اس کے بعد تو اس میں بہت تبدیلی آ گیا. ہمیشہ وہ میری راہ دیکھا کرتی تھی اور میری لائی ہوئی وےي بڑے پیار سے اپنے بالوں میں پہن لیتی تھی. جب بھی ہم اکیلے ہوتے، ایک دوسرے کے آلںگن میں بندھ جاتے اور میں اس کے جسم کو سهلاكر اپنی کچھ پیاس بجھا لیتا. ماں کا یہ بدلہ طور سب نے دیکھا اور خوش ہوئے کہ ماں اب کتنی خوش نظر آتی ہے. میری بہن نے تو مذاق میں یہ بھی کہا کہ اتنا بڑا اور جوان ہونے پر بھی میں چھوٹے بچے جیسا ماں کے پیچھے گھومتا ہوں. میں نے جواب دیا کہ آخر اماں کا تنہائی کچھ تو دور کرنا ہمارا بھی فرض ہے.اس اتوار کو اماں نے ایک بہت خوبصورت باریک شفان کی ساڑی اور ایکدم تنگ بلاز پہنا. اس کے سینوں کا ابھار اور کولہوں کی گولائی ان میں نكھر آئے تھے. وہ بالکل جوان لگ رہی تھی اور سنیما ہال میں کافی لوگ اس کی طرف دیکھ رہے تھے. وہ مجھ بس سات آٹھ سال بڑی لگ رہی تھی اس لئے لوگوں کو یہی لگا ہوگا کہ ہماری جوڑی ہے.پکچر بڑی رومانٹك تھی. ماں نے ہمیشہ کی طرح میرے کندھے پر سر رکھ دیا اور میں نے اس کے کندھوں کو اپنی بانہہ میں گھیر کر اسے پاس کھیںچ لیا. پکچر کے بعد ہم پارک میں گئے. رات کافی سہانی تھی. ماں نے میری طرف دیکھ کر کہا. "خوبصورت بیٹے، تو نے مجھے بہت خوشی دی ہے. اتنے دن تو نے صبر رکھا. آج مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے."
میں نے ماں کی طرف دیکھ کر کہا. "اماں، آج تم بہت حسین لگ رہی ہو. اور صرف خوبصورت ہی نہیں بلکہ بہت سیکسی بھی."
اماں شرما گئی اور ہنس کر بولی. "خوبصورت، اگر تو میرا بیٹا نہ ہوتا تو میں یہی سمجھتی کہ تو مجھ پر ڈورے ڈال رہا ہے.
میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا. "ہاں اماں، میں یہی کر رہا ہوں."
ماں تھوڑا پیچھے ہٹی اور کاںپتے لہجے میں بولی. "یہ کیا کہہ رہا ہے بیٹا، میں تمہاری ماں ہوں، تو میری کوکھ سے پیدا ہؤا ہے. اور پھر میری شادی ہوئی ہے تیرے والد سے"
میں بولا "اماں، انہوں نے تمہیں جو سکھ دینا چاہیے وہ نہیں دیا ہے، مجھے آزما کر دیکھو میں تمہیں بہت پیار اور سکھ دوں گا."
ماں کافی دیر چپ رہی اور پھر بولی. "خوبصورت، اب گھر چلنا چاہیئے نہیں تو ہم کچھ ایسا کر بیٹھیں جو ایک ماں بیٹے کو نہیں کرنا چاہیے تو زندگی بھر ہمیں پچھتانا پڑے گا."
میں تڑپ کر بولا "اماں، میں تمہیں دکھ نہیں پہنچانا چاہتا پر تم اتنی خوبصورت ہو کہ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ کاش تم میری ماں نہ ہوتیں تو میں فر تمہارے ساتھ چاہے جو کر سکتا تھا."میری اس محبت اور چاہت بھری بات پر ماں کھل اٹھی اور میرے گالوں کو سہلاتے ہئے بولی. "میرے بچے، تو بھی مجھے بہت پیارا لگتا ہے، میں تو بہت خوش ہوں کہ تیرے ایسا بیٹا مجھے ملا ہے. کیا واقعی میں اتنی خوبصورت ہوں کہ میرے جوان بیٹے کو مجھ پر محبت آ گیا ہے؟"میں نے اسے باںہوں میں بھرتے ہوئے کہا. "ہاں اماں، تم سچ میں بہت خوبصورت اور سیکسی ہو."
اچانک میرے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا اور میں نے جھک کر ماں کا بوسہ لے لیا. ماں نے عذاب تو نہیں کیا پر ایک بت جیسی خاموشی میری باںہوں میں بندھے رہی. اب میں اور زور سے اسے چومنے لگا. سهسا ماں نے بھی میرے بوسہ کا جواب دینا شروع کر دیا. اس کا ضبط بھی کمزور ہو گیا تھا. اب میں اس کے پورے چہرے کو، گالوں کو، آنکھوں کو اور بالوں کو بار بار چومنے لگا. اپنے ہونٹ فر ماں کے نرم ہونٹوں پر رکھ کر جب میں نے اپنی جیبھ ان پر لگائی تو اس نے منہ کھول کر اپنے چہرے کو میٹھا خزانہ میرے لیے کھلا کر دیا.
