنیں اور میرے حملے کے بعد ان کے ردِّعمل کا بھی اندازہ کرچکا تھا۔دو بندے دروازے پر کھڑے تھے پھر فادر کے پاس بھی پسٹل تھا۔۔جو کرنا تھا اتنی سرعت سے کرنا تھا کہ گولیوں کو بھی نشانہ نہ ملے۔اور پہلے بھی کبھی میری طرف آتی گولیوں کو میں نہیں ملتا تھا۔یہاں بس نو گنیں میری طرف تھیں اور ایک کمرے میں ان کی کی تعداد ہی مجھے فائدہ دینی تھی بس ایکبار میں نے اپنی جگہ سے ہوا کی طرح اِدھر اور پھر اُدھرہونا تھا اور یہ میرے لیے آسان تھا۔ ۔اصل کھلاڑی میں خود ہوں سمجھے بچے ۔میں اپنے بیٹے کو خود ہی لے آؤں گا۔اگر تم میرے بیٹے کو اب واپس نہیں لا سکتے تو مجھے تمھاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔فادر آخری فیصلہ کرچکا تھا۔اور میں اس کے فیصلے سے پہلے ایکشن میں آچکاتھا۔کیونکہ کمرے میں سب ایسے گر رہے تھے جیسے مکھیاں پر سپرے کیا جا رہا ہو۔تنویر نے سارا بندوبست پہلے ہی کیا ہوا تھا۔ تنویر تو شروع ہی میرے ساتھ تھا۔جب میں خود کو چارہ بنا کر فلیٹ پر آیا تھا۔اور میں نے کمال کو فادر کے ڈھونڈنے پر لگایا تھا۔جیسے جیسے کمال فادر کے ملازموں ،دوستوں۔بدمعاشوں ۔لڑکیوں ۔ملنے والوں کودھمکاتا گیا،ویسے ویسے بل میں چھپے چوہے تک خبریں پہنچتی رہیں پھر تنویر بھی کمال کے ساتھ شامل ہوگیا۔وہ ہر ممکنہ جگہ ہر ممکنہ آدمی سے یہی کہہ رہےتھے کہ ڈیول ہمارے پاس ہے اور ہم فادر تک بھی پہنچ کرچھوڑیں گے۔اور فادر بل سے نکل کر اپنے بیٹے کو لینے میرے پاس پہنچ گیا۔۔میں سو رہا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے اس کے آنے کی خبر نہیں ہوئی تھی۔جیسے ہی فادر نے اقرار کیا کہ اصل کھلاڑی وہ خود ہے ۔بے ہوش کرنے والی گیس پورے فلیٹ میں چھوڑ دی گئی ۔جب چھ بندے کمرے میں ایک فادر اور دو باہر دروازے پر میری طرف گنیں تانیں کھڑے ہوں اور دو ڈرائنگ روم میں بھی ہوں تو گیس سے سب کو بے ہوش کرنا ہی بہترین آئیڈیا تھا۔گیس اعصاب اور سانس دونوں سے دماغ اور جسم پر حملہ کرتی ہے ۔اور یہ دونوں ہی مجھ پر بیکار تھی۔میں نےبے ہوش نیلم کواٹھا کر بیڈ پر ڈالا اور اس کے اوپر کمبل ڈال دیا۔فلیٹ کے تہہ خانے سے دو کمانڈو نکلے انہوں نے گیس ماسک لگا رکھےتھے۔اور سب کو ہتھکڑیاں (کف لنکس) لگانے لگے۔ساتھ ساتھ ان کے پاؤں بھی باندھ رہےتھے۔۔گیس سے بے ہوش کرنے کیلیے دو کمانڈو ہی کافی تھے،ہمارے انتظامات پہلے سے مکمل تھے،فادر جہاں بھی جیسے بھی آتا۔دبوچا جانا تھا۔کچھ ہی دیر میں تنویر بھی کمال کے ساتھ پہنچ گیا۔فلیٹ پورا سمیر کی نگرانی میں تھا۔اس طرح نیلم پر بھی نظر رکھی جا رہی تھی۔لیکن وہ ابھی تک تو صاف تھی۔کیونکہ ابھی دن تھا اور اور ان سب کو رات تک یہیں رکھنا تھا۔اس لیےان سب کو دوسرے کمرے میں ڈال دیا گیا ۔