مزے قسط 23

 








بلال مجھ سے پوچھنے لگا یار کا شی تم اتنے دن سے یہاں آئے ہوئے ہو میری طرف آنے کا آج ٹائم ملا ہے. میں نے کہا نہیں یار ایسی بات نہیں ہے میں ذرا گھر کے کاموں میں مصروف تھا اِس لیے ٹائم نہیں مل سکا . میں نے کہا تم سناؤ کام دھندہ کیسا چل رہا ہے اور گھر میں سب کیسے ہیں . تو کہنے لگا گھر میں سب ٹھیک ہے کام بھی اچھا چل رہا ہے دال روٹی نکل آتی ہے . پِھر ہم یوں ہی یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگے . باتوں ہی باتوں میں نے اس سے پوچھا یار شادی کب کر رہا ہے اب تو تم ہی گھر میں اکیلے رہ گئے ہو . تو وہ آگے سے بولا یار میری کس کو فکر ہے ہے یہاں جب بھی گھر والوں کو کہتا ہوں آگے سے کہتے ہیں ابھی دو یا چار سال صبر کرو . یار کا شی خود ہی بتا بندہ کتنا انتظار کرے اب تو دکان کو چلا تا ہوں پورا پورا خرچہ گھر میں دیتا ہوں

لیکن پِھر بھی میرے لیے کوئی ابھی راضی نہیں ہوتا بندہ ا ب کیا کرے کیسے گھر والوں کو کہے کے ا ب اکیلا گزارا نہیں ہوتا ہے . میں نے بلال کی کمر پے ہاتھ رکھ کر کہا یار حوصلہ رکھ ہو جائے گا . پِھر میں نے ویسے ہی گول مول کر کے کہا یار شادی نہیں ہوئی تو تم کون سا ویسے ہی بیٹھے ہو گے کسی نہ کسی کے ساتھ تو اپنا چکر لگایا ہی ہو گا . وہ میری بات سن کر ہنسنے لگا اور بولا کا شی یار یہ شہر نہیں ہے کے یہاں اتنا آسانی سے بندہ چکر چلا لیتا ہے . یہاں پے گلی محلے میں ہر بندے کی دوسرے بندے پے نظر ہوتی ہے . میں نے کہا یار اب ایسی بھی بات نہیں ہے کے تیرے جیسا بندہ چُپ کر کے بیٹھا ہو اور کچھ بھی نہ کیا ہو . بلال میری طرف دیکھنے لگا پِھر اٹھ کر دکان کے دونوں طرف دیکھا پِھر کرسی پے بیٹھ گیا اور بولا یار ایسی بات نہیں ہے کا شی یار ایک آدھا بندہ تو رکھنا ہی پڑتا ہے لیکن یار اس کا بھی ڈر ہی لگا رہتا ہے محلے داری ہے اور سب لوگ یہاں جانتے ہیں . اِس لیے آج تک اس سے زیادہ مزہ نہیں مل پایا. میں نے کہا یار ہاں یہ تو ہے لیکن چلو یہ تو ہے کے تیرا ہفتے میں ایک دفعہ پانی تو نکلوا ہی دیتی ہو گی . تو بلال نے کہا ہاں یار ایک دفعہ تو ہو ہی جاتا ہے لیکن کبھی نہیں بھی ہوتا وہ بھی ڈرتی رہتی ہے اور مجھے بھی ڈر ہی لگا رہتا ہے . میں نے کہا یار بلال وہ خوش نصیب کون ہے جس کا تیرے ساتھ چکر ہے کوئی اپنی رشتہ دار ہے یا باہر گلی محلے کی ہے . تو بلال نے کہا کا شی یار اپنی کوئی رشتہ دار ہوتی تو کیا ہی بات تھی رشتہ دار سے تو بندے کو ڈر نہیں ہوتا ہے بندہ اپنے رشتہ داروں کے گھر تو آتا جاتا رہتا ہے اِس لیے زیادہ مسئلہ نہیں بنتا . یہ والی تو گلی کی ہے شادی شدہ ہے اِس کی دو ہی بیٹیاںb ہیں میاں اس کا فوت ہو چکا ہے . میری دکان سے سودا سلف لینی آتی جاتی رہتی ہے بس ایسے ہی اس کے ساتھ بات سیٹ ہو گئی تھی اور پِھر آہستہ آہستہ اس کو لائن پے لے آیا تھا اب کبھی کبھی موقع ملتا ہے تو اپنا مزہ لے لیتا ہوں . لیکن یار ہر وقعت دِل میں ڈر ہی لگا رہتا ہے کے کسی نہ کسی کو پتہ چل گیا تو بڑی ہی بدنامی ہو گی . میں نے کہا یار یہ بات تو ہے لیکن پِھر تو کسی رشتہ داروں میں ہی کیوں نہیں کسی سے چکر چلا لیتا تم تو یہاں ہی رہتے ہو تھوڑی سی ہمت کرو آگے پیچھے دیکھو کوئی نہ کوئی مل جائے گی . تو فوراً بولا یار کا شی دیکھنا کیا ہے بندے تو 2 ہیں جن کا پکا پتہ ہے وہ پہلے بھی کسی کے ساتھ سیٹ ہیں بس میری ہی ہمت نہیں ہوتی . یہ بات کر کے بلال ایک دم خاموش ہو گیا شاید وہ یہ بات نہیں بتانا چاہتا تھا . وہ اب مجھ سے نظر چرا رہا تھا

