خاندانی ۔۔تعلقات ۔۔قسط (4)

 













نمی سے ہوئی باتوں نے مجھے اتنا گرم کر دیا تھا کہ میں جو اپنی بیٹی کو اس راہ پر آگے بڑھنے سے بچانے کے لیے اس سے گپ اور دوستی کرنے کی سوچ کے آہستہ آہستہ آگے بڑھنے کی سوچ کے ساتھ قدم اٹھایا تھا، لیکن اب مجھے لگ رہا تھا کہ میں جتنا آگے بڑھ چکا تھا اور اپنی بیٹی سے آزاد ہو چکا تھا، یہاں تک کہ اپنے لن کی تصویریں تک اسے بھیج چکا تھا، جس نے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میری بیٹی کو بھی من ہی من دیوانہ کر دیا تھا۔








یہ سب جہاں میرے لیے پریشان کن تھا، وہیں ایک الگ ہی سرور اور سکون کا احساس بھی دلا رہا تھا، کیونکہ جب تک میں نے اپنی بیٹی کو پینٹی برا میں نہیں دیکھا تھا، تب تک شاید میں اسے اس سب سے نکالنے کا ارادہ ہی کیے ہوتا تھا، لیکن بدقسمتی ہو اس انٹرنیٹ کی دنیا کا، جس کی وجہ سے مجھے بھلے بنا چہرہ دیکھے ہی سہی، اپنی بیٹی کی آدھی ننگی جوانی کے جلوے دکھا دیے تھے۔ اور میں اپنی ہی سگی بڑی بیٹی کا دیوانہ ہو چلا تھا، اور مجھے لگنے لگا تھا کہ میں شاید اب کچھ کر ہی نہ بیٹھوں، کیونکہ میرا لن اس سوچ سے ہی پاگل سانڈ بنّا لہرا رہا تھا کہ نمی جیسی جوان لونڈیا اس پر شاید فدا ہو چکی ہے۔








میری سوچوں اور خیالات نے مجھے بہت بے چین کر رکھا تھا، جس وجہ سے میں بار بار سگریٹ پھونکتا، سوچوں میں گم رہتا، اور بار بار چائے بنا کر پیتا، لیکن نیند تھی کہ آ ہی نہیں رہی تھی۔ صبح کے 4 بجے بعد مشکل سے میری آنکھ لگی اور میں سو گیا۔








دوبارہ میری آنکھ کھلی تو 11 سے اوپر کا وقت ہو رہا تھا، تو میں نہا دھو کر تیار ہوا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہونے لگی۔ میں نے دیکھا تو میرے دوست تھے جو وقت گزارنے کے لیے آئے تھے، کیونکہ اب ہم سب کے پاس اس مکان کے علاوہ کوئی اور جگہ تو تھی نہیں۔ میں نے ان سب کو بٹھایا اور خود گھر چلا گیا کھانا کھانے کو، کیونکہ اب ناشتے کا وقت تو تھا نہیں۔ کھانا مجھے میری چھوٹی بیٹی روہی نے لا کر دیا اور میرے سامنے رکھ کے جب جانے لگی تو اس کی ابھری گانڈ کو ہلتے دیکھ کر میرے دماغ میں آیا کہ کہیں یہ بھی تو... لیکن اسی کے ساتھ ہی میں نے اپنا سر جھٹکا کہ یہ میں کیا سوچ رہا ہوں۔ لیکن اس ایک پل کے خیال سے ہی میرے لن میں جو ہلچل ہوئی، اس نے مجھے سب صاف بتا دیا کہ میں آج سے کچھ دن والا منور شاہ نہیں رہا جو کہ بس دکان گھر اور بچوں کا خیال رکھا کرتا تھا۔








اب تو مجھے لگنے لگا تھا کہ شاید میرے بچے اب مجھ سے ہی محفوظ نہیں ہیں۔ اس بات سے پتہ نہیں کیوں لیکن مجھے لگا جیسے میں بجھ سا گیا تھا، لیکن وہیں اندر کا شیطان کہیں خوشیاں بھی منا رہا تھا۔ خیر، میں نے کھانا کھایا اور گھر سے نکل کر ساتھ والے مکان میں جا دوستوں کے ساتھ جا بیٹھا، جہاں میرے دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ محفل لگا کر اور ایک چائے بنا رہا تھا، مجھے دیکھ کر میرے لیے بھی چائے لے آیا، جسے سب نے پی اور دوبارہ محفل لگا کر بیٹھ گئے۔








دوستوں کے ساتھ تاش کھیلتے ہوئے معاً سب بھول گیا، کچھ بھی دماغ میں نہ رہا۔ ایسے ہی باقی کا دن گزرا اور شام کے 7 بجے سب لوگ مکان سے نکل گئے، تو میں گھر کو آ گیا، لیکن ایک بات کہ میں نے آج اپنا موبائل جو کہ دراز میں رکھا ہوا تھا، ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔ پتہ نہیں کیوں، میں من ہی من شاید خود سے ہی شرمندہ تھا، اس لیے میں نے موبائل کو ہاتھ نہیں لگایا تھا، یا کوئی اور وجہ تھی، پتہ نہیں، لیکن کچھ تو تھا۔ خیر، میں گھر گیا، بچوں کے ساتھ کوئی ایک گھنٹہ بیٹھا، ہنسی مذاق میں وقت گزارا، کھانا کھایا اور 8:30 پر واپس مکان پر آ گیا۔








مکان پر آ کر میں نے ٹی وی آن کر کے لیٹ گیا، لیکن ذرا بھی من نہیں ہو رہا تھا کہ ٹی وی دیکھوں، خبریں دیکھوں۔ کچھ بھی، دن بھر تو یار دوست ساتھ تھے تو وقت گزر گیا، لیکن اب بار بار میرا دھیان موبائل کی طرف جاتا کہ دیکھوں تو سہی کہ کیا نمی نے کچھ کہا ہے یا تصویر بھیجی ہے۔ لیکن میں خود پر جبر کرتے ہوئے بار بار خود کو روک لیتا کہ نہیں، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کسی کو پتہ چلا تو کیا ہو گا؟ نمی کیا سوچے گی؟ دنیا کیا کہے گی؟ وغیرہ۔ لیکن بولتے ہیں نا کہ شیطان جب حاوی ہو جائے تو ہو جاتا ہے۔








مجھ پر بھی آخر شیطان سوار ہو گیا اور میں نے موبائل اٹھا لیا دراز میں سے اور دیکھا تو نمی کی جعلی آئی ڈی سے کافی میسج آئے ہوئے تھے۔ تو سمجھ لو کہ نمی اپنی بیٹی کی طرف سے اتنا میسج دیکھ کر میں پھر اس کے سحر میں ڈوبتا چلا گیا اور نمی کے میسج پڑھنے لگا، جس میں ایک تو اس کی تصویر تھی۔






اس تصویر کے ساتھ ہی اس نے لکھا تھا: "کیسی لگی؟" اور بعد میں: "کیا ہوا؟ جواب کیوں نہیں دے رہے؟" "کیا آپ کی بیوی ساتھ چپکی ہوئی ہے جو جواب نہیں دے رہے؟" "کیا ہوا، کہاں ہو؟ آن لائن ہو لیکن جواب نہیں دے رہے؟" "بات نہیں کرنی تو بھی بتاؤ۔"








مجھے اپنی بیٹی کی یہ بے تابی دیکھ کر احساس ہوا کہ اب رکنا ممکن نہیں، اب جو ہو رہا ہے ہونے دیا جائے، کیونکہ اگر اسے روکنے کی کوشش کی تو وہ ہاتھ سے نکل جائے گی اور بدنامی بھی ہو گی۔ اسی لیے میں نے خود بھی بھرپور طریقے سے مزا لینے کا فیصلہ کر لیا اور میسج کیا:








میں: یہ کیا یار، نہ چہرہ نہ کچھ اچھے سے دکھ رہا ہے۔ پری:کوئی جواب نہیں دیا۔ میں:(20 منٹ انتظار کرنے کے بعد) یار بات کرو گی تو ناراضگی دور ہو جائے گی۔ پری:کوئی جواب نہیں۔ میں:اچھا جی، بدلہ لے رہی ہو کہ دن میں بات نہیں ہو سکی، لیکن وجہ جان لو پھر جو چاہو سزا دے لینا۔ پری:کیوں جانوں وجہ؟ میں:شکر ہے تم بولی تو۔ پری:ہوں، بڑے آئے بولی تو۔ میں:یار قسم سے اس طرح نخرے دکھاتی ہو تو پوری بیوی جیسی لگ رہی ہو۔ پری:پہلے وجہ بتاؤ۔ میں:یار میری بوڑھی اپنے بھائی کی طرف لے گئی تھی اپنے ساتھ، میں کیا کرتا، وہاں کوئی نہ کوئی ساتھ چپکا رہا، بات کرتا تو کیسے؟ (جو کہ صاف جھوٹ تھا) پری:دیکھو اگر میرے ساتھ دوستی رکھنی ہے تو جب تک لاک ڈاؤن ہے، میں بات کرنا چاہوں تو حاضر رہنا ہو گا۔ میں:جو حکم میری آقا۔ پری:ہی ہی ہی ہی، بہت حرامی، اتنا سیدھے نہیں ہو۔ میں:آزما کر دیکھ لو جانِ من۔ پری:پتہ ہے مجھے کتنا غصہ آیا ہوا تھا، میں نے قسم کھا لی تھی اب کبھی تم سے بات نہیں کروں گی۔ میں:آپ کی مہربانی ہے جناب کہ میں ناچیز کی بات سن کر آپ نے مجھے معاف کر دیا۔ پری:کس نے کہا کہ میں نے معاف کر دیا ہے؟ میں:تو پھر؟ پری:سزا ملے گی جناب۔ میں:حاضر سرکار۔ پری:تو دکھاؤ ایک بار اپنا شیر۔ میں:مل لو اصل میں سامنے آ جائے گا، چاہے منہ میں لے کر پیار کرتی رہنا۔ پری:وہ سب بعد کی بات ہے، ابھی بولو دکھا رہے ہو کہ نہیں؟ اور ہاں، کل والی کوئی تصویر نہیں ہونی چاہیے۔ میں:اوہ، تو ابھی تک شک ہے؟ پری:دکھا نہ، پلیز۔ میں:اوکے، انتظار کرو۔








میں نے ایک نئی تصویر بنائی اور نمی کو بھیج دی اور اس کی طرف سے آنے والے رد عمل کا انتظار کرنے لگا، جو کہ 1 منٹ بعد ہی آ گیا، جس میں نمی نے میرے لن کے لیے love emoji بھیجے تھے۔








میں: لو جی، اب بولو۔ پری:تھینکس یار، میرے بوڑھے دوست۔ میں:کیا کر رہی ہو؟ پری:نہا کر نکلی ہوں۔ میں:کیا پہنا ہے؟ پری:ابھی کچھ نہیں، بس تولیہ ہی۔ میں:اب مجھے بھی کچھ دکھاؤ نہ پھر، ذرا سیکسی سا نظارہ۔ پری:کیوں دکھاؤں؟ میں:دکھا دے نہ جان، بڑا من کر رہا ہے۔ پری:ایک تو نہ، تم جیسے بوڑھوں کو تھوڑا سا منہ لگا لو تو سر چڑھ جاتے ہیں۔ میں:نہ میری جان، سر نہیں چڑھنا ہے تمہارا۔ پری:پھر؟ میں:تیرے اوپر چڑھنا ہے۔ پری:سییییی، میرے باپ کو پتہ چلا نہ تو تیری گانڈ پھاڑ دے گا۔ میں:تو بول تو سہی، تیرے باپ کے سامنے تیرے اوپر چڑھ سکتا ہوں۔ پری:بس کر میری جان، اتنا بھی ہیرو نہیں ہو تم۔ میں:چل نہ پھر، کچھ دکھا بھی اب، بڑا من ہو رہا ہے میری جان۔ پری:کیوں دکھاؤں سالے حرامی، تیری بیٹی تھوڑی ہی نہ ہوں میں جو حکم چلا رہا ہے مجھ پر۔ میں:اپنا بےغیرت باپ ہی سمجھ لے میری کتیا، اب زیادہ نہ تڑپا، دکھا دے نہ۔ پری:اوووف جانی، تو میرے جیسا ہی لگتا ہے، رک ذرا نظارہ کرا دیتی ہوں۔















اپنی بیٹی کی یہ تصویر دیکھ کر معاً میں تو سحر ہی اٹھا، بس یوں سمجھو کہ پاگل ہی ہو گیا، اور من کرنے لگا کہ ابھی گھر جا کر نمی کی پھدی کا بھوسڑا بنا ڈالوں، لیکن جو مزا ایسے آہستہ آہستہ آ رہا تھا، اس کی بات ہی الگ تھی۔








پری: کیا ہوا میرے بوڑھے عاشق، کہاں گم ہو؟ میں:کہیں نہیں میری جان، سوچ رہا ہوں۔ پری:کیا؟ میں:کہ تیرا باپ کہیں ہیجڑا تو نہیں، جو تیری جیسی سیکس بمب کو دیکھ کر بھی کچھ نہیں کیا ابھی تک۔ پری:اس نے کبھی ایسے دیکھا ہی کب ہے؟ دیکھا ہوتا تو شاید۔ میں:ایک بات بولوں؟ پری:وہ کیا؟ میں:ذرا جھلک دکھا اپنے باپ کو تھوڑے سیکسی کپڑے میں، پھر دیکھ کہ وہ کیا کرتا ہے۔ پری:مجھے بخشو، مرنا نہیں ہے۔ میں:یار ذرا سی جھلک دکھلا، اگر اسے برا لگا تو تھوڑا ڈانٹے گا ہی نا، لیکن پتا تو چل جائے گا کہ وہ پسند نہیں کرتا ہے۔ پری:یار اپنی بات کرو، کوئی موقع نکالو نہ، پلیز۔ میں:کیا خاک موقع نکالوں، پتا تو ہے نہیں کہ تم کون ہو، کہاں ہو۔ پری:اپنا واٹس ایپ نمبر سینڈ کرو پہلے۔ میں:ایک نیا نمبر جو کہ کسی کے پاس نہیں تھا، گھر میں نہ کسی یار دوست کے پاس۔ بتا دیا کہ میرا ذرا عیاشی والا واٹس ایپ نمبر بھی وہی تھا، اس لیے میں اسے ذاتی رکھتا تھا۔ پری:واٹس ایپ پر میسج کر کے اپنا نمبر دے دیا اور لکھا: "یہ میرا ذاتی ہے، اب سے یہیں بات ہو گی۔" میں:نمبر دیکھ کر حیران ہوا کہ یہ میرے لیے بھی نیا تھا، میرے علم میں نہیں تھا، اسی لیے بولا: "اور کون کون جانتا ہے یہ نمبر؟" پری:ذاتی آپ کے علاوہ بس ایک دوست۔ میں:وہی جس کے ساتھ سیٹنگ کر رہی ہو؟ پری:کر رہی تھی، لیکن اب ارادہ بدل گیا ہے میرا۔ میں:مطلب؟ پری:کسی اور پر من آ گیا ہے۔ میں:اوہ، تھینکس سویٹی۔ پری:اب بتاؤ کون ہو تم؟ میں:مطلب؟ پری:دیکھو، میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی، اس لیے صاف بات کروں گی۔ میں:کیا؟ پری:کیا کر سکتے ہو میرے لیے؟ میں:کیا چاہتی ہو؟ پری:مزا۔ میں:تو ملو گی نہیں تو مزا کیسے دے سکتا ہوں؟ پری:میرے باپ مسئلہ بن سکتے ہیں۔ میں:اسی لیے تو کہا ہے کہ بتاؤ، میں کیا کروں؟












پری: سمجھ نہیں آ رہی کیا کروں




میں: سوچنا تم نے ہے پری جی، کیونکہ میں شادی شدہ آدمی ہوں، بدنامی افورڈ نہیں کر سکتا۔ تم کہاں تک جانا چاہتی ہو، کھل کر بولو۔




پری: مجھے تھوڑا سوچنے کا ٹائم دو، میں کچھ سوچ لوں پھر بات کروں گی۔




میں: اوکے، جیسے تمہاری مرضی۔










ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی