تنویر اور اس کے تین ساتھی ،میں اور پائلٹ نوید نے اڑان بھری ،ہمارا سمیر سے رابطہ تھا اور وہ ہمیں گائیڈ کر رہا تھا،سر لگتا ہے یہ فاٹا کی طرف جائے گا،ہو سکتا ہے میں نے مختصر جواب دیا،، جب ہم سمیر کی رہنمائی میں مطلوبہ گاڑی تک پہنچے تو خطرناک انداز میں بھاگی جا رہی تھی،رات کا وقت تھا چار بج چکے تھے میرے خیال سے ڈیول کو ثناء کی کوٹھی سے بھاگے اور ہمیں اس تک پہنچتے چار گھنٹے سے اوپر ہوگئےتھے ، ڈیول اندازاً 120 کی رفتار سے جا رہا تھا،تنویر ایسے کاموں کا ماہر تھا،اور اس وقت وہی ٹیم کو لیڈ کر رہا تھا۔زیادہ تگ و دو کی بجائے،تنویر اور حیدر نے نائیٹ ویژن آنکھوں پر لگائی،اور رائفلیں پکڑ لیں، حیدر ان سب میں باکمال نشانہ باز تھا ،نوید ہیلی کو کار کے متوازی اڑنے لگے،ڈیول کاپٹر کی آواز اور فلڈ لائٹس سے چوکنا ہو چکا ہو گا،تنویر اور حیدر نے بیک وقت فائر کیا،رات کا وقت 120 تک چلتی کار،اڑتے ہیلی سے نشانہ،لیکن فائر نشانے پر لگے،اور ڈیول کی کار کے ایک طرف کے دونوں ٹائر برسٹ ہو گئے،تیز رفتار کار کو زبردست جھٹکا لگا،اور کار الٹتی گئی،نوید نے جلدی سے سڑک پر ہی کاپٹر اتارا ،میں کاپٹر کے پاس ہی رہا،تنویر اور اس کے ساتھی ،کار کی طرف بڑھے ۔ ڈیول نے بڑی ہمت کی وہ زخمی تھالیکن اس نے کار سے نکل کر بھاگنے کی کوشش کی،مگر تنویر یہ برداشت کہاں کرسکتاتھا،اس نے اسے چھاپ لیا،اور اسے ہاتھ پیچھے کر کے ہتھکڑی (کف لنکس )لگا کر میرے پاس لے آیا۔کمال اور حیدر نے ڈیول کو بازو ؤں سے پکڑا ہوا تھا،جیسے ہی وہ میرے سامنے آیا،میری اکڑی ہوئی انگلیاں اس کے پیٹ پر پڑی ،جیسے ہی میں نے اس کے سسٹم کو انتہائی درد دیا،ڈیول کی چیخیں آسمان کو چھونے لگی،یہ ہر اس ہانیہ کی طرف سے ہے جسے تم نے اپنا نشانہ بنایا،میں غرّایا ۔آج کی رات تمھاری زند گی کی کٹھن ترین رات ہوگی، تم دعائیں مانگو گے کہ تمھیں موت آجائے مگر تمھیں موت نہیں آئے گی،،نہ تم بے ہوش ہو گے،میں نے اسے سرد لہجے میں کہا،تنویر اور اس کے ساتھی ڈیول کی چیخوں اور میرے لہجے سے انتہائی سنجیدہ ہوچکے تھے،لے چلو اسے،میں نے کاپٹر میں بیٹھتے ہوئے کہا،ڈیول تنویر کے بازوؤں میں جھول رہا تھا ،اس کا جسم جھٹکے لے رہا تھا۔ عیاشیوں سے اسکا جسم جیسے ہونا تھا ،میں نے اسی مناسبت سے اسےخوراک دی تھی، کاپٹر میں سب کے بیٹھتے ہی نوید ہمیں فارم ہاؤس کی طرف لے اڑا،ڈیول کو ثناء کے ساتھ ہی رکھا گیا،میں نے تنویر سے ڈیول کی حالت کی ویڈیو بنانے کیلیے کہااور خود بلیک میلنگ مواد والی ویڈیوز دیکھنے لگا،اور فائلز پڑھی،ڈی وی ڈیز دیکھی،تصویریں دیکھی، ،ویڈیوز بڑی خطرناک تھی،ان میں خاص خاص لوگوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، منسٹر اور اس کے ساتھی سیاست دان بھی اسمیں شامل تھے،منسٹر کی ویڈیو دیکھ کرمجھے تسّلی ہوگئی کہ وہ مجبور تھا۔لیکن اس کی خباثت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔میں نے اسکی اور اس کے ساتھیوں کی ویڈیوز اپنے پاس رکھ لی۔ان ویڈیوز کے ذریعے میں منسٹر کواپنے قابو میں رکھنا چاہتا تھا۔۔نہیں تو دوسرا حل ان کیلیے اور بھی زیادہ خطرناک تھا۔مجھے یقین تھا اب منسٹر اور اس کے ساتھیوں کو نکیل ڈال دی ہےاب وہ اپنی اوقات میں رہیں گے۔ لیکن چینل کے مالک کے خلاف مجھے کچھ نہ ملا۔مجھے افسوس ہے وہ قانونی گرفت سے بچ گیا۔لیکن میرے ساتھ بعد میں بالکل سیدھا ہوگیا تھا۔۔فائلز میں سے ایک پر سب کے نام اورفون نمبرز اور پتے تھے۔ ویڈیوز علیحدہ علیحدہ سی ڈیز پر کاپی کی گئیں، اور باقی سب ڈیلیٹ کر دیا گیا، تنویر یہ تمھاری ذمہ داری ہے سب کو یہ پہچانی ہیں،سامنے آئے بغیر اور سب کو تسلی دینی ہے ۔ صبح ہو رہی تھی مگر میں کام مکمل کرنا چاہتا تھا،ثناء کو بلا لیا،وہ ہوش میں آچکی تھی اور اس کی رنگت زرد ہو رہی تھی،وہ ڈیول کی حالت دیکھ کر آئی تھی،اسلیے میں نے اس سے اُس جیسی دوسری تربیت یافتہ لڑکیاں کا پوچھا تو وہ فر فر بولتی گئی،اس نے جو کچھ بتایا میرے اندازے کے مطابق بلیک میلنگ ویڈیوز سے زیادہ خطرناک تھا اور ثناء اس کام کی کنٹرولر تھی ،لڑکیوں کو تربیت دینے کیلیے باہر سے ایک جہاں دیدہ۔ کنیا۔ بلائی گئی تھی،اس سارے کھیل کے ڈانڈے کہیں اور جا ملتے تھے۔،ثناء کا بیان ریکارڈ کر لیا گیا، میں نے سمیر کے پاس اپنا موبائل بھیجا ،اس میں ثناء کی میرے ساتھ سیکس کی ساری آڈیو ریکاڈنگ موجود تھی،ثناء نے دورانِ سیکس بڑی پیاری اور سیکسی باتیں کرتی رہی تھی،میں نے آڈیو ریکارڈ نگ اسی وقت لگا دی تھی جب میں نے اسے ۔اس کے اور منسٹر کے موبائل کی ریکارڈنگ سنائی تھی،یہ ریکارڈنگ اور ثناء کا بیان کے کچھ حصے میں نے منسٹر کو بھجوا دیے،مگر سیکس آڈیو میں ثناء جو میرا نام لیتی تھی وہ ایڈیٹ کروا دیا تھا،اب میں سوچنے لگا کہ اس سب کا کیاکروں ،اتنا اہم کام نجیب کے حوالے کرنا خطرناک تھا۔ویسے بھی یہ کام اب ایف آئی اے کا نہیں رہا تھا،سوچ سوچ کرمیں نے اپنے خاص دوست جنرل صاحب سے رابطہ کیا۔اوہ پرنس۔کیسے ہو تم۔ کہاں غائب رہتے ہو، ارے جنرل صاحب اب آپ تو یہ نہ کہیں آپ سے تورابطہ رہتا ہی ہے۔جنرل صاحب ہنسنے لگے۔یار کچھ دن تم سے ملاقات نہ ہوتو بے چینی سی ہونے لگتی ہے،ویسے تو تم میرے بچوں کی عمر کے ہو لیکن ہم نے تمھیں دل سے اپنا دوست مان لیا۔مارشل آرٹ کیسا جا رہا ہے،با لکل ٹھیک ہے جنرل صاحب ۔ہم تو تمھارے فن کے فین ہوگئے ہیں بھئی، ۔آپ کی محبت ہے جنرل صاحب،ورنہ من آنم کہ من دانم (جو میں ہوں وہ میں جانتا ہوں)میں نے جنرل صاحب کو پہلی دفعہ اپنا رازدار بنایا ۔ مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ رازداری مجھے نئی مشکلوں میں ڈال دے گی۔
میں نے جنرل صاحب کو ساری تفصیل بتائی،تم وہ انتہائی اہم فائل،ڈیول اور ثناء ،اور ثناء کا بیان سب کچھ مجھے بھیج دو،میں متعلقہ افراد تک پہنچا دوں ،اب تم بے فکر ہوجاؤ۔مجھے جنرل صاحب کی حب الوطنی پر بے حد یقین تھا۔میں نے انتہائی اہم فائل،ڈیول اور ثناء کو بے ہوش کر کے گاڑی میں ڈالا ۔ثناء کی ریکاڈنگ جو ابھی کی تھی،سب کچھ تنویر کے ہاتھوں اسی وقت بھجوا دی ۔تین دن میں ڈیول کی شیطانیت انجام تک پہنچ گئی۔ لیکن مجھے فادر کی طرف سے فکر تھی۔میں نے آنکھیں بند کرلیں۔اور وہیں چیئر پر آرام کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد میں نے آنکھیں کھولی فادر واقعی فادر تھا،اور گہرا بندہ تھا ۔اس کیلیے کوئی چارہ چاہیےتھا۔اور مجھ سے بہتر چارہ کون تھا،جس نے اسکے بیٹے کو برباد کردیا۔مجھے اس کیلیے فلیٹ چلے جانا چاہیے تھا۔جب میں فارم ہاؤس سے ناشتہ کر کے باہر نکلا،اور فلیٹ کی طرف چلا تو لوگ دفتروں میں جارہے تھے،اور بچے سکولوں کو،ایسا وقت میں اکثر سویا ہوتا ہوں۔میں فلیٹ پہنچا ، فلیٹ کے ساتھ میری جذباتی انسیت ہے۔میں نہا یا اور لمبی تان کر سو گیا۔
اسی سہہ پہر کو میں اٹھا اور منہ ہاتھ د ھو کر فریش ہوا،پھر دھیان لگایا،اور گھنٹے بعد میں اٹھا،مجھے ہلکی سی بھوک لگ رہی تھی،کچن میں گیا اور فرج کودیکھا تو سینڈوچ پڑےتھے،ان کو اوَن میں گرم کیا،الیکٹرک کتیلی میں کافی کیلیےپانی گرم کیا مجھے زیادہ کریم والی کافی پسند ہے۔اور کھا پی کہ ہانیہ کی طرف چل پڑا،ہانیہ جذباتی اور نفسیاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ گئی تھی اسوقت ہانی من موہنی کو میری ضرورت تھی۔میں اس کی جذباتی اور نفسیاتی دونوں حالتیں سنبھال سکتا تھا۔کیونکہ میں ہانی پر ہونے والا حملے کی وجہ خود کوسمجھتا تھا۔اسلیے ہانی کا سنبھلنا بہت ضروری تھا۔اسی مقصد کیلیے میں نے ہانی کو ماکھو کی ویڈیو بھیجی تھی ۔ ۔رستے میں نادیہ سے بات کرنا نہیں بھولا،واہ ری قسمت آج کل پرنس سے بار بار بات ہورہی ہے، ہانیہ نے چہکتے ہوئے کہا،نادیہ تمھاری دوست نائلہ کا بھائی قانوناً باہر آگیا ہے،میں تمھیں بتا نہ سکا،اب تم ان سے فارم ہاؤس میں ملو اور ان کوزندگی میں واپس لاؤ۔جہاں کہو گی ان کوسیٹل کروا دیں گے،او میرا مولا جٹ۔ نئیں ریساں تیریاں ،نادیہ عادت کے مطابق ٹھک سے بولی، یار تم کتنی بے مرْوت ہو آئی کیوں نہیں نائلہ سے ملنے ؟ میں جناب آئی تھی،آپ گدھے کے سر کی طرح غائب تھے، لوگ گدھے کے سر سے سینگھ غائب کرتےہیں نادیہ نے پورا سر ہی غائب کریدیا تھا۔لیکن میں محاورہ ٹھیک کرنے کی غلطی نہیں کرسکتاتھا،ورنہ مجھے ایک طویل لیکچر سننا پڑنا تھا۔ایک بات تمھیں میں بتانا بھول گیا یہ میں نے آخر کیلیے سرپرائز رکھا ہوا ہے ،ہوسکتا ہے نائلہ کا والد بھی مل جائے،ڈیول توا ب ہمیشہ کیلیے گمشدہ ہوگیاہے،لیکن اس کا پھیلایا ہوا جال کی ساری معلومات ہم نے لے لی ہیں،اور اس جال کوتوڑا جا رہا ہے۔امید ہے کہ کسی کوٹھی سے کسی تہہ خانے سے وہ بھی مل جائے گا۔اس سے پہلے نادیہ کچھ کہتی میں نے کال بند کر دی۔میں سیدھا ہسپتال کی طرف گیا،اسی سڑک سے گذرا جہاں مجھ پر میزائل سے حملہ ہوا تھا،میں آس پاس عمارتوں پر دیکھا ،کوئی راکٹ لانچر نہیں تھا،میں مسکرایا،میں ہانیہ سے ملا،اب وہ جسمانی طور پر کافی بہتر تھی،اس کے مما تھی اب وہ کچھ سنبھل گئی تھی،اور حادثے کو بری تقدیر سمجھ کے قبول کرلیاتھا،بہرحال اس کے والدین کی سمجھ کے مطابق ان کے مجرم ماکھو گروپ بھی پکڑے گئے تھے،،میں ہانیہ سے ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگا،میں اس کے معصوم چہرے کی رونق واپس لانا چاہتا تھا،اتنی دیر میں اس کی دوست صبا بھی آگئی،،میں نے ایک ویڈیو بھیجی تھی ۔میں نے صبا سے آہستگی سے پوچھا،اور میں نے ایک ڈائری بھیجی تھی،صبا نے جواباً سوال کردیا،او ہ میں تو اس ڈائری کوبھول ہی گیا تھا،لیکن میں یہ صبا کو نہیں کہہ سکتا تھا،ڈائری میرے پاس ہی پڑی ہے،،اب تم بتاؤ،وہ ویڈیو میں نے ہانیہ کودکھائی تھی،ویڈیو دیکھ کر بہت روئی تھی۔۔ اس کے زخم ہرے ہوگئے تھے، اس نے پانچوں کوپہچان لیا تھا۔بہرحال جس مقصد کیلیے تم نے ویڈیو بھجی تھی کسی حد تک وہ مقصد پورا ہوا ہے،اس کے بعد یہ ادویات کھانے لگی اور کچھ پیٹ میں بھی جانے لگا ہے،میں نے ہانیہ کی مما کی طرف دیکھا،میں پہلے ہی آہستگی سے ہچکچا کر گفتگو کرر ہا تھا،صبا نے انہیں گھر بھیج دیا،ہم نے کسی رشتہ دار اور کسی جاننے والے کو کچھ نہیں بتایا بلکہ جب ماکھو گروپ پکڑا گیا تو انکل ہانیہ کے پاپا خود اس ایس ایس پی سے ملے اور کہا کہ ہمارے کیس کا نام درمیان میں نہ آئے،انکل جا ن چکے تھے کہ ماکھو گروپ کو سزا تو مل چکی ہے وہ سب معذور ہوچکے تھے،بہرحال ایس ایس پی اتنا مان گیا کہ آپ کا نام باہر نہیں نکلے گا،صبا نے تفصیل بتائی،ہانیہ بس ایک ٹک مجھے ہی دیکھے جا رہی تھی،اب مرا روئے سخن ہانیہ کی طرف ہو گیا،تمھارا اصل مجرم تو ڈیول تھا،وہ لڑکیوں کو نشانہ بناتا تھا پھر بلیک میل کرتا تھا اور دھندہ کرواتا تھا،میرے ساتھ ہونے کی وجہ سے تم اس کی نظروں میں آگئی اور تمھاری من موہنی صورت اسے اپنے دھندے کیلیے فائدہ مند لگی، ہانیہ سمجھ رہی تھی کہ اس کے ساتھ جو سلوک ہوا تھا وہ میری وجہ سے ہوا تھامیں یہ بات ہانیہ کے ذہن سے نکالنا چاہتا تھا،کہ یہ میری وجہ سے ہوا ہے،یہ ڈیول کی فطرت کی وجہ سے ہوا تھا، اسے ڈیول کی خباثت کا پتہ چلتا تو وہ تقدیر پر صبر کرتی،میں اسے تفصیل سے ڈیول بارے بتانے لگا،تو پھر ڈیول کا کچھ نہیں ہو سکے گا،صبا نے پوچھا،میں نے موبائل نکلا کر اس میں سے ڈیول کی وہ ویڈیو نکالی جو میں نے فارم ہاؤس میں آکر تنویر سے بنوائی تھی،یہ میں نے ہانیہ کیلیے بنوائی تھی،ویڈیو پلے کر کے میں ہانیہ کو دکھانے لگا،جیسے جیسے وہ ویڈیو دیکھتی گئی اس کے رونگٹھے کھڑے ہوگئے،اور صبا بھی ڈر گئی،ڈیول کی حالت اور اس کی چیخیں اس وقت بھی ماحول کو دہلا رہی تھیں،یہ بہت بڑا مجرم تھا،ماکھو کی طرح میرے ہاتھ تو نہیں لگ سکتا تھا،لیکن قدرت کی پکڑ میں آگیا ،قانونی اداروں کی کب سے اس پر نظر تھی، اور آخر ان کے ہاتھ اہم ثبوت لگ گئے اور یہ قانون کی پکڑ میں آگیا،شاید اسے تمھاری بد دعا لے ڈوبی۔انہوں نے میری ویڈیو بھی بنائی تھی،ہاں وہ ویڈیو تو میں نے اسی وقت ماکھو گروپ سے لے لی تھی،اور میرے پاس ہے ، میں نے جھوٹ بولا کیونکہ ویڈیو تو مجھے ثناء کی یو ایس بی ہارڈ سے رات کو ملی تھی،،میں چا ہتا ہو ں کہ تم اسے دیکھنا چاہو تو میں تمھیں دکھا کر اسے ڈیلیٹ کر دوں ،میں نے دیڈیو تو پلے کر دی لیکن اسے دکھائی نہیں ،بس اس کی آواز اسے پہنچائی اور اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا،اور میں نے ویڈیو بند کر دی،یہ صرف اسلیے تھا کہ ہانیہ کے ذہن میں کوئی ابہام نہ رہے،ہانیہ میں چاہتا ہوں کہ یہ ویڈیو ،ماکھو گروپ کی ویڈیو،اور ڈیول کی ویڈیو ہمیشہ کیلیے ڈیلیٹ کر دو، تا کہ یہ قصہ ختم ہوجائے،ہانیہ نے خاموشی سے سرہلادیا،میں نے اپنے موبائل میں سے دونوں ویڈیوز اسے دکھا کر ڈیلیٹ کر دی،اس نے اپنے موبائل سے ماکھو گروپ کی ویڈیو ڈیلیٹ کر دی،کوئی اور اس کی کاپی تو کہیں نہیں ہے،میں نے صبا اور ہانیہ دونوں سے پوچھا،دونوں نے نہ میں سر ہلادیا،تم نے جو آدمی بھیجا تھا وہ مجھے باہر ملا تھا ۔ اسے میں تمھارے ساتھ دیکھ چکی تھی ،اس نے مجھے ویڈیو دکھائی تھی،اور مجھے اصرار کیا تھا کہ وہ یہ ویڈیو ہانیہ کے ہی موبائل میں بلیو ٹوتھ کے ذریعے بھیجے گا،میں اسے یہی لے آئی،اوکے،میرے سوچ کے مطابق اگر ویڈیوز موجود رہتی تو ہانیہ کے زخم ہرے ہی ر ہنے تھے۔میں ہانیہ سے ادھر ادھر کے دلچسپ قصے بیان کرنے لگا،،داستان گوئی ایک فن ہے،مخاطب کو اپنی گفتگو کے سحر میں جکڑ لینا یہی میں ہانیہ کے ساتھ کر رہا تھا،اس کے چہرے پر بشاشت آنے لگی،ہ ان ویڈیوز کا بھی کمال تھا جو ابھی میں لے کہ آیا تھا،درمیان میں کچھ لطیفے بھی سنا دیتا ،میری باتوں سے اس کے چہرے پر شگفتگی آگئی تھی ،اور ایک دو بار ہنس بھی پڑی تھی،میں میں کافی دیر تک وہیں رہا،بلکہ رات کا کھانا بھی انہیں کےساتھ کھایا۔آج کی خوراک(ڈوز) اتنی کافی تھی ۔لہذا میں اپنے فلیٹ پر آگیا،تنویر سے رابطہ کر کے اس کے سپرد کاموں کی رپورٹ لی، ڈیول کی باقیات کو ختم کرنا اب اسی کے سپرد تھا،، ، نیلم ابھی تک فارم ہاؤس میں تھی، میں نے نیلم کو یہیں فلیٹ پر بلوا لیا،ابھی اس سے دو تین راتیں مزہ کرنا چاہیے تھا۔واؤ یہ ہوئی نہ بات،اب مزہ آئے گا،،صر ف تم ،میں ،اور تنہائی۔نیلم فلیٹ دیکھ کر خوش ہوگئی تھی ۔نیلم آتے ہی مجھ سے لپٹ گئی،یہاں تو بڑی رومانٹک تنہائی ہے،تمھارے محل سے تو یہی اچھا ہے،نیلم شاید کل رات کو میرا انتظار کرتی رہی تھی،ہاں جان فارم ہاؤس اتنا بڑا کے مجھے وہاں تنہائی محسوس ہونے لگتی ہے،اور اس تنہائی کو اب میں دور کروں گی،،نیلم نے میرے کپڑے اتارتے ہوئے کہا،نیلم کو کافی بھوک لگی ہوئی تھی،وہ ندیدوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑی۔
اگلی صبح معمول کے مطابق گزری۔میں نے کمال سے خود ہی رابطہ کیا،مجھے فادر کی طرف سے بے چینی لگی ہوئی تھی۔سر فادر تو ایسے غائب ہوگیا ہے جیسے اس کو کوئی وجود ہی نہیں ہے۔سر ہربندہ اپنے کوئی نشان چھوڑتا جاتا ہے۔اور اس سے سراغ ڈھونڈتے ہم شکار تک پہنچ جاتےہیں۔ لیکن فادر نے کوئی نشان نہیں چھوڑا ۔اس نے اپنا نمبر مستقل بند کردیا ہے اورآبزرویشن کے ذریعے اس سے سراغ لینا بھی ممکن نہیں رہا۔کمال جو کہہ رہا تھا اس سے میرے خدشات سچ ہو رہے تھے۔فادر ڈیول کے پکڑے جانے کا اندازہ کرچکا تھا۔منسٹر کی دکھتی رگ اب میرے ہاتھ میں تھی،وہ بھی فادر کا ساتھ چھوڑ گیا ہو گا۔اسلیے فادر نے غائب ہونے میں ہی عافیت سمجھی تھی۔لیکن اس میں اس کی عافیت تھی ۔میری نہیں ۔میں فادر کیلیے چارہ بنا ہوا تھا۔اور اندھی گولی کا کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کس طرف سے آنی ہے۔میں فادرکا بل سے باہر نکلنے کا انتظار کر رہا تھا۔شام کو میں پھر ہانیہ کے پاس چلا گیا،یہ وقت ٹھیک تھااس وقت صبا آجاتی تھی اور ہانیہ کےگھرسے کوئی نہیں ہوتا تھا، ہانیہ کل سے آج زیادہ بہتر تھی۔ اب کی بار میں نے ہانیہ کی باتیں شروع کر دی، یہ بھی ایک ٹرِک ہے۔صبا بھی میری باتوں میں شامل تھی،ان کے کالج کی ،پھر سکول کی،پھر بچپن کی شرارتوں کی،پھر ان کی دوستوں کی ،پھر ان کی پسند نا پسند کی ،جہاں بات بدلتی ۔کسی اور موضوع کی طرف جاتی۔ میں پھر ہانیہ پر لے آتا۔کسی کے بارے میں تزکِرہ کریں۔ساتئش کریں۔اسے سراہیں،تو اس کاسیروں خون بڑھ جاتا ہے، ہانیہ کو اسوقت ویسے بھی خون کی کمی تھی وہ پوری ہورہی تھی۔صبا میرا طریقہ کار سمجھ گئی تھی،اور میرا ساتھ دے رہی تھی،اب اتنی ناسمجھ تو وہ بھی نہیں تھی کہ اسے ہانیہ کے اندر ایک دن میں ہونے والی نمایاں تبدیلی نظر نہ آئے،رات کا کھانا وہاں نہیں کھایا مجھے ابھی بھوک نہیں تھی،جب تک شدید بھوک نہ چمکے میں کھانا نہیں کھاتا بہرحال وہ کھانا کھاتی رہیں اور گپ شپ بھی ہوتی رہی ۔پھر فلیٹ میں آگیا۔نیلم ابھی تک وہیں تھی،فلیٹ میں مجھے تبدیلی نظر آرہی تھی۔ہر چیز اپنے ٹھکانے پر تھی۔ملازمہ لگی تھی لیکن میں نے چھڑا دی تھی،مجھے اس سے الجھن ( ڈسٹربنس) ہوتی تھی،میری تنہائی متاثر ہوتی تھی۔اب میں کبھی تو فلیٹ کی باقاعدہ صفائی کرلیتا تھا اور کبھی ہفتہ ہفتہ ایسے ہی گزر جاتا تھا۔ کپڑے وغیرہ ڈارئی کلین ہو جاتے تھے اور کھانا کبھی کہیں اور کبھی کہیں کھاتاتھا،میرے معمولات سے محسوس نہیں ہوتا تھا لیکن میں کم کھاتا تھااور کم سوتا تھا،لیکن بولتا کم نہیں تھا، کپڑےمیرے ایسے ہوتے ہیں جن میں تکلف نہ ہو ،آرام دہ اور جن میں جسم آسانی سے حرکت کرسکے،،کھانے کے سلسلے میں چاول اور مچھلی پسند کرتا ہوں، کیونکہ (سی فوڈ ) سمندری گوشت ذہنی اور جسمانی اثرات میں بہترین ہے،ارے بھائی ہر کھانا انسانی جسم پر اپنے اثرات چھوڑتا ہے ،یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں،لیکن ہر کھانا مزاج،عادات ،نفسیات،سوچوں ،پر بھی اثر انداز ہوتا ہے،اب دیکھ لیں،امریکہ و یورپ میں اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے،حتّی کہ (انسیسٹ سیکس) فیملی سیکس بھی شروع ہوچکا ہے۔ جرائم کی شرح پوری دنیا سے زیادہ ہے،اور سفاکی ،بے رحمی (پروفیشنل ازم کے نام سے )معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے،یہ سب خنزیر کھانے کے اثرات ہیں، جو عادات خنزیر کی ہیں وہی اسوقت یورپی و امریکی اقوام کی ہیں،میں کوئی مذہبی بات نہیں کر رہا،یورپ و امریکہ کی جدید سائنسی تحقیقات بتا رہا ہوں،جو انہوں نے گوشت کی تما م اقسام کو ریڈ بیف اور وائیٹ بیف میں تقسیم کردیا ہے اور (وائیٹ بیف) سفید رنگ کے گوشت کھانے والے تندرست ،چُست،پھرتیلیے،ذہین ہوتے ہیں،جبکہ( ریڈبیف ) لال رنگ والے گوشت کھانے والے سست،کند ذہن ہوتے ہیں،بظاہر یہ فرق ڈھونڈنا مشکل پے لیکن کسی اگر ایک گروپ کو مسلسل وائیٹ بیف اور دوسرے گروپ کو مسلسل ریڈبیف کھلایا جائے اور ان کو مستقل نگرانی میں رکھا جائےتو اس تبدیلی کوواضح انداز میں دیکھا جاسکتا ہے۔لیباٹریوں میں تو یہی طریقہ کار استعمال ہوتا ہے،اسی طرح مستند تحقیقات میڈیکل رسالوں میں آجاتی ہیں۔اسی طرح ایک وقت آئے گا یورپ و امریکہ اس نتیجے پر بھی پہنچ جائے گا،کہ غذا خاص کر گوشت کی اقسام سوچوں کو نفسیات کو کردار کو بھی تبدیل کردیتی ہیں،اور پوری پوری قوم ہی اسی جانور کے مزاج میں ڈھل جاتی ہے، جو وہ مسلسل کھاتے ہیں،تب مرد سے مرد کی شادی قانوناً ہونے لگتی ہے،اور اس کے کلب بن جاتے ہیں،تنظیمیں بن جاتی ہیں،اس کے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنا عام ہوجاتا ہے،اور یہ معاشرے کا مزاج بن جاتا ہے،حصہ بن جاتا ہے،بری بات جب پورے معاشرے میں سما جائے اوراس کو قانونی تحفظ مل جائے ۔ تووہ بڑی غیر معمولی بات ہوجاتی ہے ۔ پاکستانی لونڈے بازی تو (گے اِزم ) کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے،آگے یہ لمبی بحث ہے،اس سے کئی سوال نکلتے ہیں، جسکی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔لو جی بات پھر کہاں سے کہاں پہنچ گئی،میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مجھے اپنا تجربہ جھاڑنے کی عادت ہے،آپ کو یہ برداشت کرنا پڑے گا،تو میں کہہ رہا تھا مجھے (سی فوڈ ) میں مچھلی پسند ہے اس سے ذہنی ،جسمانی پھرتی آتی ہے،تمام گوشت کی اقسام میں سے (سی فوڈ) سمندری گوشت اپنے جسمانی اور ذہنی اثرات میں بہترین ہے۔نیلم شاید۔۔ ویہلی ۔۔تھی اسلیے میر ے فلیٹ کی حالت اچھی دِکھ رہی تھی۔ میرے ہوٹل سے کھانا آگیا تھا،وہاں بہترین شیف تھا اور اسے میرے مزاج کا خوب اندازہ ہوچکا تھا،کھانا وغیرہ کھا کرہم باہر ٹہلنے نکل پڑے۔کیونکہ کھانا ہضم کیے بناء میں سیکس کے نزدیک بھی نہیں جاتا تھا،یہ جسم کیلیے زہرِ قاتل ہے۔ واپسی پر پھر ہم ایکدوسرے کی بانہوں میں تھے،تیسرے دن پھر وہی صبح کے معمولات ،نہانا،پھر دھیان لگانا،پھر ناشتہ،پھر میں فارم ہاؤس چلا گیا اور تنویر سے تفصیلی گفتگو ہوئی،تنویر تیزی سے کام کر رہا تھا۔ صائمہ کی حالت اب بہتر تھی اور تنویر کو تما م معلومات دے رہی تھی۔ایس ایس پی کا مکمل تعاون تنویر کو حاصل تھا۔ مجھےتنویر پر اعتماد تھا،اس نے ڈیول کا بنا ہوا جال توڑ پھوڑ دیا تھامجبور ، محصور لڑکیاں اس کے چنگل سے آزاد ہورہی تھیں،یہ سب بہت ضروری تھا ،نہیں تو اس بنے بنائے سیٹ اپ کو کوئی بھی اپنے قبضے میں لیکر اسے آگے بڑھا سکتا تھا، ،سر صائمہ سے کچھ پریشان کن معلومات ملی ہیں۔سرفادر جو کہ ابتک لاپتہ ہے،اصل میں اس کام کوشروع کرنے والا وہی ہے، ۔اور جو کال گرلز کا منظم کاروبار ہے اس کو فادر ہی کنٹرول کرتا تھا۔صائمہ اور میرا اندازہ ہے کہ جب بھی ہم اس دھندے کو ختم کر کے کہیں اور مگن ہوجاے جائیں گے ۔ فادراس بزنس کو پھر کھڑا کرنے کی کوشش کرے گا۔تو پھر تنویر اسطرح تو ہماری ساری محنت ضائع ہوجائے گی