میں نے کہا یار بلال کیا ہوا چُپ کیوں ہو گئے ہو تو وہ آگے سے کچھ نا بولا میں اس کے اندر کا خوف سمجھ چکا تھا . میں اپنی کرسی اس کی کرسی کے نزدیک کی اور کہا یار بلال تو میرا یار ہے اور ہم آپس میں رشتہ دار بھی ہیں اور تیری میری اتنی کھلی گپ شپ ہے پِھر تم کیوں ڈر گئے ہو . میں تمہاری کوئی بھی بات کسی کو نہیں بتاؤں گا . تم کھل کر بتاؤ مجھے کون ہے اپنے رشتہ داروں میں جس کا تمہیں پتہ ہے . بلال تھوڑی دیر خاموش رہا پِھر بولا دیکھ یار کا شی اگر میں تمہیں اگر بتا بھی دوں گا تم غصہ کرو گے اور ہماری رشتہ داری خراب ہو جائے گی . میں نے کہا یار بلال میرے اوپر پورا بھروسہ رکھ نہ ہی میں تم سے ناراض ہوں گا اور نہ ہی غصہ کروں گا . بلال بولا سوچ لو کا شی اگر تمہیں بات پتہ چلی تو پِھر مجھے نہیں پتہ تمہارا آگے سے کیا ری ایکشن ہو گا . میں نے کہا یار تو فکر نہ کر یار تم نے تو پِھر یہاں پے کوئی نہ کوئی پھدی کا مزہ لے لیا ہے لیکن میں نے آج تک پھدی کی شکل تک نہیں دیکھی ہے . بلال ہکا بقا ہو کر میرا منہ دیکھنے لگا اور بولا یار کا شی آب جانے دے یار اسلام آباد جیسے شہر میں رہ کر تم نے آج تک پھدی نہیں دیکھی ہو گی . یہ بات مجھے حزم نہیں ہو رہی ہے . میں نے کہا یار بلال میرے سے قسم لے لو جو آج تک کسی پھدی کی شکل تک دیکھی ہو . یار یہ بات سچ ہے کے شہر میں یہ سب ہوتا ہے لیکن یار میں آج تک نہیں کر سکا کوئی لڑکی نہیں ملی اگر مل بھی جاتی تو اس کو کہاں لے کر جاتا اور مزہ کرتا اور تمہیں تو میرے ابو کا پتہ ہے ان کو شق بھی ہوا تو میری چمڑی اُتار دیں گے . بلال بولا ہاں یار یہ تو بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے تیرے ابو والی بات تو مجھے پتہ ہے . میں نے کہا یار بلال تم تو بڑے شکاری ہو یار مجھے بھی کوئی مزہ کروا دو . میری بات سن کر بلال ہنسنے لگا اور بولا اچھا یار تو بھی کیا یار کرے گا میں تیرے لیے کچھ نہ کچھ کرتا ہوں . پِھر میں نے کہا یار بلال بتا نہ اپنے رشتہ داروں میں کون ہے تو بلال پِھر کھڑا ہوا دکان کے دونوں طرف دیکھا اور پِھر اپنی کرسی پے بیٹھ کر لمبی سی سانس لی اور میرے نزدیک ہو کر بولا یار کا شی بندے تو دو ہیں. جن کا مجھے پکا پتہ ہے وہ دو جگہ پے مزہ لے رہے ہیں . ایک تو باجی ثوبیہ ہے جو نعیم بھائی کی سالی ہے اس کی شادی اپنی خا لہ کے بیٹے سے ہوئی ہے اس کا میاں کراچی میں کسی کمپنی میں کام کرتا ہے اور 2 مہینے بَعْد ہی گھر آ تا جاتا ہے . اور باجی ثوبیہ نے اپنے ہی دیور کے ساتھ چکر چلا یا ہوا ہے اس کے دیور کو تم جانتے ہی ہو . میں نے کہا ہاں جانتا ہوں خالد کو بڑی اچھی طرح جانتا ہوں وہ تو ہمارا ہی ہم عمر ہے لیکن یار باجی خالد سے تو کافی بڑی ہیں کم سے کم بھی 6 یا 7 سال کا فرق ہے . تو یہ کیسے ممکن ہے كے وہ خالد سے ہی مزہ لے رہی ہے . بلال نے کہا یار کا شی عورت کو بس تگھڑے لن کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ نہیں . اور ویسے بھی خالد سے میری بڑی گپ شپ ہے وہ بہت بڑا رنڈی بازہے اس نے کافی مال رکھا ہوا ہے . لیکن اس بہن چودنے آج تک دوست ہوتے ہوئے بھی مجھے کبھی کوئی مال ٹیسٹ نہیں کروایا .

جاری ہ

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی