آنٹی نے کہا کا شی یہ مسئلہ ایسا ہے اِس میں کافی ٹائم لگ سکتا ہے مجھے زیادہ بیلنس چاہیے
میں نے کہا آنٹی جی پِھر تو تھوڑی دیر میں اگلا اسٹیشن آنے والا ہے میں وہاں سے آپ کو 500 کا بیلنس ڈلوا دیتا ہوں آپ آرام سے کھل کر بات کر لینا . تو آنٹی نے کہا ٹھیک ہے . جب اسٹیشن پے گاڑی رکے تو فوراً جا کر بیلنس ڈال دو مجھے جلد سے جلد نازیہ سے بات کرنی ہے . میں نے کہا آنٹی جی آپ فکر نہ کریں . کوئی.15 9 کا ٹائم ہو گا جب ٹرین نے اپنا ہارن بجایا تو میں سمجھ گیا اگلا اسٹیشن آ گیا ہے میں وہاں سے فوراً اٹھا اور ٹرین کے دروازے پے چلا گیا اور کوئی 5 منٹ بَعْد ہی ٹرین اسٹیشن پے جا کر رکی میں فوراً اونچے اترا اور جا کر اسٹیشن پے ایک شاپ بنی تھی وہاں سے دکاندار کو کہا بھائی موبائل کارڈ چاہیے تو اس نے کہا کارڈز نہیں ہیں ایزی لوڈ ہے . میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے آپ کو میں نمبر لکھواتا ہوں مجھے اس پے 500 کا بیلنس ڈال دیں اس نے فوراً نمبر پے بیلنس ٹرانسفر کر دیا میں نے اس کو 500 دیئے اور کچھ کھانے پینےکی اور چیزیں لیں اور کچھ دیر بَعْد اپنی برتھ میں آ گیا . جب میں برتھ میں اندر داخل ہوا تو سائمہ آنٹی نے شاید نازیہ کو کال ملائی ہوئی تھی مجھے دیکھ کر سائمہ آنٹی نے اشارہ کیا کے خاموشی سے بیٹھ جاؤ . میں وہاں سیٹ پے ہی چیزیں رکھ دیں آنٹی پہلے تو اس کے ساتھ نارمل یہاں وہاں کی باتیں کر رہی تھی پِھر میں نے سوچا آنٹی کو آرام سے بات کرنی چاہیے میں اٹھ کر برتھ سے باہر نکل آیا اور دروازے کے پاس کھڑا ہو کر باہر دیکھنے لگا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا لگ رہی تھی میں وہاں ہی دروازے میں بیٹھ گیا. مجھے وہاں بیٹھے بیٹھے پتہ ہی نہیں چلا کافی ٹائم ہو گیا تھا میں نے موبائل پے ٹائم دیکھا تو مجھے وہاں بیٹھے بیٹھے تقریباً 1 گھنٹہ گزر چکا تھا
میں وہاں سے اٹھا اور اپنی برتھ کی طرف چلا گیا جب برتھ کے پاس پہنچا تو دیکھا آنٹی فون پے بات کر رہی تھی . میں یہ دیکھ کر حیراں بھی ہوا . میں نے برتھ کی بجاے وہاں سے سیدھا باتھ روم میں چلا گیا اور پِھر باتھ روم سے فارغ ہو کر باہر نکلا تو باتھ روم کے دروازے پے ایک بڑی ہی سیکسی سی کوئی لگ بھاگ 23یا24 سال کی لڑکی کھڑی باتھ روم خالی ہونے کا انتظار کر رہی تھی . جب ہم دونوں کی نظر آپس میں ملی تو میں اس کو دیکھ کر سمائل پاس کی اس نے بھی مجھے ہلکی سی سمائل پاس کی اور فوراً باتھ روم میں گھس کر دروازہ بند کر لیا میں وہاں ہی ساتھ میں ٹرین کے دروازے پے کھڑا ہو گیا اور باہر کی ٹھنڈی ہوا لینے لگا . کوئی 5 منٹ بَعْد ہی باتھ روم کا دروازہ کھلا اور وہ لڑکی باہر نکلی اور دوبارہ پِھر ہماری نظر ملی تو وہ اب تھوڑا شرما گئی اور سمائل دے کر اپنی برتھ کی طرف چلی گئی . جب وہ اپنی برتھ کی طرف جا رہی تھی تو اس کا پیچھے سے جسم دیکھا تو لن کو ایک زور کا جھٹکا لگا کیونکہ اس کی گانڈ اس کی کمر کے حساب سے کافی بڑی اور باہر کو نکلی ہوئی تھی اور چلتے ہوئے اوپر نیچے مٹک رہی تھی میں ابھی اس کی بُنڈ کا نظارہ ہی لے رہا تھا کے یکدم وہ لڑکی اپنی برتھ کے پاس پہنچ کر میری طرف دیکھا تو میں ڈر گیا اس نے شاید مجھے اپنی گانڈ کو گھور تے ہوئے دیکھ لیا تھا . اس نے مجھے مصنوعی سا غصہ دکھایا اور پِھر ہلکی سی سمائل دے کر اور شرما کر اپنی برتھ میں چلی گئی . میں اس لڑکی کو سمجھ گیا تھا کے اِس کو دانہ ڈالا جا سکتا ہے . میں وہاں دروازے پے ہی کھڑا ہو کر اس کے بارے میں سوچنے لگا کے شاید کوئی بات بن جائے . پِھر یکدم میرے دماغ میں ایک خیال آیا . میں نے یہاں وہاں دیکھا اور بوگی کے دوسرے کون پے ایک بندہ کھڑا سگریٹ پی رہا تھا میں چلتا ہوا وہاں گیا اور اس کو کہا بھائی صاحب آپ کے پاس کوئی پین ہے . تو اس نے اپنی فرنٹ جیب میں لگی پین مجھے دی میں نے اس کو اپنی جیب میں رکھی جو ٹکٹ تھی اس کو پھاڑ کر اس پے اپنا نمبر لکھا اور پین واپس اس بندے کو دے کر دوبارہ اس ہی دروازے کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور انتظار کرنے لگا شاید وہ لڑکی دوبارہ آئے تو کوئی دانہ ڈالوں گا
اور پِھر میرا شق ٹھیک ثابت ہوا کوئی 15 منٹ بعد دوبارہ وہ اپنی برتھ سے باہر نکلی اور دوبارہ باتھ روم کی طرف آنے لگی جب وہ رستے میں آ رہی تھی تو مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی . میں نے دوسرے بندے کی نظر سے بچ کر جلدی سے وہ نمبر والا کاغذ باتھ روم کے بالکل سامنے بنی ہوئی کھڑکی میں پھنسا دیا اور اس لڑکی کو اشارے سے سمجھا دیا اور دوبارہ دروازے سے باہر دیکھنے لگا جب وہ لڑکی باتھ روم میں چلی گئی میں فوراً وہاں سے چلتا ہوا اپنی برتھ میں آ گیا اور آ کر اپنی سیٹ پے بیٹھ گیا. جب میں سیٹ پے آ کر بیٹھا تو دیکھا اس ٹائم سائمہ آنٹی اپنا موبائل اپنے بیگ میں رکھ رہی تھی . لگتا تھا ابھی شاید کال بند ہوئی ہے . پِھر میں نے آنٹی سائمہ کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پے ایک اطمینان تھا . میں نے آنٹی سے پوچھا آنٹی کیا ہوا کچھ مجھے بھی بتاؤ نازیہ نے کیا کہا ہے . آنٹی نے ایک لمبی سی سانس لی اور مجھے کہا کے کا شی بے فکر ہو جاؤ اب کوئی خطرے کی بات نہیں ہے میں نے نازیہ سے پوری بات کر لی ہے اور اس کو مکمل اعتماد میں لے لیا ہے اور وہ اب اپنی امی سے کسی بھی قسم کی بات نہیں کرے گی . میں نے کہا آنٹی پِھر بھی آپ بتاؤ تو آپ نے کیسے اس کو منایا ہے . تو آنٹی نے کہا یہ لمبی اسٹوری ہے میں پِھر کسی وقعت تمہیں بتاؤں گی ابھی ٹائم تھوڑا رہ گیا ہے شیخوپورہ آنے میں تھوڑا ٹائم باقی رہ گیا ہے . میں پِھر کسی دن تمہیں ڈیٹیل میں بتاؤں گی . ابھی تو میں نے نازیہ کو سمجھا دیا ہے اور مکمل اپنے اعتماد میں لے لیا ہے اب مجھے گھر پہنچ کر باجی سے بات کرنی ہے اور ان کو مکمل یقین کروانا ہے اور باقی رہی تمہاری بات میں آج باجی کے سکول سے چھٹی کرنے سے پہلے پہلے بات کر لوں گی
لیکن تم نے باجی کے ساتھ فلحال نہ ہی فون پے کوئی بھی رابطہ نہیں کرنا ہے اور نا ہی جب وہ راولپنڈی میں ہوں گی تو . جب باجی تمہیں خود راولپنڈی میں سیٹ ہو کر حالات سیٹ ہو جائیں گے تو وہ خود تم سے رابطہ کریں گی میں بھی ان کوسمجھا دوں گی . لیکن اس سے پہلے ان سے رابطہ نہ کرنا کیونکہ میں نازیہ کو پورا اعتماد اور موقع دینا چاہتی ہوں تا کہ بَعْد میں بھی کوئی مسئلہ نہ ہو . میں نے کہا ٹھیک ہے آنٹی جیسے آپ کی مرضی . اور پِھر میں نے آنٹی کو کھانے پینے کی چیزیں دی اور پِھر ہم یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگے . اور میں یہ بھی سوچ رہا تھا کے شاید اس لڑکی نے وہ کاغذ وہاں سے اٹھایا بھی ہے کے نہیں . اور اگر اٹھا بھی لیا تو پتہ نہیں فون کرے گی بھی یا نہیں . تقریباً پونے بارہ بجے ہم شیخوپورہ اسٹیشن پے پہنچ گئے. پِھر اسٹیشن سے رکشہ کروایا اور سیدھا سائمہ آنٹی کے گھر آ گئے میں نے ان کو وہاں ان کے گھر چھوڑا اور اپنے گھر کی طرف آ گیا مجھے چچی کی امی نے بہت روکا کے كھانا کھا کر چلے جانا لیکن میں نے کہا مجھے بھوک نہیں ہے اور وہاں سے نکل کر اپنے گھر آ گیا اور جب گھر آیا چچی گھر پے ہی تھیں انہوں نے دروازہ کھولا پِھر مجھ سے سب کے بارے میں حال احوال پوچھا اور میں پِھر گرمی کی وجہ سے تنگ ہو گیا تھا میں نہانے کے لیے باتھ روم میں گھس گیا اور نہانے لگا. پِھر وہ دن بھی یوں ہی عام دن کے طرح گزر گیا اور میں اپنی روٹین کے مطابق ٹی وی دیکھ رہا تھا کے یکدم مجھے چچی کا وہ کام یاد آ گیا جو انہوں نے مجھے کہا تھا کے بلال جو کے ان کی چھوٹی بہن کا دیور ہے اس کو چچی کے لیے تیار کرنا ہے . میں تو یہ بھول ہی گیا تھا اور سوچنے لگا چچی نے میرے اتنے کام کرواےہیں اور میں نے اب تک ان کا ایک بھی کام نہیں کیا . میرے پاس اب دن بھی تھوڑے رہ گئے تھے آج جمعرات تھی اور اتوار والے دن مجھے واپس بھی جانا تھا . پِھر میں نے سوچا مجھے بلال والا کام آج سے ہی شروع کر دینا چاہیے اور اگر زیادہ کوئی مسئلہ ہوا تھا 2 یا 3 دن اور رہ لوں گا اور بلال والا کام کر کے ہی واپس اسلام آباد جاؤں گا . بس یہ ہی خیال آتے ہی میں نے ٹی وی بند کیا اور باہر آیا تو چچی کچن کا کام کر رہی تھی اور ابھی صبح کے10 ہی بجےمیں نے چچی سے کہا چچی میں باہر جا رہا ہوں مجھے تھوڑی دیر ہو جائے گی آپ دروازہ بند کر لیں . تو چچی نے کہا کا شی بیٹا آج یکدم کہاں کا پروگرام بنا لیا ہے. میں نے کہا چچی جان ٹائم تھوڑا ہے اور آپ کا کام بھی تو کرنا ہے میں تو بھول گیا تھا اب یاد آیا ہے اِس لیے اس کام کے لیے جا رہا ہوں . میری بات سن کر چچی کے چہرے پے ایک رونق سی آ گئی . پِھر وہاں سے نکلا رکشہ کروایا اور سیدھا چچی کی امی کے محلے میں آ گیا جہاں پے بلال کی دکان تھی . جب میں بلال کی دکان پے پہنچا تو مجھے دیکھا کر حیران ہو گیا اور دکان سے باہر آ کر مجھے گلے لگا کر ملا اور بولا. ) واہ کا شی یار آج چن کیتھوں نکل آیا اے (میں نے کہا نہیں یار ایسی بات نہیں ہے . اور پِھر ہم دونوں گپ لگاتے ہوئے اندر دکان میں آ کر بیٹھ گئے بلال نے اپنی دکان سے ہی ٹھنڈی پیپسی کی بوتل کھول کر مجھے پیش کی جو میں گرمی ہونے کی وجہ سے بنا دیر کیے پی گیا .
جاری ہے