تنویر فادر تمھارے حوالے ہے،اسے اچھی طرح نچوڑ لو۔اور اب اس سیٹ اپ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکو ۔یس سر۔اب کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔لیکن میرے دل کو تسلی نہیں ہو رہی تھی، میرے اندر سے آواز آتی تھی ابھی کوئی اہم بات باقی ہے۔ویسے بھی مجھے فادر کے سلسلے میں انتظار کا اشارہ ملتاتھا ۔جو کہ کسی بڑی کامیابی کی طرف تھا ۔لیکن وہ فائدہ مجھے ابھی نظر نہیں آرہا تھا کیونکہ بقول کوان لی میری خرافات اس سب کے آڑے آرہی تھی۔بہرحال میرے دل کے مطابق ابھی فادر کے سلسلے میں کوئی بڑی کامیابی آنی تھی۔ اسی شام ہانیہ ہسپتال سے ڈسچارچ ہو کر اپنے گھر پہنچ گئی۔اور نیلم بھی اپنے گھر چلی گئی ۔اسے زبردست ذہنی جھٹکا لگا تھا ،اسے آرام چاہیےتھا۔میری آج ہانی من موہنی سے ملاقات نہ ہوسکی۔میں نے اس سے موبائل پر لمبی کال کی۔ ہانیہ پورا ہفتہ گھر سے نہ نکلی ۔وہ مکمل تندرست ہو کر ہی باہر نکلنا چاہتی تھی ۔اس طرح ایک ہفتہ گزر گیا۔اور ہماری کال پر بات چلتی رہی۔ اور ہانیہ ذہنی طور پر کافی بہتر تھی۔اس ہفتے تین خاص واقعے ہوئے ۔ تیسرا واقعہ بڑا خوفناک تھا۔اس لیے وہ آخر میں سناؤں گا اور پھر ہانیہ پر کہانی کا اختتام کردوں گاتا کہ کہانی کی ترتیب قائم رہے۔کہانی کی اس ترتیب اور اختتام کیلیےمیں نے ایک نئی ترکیب لگائی ہے جو کہ میری اپنی اختراع ہے ۔پہلا خاص واقعہ یہ ہوا کہ ۔
ایک تو صبا مجھےملنے فلیٹ پر آئی ۔ لیکن وہ اکیلی نہیں تھی۔اس کے ساتھ سدرہ بھی تھی۔صبا کا آنا تو متوقع تھا۔لیکن اس کے ساتھ سدرہ کی آمد مجھے الجھا رہی تھی۔سدرہ بھی تب ملی تھی جب میں نے پہلی بار ہانیہ کودیکھا تھا۔اور میری ان تینوں دوستوں سے ملاقات ہوئی تھی۔ہوسکتا ہے صبا آج صرف ملے آئی ہو۔اور اس طرح آج وہ اپنے ذاتی تعلقات کی ابتداء کر رہی ہو۔لیکن ان کے چہرے اور جسمانی حرکات سکنات کچھ اور کہہ رہی تھیں ۔جس سے میں انکےآنے کا مدعا سمجھ رہا تھا۔منزل سامنے دیکھ کر وہ کچھ جھجھک رہی تھیں ۔ کیونکہ میں ابھی تک صبا کو کوئی سگنل نہیں دیا تھا۔بلکہ ہانیہ میں دلچسپی کھل کر ظاہر کی تھی۔اسی لیے وہ آج دونوں ایکدوسرے کا حوصلہ بن کہ مجھے شکار کرنے آئی تھیں۔دونوں نارمل حسن کی جوان لڑکیاں تھیں اسمارٹ اور میری ہم عمر ہی تھیں۔خوشحالی نے ان پر رنگ روپ چڑھا دیا تھا۔اور ناز نخرہ تو پھر آتا ہی تھا۔۔ میں نےاپنے آئیڈیے کے مطابق انہیں کچھ موقع دیا۔میں فرج سے فروٹ کاک ٹیل کے دوڈبے ایک باؤل میں ڈال کر لے آیا۔میری فرج میں کھانے کے ڈبے اور ایسی چیزیں پڑی رہتی تھیں۔ ہم اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔اور مختلف فروٹ کے ٹکڑے کھانے لگے۔کانٹے سے اٹھا کر میں نے ایک ٹکڑا صبا کے منہ میں ڈال دیا۔اور ایک سدرہ کے منہ میں ڈال دیا۔صبانے فوراً ایک ٹکڑا اپنے ہاتھوں سے مجھے کھلا دیا۔ ۔بس اتنی سی بات تھی،اب وہ وہی شوخ صبا بن گئی۔جو ہوٹل کی پہلی ملاقات میں مجھے لائین دے رہی تھی۔اور شوخ جملوں کی چھیڑچھاڑ سے اپنا مدعا بیا ن کر رہی تھی۔یہ بھی ایک فن ہے سب کے سامنے بات کچھ اور کرنا اور سمجھان کچھ اور ور مزے کی بات ہے کہ کسی کو احساس بھی نہ ہو۔صبا اور سدرہ اب بے چین تھیں۔اورواضح سگنل کے انتظار میں تھیں۔لیکن میں ان کی پہل کا منتظر تھا،میں سمجھ گیا تھا وہ دونوں چودائی کے موڈ میں آئی ہیں۔ان کا ساتھ آنا بتاتا تھاکہ وہ آپس میں لیسبن بھی کرتی ہوں گی۔اور ہانیہ ان کے اس روپ سے ناواقف تھی۔ ارے بھئی کھلانا ہےتو اچھی طرح کھِلاؤ نہ۔میں نے معنی خیز لہجے میں کہا۔تو صبا اور سدرہ کے چہرے پر چمک آگئی۔اور شہوت کے آثار واضح ہو گئے۔تو آپ یہاں آئیں نہ،صبا نے اپنے اور سدرہ کے درمیان آنے کا اشارہ کیا۔صوفہ ٹرپل سیٹ والا اور تھوڑا چوڑا تھااور بڑاتھا۔کیونکہ یہاں چوڑائی بیڈ کا کام دیتی رہتی تھی۔ہر لڑکی سیدھی بیڈروم میں نہیں جاتی کوئی یہیں بیٹھ جاتی ہیں۔او ر صبا کی طرح پہلے کچھ وقت لیتی ہیں۔ سامنے دیوار پرالٹرا ایچ ڈی 84 انچ فورکے لگا ہوا تھا۔ابھی حال ہی میں منگوایا تھا۔یہاں بیٹھ کر فلمیں دیکھتے ہوئے ۔کھاتے پیتے ہوئے ۔باتیں کرتے ہوئے کھیل شروع ہوجاتا ہے۔ وہ کیا ہے کہ ایک ہی صوفہ پڑا ہو تو قریب آنے میں آسانی رہتی ہے۔کبھی اضافی ضرورت پڑے بھی تو اس کا بھی انتظام کیا ہو ا تھا۔ساتھ والے کمرے میں دو سنگل صوفے پڑے ہوئے تھے اور ان کے نیچے چھوٹے چھوٹے مضبوط پہیے لگے ہوئے تھے۔میں ایک طرف صبا کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔۔میں اٹھ کر صبا اور سدرہ کے درمیان بیٹھ گیا۔اور دونوں مجھے فروٹ کھلانے لگی۔فروٹ تو ہمارا بہانہ بن گیا تھا۔اور وہ دونوں طرف اپنے جسم میرے ساتھ لگا رہی تھیں۔مجھے ان کے جسموں کی حدّت محسوس ہورہی تھی۔بے تکلفی بڑھ رہی تھی ان کے ممے میرے جسم میں کھبنے لگے تھے۔میں ان کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا تھا۔میں نے اپنے ہاتھ بڑھا کر ان کی رانوں پر رکھ دیئے ایک اِدھر ایک اُدھر۔صبا اور سدرہ کی حوصلہ افزائی ہوگئی تھی۔۔کھیل شروع ہوگیا ۔صبا نے دونوں بازوؤں میں مجھے لے لیااور کہا۔آئی لو یو پرنس ۔آئی لو یو تھا کہ چودائی کا بٹن دبادیا تھا۔دونوں مجھے چومنے لگی۔مجھ سے لپٹنے لگی۔وہ دو تھی میں ایک تھا۔جمہوریت کے اصول کے مطابق ان کی حکومت بنتی تھی۔اس لیے میں نے انہیں اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع دیا۔سمجھا کریں نہ میں کرتا تو تو ایک سے چوما چاٹی کرنی تھی۔وہ دونوں مجھے ایک ساتھ کر رہی تھی۔تو مزہ لیں اور کیا ہے۔جیسے جیسے چوما چاٹی بڑھ رہی تھی ۔ویسے ویسے ان کی کیفیت میں تبدیلی آرہی تھی۔اور گرمی میں اضافہ ہورہا تھا۔صبا کھڑی ہوگئی اور اپنے کپڑے اتارنے لگی۔اور سدرہ نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے جوڑ دیئے۔ہم کسنگ کرتے رہے اور صبا بے تابی سے ننگی ہوگئی۔اس کا جسم شاندار تو نہیں لیکن جوانی کی اٹھان سے کسا ہوا تھا۔اور ممے 34 لگتے تھے۔آپ انہیں 36 یا 38 بھی کہہ سکتے ہیں۔صبا کپڑے اتار کرمیری اوپر گری تو سدرہ اپنے کپڑے اتارنے لگی۔ صبا نے مجھے بانہوں میں لے کر ہونٹ پر ہونٹ رکھ دیئے۔ہم ہونٹوں میں ہونٹ ڈالے ایکدوسرے کا رس پینے لگے۔سدرہ نے کپڑے اتارے تو اس کا جسم بھی جوانی سےبھرپوراور رس بھرا تھا۔سدرہ میری پینٹ کی زپ کھولنے لگی۔دونوں لڑکیوں میں ہم آہنگی تھی۔صبا میری شرٹ کے بٹن کھولنے لگی،ان کے ہونٹوں پر مسکان تھی۔اور جسموں میں ہیجان کی کیفیت آرہی تھی۔چہرے پر دبا دبا جوش تھا۔مجھے دونوں نے ایسے ننگا کیا جیسے میری عزت لوٹنی ہو۔نادیہ دیکھتی تو ضرور کوئی فقرہ چست کرتی۔مجھے ننگا کر کے وہ مجھے چومنے لگی،میرے جسم کوچاٹنے لگی۔ان کے ہاتھ فنکارانہ انداز میں میرے جسم کوہیجان میں مبتلا کر رہے تھے۔میرے جسم کو اپنے ہونٹوں سے خراجِ تحسین دینے کے بعد صبا نے میرے عضو کو ہاتھ میں لے لیا۔اسے چوما اور زبان سے اسے نیچے سے اوپر چاٹا۔پھر اسے منہ میں لے لیا۔سدرہ مجھ سے ہونٹ سے ہونٹ لگا کر کسنگ کرنے لگی۔اس کے ہونٹوں کا رس پیتے ہوئے احساس ہوا کہ ذائقہ کچھ اسٹرابری جیسا ہے۔ہم نے سیراب ہو کر لبوں کا رس پیا۔اور صبا نے سیراب ہوکر میرا عضو چوسا۔پھرسدرہ بھی نیچے ہوگئی،اب میں صوفے پر بیٹھا تھا اور دونوں نیچے میرے عضو کو تھامے بیٹھی تھیں۔اور اسے ندیدوں کی طرح چوس رہی تھیں۔پانچ منٹ سے زیادہ میں نے انہیں عضو چوسنے نہ دیا۔میں نے سدرہ کوکھینچ کر اوپر کیا اور اس کے ممے چوسنے لگا۔آہ سچ بتاؤں ممے چوسنے سے نہ جانے کیوں دل نہیں بھرتا۔بہرحال سدرہ کے اوپر آنے سے دونوں کا ردھم ٹوٹ گیا۔اور صبا میرے عضو کو منہ سے چھوڑ کر چوت میں لینے کیلیے اس کے اوپر آبیٹھی۔میں تھوڑا نیم لیٹا ہوا انداز میں آگیا،صبامیری ٹانگوں پر آکرچوت کو عضو پر لے آئی ۔مہارت سے عضو اندر لیا اوراور چودائی شروع۔۔صباکو پتہ تھا کہ اب کیا کرنا ہے اور وہ اچھے طریقے سے کر رہی تھی۔میں سدرہ کے ممے کا رس پیتے پیتے ڈھیلا پڑ گیاکیونکہ اب عضو پر چودائی شروع ہوگئی تھی۔سدرہ میری حالت سے سمجھ گئی اب اور چوما چاٹی نہیں ہوگی اب کھل کے چودائی کا وقت آگیا ہے۔ سدرہ صبا کی مدد کرنے لگی۔لیکن اب وہ کٹی پتنگ کی طرح تھی ۔وجہ یہ تھی کہ عضو ایک تھی اور چوت دو تھی۔اور سدرہ چودائی میں ڈوبتی چلی گئی۔لگتا تھا صبااب پانی نکلوا کر ہی چھوڑے گی۔صبا کی چودائی میں مزہ تھا کیونکہ وہ مہارت سے چودائی کر رہی تھی۔نہیں تو اناڑی لڑکیاں کو سواری کا شوق تو ہوتا ہے لیکن بار بار عضو کو اندر لینے کی بجائے عضو کے اوپر بیٹھ جاتی ہیں،جس سے عضو کےپٹھوں کو نقصان ہوتا ہے اور اس کے مڑنے کا خدشہ ہوتا ہے۔سدرہ تھوڑا سا آگے کی طر ف تھی۔45 کا زاویہ بنا ہوا تھا۔سدرہ سے مزہ آرہا تھا۔اس اسٹائل میں دخول پورا ہوتا ہے ۔اور لڑکی کوخوب مزہ آتا ہے۔اسلیے بھی کہ کنٹرول لڑکی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔لیکن مرد کیلیے بھی اس میں بڑا مزہ ہے ۔چوت جب گرم جوشی سے اپنی گرفت میں لے کر عضو پر اپنی چڑھائی کرتی ہےتو جان ہی نکل جاتی ہے۔اس میں لڑکی جلد انزال کر لیتی ہے ۔اور لڑکی کی چکنی سرین کا بھی مزہ آتا رہا ہےصبا جوشیلی تھی۔اور چودائی میں رفتار تھی۔اس کے ممے دلکش نظارہ دکھا رہے تھے ۔صبا کے ہونٹوں پر سیکسی مسکان تھی۔لیکن سدرہ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔وہ بے چین تھی۔اور اپنی انگلی سے چوت کو آرام دینے کی کوشش کررہی تھی۔اسکا دوسرا ہاتھ اسکے مموں کو مسل رہا تھا۔میں اسے انگلیوں سے آرام دے سکتا تھا لیکن میرا مزہ خراب ہوجانا تھا۔میں لیٹا مزہ لیتا رہا ۔اور صبا عضو پر اور سدرہ اپنی انگلی پر مزہ کرتی رہیں۔اب بس کچھ ہی دیر تھی۔صبا تو پانی نکالنے ہی والی تھی سدہ نے بھی منزل پا لینی تھی۔ میں نے سدرہ اکاہاتھ پکڑ لیا اور کیونکہ صبا کا پانی نکل رہا تھا وہ میرے اوپر گر پڑی ۔کچھ دیر بعد میں نے صبا کو ایکطرف کیا۔وہ تھکی تھکی لگ رہی تھی۔لیکن پرسکون تھی۔میں نے سدرہ کو اٹھایا اور اسے پوزیشن بنانے کو کہا،اس نے صوفے پر گھٹنے ٹکائے منہ صوفے کی پشت کی طرف کر کے ہاتھ صوفے کے کناروں پر رکھے ۔اور میں نے پیچھے سے سدرہ کی چوت میں ڈال کر چودائی شروع کردی۔ہم دونوں کوزیادہ دیر نہیں لگنی تھی۔میں نے چودائی بھی دھنا دھن والی شروع کردی تھی۔آہ پرنس۔ تیز اور تیز، چودائی شروع ہونے کے بعد سے اب سدرہ ہی بولی تھی۔میں تو پہلے ہی تیز تھا۔اب میں نے اس کی موری کو پھاڑنا تو نہیں تھا۔تیز پرنس اورتیز کرو نہ۔سدرہ کی فرمائش دوبارہ آئی تو میں نے بے درد جھٹکے دینے شروع کردیئے۔اسی پل سے سدرہ کی ہلکی چیخیں بلند ہونی شروع ہوگئی۔میں لگا رہا ۔اب وہ کسی کو یہ تو نہیں کہہ سکے گی کہ میں نے پرنس کو تیزہونے کو کہا تھا اور اس سے کچھ ہوا ہی نہیں ۔غنیمت یہ تھا کہ سدرہ کا پانی نکل گیا۔اور میں نے دھکوں میں کچھ کمی کردی۔لیکن رکا نہیں کیوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔میں نے کہنا تھا میرا پانی نکلنے والا ہے لیکن کہنے کی نوبت ہی نہ ملی اورپانی ایسے نکلا جیسے ڈیم کے بند ٹوٹنے کے بعد نکلتا ہے۔اب سدرہ کی سسکیاں ایسے تھیں جیسے اسے پیاس سے نڈھال ہونے کے بعد آخر کار پانی مل ہی گیا ہو۔