خاندانی تعلقات قسط (3)

 

















نمی سے ہوئی گپ شپ نے جیسے مجھے من ہی من بدل کر رکھ دیا اور من چاہنے لگا کہ میں ایسے ہی اپنی بیٹی کے ساتھ آہستہ آہستہ کھل جاؤں اور اس کا بہترین دوست بنتا چلا جاؤں کہ جس کو وہ اپنی ہر بات بتایا کرے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ جس کرایہ دار کی بیٹی نما خسری مسکان کے بارے میں پتہ چلا تھا مجھے اپنی بیٹی سے جو میری بیٹی کی چھیڑ چھاڑ کیا کرتی تھی اس کے لیے بھی من ہونے لگا تھا میرا کیونکہ ایک تو وہ دیکھنے میں بڑی پیاری اور خوبصورت تھی اوپر سے اب پتہ چل رہا تھا کہ خسری ہے۔




کیونکہ میں نے کبھی خسری کے ساتھ تعلقات نہیں بنائے تھے تو قدرتی بات تھی کہ میرا اس کی طرف دھیان جانا ہی جانا تھا ہاں لڑکوں والی حرکتیں کر لیا کرتا تھا اگر کوئی میٹھا سا لڑکا مل جاتا اور من کو بھا جاتا تو۔




لیکن اس کے ساتھ ہی یہاں یہ بھی پنگا تھا کہ اگر میں مسکان کو لائن مارنا شروع کر دیتا تو نمی کو شک ہو جاتا کیونکہ اس نے مجھے ہی بتایا تھا اور مجھے بتاتے ہی میں اس کی طرف بڑھتا تو شک کا ہونا یقینی بات تھی جس سے نمی بیزار بھی ہو سکتی تھی۔




یہی سب حالات اور خیالات کافی دیر تک دماغ میں چکراتے رہے اور نیند نہ آئی باہر جا نہیں سکتا تھا کہ لاک ڈاؤن لگا ہوا تھا تو میں مکان کی چھت پر چلا گیا جہاں تازہ ہوا سے ذرا سکون سا محسوس ہوا۔




میں کوئی تیس منٹ تک اوپر ہوا کھاتا رہا اور تازہ صورت حال پر سوچ بچار کرتا رہا جس کے بعد میں نیچے آیا تو رات کے دو بجے سے اوپر کا وقت ہو رہا تھا تو میں لیٹ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا جس میں بڑی مشکل سے کامیابی نصیب ہوئی۔




اگلی صبح دس بجے کے قریب جاگا اور نہا دھو کر رات کے خالی برتن اٹھا کر مکان کو لاک کیا اور گھر چلا گیا جہاں سبھی بچے اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے مجھے آتا دیکھ کر روہی فوراً اٹھی اور میرے قریب آتے ہوئے بولی:




روہی: دیکھو نا پاپا آپ کا یہ لاڈلا مجھے تنگ کر رہا ہے۔ رشی:روہی سچی بول رہا ہوں زیادہ ڈراما کوئین نہ بن ورنہ سچی میں ماروں گا تجھے۔ میں:ارے ارے کیا ہوا جھگڑا کس بات پر ہے؟ روہی:پاپا آپ کا یہ کالا پہلوان میرا لیپ ٹاپ چرا کر لے گیا تھا شام کو اب بولتا ہے نہیں دے گا۔ رشی:قسم سے پاپا جھوٹ بول رہی ہے یہ چوڑیل میں نے نہیں چرایا آپ اپنی بڑی بہن سے پوچھ لو اسی نے دیا تھا رات کو۔




نمی: ارے کیا کرتے ہو پاپا کو آرام سے کہیں بیٹھ تو جانے دو پہلے۔ میں:ہاں بھائی نمی بیٹی تم بتاؤ یہاں جھگڑا کس بات کا چل رہا ہے؟ نمی:کچھ بھی نہیں ہے پاپا بس ہر وقت گھر میں بند رہ رہ کر تنگ آئے ہوئے ہیں بات کرنے کا کوئی بہانہ بناتے پھرتے ہیں۔ نادیہ:سچی پاپا بہت بور ہو رہے ہیں کیوں نہ چھٹیاں چل رہی ہیں تو مری ہی گھوم آئیں۔ رشی:اپنی بہن دیکھا آپ نے اس پاگل لڑکی کیا بولتی ہے مری گھوم آتے ہیں یہاں گھر سے کوئی نہیں نکل سکتا اور وہاں اس کے لیے ہوٹلز اور کوٹیجز جیسے اسی کے لیے کھولے بیٹھے ہوں گے نا۔




میں: اچھا لڑو نہیں بیٹا اب بھلا کیا ہو سکتا ہے پورا ملک ہی لاک ڈاؤن ہے ٹرانسپورٹ ہوٹل مارکیٹ سب بند ہو چکا ہے کوئی کہیں نہیں آ جا سکتا۔




ایسے ہی بچوں کے ساتھ گپ شپ کے بعد میں نے ناشتہ کیا اور گھر سے نکلا تو دوست مل گئے جس کے بعد دوبارہ وہی روٹین تاش وغیرہ کھیلنے میرے مکان میں جا بیٹھے جس میں شام ہونے لگی اور پتہ ہی نہ چلا کیونکہ بھوک بھی لگ رہی تھی تو میں نے کھانا وہیں منگوا لیا اور کھانا وغیرہ سے فارغ ہو کر اوپر چلا گیا اور وہیں ذرا چہل قدمی کی سگریٹ پھونکا اور نیچے آ گیا جس کے بعد ٹی وی میں مگن رہا کیونکہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ نمی خود سے بھی بات کرتی ہے کہ نہیں اور اسی انتظار میں رات کے 9:40 ہو گئے تو نمی کا میسج آ گیا جس میں لکھا تھا:




پری: کیا ہوا بوڑھے دوست آج سارا دن آن لائن رہے لیکن بات نہیں کی۔ میں:بات بھلا کیا خاک کرتا میں نے سوچا دوست کے ساتھ مصروف ہو گی تم۔ پری:جلیسی محسوس ہو رہی ہے؟ میں:کیوں مجھے کیوں ہونے لگی جیلیسی؟ پری:دیکھو بوڑھے دوست کہیں سیریس تو نہیں ہو رہے نا مجھے۔ میں:کیوں تمہیں کوئی فرق پڑتا ہے؟ پری:دیکھو میں آپ کی بیٹی کی عمر کی ہوں اس لیے کچھ زیادہ مت سوچ لینا ہی ہی ہی۔ میں:بیٹی ہوتی نا تو اب تک جھولی میں بٹھا کر جھولے ڈال دیتا۔ پری:ارے واہ لگتا ہے اپنی ہی بیٹی پر گرم ہوۓ بیٹھے ہو۔ میں:تمہارے باپ کی طرح اس کی جاسوسی نہیں کروں گا اگر کچھ ہنٹ بھی مل گئی تو۔ پری:پھر کیا کرو گے؟ میں:اسے اعتماد دوں گا پیار دوں گا، خود مزا لوں گا اور اسے بھی مزا دوں گا۔ پری:بڑے حرامی ہو ،,,, معاف کرنا پیار سے کہا ہے اگر برا لگا ہو تو بتا دینا۔ میں:نہیں دوستی میں اتنا تو چلتا ہی ہے۔ پری:کیا سچ میں آپ جو بول رہے ہو ویسا کرو گے؟ میں:ہاں یار۔ پری:آپ کی بیوی مار ڈالے گی آپ کو۔ میں:کچھ نہیں بولے گی ویسے بھی اسے بتا کر تھوڑا ہی کچھ کروں گا۔ پری:ہی ہی ہی ہی سچ میں حرامی ہو ویسے اگر آپ میرے باپ ہوتے نا تو مزا آ جاتا۔ میں:(من ہی من میں بولا سالی ہوں تو تیرا باپ ہی لیکن لکھا کچھ اور) تو مجھے ہی باپ بنا لو اپنی امی کے ساتھ سیٹنگ کرا دو اس طرح تمہارے لیے بھی راستہ بن جائے گا ہاہاہا۔ پری:اچھا جی بڑی پہنچی ہستی ہو بیٹی کے ساتھ ماں کو بھی نپٹنا چاہتے ہو بائی دی وے میری امی کی وفات ہو چکی ہے۔ میں:اوہ ہ معاف کرنا مجھے پتہ نہیں تھا۔ پری:اوکے پھر بات ہو گی بعد میں۔ میں:کیوں ناراض ہو گئی ہو؟ پری:نہیں میرا دوست آ گیا ہے ایک گھنٹے کے بعد بات کرتی ہوں۔ میں:اوکے۔




اب مجھے انتظار کرنا تھا کیونکہ میری بیٹی اپنے کسی یار سے سیکس چیٹ میں مصروف ہو گئی تھی وہ بھی مجھے بتا کر کیونکہ ابھی تک اپنے یار سے نمی چدوا نہیں پائی تھی اس لیے اب مجھے ہی ہمت کرنی تھی کہ میں اپنی بیٹی کو اس کے یار کے چنگل سے نکال لوں۔




جس کے لیے ایک آپشن تو یہ تھا کہ میں مسکان خسری کے ساتھ ہی اس کا رشتہ چلتا رہنے دوں لیکن اس میں مسئلہ یہ تھا کہ مسکان کی ٹائمنگ تو ٹھیک تھی جیسا کہ مجھے نمی بتا چکی تھی لیکن اس کا لن پتلا بھی تھا اور چھوٹا بھی اور یہی وجہ تھی کہ نمی کو اب کسی بڑے لن کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی جس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار دکھائی دیتی تھی۔




ویسے بھی اگر وہ مسکان تک ہی سیٹ رہتی تو شاید میں اسے کچھ نہ بولتا کیونکہ مسکان اور اس کے گھر والے کسی کو یہ بتانا افورڈ نہیں کر سکتے تھے کہ مسکان نہ تو لڑکی ہے نہ لڑکا بلکہ خسری ہے ایسا اگر لوگوں کو محلے میں پتہ چل جائے تو آپ لوگ جانتے ہیں کیا ہوتا ہے۔




لیکن یہیں پر مسئلہ اور بھی خراب ہو رہا تھا کہ نمی اب پتہ نہیں کس ماں کے لوڑے سے چدوانے کو تیار ہو بیٹھی تھی اور پتہ نہیں وہ حرامی کیا پلان کیے بیٹھا ہوا تھا میری بیٹی کو لے کر جس وجہ سے وہ میرے لیے دوسرا آپشن کسی بھی طور نہیں بن سکتا تھا۔




اگر میری بیوی یعنی نمی کی امی زندہ ہوتی تو شاید بات یہاں تک آتی ہی نہیں اور اگر آ بھی جاتی تو اسے کنٹرول کرنے کی ذمہ داری میں اسی کے سر ڈال دیتا اور وہ کر بھی لیتی کیونکہ ماں کے ساتھ وہ خود بھی عورت ہی تھی لیکن میں کچھ بھی نہیں کر پا رہا تھا کیونکہ میں باپ تھا بھلے جتنا بھی اپنے بچوں سے فری کیوں نہ تھا لیکن باپ تھا میں بچوں سے خاص کر بیٹیوں کے ساتھ اس موضوع پر بات کر ہی نہیں سکتا تھا۔




اسی لیے دوسرے آپشن پر میں نے خود کو رکھا تھا اور سوچ لیا تھا کہ اگر دیکھوں گا کہ نمی کسی کے ساتھ حد پار کر جائے گی تو مجھے خود نمی کے ساتھ بوڑھے دوست کے طور پر سیٹنگ کرنی تھی کہ اگر وہ چدواۓ بغیر نہ رہ پائی تو کوئی اور میری بیٹی کی چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا میں خود کروں گا یہ فیصلہ میں کر چکا تھا لیکن اب کیا ہونا تھا یہ تو میں ابھی نہیں بتا سکتا بس پلان ہی کر سکتا تھا اسی لیے اپنے پلان پر عمل کی سوچ لی اور ایک تصویر اپنے 8 انچ سائز کے موٹے تگڑے لن کی پوری سخت حالت میں نمی کو بھیج دی۔




کرنے کو تو میں نے اپنے لن کی تصویر اپنی بیٹی کی جعلی آئی ڈی پر بھیج دی تھی لیکن سچ بتاؤں تو میں اس وقت من ہی من بڑی ہی گھبراہٹ محسوس کر رہا تھا کہ کہیں نمی میری لاڈلی ناراض ہی نہ ہو جائے۔




دوسرا مقصد میرا یہ تھا کہ اسے دکھا سکوں کہ میرا لن کتنا بڑا ہے جس سے اس کے پاس اس لڑکے جس سے سیکس چیٹ چل رہی تھی میری بیٹی کی ایک اور آپشن میرا بھی اس کو دکھ جائے لیکن مجھے مایوسی نہیں ہوئی کیونکہ 2 منٹ میں ہی نمی کا میسج آ گیا جس میں لکھا ہوا تھا:




پری: واااااااو بوڑھے آدمی کہاں سے تصویر ڈاؤن لوڈ کی ہے؟ میں:کیا مطلب؟ پری:مطلب میرے بوڑھے دوست کہ یہ تصویر آپ نے نیٹ سے ہی ڈاؤن لوڈ کی ہے نا آپ کی اپنی تو نہیں ہو گی۔ میں:اپنی بیٹی کی بات کی گہرائی میں جا پہنچا تھا اسی لیے بولا ہاں تم نے صحیح کہا یہ میری تصویر نہیں ہے۔ پری:یہی تو کہاں سے ڈاؤن لوڈ کی ہے؟ میں:اپنے موبائل کیمرے سے۔ پری:مطلب؟ میں:مطلب یہ میری میٹھی پری جان کہ یہ میری تصویر نہیں ہے میرے شیر کی ہے اور میرے موبائل کیمرے سے ابھی ابھی بنی ہے۔ پری:میں مان ہی نہیں سکتی۔ میں:کیوں؟ پری:اووووف بوڑھے دوست مجھے یقین دلاؤ کہ یہ تمہارا شیر ہے۔ میں:کیا انعام دو گی؟ پری:جان بھی دے دوں گی تمہارے لیے۔ میں:تو بولو کیسے یقین ہو گا تم کو؟ پری:اسی جگہ پر مختلف پوز میں 5 سے 6 تصویریں بناؤ اور بھیجو۔ میں:اوکے۔




میں نے کچھ دیر اپنے لن کو ہاتھ سے سہلایا اور مختلف پوز میں پوری اور آدھی سخت لن کی تصویریں بناتا رہا جس کے بعد میں نے ان کو نمی کی جعلی آئی ڈی پر بھیج دیا جس کے جواب میں پری نے 2 منٹ بعد جواب دیا:




پری: او ایم جی۔ میں:کیوں میری جان شاک لگا کیا؟ پری:پتہ ہے میری شہزادی کی کیا حالت ہو رہی ہے؟ میں:بتاؤ گی تو پتہ چلے گا نا۔ پری:جیسے آپ تو چوزے ہو نا ابھی انڈے سے نکلے ہو پتہ نہیں اس شیر سے کتنی بھگت چکے ہو۔ میں:تم بھی آ جاؤ تمہارے نام کر دوں گا۔ پری:سیییییی قسم سے بری طرح پانی چھوڑ رہی میری شہزادی بولو اب کیا کروں میں۔ میں:اپنے باپ کے پاس چلی جاؤ ہو سکتا ہے اس کا اس سے بھی بڑا ہو۔ پری:ماروانے والی بات نہ کرو۔ میں:ارے ماروانے والی بات کیا ہے بھلا تم نے ہی تو کہا تھا کہ تمہاری امی کی وفات ہو چکی ہے تو پھر ویسے بھی ان کا حال تو برا ہو گا نا سنبھال لو اپنی ماں کی جگہ۔ پری:نہ بابا نہ مجھ سے مرنا نہیں ہے۔ میں:ارے ہمت تو کرو۔ پری:کن باتوں کو لے بیٹھے ہو آپ یہ بتاؤ کہاں رہتے ہو؟ میں:(کچھ سوچ کر) اندرون شہر۔ پری:کچھ دیر بعد وہاں کس جگہ؟ میں:اپنے ایریا سے ذرا فاصلے کی ایک جگہ بتا دی) اور تم کہاں کی ہو؟ پری:آپ کے قریب ہی رہتے ہیں ہم لوگ۔ میں:مطلب مل سکتے ہیں؟ پری:اب تو ممکن نہیں۔ میں:کیوں؟ پری:صاف بات ہے بوڑھے دوست جی کہ آپ ہمارے قریب کے ہی ہو تو ہو سکتا ہے میرے باپ کو جانتے ہو اس لیے نہیں مل سکتی۔ میں:تو تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے باپ کو بتا دوں گا؟ پری:مجھے نہیں پتہ۔ میں:ویسے ایک بات پوچھوں سچ بتاؤ گی؟ پری:ہوں۔ میں:اچھا لگا؟ پری:کیا؟ میں:میرا شیر۔ پری:سچی بات تو یہ ہے کہ سوپر سے بھی اوپر۔ میں:تمہارے دوست سے بھی زیادہ جس کے ساتھ سیکس کا سوچ رہی ہو۔ پری:اس کا 6 انچ سائز ہے۔ میں:تو کر لو دوستی پھر اتنا کیوں ڈر رہی ہو؟ پری:ہو سکتا ہے آپ کے کسی بہترین دوست ہی کی بیٹی نکل آؤں۔ میں:تو اچھا ہے نا تمہاری مدد سے میں اپنی بیٹی کو بھی پٹا لوں گا اور تمہیں بھی مزا دوں گا۔ پری:قسم سے ایک نمبر حرامی ہو۔ میں:اب بھی کوئی شک ہے تم کو؟ پری:اتنی جلدی کیا ہے ابھی سوچنے کا موقع دو میرے بوڑھے دوست ویسے بھی آج کل لاک ڈاؤن نے سب بند کر رکھا ہے اگر میرا من ہوا بھی تو جگہ نہیں بن پائے گی۔ میں:ضرور سوچو لیکن جگہ کی ٹینشن نہ لو وہ ہو جائے گی۔


نمی سے ہوئی گپ شپ نے جیسے مجھے من ہی من بدل کر رکھ دیا اور من چاہنے لگا کہ میں ایسے ہی اپنی بیٹی کے ساتھ آہستہ آہستہ کھل جاؤں اور اس کا بہترین دوست بنتا چلا جاؤں کہ جس کو وہ اپنی ہر بات بتایا کرے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ جس کرایہ دار کی بیٹی نما خسری مسکان کے بارے میں پتہ چلا تھا مجھے اپنی بیٹی سے جو میری بیٹی کی چھیڑ چھاڑ کیا کرتی تھی اس کے لیے بھی من ہونے لگا تھا میرا کیونکہ ایک تو وہ دیکھنے میں بڑی پیاری اور خوبصورت تھی اوپر سے اب پتہ چل رہا تھا کہ خسری ہے۔




کیونکہ میں نے کبھی خسری کے ساتھ تعلقات نہیں بنائے تھے تو قدرتی بات تھی کہ میرا اس کی طرف دھیان جانا ہی جانا تھا ہاں لڑکوں والی حرکتیں کر لیا کرتا تھا اگر کوئی میٹھا سا لڑکا مل جاتا اور من کو بھا جاتا تو۔




لیکن اس کے ساتھ ہی یہاں یہ بھی پنگا تھا کہ اگر میں مسکان کو لائن مارنا شروع کر دیتا تو نمی کو شک ہو جاتا کیونکہ اس نے مجھے ہی بتایا تھا اور مجھے بتاتے ہی میں اس کی طرف بڑھتا تو شک کا ہونا یقینی بات تھی جس سے نمی بیزار بھی ہو سکتی تھی۔




یہی سب حالات اور خیالات کافی دیر تک دماغ میں چکراتے رہے اور نیند نہ آئی باہر جا نہیں سکتا تھا کہ لاک ڈاؤن لگا ہوا تھا تو میں مکان کی چھت پر چلا گیا جہاں تازہ ہوا سے ذرا سکون سا محسوس ہوا۔




میں کوئی تیس منٹ تک اوپر ہوا کھاتا رہا اور تازہ صورت حال پر سوچ بچار کرتا رہا جس کے بعد میں نیچے آیا تو رات کے دو بجے سے اوپر کا وقت ہو رہا تھا تو میں لیٹ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا جس میں بڑی مشکل سے کامیابی نصیب ہوئی۔




اگلی صبح دس بجے کے قریب جاگا اور نہا دھو کر رات کے خالی برتن اٹھا کر مکان کو لاک کیا اور گھر چلا گیا جہاں سبھی بچے اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے مجھے آتا دیکھ کر روہی فوراً اٹھی اور میرے قریب آتے ہوئے بولی:




روہی: دیکھو نا پاپا آپ کا یہ لاڈلا مجھے تنگ کر رہا ہے۔ رشی:روہی سچی بول رہا ہوں زیادہ ڈراما کوئین نہ بن ورنہ سچی میں ماروں گا تجھے۔ میں:ارے ارے کیا ہوا جھگڑا کس بات پر ہے؟ روہی:پاپا آپ کا یہ کالا پہلوان میرا لیپ ٹاپ چرا کر لے گیا تھا شام کو اب بولتا ہے نہیں دے گا۔ رشی:قسم سے پاپا جھوٹ بول رہی ہے یہ چوڑیل میں نے نہیں چرایا آپ اپنی بڑی بہن سے پوچھ لو اسی نے دیا تھا رات کو۔




نمی: ارے کیا کرتے ہو پاپا کو آرام سے کہیں بیٹھ تو جانے دو پہلے۔ میں:ہاں بھائی نمی بیٹی تم بتاؤ یہاں جھگڑا کس بات کا چل رہا ہے؟ نمی:کچھ بھی نہیں ہے پاپا بس ہر وقت گھر میں بند رہ رہ کر تنگ آئے ہوئے ہیں بات کرنے کا کوئی بہانہ بناتے پھرتے ہیں۔ نادیہ:سچی پاپا بہت بور ہو رہے ہیں کیوں نہ چھٹیاں چل رہی ہیں تو مری ہی گھوم آئیں۔ رشی:اپنی بہن سے دیکھا آپ نے اس پاگل لڑکی کیا بولتی ہے مری گھوم آتے ہیں یہاں گھر سے کوئی نہیں نکل سکتا اور وہاں اس کے لیے ہوٹلز اور کوٹیجز جیسے اسی کے لیے کھولے بیٹھے ہوں گے نا۔




میں: اچھا لڑو نہیں بیٹا اب بھلا کیا ہو سکتا ہے پورا ملک ہی لاک ڈاؤن ہے ٹرانسپورٹ ہوٹل مارکیٹ سب بند ہو چکا ہے کوئی کہیں نہیں آ جا سکتا۔




ایسے ہی بچوں کے ساتھ گپ شپ کے بعد میں نے ناشتہ کیا اور گھر سے نکلا تو دوست مل گئے جس کے بعد دوبارہ وہی روٹین تاش وغیرہ کھیلنے میرے مکان میں جا بیٹھے جس میں شام ہونے لگی اور پتہ ہی نہ چلا کیونکہ بھوک بھی لگ رہی تھی تو میں نے کھانا وہیں منگوا لیا اور کھانا وغیرہ سے فارغ ہو کر اوپر چلا گیا اور وہیں ذرا چہل قدمی کی سگریٹ پھونکا اور نیچے آ گیا جس کے بعد ٹی وی میں مگن رہا کیونکہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ نمی خود سے بھی بات کرتی ہے کہ نہیں اور اسی انتظار میں رات کے 9:40 ہو گئے تو نمی کا میسج آ گیا جس میں لکھا تھا:




پری: کیا ہوا بوڑھے دوست آج سارا دن آن لائن رہے لیکن بات نہیں کی۔ میں:بات بھلا کیا خاک کرتا میں نے سوچا دوست کے ساتھ مصروف ہو گی تم۔ پری:جلیسی محسوس ہو رہی ہے؟ میں:کیوں مجھے کیوں ہونے لگی جیلیسی؟ پری:دیکھو بوڑھے دوست کہیں سیریس تو نہیں ہو رہے نا مجھے۔ میں:کیوں تمہیں کوئی فرق پڑتا ہے؟ پری:دیکھو میں آپ کی بیٹی کی عمر کی ہوں اس لیے کچھ زیادہ مت سوچ لینا ہی ہی ہی۔ میں:بیٹی ہوتی نا تو اب تک جھولی میں بٹھا کر جھولے ڈال دیتا۔ پری:ارے واہ لگتا ہے اپنی ہی بیٹی پر گرم ہوۓ بیٹھے ہو۔ میں:تمہارے باپ کی طرح اس کی جاسوسی نہیں کروں گا اگر کچھ ہنٹ بھی مل گئی تو۔ پری:پھر کیا کرو گے؟ میں:اسے اعتماد دوں گا پیار دوں گا، خود مزا لوں گا اور اسے بھی مزا دوں گا۔ پری:بڑے حرامی ہو ،,,, معاف کرنا پیار سے کہا ہے اگر برا لگا ہو تو بتا دینا۔ میں:نہیں دوستی میں اتنا تو چلتا ہی ہے۔ پری:کیا سچ میں آپ جو بول رہے ہو ویسا کرو گے؟ میں:ہاں یار۔ پری:آپ کی بیوی مار ڈالے گی آپ کو۔ میں:کچھ نہیں بولے گی ویسے بھی اسے بتا کر تھوڑا ہی کچھ کروں گا۔ پری:ہی ہی ہی ہی سچ میں حرامی ہو ویسے اگر آپ میرے باپ ہوتے نا تو مزا آ جاتا۔ میں:(من ہی من میں بولا سالی ہوں تو تیرا باپ ہی لیکن لکھا کچھ اور) تو مجھے ہی باپ بنا لو اپنی امی کے ساتھ سیٹنگ کرا دو اس طرح تمہارے لیے بھی راستہ بن جائے گا ہاہاہا۔ پری:اچھا جی بڑی پہنچی ہستی ہو بیٹی کے ساتھ ماں کو بھی نپٹنا چاہتے ہو بائی دی وے میری امی کی وفات ہو چکی ہے۔ میں:اوہ ہ معاف کرنا مجھے پتہ نہیں تھا۔ پری:اوکے پھر بات ہو گی بعد میں۔ میں:کیوں ناراض ہو گئی ہو؟ پری:نہیں میرا دوست آ گیا ہے ایک گھنٹے کے بعد بات کرتی ہوں۔ میں:اوکے۔




اب مجھے انتظار کرنا تھا کیونکہ میری بیٹی اپنے کسی یار سے سیکس چیٹ میں مصروف ہو گئی تھی وہ بھی مجھے بتا کر کیونکہ ابھی تک اپنے یار سے نمی چدوا نہیں پائی تھی اس لیے اب مجھے ہی ہمت کرنی تھی کہ میں اپنی بیٹی کو اس کے یار کے چنگل سے نکال لوں۔




جس کے لیے ایک آپشن تو یہ تھا کہ میں مسکان خسری کے ساتھ ہی اس کا رشتہ چلتا رہنے دوں لیکن اس میں مسئلہ یہ تھا کہ مسکان کی ٹائمنگ تو ٹھیک تھی جیسا کہ مجھے نمی بتا چکی تھی لیکن اس کا لن پتلا بھی تھا اور چھوٹا بھی اور یہی وجہ تھی کہ نمی کو اب کسی بڑے لن کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی جس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار دکھائی دیتی تھی۔