کافی دیر کی چوماچاٹي کے بعد ماں الگ ہوئی اور بولی. "خوبصورت، بہت دیر ہو گئی بیٹے، اب گھر چلنا چاہیئے." گھر جاتے وقت جب میں کار چلا رہا تھا تو ماں مجھ سے چپک کر میرے کندھے پر سر رکھ کر بیٹھی تھی. میں نے كنكھيو سے دیکھا کہ اس کے ہونٹوں پر ایک بڑی مدھر مسکراہٹ تھی.درمیان میں ہی میں نے ایک گلی میں کار روک کر حیران ہوئی ماں کو فر آلںگن میں بھر لیا اور اسے بیتہاشا چومنے لگا. اس بار میں نے اپنا ہاتھ اس کے چھاتی پر رکھا اور ان سے محبت سے ٹٹولنے لگا. ماں تھوڑی گھبرائی اور اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی. "خوبصورت، ہمیں یہ نہیں کرنا چاہیئے بیٹے."
میں نے اپنے ہونٹوں سے اس کا منہ بند کر دیا اور اس کا گہرا بوسہ لیتے ہوئے ان مانسل بھرے ہوئے ستنوں کو ہاتھ میں لے کر ہلکے ہلکے دبانے لگا. بڑے بڑے مانسل ان اروجوں کو میرے ہاتھ میں رابطے مجھے بڑا منشیات لگ رہا تھا. انہی سے میں نے بچپن میں دودھ پیا تھا. ماں بھی اب اتیجت ہو چلی تھی اور سسکاریاں بھرتے ہوئے مجھے زور زور سے چومنے لگی تھی. فر کسی طرح سے اس نے میرے آلںگن کو توڑا اور بولی. "اب گھر چل بیٹا."
میں نے چپ چاپ کار سٹارٹ کی اور ہم گھر آ گئے. گھر میں اندھیرا تھا اور شاید سب سو گئے تھے. مجھے معلوم تھا کہ میرے والد اپنے کمرے میں نشے میں دھت پڑے ہوں گے. گھر میں اندر آ کر وہیں ڈرائنگ روم میں میں فر ماں کو چومنے لگا.
اس نے اس بار احتجاج کیا کہ کوئی آ جائے گا اور دیکھ لے گا. میں دھیرے سے بولا. "اماں، میں تمہیں بہت پیار کرتا ہوں، ایسا میں نے کسی اور عورت یا لڑکی کو نہیں کیا. مجھ سے نہیں رہا جاتا، سارے وقت تمہارے ان رسیلے ہونٹوں کا بوسہ لینے کی خواہش ہوتی رہتی ہے. اور پھر سب سو گئے ہیں، کوئی نہیں آئے گا. "
ماں بولی "میں جانتی ہوں بیٹے، میں بھی تجھے بہت پیار کرتی ہوں. پر آخر میں آپ کے والد کی بیوی ہوں، ان کا باندھا مریخ فارمولا اب بھی میرے گلے میں ہے."میں دھیرے سے بولا. "اماں، ہم تو صرف بوسہ لے رہے ہیں، اس میں کیا پریشانی ہے؟"
ماں بولی "پر خوبصورت، کوئی اگر نیچے آ گیا تو دیکھ لے گا."
مجھے ایک ترکیب سوجھی. "اماں، میرے کمرے میں چلیں؟ اندر سے بند کر کے سٹكني لگا لیں گے. باپو تو نشے میں سوئے ہیں، انہیں خبر تک نہیں ہوگی."
ماں کچھ دیر سوچتی رہی. صاف دکھ رہا تھا کہ اس کے دل میں بڑی ہلچل مچی ہوئی تھی. پر جیت آخر میرے پیار کی ہوئی. وہ سر ڈلا کر بولی. "ٹھیک ہے بیٹا، تم اپنے کمرے میں چل کر میری راہ دیکھ، میں ابھی دیکھ کر آتی ہوں کہ سب سو رہے ہیں یا نہیں."میری خوشی کا اب اختتام نہ تھا. اپنے کمرے میں جا کر میں نے ادھر ادھر گھومتا ہوا بے چینی سے ماں کا انتظار کرنے لگا. کچھ دیر میں دروازہ کھلا اور ماں اندر آئی. اس نے دروازہ بند کیا اور سٹكني لگا لی.
میرے پاس آکر وہ كاپتي آواز میں بولی. "تیرے والد ہمیشہ جیسے پی کر سو رہے ہیں. پر خوبصورت، شاید ہمیں یہ سب نہیں کرنا چاہیے. اس کا اختتام کہاں ہوگا، کیا پتا. مجھے ڈر بھی لگ رہا ہے."
میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دلاسہ دیا. "ڈر مت اماں، میں جو ہوں تیرا بیٹا، تجھ پر آنچ نہ آنے دوں گا. میرا یقین کرو. کسی کو پتہ نہیں چلے گا" ماں سست آواز میں بولی "ٹھیک ہے خوبصورت بیٹے." اور اس نے سر اٹھا کر میرا گال پیار سے چوم لیا.
میں نے اپنی قمیض اتاری اور اماں کو باںہوں میں بھر کر بستر پر بیٹھ گیا اور اس کے ہونٹ چومنے لگا. ہمارے چبنو نے جلد ہی شدید شکل لے لیا اور زور سے چلتی سانسوں سے ماں کی اتیجنا بھی واضح ہو گئی. میرے ہاتھ اب اس کے پورے بدن پر گھوم رہے تھے. میں نے اس کے اروج دبایے اور کولہوں کو سہلایا. آخر مجھ سے اور نہ رہا گیا اور میں نے ماں کے بلاز کے بٹن کھولنے شروع کر دیے.