ویسے بھی اگر وہ مسکان تک ہی سیٹ رہتی تو شاید میں اسے کچھ نہ بولتا کیونکہ مسکان اور اس کے گھر والے کسی کو یہ بتانا افورڈ نہیں کر سکتے تھے کہ مسکان نہ تو لڑکی ہے نہ لڑکا بلکہ خسری ہے ایسا اگر لوگوں کو محلے میں پتہ چل جائے تو آپ لوگ جانتے ہیں کیا ہوتا ہے۔




لیکن یہیں پر مسئلہ اور بھی خراب ہو رہا تھا کہ نمی اب پتہ نہیں کس ماں کے لوڑے سے چدوانے کو تیار ہو بیٹھی تھی اور پتہ نہیں وہ حرامی کیا پلان کیے بیٹھا ہوا تھا میری بیٹی کو لے کر جس وجہ سے وہ میرے لیے دوسرا آپشن کسی بھی طور نہیں بن سکتا تھا۔




اگر میری بیوی یعنی نمی کی امی زندہ ہوتی تو شاید بات یہاں تک آتی ہی نہیں اور اگر آ بھی جاتی تو اسے کنٹرول کرنے کی ذمہ داری میں اسی کے سر ڈال دیتا اور وہ کر بھی لیتی کیونکہ ماں کے ساتھ وہ خود بھی عورت ہی تھی لیکن میں کچھ بھی نہیں کر پا رہا تھا کیونکہ میں باپ تھا بھلے جتنا بھی اپنے بچوں سے فری کیوں نہ تھا لیکن باپ تھا میں بچوں سے خاص کر بیٹیوں کے ساتھ اس موضوع پر بات کر ہی نہیں سکتا تھا۔




اسی لیے دوسرے آپشن پر میں نے خود کو رکھا تھا اور سوچ لیا تھا کہ اگر دیکھوں گا کہ نمی کسی کے ساتھ حد پار کر جائے گی تو مجھے خود نمی کے ساتھ بوڑھے دوست کے طور پر سیٹنگ کرنی تھی کہ اگر وہ چدواۓ بغیر نہ رہ پائی تو کوئی اور میری بیٹی کی چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا میں خود کروں گا یہ فیصلہ میں کر چکا تھا لیکن اب کیا ہونا تھا یہ تو میں ابھی نہیں بتا سکتا بس پلان ہی کر سکتا تھا اسی لیے اپنے پلان پر عمل کی سوچ لی اور ایک تصویر اپنے 8 انچ سائز کے موٹے تگڑے لن کی پوری سخت حالت میں نمی کو بھیج دی۔









کرنے کو تو میں نے اپنے لن کی تصویر اپنی بیٹی کی جعلی آئی ڈی پر بھیج دی تھی لیکن سچ بتاؤں تو میں اس وقت من ہی من بڑی ہی گھبراہٹ محسوس کر رہا تھا کہ کہیں نمی میری لاڈلی ناراض ہی نہ ہو جائے۔




دوسرا مقصد میرا یہ تھا کہ اسے دکھا سکوں کہ میرا لن کتنا بڑا ہے جس سے اس کے پاس اس لڑکے جس سے سیکس چیٹ چل رہی تھی میری بیٹی کی ایک اور آپشن میرا بھی اس کو دکھ جائے لیکن مجھے مایوسی نہیں ہوئی کیونکہ 2 منٹ میں ہی نمی کا میسج آ گیا جس میں لکھا ہوا تھا:




پری: واااااااو بوڑھے آدمی کہاں سے تصویر ڈاؤن لوڈ کی ہے؟ میں:کیا مطلب؟ پری:مطلب میرے بوڑھے دوست کہ یہ تصویر آپ نے نیٹ سے ہی ڈاؤن لوڈ کی ہے نا آپ کی اپنی تو نہیں ہو گی۔ میں:اپنی بیٹی کی بات کی گہرائی میں جا پہنچا تھا اسی لیے بولا ہاں تم نے صحیح کہا یہ میری تصویر نہیں ہے۔ پری:یہی تو کہاں سے ڈاؤن لوڈ کی ہے؟ میں:اپنے موبائل کیمرے سے۔ پری:مطلب؟ میں:مطلب یہ میری میٹھی پری جان کہ یہ میری تصویر نہیں ہے میرے شیر کی ہے اور میرے موبائل کیمرے سے ابھی ابھی بنی ہے۔ پری:میں مان ہی نہیں سکتی۔ میں:کیوں؟ پری:اووووف بوڑھے دوست مجھے یقین دلاؤ کہ یہ تمہارا شیر ہے۔ میں:کیا انعام دو گی؟ پری:جان بھی دے دوں گی تمہارے لیے۔ میں:تو بولو کیسے یقین ہو گا تم کو؟ پری:اسی جگہ پر مختلف پوز میں 5 سے 6 تصویریں بناؤ اور بھیجو۔ میں:اوکے۔




میں نے کچھ دیر اپنے لن کو ہاتھ سے سہلایا اور مختلف پوز میں پوری اور آدھی سخت لن کی تصویریں بناتا رہا جس کے بعد میں نے ان کو نمی کی جعلی آئی ڈی پر بھیج دیا جس کے جواب میں پری نے 2 منٹ بعد جواب دیا:




پری: او ایم جی۔ میں:کیوں میری جان شاک لگا کیا؟ پری:پتہ ہے میری شہزادی کی کیا حالت ہو رہی ہے؟ میں:بتاؤ گی تو پتہ چلے گا نا۔ پری:جیسے آپ تو چوزے ہو نا ابھی انڈے سے نکلے ہو پتہ نہیں اس شیر سے کتنی بھگت چکے ہو۔ میں:تم بھی آ جاؤ تمہارے نام کر دوں گا۔ پری:سیییییی قسم سے بری طرح پانی چھوڑ رہی میری شہزادی بولو اب کیا کروں میں۔ میں:اپنے باپ کے پاس چلی جاؤ ہو سکتا ہے اس کا اس سے بھی بڑا ہو۔ پری:ماروانے والی بات نہ کرو۔ میں:ارے ماروانے والی بات کیا ہے بھلا تم نے ہی تو کہا تھا کہ تمہاری امی کی وفات ہو چکی ہے تو پھر ویسے بھی ان کا حال تو برا ہو گا نا سنبھال لو اپنی ماں کی جگہ۔ پری:نہ بابا نہ مجھ سے مرنا نہیں ہے۔ میں:ارے ہمت تو کرو۔ پری:کن باتوں کو لے بیٹھے ہو آپ یہ بتاؤ کہاں رہتے ہو؟ میں:(کچھ سوچ کر) اندرون شہر۔ پری:کچھ دیر بعد وہاں کس جگہ؟ میں:اپنے ایریا سے ذرا فاصلے کی ایک جگہ بتا دی) اور تم کہاں کی ہو؟ پری:آپ کے قریب ہی رہتے ہیں ہم لوگ۔ میں:مطلب مل سکتے ہیں؟ پری:اب تو ممکن نہیں۔ میں:کیوں؟ پری:صاف بات ہے بوڑھے دوست جی کہ آپ ہمارے قریب کے ہی ہو تو ہو سکتا ہے میرے باپ کو جانتے ہو اس لیے نہیں مل سکتی۔ میں:تو تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے باپ کو بتا دوں گا؟ پری:مجھے نہیں پتہ۔ میں:ویسے ایک بات پوچھوں سچ بتاؤ گی؟ پری:ہوں۔ میں:اچھا لگا؟ پری:کیا؟ میں:میرا شیر۔ پری:سچی بات تو یہ ہے کہ سوپر سے بھی اوپر۔ میں:تمہارے دوست سے بھی زیادہ جس کے ساتھ سیکس کا سوچ رہی ہو۔ پری:اس کا 6 انچ سائز ہے۔ میں:تو کر لو دوستی پھر اتنا کیوں ڈر رہی ہو؟ پری:ہو سکتا ہے آپ کے کسی بہترین دوست ہی کی بیٹی نکل آؤں۔ میں:تو اچھا ہے نا تمہاری مدد سے میں اپنی بیٹی کو بھی پٹا لوں گا اور تمہیں بھی مزا دوں گا۔ پری:قسم سے ایک نمبر حرامی ہو۔ میں:اب بھی کوئی شک ہے تم کو؟ پری:اتنی جلدی کیا ہے ابھی سوچنے کا موقع دو میرے بوڑھے دوست ویسے بھی آج کل لاک ڈاؤن نے سب بند کر رکھا ہے اگر میرا من ہوا بھی تو جگہ نہیں بن پائے گی۔ میں:ضرور سوچو لیکن جگہ کی ٹینشن نہ لو وہ ہو جائے گی۔پری: لیکن میں کیسے گھر سے نکلوں گی یہ نہیں سوچ رہے ہو آپ جناب۔


میں: مطلب ملو گی مجھ سے؟


پری: یہ میں نے کب کہا؟


میں: ابھی کہا نا۔


پری: باتوں میں نہ پھنساؤ اور اب سو جاؤ، بیوی گانڈ پر لات مارے گی اگر سوتے میں اٹھ گئی تو۔


میں: میرا روم الگ ہے کوئی مسئلہ نہیں۔


پری: لیکن مجھے صبح جاگنا ہے اس لیے اب بس اور بائے۔


میں: یار جیسے تمہاری مرضی لیکن کیا مجھے کچھ نہیں دکھاؤ گی؟


پری: آج نہیں کل دکھاؤں گی۔


میں: اوکے۔







ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی